تحویل قبلہ کے تناظر میں غلط فہمی
تحویل قبلہ
پاکستان تحریک انصاف کی ممبرقومی اسمبلی عاصمہ حدید صاحبہ نے سوچی سمجھی استشراقی سازش کے تحت جو سوال کیا ہے اور جس مکروفریب سے مطالبہ کیا ہے اس کا جواب شریعت اسلامیہ کی روشنی میں دیا جاتاہے۔
محترمہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ ص نے یہودیوں کو خوش کرنے کےلئے کچھ عرصہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی پھر یہودیوں کو خوش کرنے کےلئے ان کا قبلہ ان کو چھوڑ دیا اور اپنا رخ مسجد نبوی کی طرف کیا ۔
قرآن میں ارشاد ہے
وَلِلّٰهِ الۡمَشۡرِقُ وَالۡمَغۡرِبُ ۚ فَاَيۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡهُ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ۔
سورۃ البقرة - آیت نمبر 115
ترجمہ:
مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس طرف بھی تم رخ کرو گے، اسی طرف اللہ کا رخ ہے اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے۔
سَيَقُوۡلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰٮهُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِهِمُ الَّتِىۡ كَانُوۡا عَلَيۡهَا ؕ قُل لِّلّٰهِ الۡمَشۡرِقُ وَالۡمَغۡرِبُ ؕ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِراطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ۔
سورۃ البقرہ آیت نمبر 142
ترجمہ:
نادان لوگ ضرور کہیں گے : اِنہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھر گئے؟ اے نبی، ان سے کہو: "مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔
اس آیت میں یہودیوں کے اعتراض کا جواب دیا گیا جو سمجھتے تھے کہ اللہ کسی ایک خاص جگہ مقید ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيۡدًا ؕ وَمَا جَعَلۡنَا الۡقِبۡلَةَ الَّتِىۡ كُنۡتَ عَلَيۡهَآ اِلَّا لِنَعۡلَمَ مَنۡ يَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ يَّنۡقَلِبُ عَلٰى عَقِبَيۡهِ ؕ وَاِنۡ كَانَتۡ لَكَبِيۡرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيْعَ اِيۡمَانَكُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ
سورۃالبقرة - آیت نمبر 143
ترجمہ:
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے۔
یہاں یہ بتایا گیا کہ قبلہ کا رخ بدلنا دراصل امامت کا رخ بدلنا تھا بنی اسرائیل اپنی نالائقی اور بےوقوفی و نااہلی کی وجہ سے اور امامت کا حق نہیں رکھ سکتی تھی اس لئے امامت کا حق دار امت محمدیہ ص کو بنایا گیا یہ دراصل تحویل امامت تھی۔
تحویل قبلہ کا حکم اس آیت میں ہوا۔
قَدۡ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجۡهِكَ فِى السَّمَآءِۚ فَلَـنُوَلِّيَنَّكَ قِبۡلَةً تَرۡضٰٮهَا ۚ فَوَلِّ وَجۡهَكَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِؕ وَحَيۡثُ مَا كُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡهَكُمۡ شَطۡرَهٗ ؕ وَاِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ لَيَـعۡلَمُوۡنَ اَنَّهُ الۡحَـقُّ مِنۡ رَّبِّهِمۡؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعۡمَلُوۡنَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر144
ترجمہ:
یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو مسجد حرام کی طرف رُخ پھیر دو اب جہاں کہیں تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو یہ لوگ جںہیں کتاب دی گئی تھی، خو ب جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور بر حق ہے، مگرا س کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل نہیں ہے.
ان صریح آیاتوں کےبعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن ناسمجھ غفلت یا تغافل کرنے والوں کے شر سے عام انسانوں کو بچانے کےلئے چند باتوں کا ذکر بہت ضروری ہے۔
رسول اللہ ص بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز اس لئے پڑھتے تھے کہ مشرکین عرب بتوں کی بوجا کرتےتھے۔اور اس کے علاوہ کسی اور طرف یا کسی اور کو اس قدر معزز محترم نہیں سمجھتے تھے اس لئے آپ ص ان کی مخالفت میں رخ بییت المقدس کی طرف کر کے نماز پڑھتے تھے۔
پھر جب عرب میں دین اسلام پھیلا اور صحابہ کی تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا اور مشرکانہ عقائد کم ہونےلگے تو آپ ص کی دلی خواہش تھی کہ رخ مسجد حرام کی طرف کرکے نماز پڑھیں جس کا ذکر آیت مذکورہ میں بھی ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یہود اپنے آپ کو سب سے افضل گردانتے تھے اور نسلی تعصب کی بناء پر بیت المقدس کے علاوہ کسی اور طرف قبلہ نہیں مانتے تھے گو ان کی مخالفت میں رخ بدل دیا گیا۔
رسول اللہ ص پر جو الزام محترمہ نے لگایا ہے کہ آپ ص یہودیوں کو خوش کرنے کےلئے بیت المقدس کی طرف ہوکر نماز پڑھتے تھے یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔قرآن نے یہودیوں کی اس سوچ کی وجہ سے ان (یہودیوں)کو احمق کہا ہے۔
سیقول السفھاء۔
دوسرا سوال یا مطالبہ محترمہ نے کیا ہے کہ
بیت المقدس کو یہودیوں کےلئے چھوڑنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں کا قبلہ مسجد حرام (کعبہ) ہے.
اس کا ایک اور سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ قبلہ صرف ایک ہے اور وہ کعبہ ہے۔کسی اور کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس کےمقدس مقامات تو کجا عام زمین پر بھی تصرف وتسلط نہیں کرسکتے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ شریعت اسلامی، تاریخی انسانی اورجغرافیائی اعتبار سے پوری دنیا پر یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں ہی کا ہے۔
محترمہ نے تیسرا سوال اور مطالبہ کیا ہے کہ دشمن کو دست بنائیں اور اس کی تائید میں علی رض کاقول بھی نقل کرتیں ہیں یہ قول انہوں نے کہاں سےلیا اس کا کچھ پتہ نہیں۔لیکن اس دوستی کا اشارہ بھی یہودیوں کے ساتھ دوستی کا ہے۔
قرآن کہتا ہے۔
لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً ؕ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ ؕوَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ.
سورۃ آل عمران - آیت نمبر 28
ترجمہ:
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے.
قرآن نے واضح کردیا ہے کہ
وَلَنۡ تَرۡضٰى عَنۡكَ الۡيَهُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمۡؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰىؕ وَلَٮِٕنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ بَعۡدَ الَّذِىۡ جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِۙ مَا لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ.
سورۃ البقرة - آیت نمبر 120
ترجمہ:
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے۔
حکومت وقت کا روزمرہ کی خلاف اسلام اقدامات مسلمانان پاکستان کےلئے قابل فکر ہے۔اگر سلسلہ نہیں روکا گیا تو یہاں بھی بادشاہی مسجد اور فیصل مسجد کے علاوہ اسلام کا نام ونشان نہیں ہوگا۔
تبصرے