باپ کی عزت و احترام لازم پکڑو
ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی میرا باپ مجھ سے پوچھتا نہیں اور میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے باپ کو بلاوا بھیجا
جب اس شخص کو خبر ہوئی کہ میرے بیٹے نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں
میری شکایت کر دی تو دل میں بہت رنجیدہ ہوئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں
حاضری کے لیے چلے اور دل میں کچھ اشعار
کہتے ہوئے جا رہے تھے
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب
میں جبریل آمین حاضر ہوئے عرض کی اللہ سبحانہ
فرماتا ہے ان کا معاملہ بعد میں سنیے گا پہلے ان
سے وہ اشعار سنئیے جو وہ دل میں کہتے آرہے ہیں
جب وہ حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا آپ کا معاملہ بعد میں سنو گا پہلے مجھے
وہ اشعار سنائیے جو آپ دل میں کہتے آرہے تھے
یہ سن کر وہ رونے لگے
جو اشعار ابھی میری زبان نے نہیں ادا کیے آپ کے
رب نے سن لیے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اشعار کیا ہیں؟
اس صحابی نے اشعار پڑھنا شروع کیے ۔
ترجمہ
اے میرے بیٹے
جس دن تو پیدا ہوا
ہماری محنت کے دن تب سے شروع ہو گئے
تو روتا تھا ہم سو نہیں سکتے تھے
تو نہیں کھاتا تو ہم کھا نہیں سکتے تھے
تو بیمار ہوتا تو تجھے لیے طبیب کے پاس بھاگتا
کہیں تجھے کچھ ہو نہ جائے
کہیں تو موت کے منہ میں نہ چلا جائے
حالانکہ موت الگ چیز ہے بیماری الگ چیز ہے
پھر تجھے گرمی سے بچانے کے لیے میں
دن رات کام کرتا
کہ میرے بیٹے کو ٹھنڈی چھاؤں مل جائے
پھر تجھے سرد موسم سے بچانے کے لیے
میں نے پتھر توڑے
تغاریاں اٹھائیں کہ میرے بچے کو سکون
ملے گا
جو کمایا تیرے لیے
جو بچایا تیرے لیے
تیری جوانی کا خواب دیکھنے کے لیے
میں نے اتنی محنت کی کہ میری ہڈیاں
جواب دے گئیں تو پھر کہیں تو
کڑیل جوان ہوا
پھر
مجھ پر خزاں نے ڈیرے ڈال لیے
پر تجھ پر بہار آ گئی
میں جھک گیا
تو سیدھا ہو گیا
اب میری خواہش اور امید پوری ہوئی
کہ اب تو ہرا بھرا ہو گیا
چل اب زندگی کی آخری سانسیں
تیری چھاؤں میں بیٹھ کر گزاروں گا
مگر یہ کیا
کہ جوانی آتے ہی تیرے تیور بدل گئے
تیری آنکھیں گھورتی ہیں
تو ایسے بات کرتا ہے کہ میرا سینہ
پھاڑ دیتا ہے
تو بات کرتا ہے کہ جیسے کوئی غلام سے کرتا ہے
پھر میں نے اپنی زندگی کی محنت کو
جھٹلا دیا کہ
میں تیرا باپ نہیں نوکر ہوں
نوکر کو بھی کوئی ایک وقت کی روٹی
دے ہی دیتا ہے
تو کہ اب نوکر سمجھ کر روٹی دے دیا کر
یہ اشعار سناتے ہوئے اس کی نظر اللہ کے رسول
کے چہرے مبارک پر پڑی تو دیکھا کہ آپ رو رہے تھے
وہ چپ ہو گیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا روئے کے داڑھی مبارک
تر ہو گئی
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلال میں آئے
اپنی جگہ سے اٹھے اور اس کے بیٹے کو گریبان
سے پکڑ کر فرمایا ۔
انت و مالك لابيك
انت و مالك لابيك
انت و مالك لابيك
تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے
تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے
تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے
( تفسیر قرطبی )
تبصرے