بھینس، بھینسے یا کٹے کی قربانی جائز نہیں

بھینس، بھینسے یا کٹے کی قربانی جائز نہیں

یاد رہے کہ ہر حلال جانور  قربانی نہیں ھو سکتا کیونکہ خود قرآنِ کریم نے الْأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن(بھیڑ)، مَعْز(بکری)، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے)،چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ )کہا۔(الأنعام آیت 142 تا 144)

بھینس، بھینسے یا کٹے کی قربانی شرعی طور پر یوں بھی جائز نہیں کیونکہ یہ سنت نبوی یا اثار صحابہ سے ثابت نہیں۔ کچھ علما اکرام کا قول ہے کہ بھینس گاۓ کی مثل ہے لیکن درست بات یہ ہے گاۓ اور بھینس دو مختلف نسلیں ھیں اور ان کا آپس میں ملاپ نهیں ھو سکتا تو پھر یه ایک نسل کیسے ھوئیں دوسرے یه که قرآن میں آٹھ جوڑے لکھے هیں کیا یه جوڑے مسلمانوں کے لیۓ قربانی کے لۓ نا کافی ھیں

یاد رھے سنت نبوی شریف، نبی کریم کے اس  عمل کو کہتے ھیں جو آپ نے خود کیا یا آپکے صحابہ نے کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ نبی کریم نے کبھی بھینس،  بھینسے یا کٹے قربانی نہیں کی اور ایسا کرنا صحابه اکرام کے عمل سے بھی ثابت نہیں ھے۔ هم اھل سنت و الجماعت ھیں اور ھمیں اپنی بنیاد پرستی پر فخر ھے اور یهی اصل اسلام ھے

احقر العباد
انجینئر نذیر ملک سرگودھا

تبصرے

Shehzad نے کہا…
بالکل غلط بات کہی ہے اس صاحب نے،،، ان آیتوں میں یہی کہا گیا ہے کہ
اور (پیدا کیے اللہ نے) بوجھ اٹھانے والے مویشی بھی اور زمین سے لگے ہوئے بھی، اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو، وہ تمہارا كُهلا دشمن ہے۔
اور یہ کہا گیا ہے کہ جو الله کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کرنے والا ظالم اور گمراہ ہے، اگر واقع ایسا کوئی حکم ہے تو دلیل لائے اسکی..