سخت غصے میں دی گئ طلاق نافذ نہیں
رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ سخت غصے میں دی گئ طلاق نافذ نہیں ہوتی
(رواہ ابو داود حدیث نمبر 2193)
غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا کیا حکم ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: غلام یاسین مقام: لیہ
سوال نمبر 4002:
محترم مفتی صاحب! عرض ہے کہ میرے بیٹے محمد رؤف ولد غلام یاسین کی بیوی اپنے بھائی کے ساتھ ماں کے گھر جانا چاہی تھی، لیکن میرے بیٹے نے اسے منع کیا، جس پر ان کا جھگڑا ہو گیا۔ میرے بیٹے نے کہا کہ اگر تو جائے گی تو میں تجھے طلاق دے دونگا۔ میں نے بیٹے کو سمجھایا کہ ایسا مت بولو لیکن اسکا غصہ کم نا ہوا۔ اسکی بیوی جانے لگی تو اسے مزید غصہ آیا جس پر اس نے تین مرتبہ طلاق دے دی۔ پھر اسکے 30 منٹ بعد پانی پیا اور غصہ ٹھنڈا ہوا تو پھر رونے لگا کہ میرے سے غلطی ہوگئی۔ لڑکی اپنے گھر میں ہے اور لڑکے کو ہم نے گھر سے نکال دیا ہے۔ آپ راہنمائی فرمائیں کہ اس کی طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟
جواب:
اگر جھگڑے کے دوران محمد رؤف شدید غصے کی حالت میں تھا کہ غصہ اس کی عقل پر غالب آگیا اور وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا اس وقت اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، اس کیفیت میں اگر اس نے طلاق دی ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی، وہ پہلے کی طرح بطور میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر غصے کی شدت کم تھی تو طلاق واقع ہو گئی ہے۔ غصے کی حالت میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کے بارے میں جاننے کے لیے ملاحظہ کیجئے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد شبیر قادری
دوسرے یہ کہ ایک طلاق کے بعد میاں بیوی کا ملاپ ہو جانا بھی رجوع کہلاتا ہے
علماء اکرام سے گذارش ہے کہ معاشرے کو الجھائیں مت۔
دین میں دی گئ سہولیات کو عوام الناس تک پہنچائیں۔
احقر
انجینیئر نذیر ملک
تبصرے