بسنت پنجمی

بسنت پنجمی
یہ ہندؤں کا تہوار ہے اور 5 مگھر کو ہر سال منایا جاتا ہے
یہ دیوی سرسوتی کا تہوار ہے اور دیوی سرسوتی موسیقی اور آرٹ کی دیوی ہے

1707ء میں سیالکوٹ میں ایک ہندو بھگمل راۓ کے 14 سالہ بیٹے جس کا نام راۓ حقیقت رام تھا اس نے شان رسالت مآب صلعم اور حضرت فاطمۃزہرہ کی شان میں گستاخی کی اس پر کیس ہوا اور اسے لاہور لایا گیا اسوقت لاہور کا گورنر ذکریہ خان تھا جج نے اسے سزاۓ موت سنائ اس کو کوڑے بھی مارے گۓ اور اسکی گردن بھی اڑا دی گئ اور یہ بسنت کا دن تھا اور حقیقت رام کی چتا کوٹ خواجہ سعید حالیہ UET لاہور  کے پاس جلائ گئ اور آج بھی یہ باوے دی مڑی کے نام سے مشہور ہے

ہندوستان کے ہندوں نے اس کیس کو بڑی اہمیت دی اور مسلمانوں کے خلاف حقیقت رام کو بہادر ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے شاعروں نے اسکی شان میں نظمیں بھی لکھیں۔
 
1782 میں آغا آگرہ سنگھ نے نظم لکھی Haqiqat Roy the war.

1905 سے 1910 میں بنگال میں اس پر بھت سی نظمیں لکھی گئیں 1909 میں آریہ سماج نے کلکتہ میں ایک ڈرامہ بنایا ''دھرم ویر حقیقت راۓ'' جوکہ پورے ہند میں ہیرو کے طور پر پروموٹ کیا گیا
ان دنوں لاہور میں ایک بڑا سرمایہ دار کالو رام رہتا تھا

اگلے سال سارے ہندوستان بھر سے ہندو لاہور میں حقیقت رام کی سمادھی پر اکٹھے ہوۓ اور خوب ڈھول ڈھماکے  کے ساتھ بسنت منائ اور پتنگیں اڑائیں۔
اس زمانے سے آج تک ہر سال صرف لاہور میں بسنت منائ جاتی ہے۔ کیوں؟؟؟؟؟

لمحہ فکریہ
ہندؤں کا یہ تہوار صرف لاہور میں ہی کیوں مناتے ہیں جبکہ ہندوستان کے دوسرے شہروں میں کیوں نہیں منایا جاتا؟
مندرجہ بالا سیاق و سباق ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے ملک میں مسلمان قوم کی تذلیل کرنے اور اس کے نوجانوں کو کھیل تماشے میں لگا کر انکے اصل مقصد سے ہٹانہ ہے مسلمانوں چڑانے کا اک ذریعہ ہے مگر افسوس پاکستانی مسلمانوں کو تو پرواہ ہی نہیں۔ یہ تو خود بسنت شبرات کی طرح مناتے ہیں انھیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ اس پتنگ بازی کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔

ہر سال اس مکروہ  شوق پر کروڑوں روپۓ کا زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے اور  سینکڑوں جان لیوا حادثات کا باعث بنتا ہے کسی کا کان کٹتا ہے کسی کا ناک اور کچھ کے تو ڈور گردن پر پھر جاتے ہے

بہنو اور بھائیو
فرمان ربانی ہے

اپنے آپ کو ہلاک میں مت ڈالو (القرآن)
یعنی جو کام آپکی یا دوسروں کی ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے اس سے اجتناب کریں.

رسول اللہ صلعم نے فرمایا
مفہوم۔۔
جو جس قوم سے مماثلت کرے گا انھیں میں سے اٹھایا جاۓ گا

ہم الحمدللہ مسلمان ہیں ہم ہندؤں کا تہوار کیوں منائیں اور کیوں اپنا مال حرام کاموں پر خرچ کریں۔ یہ مال جائز کاموں پر اور اپنی اولاد پر کیوں نہ صرف کریں
جس سے اللہ بھی خوش اور گھر والے بھی خوش۔ دین اور دنیا دونوں کا فائدہ۔
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ شرط لگا کر پتنگ بازی کرتے ہیں جو کہ سرا سر جوا کی شکل ہے اور شرعی طور پر حرام کام ہے۔
حکومت وقت بھی عقل کے ناخون لے اور اس غبی فعل و کھیل کو روکے کیونکہ معاشرے میں پھلتی ہوئ برائیوں کو روکنا سلطان وقت کی ذمہ داری ہے عربی زبان کا ایک معقولہ ہے
اللہ نے جو قرآن میں نازل کیا اسے سلطان نافذ کر سکتا یاد رہے کہ اللہ تعالی بس حکم صادر کرتے ہیں اس پر عمل درآمد اللہ تعالی نہیں کرواتے یہ سلطان یعنی اوللامر کا کام ہے
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اللہ ہمیں ایسا بنا دے جو اسے پسند آجاویں
آمین یا رب العالمین

تحریر
انجینیئر نذیر ملک

تبصرے