اشاعتیں

جولائی, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نواز شریف ویلکم بیک ٹو پاکستان

*نواز شریف ویلکم بیک ٹو پاکستان* *گو نواز گو* کہنے والوں نے بھی بخوبی دیکھ لیا کہ کھلاڑی اور اناڑی کی مانگی تانگی ٹیم ملک چلانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے عدالتیں بھی اپنی انتہائی کوشش کر چکی ہیں مگر وطن عزیز موجودہ بحرانوں سے نکالنے کی کوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو رہی اور وطن عزیز دلدل میں دھنستا جا رہا ہے مگر اس کھلاڑی کے پاس بد اخلاقی بد زبانی، ضدی پن اور سب و ستم کے علاوہ کچھ نہیں۔ یاد رہے اس فتنہ انگیز نے پاکستانی پوری قوم کو بد تمیز بد زبان اور بد اخلاق بنا دیا ہے۔ *ویلکم نواز بیک ٹو پاکستان* وطن عزیز جس کو آپ نے ایٹمی طاقت بنایا تھا، موٹر ویز کے علاوہ، ملک کے طول و عرض میں سڑکوں کا جال بچھایا تھا، سی پیک کو عملی جامہ پہنایا تھا، بجلی گھروں سے وطن عزیز کو اندھیروں سے نکال کر روشن بنایا تھا، بیمار صنعتی یونٹس کے رکے ہوئے  پہیوں کو پھر سے گھمایا تھا نئے صنعتی یونٹس لگا کر مزدور کو روزی دی تھی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کتابیں اور لیپ ٹاپ اور نوکریوں سے نوازہ تھا بے ہنر بے روزگاروں کو ٹیکسی و رکشہ  دے کر صاحب روزگار بنایا تھا آج پھر یہ سب لوگ آپکو پاکستان میں دیکھنا چاہت...

نواز شریف ویلکم بیک ٹو پاکستان

*نواز شریف ویلکم بیک ٹو پاکستان* *گو نواز گو* کہنے والوں نے بھی بخوبی دیکھ لیا کہ کھلاڑی اور اناڑی کی مانگی تانگی ٹیم ملک چلانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے عدالتیں بھی اپنی انتہائی کوشش کر چکی ہیں مگر وطن عزیز موجودہ بحرانوں سے نکالنے کی کوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو رہی اور وطن عزیز دلدل میں دھنستا جا رہا ہے مگر اس کھلاڑی کے پاس بد اخلاقی بد زبانی، ضدی پن اور سب و ستم کے علاوہ کچھ نہیں۔ یاد رہے اس فتنہ انگیز نے پاکستانی پوری قوم کو بد تمیز بد زبان اور بد اخلاق بنا دیا ہے۔ *ویلکم نواز بیک ٹو پاکستان* وطن عزیز جس کو آپ نے ایٹمی طاقت بنایا تھا، موٹر ویز کے علاوہ، ملک کے طول و عرض میں سڑکوں کا جال بچھایا تھا، سی پیک کو عملی جامہ پہنایا تھا، بجلی گھروں سے وطن عزیز کو اندھیروں سے نکال کر روشن بنایا تھا، بیمار صنعتی یونٹس کے رکے ہوئے  پہیوں کو پھر سے گھمایا تھا نئے صنعتی یونٹس لگا کر مزدور کو روزی دی تھی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کتابیں اور لیپ ٹاپ اور نوکریوں سے نوازہ تھا بے ہنر بے روزگاروں کو ٹیکسی و رکشہ  دے کر صاحب روزگار بنایا تھا آج پھر یہ سب لوگ آپکو پاکستان میں دیکھنا چاہت...

گروپ میں شامل ہونے کیلئے

السلام علیکم گزارش ہے کہ مجھے اپنے گروپ میں شامل رکھیں تاکہ دین اسلام کی تبلیغ  کا سلسلہ بھی چلتا رہے ممکن ہے کہ یہی دین کی باتیں آخرت میں ہماری کامیابی کا سبب بن جائیں شکریہ انجینیئر  نذیر ملک سرگودھا

ثواب اور گناہ کیا ہے

*ثواب‘‘ اور ’’گناہ‘‘ کیا ہے* ہفتہ 24 جولائی 2022 انجینیئر  نذیر  ملک  سرگودھا  ثواب اور گناہ کسے کہتے ہیں؟ ’’ثواب‘‘ کا لغوی معنی ہے بدلہ، اور اصطلاح میں نیک کام کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے بدلے کو ثواب کہتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر  ’’ثواب ‘‘ نیک کام کا وہ بدلہ ہے جس کی وجہ سے آدمی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کا مستحق بنتا ہے۔ ’’گناہ‘‘ کو عربی زبان میں ’’اثم‘‘ کہتے ہیں، اور اس کا اصل معنیٰ نافرمانی اور ایسا نامناسب کام ہے جس کے کرنے پر سزا ملنی چاہیے۔ اردو میں اسی کو گناہ سے تعبیر کیا جاتاہے، نیز اس کا معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ عمل جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک صلہ نہ ملے، یا مؤخر ہوجائے۔ اصطلاح میں شرعاً ممنوع کام کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے بدلہ کو گناہ کہتے ہیں۔  بالفاظِ دیگر کسی حرام یا ناجائز کام کا وہ بدلہ جس کی وجہ سے آدمی اللہ تعالیٰ کے عذاب اور غضب کا مستحق بنتا ہے *الدعاء* یا اللہ تعالی مجھے میرے گناہ معاف فرما دے۔ میرے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے اور نیکیوں کو بے حساب بڑھا دے۔ یا اللہ مجھے جنت الفر...
یاد رہے کہ چھوٹے گھر میں پیدہ ہو جانے سے انسان چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ ہندوں کے کے بھگوان شری رام بھی تو موچی کے گھر میں پیدا  ہوئے تھے  ذات پات کی بنیاد انسانی معاشرہ نے رکھی ہے جبکہ انسان کی تخلیق  اللہ تعالی نے کی ہے جو کہ احسن تقویم ہے اپنے آپ کو حقیر مت جانیے بلکہ اپنے انسان ہونے پر فخر کیجیے۔ انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

گلزاری لال نندہ

*ایک انتہائ دلچسپ اور سبق آموز قصہ* ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ *آپ یقینا حیران ہونگے* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوے برس کے ضعیف آدمی کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا ۔ بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔ سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن ۔ پیرانہ سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا واقعہ ہے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھا ر پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہواکہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزر رہا تھا۔ اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں۔ ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا۔ اور پھر محلہ داروں نے بیچ میں پڑ کر دو ماہ کا وقت لے کر دیا ہے۔ *ایڈیٹر نے بزرگ شخص کی تصاویر دیکھیں تو چونک ...

یوم عرفہ کا روزہ

*یوم عرفہ جمعتہ المبارک کا ہوگا اور اس دن کا ایک روزہ دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہے* جمعرات 07 جولائی 2022 انجینیئر نذیر ملک سرگودھا یوم عرفہ کا ایک روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ یعنی دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہے جبکہ یوم عاشورہ محرم کا روزہ گزشتہ سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہے *دلیل* حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم نے فرمایا  میں اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کے روزے کے بدلے میں اللہ تعالی ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف فرمائیں گے اور  یوم عاشورہ محرم کے روزہ کے بدلہ میں گزشتہ سال کے گناہ معاف فرمائیں گے۔(مسلم) *وقوف عرفات ہی حج ہے* کل ان شاء اللہ جمعتہ المبارک 09 ذوالحجہ یعنی یوم عرفہ ہو گا اور حجاج کرام  میدان عرفات میں وقوف کریں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ وقوف عرفات ہی حج ہے *ایک غلط فہمی کا ازالہ* یاد رہے حدیث الشریف کے مطابق روزہ 09 ذوالحجہ کا نہیں بلکہ یوم عرفہ کا ہوتا ہے یعنی جس دن حجاج کرام میدان عرفات میں وقوف فرماتے ہیں اور یہ کل جمعتہ المبارک ک...

Gold rate rehana

June 03, 2020 Gold 24k rate Rs. 91600 per 10 gram. Gold 21k Rs. 8015 per gram

جب فوج نہیں تھی

فوج ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺎﺋﻞ نے ﻟﮍ ﮐﺮ کشمیر ﮐﻮ آزاد ﮐرالیا۔ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ ‏( 1971 ‏) ۔ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﮔﻞ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﭼﻦ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ !! فوج تھی اور مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرلیا اور جرنیل یہاں سینٹ چیئرمین کا الیکشن مینج کرتے رھے۔!! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮیکی فوجیﮔﮭﺲ ﮐﮯ ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﻻﺩﻥ ﮐﻮ مار ﮐﺮ اٹھا لےگیا اور یہ سوتے رہ گئے۔ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭیمنڈ ﮈﯾﻮﺱ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ بھجوا دیا ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﻗﺘﻞ ﮐﺌﮯ ﺗﮭﮯ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﻞ ﺟﻮﺯﻑ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻓﯿﮧ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﻮ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﺑﯿﭽﺎ ﮔﯿﺎ۔ !! ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺘﮕﺮﺩﯼ ﻣﯿﮟ 1 ﻻﮐﮫ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻮﺍﻡ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﻭ ﺍﻧﻮﺭ ﻧﮯ 444 ﭘﺨﺘﻮﻧﻮ ﮐﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭ ﺩﺋﮯ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻭﯾﺰ ﻣﺸﺮﻑ ﻧﮯ 4000 ﮨﺰﺍﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯿﻮ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺑﯿﭻ ﺩﺋﮯ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ APS ﺳﮑﻮﻝ ﭘﺮ ان کی سخت سیکورٹی تھی ﻣﮕﺮ 150 ﺑﭽﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﮮ ﮔﺌﮯ۔ ﻓﻮﺝ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ بین الاقوامی حدود کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ﻗﺒﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﮈﺭﻭﻥ ﺳﮯ میزائل ﺑﺮﺳﺎتا رھا۔! ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﮈﺍﻟﺮﻭں ﮐﮯ ﻋﻮﺽ غیرت مند ﻗﺒﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺩﺭﺑﺪﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ...

*قربانی کرنے والے کا بال اور ناخن نہ کاٹنا اور اس حکم کی حکمت* اتوار 03 جولائی 2022 تلخیص: انجینیئر نذیر ملک سرگودھا حوالہ: دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی *سوال* قربانی کرنے والے شخص کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کا جانور ذبح ہونے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے، اس کی حکمت اور وجہ کیا ہے؟ براہِ کرم جواب سے جلد مستفید فرمائیں، تاکہ ان دنوں میں اس حکم کی حکمت زیادہ سے زیادہ لوگوں کے علم میں آسکے۔ *جواب* عشرہ ذی الحجہ میں بال، ناخن یا جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کا حکم: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘ ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔ اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔ البتہ بعض اکابر فرماتے ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔ *مذکورہ حکم کی حکمتیں:* اور اس کی دو حکمتیں علماء ومحققین سے منقول ہیں: 1۔ *پہلی حکمت* بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے کہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہی کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔ یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔ لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس توجیہ پر کلام کیاہے، اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔ لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی! اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے، وہ درج ذیل ہے: 2۔ *دوسری حکمت:* اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے۔ *قربانی کا فلسفہ:* درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا *یکم ذی الحجہ سے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی راجح حکمت:* اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو گناہوں کی وجہ سے عذاب کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ، اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے ۔ *یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ:،* اس کے لیے قریب ترین کسی زمانے کی تعیین کی ضرورت تھی، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہر شخص جب اپنا جانور خریدے یا قربانی کے لیے خاص کرے اسی وقت سے اسے ناخن یا بال کاٹنا منع ہو۔ لیکن دینِ اسلام نے زندگی کے ہرمعاملے میں نظم وضبط اور نظام پر زور دیاہے، دین کی عبادات سے لے کر انفرادی اور اجتماعی احکام کو دیکھ لیاجائے، غور کرنے پر ہر حکم میں نظم واضح نظر آئے گا۔ لہٰذا نظام کا تقاضا تھا کہ قربانی کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک وقت مقرر کرکے نظم قائم کردیا جائے ، اس کے لیے ایک قریب ترین مدت مقرر کی گئی۔ پھر یہ بھی ہوسکتاتھا کہ عیدالاضحی سے ایک آدھ دن پہلے وقت مقرر کردیاجاتا، لیکن اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند مقرر کیا گیا، اس لیے کہ قربانی کی عبادت کا تعلق عید الاضحٰی اور حج کی عبادت سے ہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد عیدالفطر ہے، اور اسلام نے شرعی احکام کو اوقات کے ساتھ جوڑا ہے، اور ان کا مدار قمری مہینے اور تاریخ پر رکھاہے، چناں چہ رمضان المبارک چاند دیکھ کر شروع اور چاند دیکھ کر ختم ہوتاہے، ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کی تیاری تقریباً اختتام کو پہنچتی ہے، اور ذی الحجہ کے چاند سے عیدالاضحیٰ کا دن اور صحیح وقت متعین ہوتاہے، لہٰذا قربانی کی تعیین میں بھی ذی الحجہ کے چاند کو دخل ہوا۔ نیزضمنی طور پر اس بات کی ترغیب بھی دے دی گئی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قربانی کا جانور کچھ ایام پہلے لے کر پالیں، تاکہ ان سے انسیت قائم ہونے کے بعد قربانی کرنے سے نفس کی قربانی اور جان نثاری کے جذبات مزید ترقی پائیں۔ اسی طرح جانور جلدی لے کر، اس کی خدمت کرنے، اور بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنے سے جو میل کچیل کی کیفیت ہوگی تو اس سے انسان کو اپنی حقیقت کی طرف بھی دھیان ہو اور تواضع وعاجزی کی ترقی بھی بنے۔ صحيح مسلم (3/ 1565) حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر'. فقط واللہ اعلم *حوالہ:* فتوی نمبر : 143909201862 دارالافتاء : جامعہ علوم 0923008604333

*قربانی کرنے والے کا بال اور ناخن نہ کاٹنا اور اس حکم کی حکمت* اتوار 03 جولائی 2022 تلخیص: انجینیئر  نذیر ملک سرگودھا  حوالہ: دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی *سوال* قربانی کرنے والے شخص کے لیے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کا جانور ذبح ہونے تک ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے، اس کی حکمت اور وجہ کیا ہے؟ براہِ کرم جواب سے جلد مستفید فرمائیں، تاکہ ان دنوں میں اس حکم کی حکمت زیادہ سے زیادہ لوگوں کے علم میں آسکے۔ *جواب* عشرہ ذی الحجہ میں بال، ناخن یا جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کا حکم: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ  ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا  ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘   ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔ اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے م...

*قربانی کے جانور، عیوب مانع و غیر مانع قربانی

*قربانی کے جانور، عیوب مانع و غیر مانع قربانی* ہفتہ 02 جولائی 2022 انجینیئر  نذیر ملک سرگودھا  1) ان عیوب کی تفصیل جو قربانی سے مانع ہے. 2) اور ان عیوب کی تفصیل جو قربانی سے مانع نہیں ہے. قربانی کے لئے بہیمۃ الانعام یعنی اونٹ،گائے، بھیڑ، وبکری کا ہونا شرط ہے۔(دیکھئے سورۃالانعام:آیت:۱۴۲،۱۴۳،۱۴۴)  اسی طرح قربانی کے جانوروں کا مسنہ(یعنی دودانتا) ہو نا شرط ہے۔ مسنہ جانور اس کو کہتے ہیں جس کے اگلے دو (دودھ کے) دانت گرگئے ہو اور اگر دوندے جانوردستیاب ہوں تو قربانی کیلئے دودانتیں جانور کا انتخاب لازم ہے۔ ہاں مجبوری کی حالت میں (یعنی مسنہ جانور مارکیٹ میں نہ مل سکے یا اس کی استطاعت نہیں ہےجبکہ تو) ایک سالہ دنبہ یا مینڈھا ذبح کیا جاسکتا ہے۔لیکن یاد رہے یہ صرف مجبوری کی حالت میں ہے اور اس میں بھی صرف بھیڑ کی جنس کا جزعہ قربانی میں کفایت کریگا، بکری وغیرہ کی جنس کا جزعہ کفایت نہیں کریگا۔(دیکھیےصحیح مسلم:۱۹۶۳ ،نسخہ دارالسلام:۵۰۸۲) قربانی ایک اہم عبادت اور اسلام کا شعار ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اسی لیے صحت مند اور بے عیب جانور کی قربانی دینی چاہیے...