مردوں کی دوسری شادی پر پابندی کیوں؟؟

مردوں کی دوسری شادی پر پابندی کیوں؟؟

تحریر: زوجہ عمران

اس پابندی کی وجہ سے شاید خاوند دوسری شادی سے تو باز آ جائے لیکن اس کے دل میں اپنی عورت کے لئے عزت، احترام اور محبت کبھی جڑ نہیں پکڑے گی۔

مجھے اپنے شوہر کی دوسری شادی پر اعتراض کیوں نہیں!                 
میں جب دیکھتی ہوں کہ کتنی کنواری لڑکیاں اپنی عزت اور عصمت کے معاملات میں مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ میں جب دیکھتی ہوں کہ پہلی شادی میں بھی لڑکیاں کتنے جھگڑوں اور لڑائیوں کا شکار ہیں اور مجھے الحمداللہ سکون ہے تو مجھے شوہر کی دوسری شادی کا ڈر ختم  ہو جاتا ہے۔ کہ اگر مسائل قسمت میں لکھے ہوں تو اکلوتی بیویوں کو بھی بن سکتے ہیں۔
ایسی خواتین بھی ہیں جو ونی، سوارا، قرآن سے شادی جیسے مظالم کا شکار ہیں۔
جو جائداد کے لئے سگے بھائیوں کے ہاتھوں پس رہی ہیں۔
ایسی بے شمار عورتیں ہیں جو والدین کی انا کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔
تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ الحمداللہ میں بہترین ہاتھوں میں ہوں اور مجھے کسی قسم کا عدم تحفظ نہیں۔ مجھے کوئی ڈر نہیں کہ کوئی دوسری عورت میرا حق چھین سکے۔ کوئی اور خاتون میری جگہ لے سکے۔ میرا ایمان ہے دوسری عورت کو اپنے نصیب کا ملے گا اور مجھے اپنے نصیب کا۔
میں جب دیکھتی ہوں کہ لڑکیاں ایک ایک کمرے کے مکان میں گزارا کر رہی ہیں اور وہ اپنے نصیب پر خوش ہیں تو میرا دل کرتا ہے میں  زیادہ پر قبضہ جما کر کیوں بیٹھی رہوں؟
میں جب دیکھتی ہوں کہ معمولی آمدن والے شوہروں کی بیویاں صابر شاکر بنی گزار رہی ہیں تو میرا جی چاہتا ہے میں اپنے خاوند کی آمدن پر دھونی رما کر نہ بیٹھ جائوں اس میں اللہ کی باقی مخلوق کا حصہ بھی نکلے اور میں اپنے حصے پر قناعت کر کے شکر ادا کروں۔
مجھے جب نظر آتا ہے کہ بیویاں کئی وجوہات کی بناء پر اپنے شوہروں سے بہت بہت دن، مہینے بلکہ سالوں دور رہتی ہیں تو میرا ڈر ختم ہو جاتا ہے کہ اگر میرا شوہر شرعی حق کی وجہ سے دوسری بیوی کے ساتھ وقت گزارے گا یا کچھ دن اس کی طرف رہے گا تو میں اللہ دے اجر کی امیدوار بن کر صبر کروں گی۔
میں جب دیکھتی ہوں کہ لڑکیوں کے نندوں، دیورانی، جھیٹانی سے پنگے ہی پنگے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے انہیں ہر وقت پریشان رہنا پڑتا ہے تو میں سوچتی ہوں الحمداللہ مجھے ایسی کوئی ٹینشن نہیں۔ ان شاء اللہ مجھے شوہر کی دوسری بیوی سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
میں دیکھتی ہوں کہ بہت سے مرد اپنی ماں، بہن کے کہنے میں آ کر بیوی کے حقوق دبا لیتے ہیں۔ مجھے الحمد اللہ ایسا کوئی پرابلم نہیں تو کوئی دوسری عورت میرا حق کتنا کچھ دبا سکے گی!
مجھے اپنے میاں کے حسن اخلاق، نرم دلی، حقوق کی ادائگی میں توازن اور خوف خدا کا اندازہ ہے تو جب وہ ماں باپ، بہن بھائیوں، دوستوں رشتے داروں کے ہوتے ہوئے میرے حقوق کا مکمل خیال رکھتا ہے تو ایک عورت میرے حقوق کیسے غصب کروا سکے گی!
مجھے اپنے آس پاس کے لوگوں پر اعتماد ہے کہ وہ میرے میاں کی دوسری شادی پر میرے حقوق بھول نہیں جائیں گے۔ ان میں سے کوئی میری حثیت یا میرے رتبے کو کم نہیں سمجھے گا۔
مجھے اس بات کا مکمل یقین ہے کہ اگر خدانخواستہ زندگی میں کوئی مسئلہ یا مشکل پیش آںی ہو تو وہ کسی بھی صورت آ سکتی ہے۔ اگر اللہ نے میری محبت میرا خیال میرے خاوند کے دل سے کم کرنا ہو تو وہ کسی دوسری عورت کی موجودگی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ کوئی عام سی بات بھی بن سکتی ہے۔
میرے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ کروڑوں کی جائدادیں۔ اونچا سٹیٹس، عالیشان بنگلے، بہت سا روپیہ پیسہ بہترین خٰاندان اور شوہر کی اکلوتی بیوی ہو کر بھی خواتین بے چین، بے سکون بے تحفظ اور زندگی سے بیزار ہوتی ہیں تو خوشی سکون سیکورٹی کا دارومدار ان میں سے کسی بات پر نہیں۔

اگر کسی باپ نے اپنی اولاد کا حق مارنا ہو تو اس کے لئے اسے دوسری شادی کا انتظار یا دوسری بیوی کے بہانے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ جوا کھیل کر، نشہ کر کے، یا کسی اور طریقے سے بھی پیسہ لٹا کر، وقت برباد کر کے یا گھر سے دور رہ کر اپنی اولاد سے بے مروتی برت سکتا ہے۔ اس لئے دوسری شادی کر کے بھی لوگ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرتے ہیں۔
اگر معاشرے میں دوسری شادی کی بہت بھیانک نتائج والی مثالیں ہیں تو ایسے بے شمار کہانیاں بھی ہیں جن میں دوسری شادی والے زیادہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ اور میں بھی ایک مثال بننا چاہتی ہوں ان شاء اللہ۔
میری دن میں کئی ایسی خواتین سے گفتگو رہتی ہے جو اکلوتی بیوی ہونے کا شرف رکھتی ہیں لیکن جب ان کے دکھڑے سنے جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی دکھی کتنی مظلوم اور کتنی بے بس ہیں۔  اس مشاہدے اور تجربے سے میرا یقین بڑھتا ہے کہ سکون آرام چین ازدواجی زندگی میں صرف "اکلوتی" بیوی ہونے سے تعلق نہیں رکھتا۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اس معاشرے کی باتوں کے خوف سے اپنے خاوند کا شرعی جائز حق دبانے کی کوشش کروں۔ یہ سماج کب کسی سے خؤش ہو سکا ہے؟ میں اس ڈر سے اپنے شوہر کو دوسری شادی سے روکوں کہ لوگ کہیں گے "لازما اس میں کوئی کمی ہو گی اس لئے مرد نے دوسرا بیاء رچا لیا۔"
میں اس خوف سے رکاوٹ ڈالوں کہ لوگ باتیں بنائیں گے اس نے شوہر کی خدمت نہیں کی اس لئے اسے دوسری بھاء گئی۔"
میں اس لئے اس کو دوسری شادی سے دور رکھوں کے مجھے سننا پڑے گا "اس نے خاوند کو خوش نہیں رکھا، یہ آدمی کو قابو نہیں کر سکی اس لئے وہ دوسرے نکاح کی طرف گیا۔"
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ خاوند کو قابو کرنا کیا ہوتا ہے؟
مجھے کبھی اس بات کا ادراک نہیں ہو سکا کہ خاوند کو قابو کرنے والا نسخہ آزمانے والے بھی کیوں روتے رہتے ہیں۔
شوہروں پر پابندیاں لگانا، ان پر نظر رکھنا، انہیں بدھو سمجھنا، ان کو کم عقل گردان کر حکم جاری کرنا۔ ان کو اپنا اسیر بنا کر رکھنے کے لئے بے سروپا طریقے اختیار کرنا۔ شاید خاوند دوسری شادی سے تو باز آ جائے لیکن اس کے دل میں اپنی عورت کے لئے عزت، احترام اور محبت کبھی جڑ نہیں پکڑے گی۔ عقلمند عورت اپنے شوہر کو بادشاء کی طرح رکھتی ہے اور خود ملکہ بن کر راج کرتی ہے۔ جو عورتیں اپنے شہزادہ سلیم  کو باندھ کر کررکھنے کے لئے غلط طریقے استعمال کرتی ہیں وہ بھرے دربار میں دیوار میں چنوائی جاتی ہیں۔ چاہے وہ دیوار بے عزتی کی ہو یا شوہر کے دل سے نکلنے کی۔میرا یقین ہے کہ میرا شوہر اللہ کا بندہ ہے اس کا غلام ہے اسے اس بات کا مکمل احساس ہے کہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا کے لہذا وہ کسی پر ظلم زیادتی نہیں کرے گا اور اپنے لیے دوسری بیوی بھی ایسی ہی چنے گا جو ان سب باتوں کا احساس کرنے والی ہو۔

تحریر: زوجہ عمران

میرا نقطہ نظر
تحریر: انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

سبحان اللہ، کیا انداز ہے۔صاحبہ مضمون کی مثبت اور حقیقت مندانہ حکمت پر مبنی سوچ کو سلام پیش کرتا ہوں
جذاک اللہ خیر۔

میری ذاتی پیشنگوئی یہ ہے کہ عنقریب دوسری شادی کا رواج عام ہوا چاہتا ہے کیونکہ دن بدن خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور لڑکوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے قطع نظر اسکے کہ لڑکوں کی تعلیمی قابلیت اور معاشرتی اقدار و معیار بھی گرتا جا رہا ہے اور اگر دوسری شادی کے رواج کو عام نہ کیا گیا تو بے حیائی پھیلنے کا قوی امکان ہے
واضع ہو کہ عرب ممالک میں ہر لڑکی کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کی دوسری یا تیسری بیوی ہو سکتی ہے مگر پہلی بیوی ہونا اس کی خوش قسمتی ہو سکتی ہے

میڈیکل سائنس کی اور اسلامی پوائٹ آف ویو سے مرد دوسری یا تیسری شادی کا بوجھ بخوبی اٹھا سکتے ہیں مگر عورت کی خواہش فقط ایک مرد ہوتی ہے
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر مرد کی یہ اندرونی خواہش ہے کہ اسکی دو یا تین بیویاں ہوں اور نبی کریم صلعم کی بھی یہ خواہش تھی کہ مسلمان زیادہ بچے جننے والی خواتین سے شادی کریں تاکہ آپ صلعم قیامت کے روز اپنی امت کی زیادتی پر فخر کر سکیں۔

تبلیغ دین سے مسلمانوں کی تعداد بڑھانا تو مشکل ہو سکتا ہے مگر مسلمان اولاد تو بڑھائی جا سکتی ہے۔

شائد کہ اسلام کا غلبہ اسی طرح قائم ہو جاۓ۔

تحریر: انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

تبصرے