فجر کی سنتوں پر مکمل بحث
محمد بن اسحاق بن خزیمہ نے اور وصیف بن عبداللہ الحافظ نے طاکیہ میں حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ ہم سے ربیع بن سلیمان نے حدیث بیان کی۔ اس نے کہا ہم سے اسد بن موسیٰ نے حدیث بیان کی۔ اس نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا۔ اس نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے اپنے باپ سے روایت کی اس نے اپنے دادا قیس بن قریبی اللہ سے روایت کی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی اور انہوں نے فجر کی دو رکعتیں (سنتیں نہیں پڑھی تھیں تو جب رسول اللہ سی ایم نے سلام پھیرا وہ کھڑے ہو گئے اور سنتیں پڑھنے لگے اور رسول اللہ میں تعلیم ان کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن آپ نے اسے معیوب سمجھ کر منع نہیں فرمالیا۔
یحی بن سعید اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ آئے تو نبی میں یہ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو وہ کھڑے ہو گئے اور فجر کی سنتیں پڑھنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا یہ کیسی رکعتیں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا میں فجر سے پہلے انہیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ آپ سن کر خاموش رہے اور کچھ نہ کہا۔ اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور جذری نے کہا ہے کہ اس کے تمام روات ثقہ ہیں)
حسن بن زکوان، عطاء بن ابی رباح سے اور وہ انصار کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ رسول اللہ سلیم نے ایک آدمی کو دیکھا جو نماز فجر کے بعد نماز پڑھتا تھا۔ اس نے آپ سے عرض کیا کہ میں فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) نہیں پڑھ سکا تھا۔ انہیں میں نے اب پڑھا ہے۔ تو آپ نے اسے کچھ نہیں کہا۔ (اس حدیث کو ابن حزم نے محلی میں روایت کیا ہے اور عراقی نے کہا ہے کہ اس کی اسناد حسن ہے)
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) نہ پڑھی ہوں وہ انہیں طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے۔ (ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا)
*مذید برآں ترمذی شریف کی اس روایت پر خود امام ترمذی نے یہ طرع لگائی ہے*
ترندی نے کہا کہ ہم نہیں پہچانتے اس حدیث کو مگر اسی سند سے اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فعل سے بھی مروی ہے اور اس پر بعض اہل علم کا عمل ہے اور سفیان ثوری، شافعی ، احمد اسحاق اور ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ احادیث (یعنی جو کہ اوپر مذکور ہوئیں) دلیل ہیں اس پر کہ جائز ہے قضا کرنا نوافل راتبہ کا خواہ عذر سے نہ پڑھے گئے ہوں، خواہ بغیر عذر کے عبداللہ کا ہہی مذہب ہے اور تابعین میں سے عطا اور طاؤس اور قاسم بن محمد کا اور ائمہ میں سے ابن جریج اور اوزاعی کا اور قول جدید شافعی کا اور محمد اور اسحاق اور محمد بن حسن اور مزنی کا بھی یہیں مذہب ہے۔ اور میزان شعرانی میں لکھا ہے کہ جس کی کوئی چیز سنن راتبہ میں سے فوت ہو جائے اسے چاہیے کہ ان کو ادا کرے چاہے مکروہ اوقات میں ہی کیوں نہ ہو۔
میرا خیال ہے کہ ان سطور کے بعد کوئی شے مانع نہیں بچتی کہ فرضوں کے بعد فجر کی دو سنتیں ادا نہ کی جا سکیں۔
واللہ اعلم بصواب
بندہ ناچیز نے سب حقائق و حوالہ جات کھول کر بیان کر دیئے ہیں اب آپ کی مرضی ہے کہ مانیں یا نہ مانیں۔
مزید برآں شیخ بن باز اللہ رحمہ سابقہ مفتی عام سعودی عربیہ کا فتوی بھی میں آپ حضرات کو ارسال کر چکا ہوں اور حرمین الشریفین اور بلاد عرب، مصر و شام میں بھی اسی فتوی پر عمل ہے
میرا بذات خود اس پر پچھلے 45 سال سے عمل رہا ہے
وما علینا الا البلاغ المبین
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
[20/06, 11:48 pm] Engineer Nazir Malik: *نماز کے بعد فجر کی سنتوں کی قضا*
جمعہ 20 جون 2025
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سوال:
میں ہمیشہ نماز فجر مسجد میں ادا کرتا ہوں۔ اگر میں یہ دیکھوں کہ جماعت کھڑی ہو گئی ہے اور میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھیں تو کیا اس بات کی اجازت ہے کہ میں انہیں سلام پھیرنے کے بعد ادا کر لوں؟ اگر میں طلوع آفتاب تک انتظار کروں تو کیا اس سے اجر و ثواب میں کمی ہو گی؟ میں جانتا ہوں کہ صبح کی سنتیں دنیا ومافیھا سے بہتر ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے؟
جواب؛
اگر مسلمان آدمی نماز سے پہلے فجر کی سنتوں کو ادا نہ کر سکے تو اسے اختیار ہے کہ اگر چاہے تو نماز کے فوراً بعد ادا کر لے یا سورج نکلنے کے بعد ادا کر لے کیونکہ سنت سے دونوں طرح ثابت ہے۔ نماز کے فوراً بعد ادا کرنا سنت تقریری سے ثابت ہے یعنی ایک شخص نے نماز کے فوراً بعد ان سنتوں کو ادا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے دیکھا تو اس پر سکوت فرمایا اور اسے کچھ نہیں کہا۔
*شیخ ابن باز*
سابقہ مفتی اعظم سعودی عرب
حوالہ:
فتاوی اسلامیہ جلد اول
صفحہ نمبر 437
[20/06, 11:49 pm] Engineer Nazir Malik: *سنتیں پڑھنے کے لئے تکبیر کہی تھی کہ جماعت کھڑی ہو گئی*
جمعہ 20 جون 2025
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سوال:
ایک شخص ظہر کی سنتیں ادا کرنے کے لئے مسجد میں داخل ہوا لیکن جب اس نے اللہ اکبر کہا تو جماعت کھڑی ہو گئی تو کیا یہ شخص اپنی نماز کو توڑ دے یا اسے مکمل کرے؟ امید ہے اس مسئلہ کی وضاحت فرمادیں گے۔
جواب:
جب جماعت کھڑی ہو جائے اور کچھ لوگ تحیتہ المسجد یا سنت را تبہ پڑھ رہے ہوں، تو اس صورت میں ان کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ اپنی نماز کو توڑ کر فرض نماز میں شامل ہو جائیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ
اذا اقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ الا المکتوبہ(مسلم)
ترجمہ:
جب جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر فرض نماز کے سوا اور کوئی نماز نہیں ہوتی ۔
بعض اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ وہ(دو رکعات) جلدی سے اپنی نماز کو پورا کر لیں اور توڑیں نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے
یایئها الذين امنوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أعملکم (محمد 33/47)
ترجمہ:
مومنو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فرمانبرداری کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ ہونے دو۔
اور مذکورہ حدیث کو انہوں نے اس شخص پر محمول کیا ہے جو جماعت کھڑی ہونے کے بعد سنتیں وغیرہ شروع کرے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے کیونکہ حدیث مذکور دونوں حالتوں کے لئے عام ہے اور پھر کچھ اور احادیث بھی وارد ہیں جو عموم پر دلالت کناں ہیں۔ اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی ہم نے یہ بات اس وقت ارشاد فرمائی جب آپ نے ایک شخص کو اس وقت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا جب مؤذن نماز کے لئے اقامت کہہ رہا تھا۔ رہی آیت کریمہ تو وہ عام ہے اور یہ حدیث خاص ہے۔ خاص سے عام کا حکم ختم ہو جاتا ہے اور یہ اس کے مخالف نہیں ہوتا جیسا کہ اصول فقہ اور اصول حدیث کی کتابوں سے اس کی تفصیل معلوم کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر جماعت کھڑی ہو گئی ہے اور آدمی نے دوسری رکعت کا رکوع بھی کر لیا ہے تو پھر نماز (دو رکعات) مکمل کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ نماز قریب الاختتام ہے اور اس کا رکعت سے بھی کم حصہ باقی ہے۔ واللہ ولی التوفیق۔
*شیخ ابن باز رحمہ اللہ*
سابقہ مفتی اعظم سعودی عرب
حوالہ فتاوی اسلامیہ جلد اوّل صفحہ نمبر 438
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
تبصرے