شب برات کی شرعی حیثیت

شبرات کی شرعی حیثیت

شعبان کی پندرھویں رات عبادت کی خاص رات نہیں ہے

سوال
میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ پندرہ شعبان کا روزہ دوسری بدعات میں سے ایک بدعت ہے جبکہ ایک دوسری کتاب میں پڑھا ہے کہ اس دن کا روزہ مستحب ہے تو سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا قطعی حکم کیا ہے

جواب
شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کے بارے میں کوئی ایک بھی صحیح اور مرفوع روایت ثابت نہیں جس کےمطابق حتی کہ فضائل اعمال میں بھی عمل کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں جو کچھ وارد ہے وہ یا تو بعض تابعین سے مقطوع آثار ہیں یا پھر ایسی احادیث ہیں جن میں صحیح ترین کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ موضوع یا بے حد ضعیف ہیں۔

یہ روایات بہت سے ایسے علاقوں میں مشہور ہیں جن میں جہالت کا غلبہ ہے اور لوگ از راہ جہالت یہ سمجھتے ہیں کہ اس رات موت اور حیات کا فیصلہ ہوتا ہے ۔۔۔الخ

لہذہ اس رات کا قیام کیا جاۓ نہ دن کا روزہ رکھا جاۓ اور نہ کسی معین عبادت کے لۓ اس رات کو مخصوص کیاجاۓ۔ جاہلوں کی ایک کثیر تعداد اس رات کو جو اعمال سرانجام دیتی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ واللہ اعلم

شیخ ابن جبرین
مفتی حرمین  الشریفین
المملکہ عربیہ السعوددیہ

فتاوی اسلامیہ جلد۔1 صفحہ 231

دلائل شب برات کی شرعی حیثیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ مولانا ملک ضیاالحق صاحب

[20/04 5:22 am] Malik Ziaulhak:

♧☆ـ﷽ـ☆♧
.....((((((شب برات کی شرعی حیثیت))))))........
مسج نمبر  (1)
15 شعبان کی رات جسے لوگ "شب_برات" کہتے ھیں یہ نام قرآن و سنت سے ثابت نھیں ھے لوگوں نے اپنی طرف سے بنایا ھے
:
15شعبان کی رات میں کسی بھی قسم کی نفل نماز کی فضیلت والی احادیث صحیح نھیں ھیں.
#موضوعات_ملاعلی قاری ص:165
:
15 شعبان کی رات میں کسی بھی قسم کی نفل نماز کی روایات موضوع (من گھڑت) 15 شعبان کی رات میں کسی بھی قسم کی نفل نماز کی روایات موضوع (من گھڑت) ھیں.
#موضوعات_ابن_جوزی: 127/2
:
15 شعبان کی رات روحیں گھر آتی ھیں اور دیکھتی ھیں کہ کسی نے ھمارےلۓ کچھ پکایا ھے یا نھیں، یہ غلط ھے.
#اغلاط_العوام ص:157
:
:
15 شعبان کو آتشبازی کرنا رسم اور گناہ ھے اور حلوہ پکانا بھی رسم ھے.
#اصلاح_الرسوم: 25.156
:
اللہ کی بارگاہ میں اعمال صرف 15 شعبان کو یاکسی خاص رات میں پیش نھیں ھوتے بلکہ ھر روز پیش ھوتے ھیں.
:
حدیث:
رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں پیش کردیۓ جاتے ھیں.
#مسلم:447
:
15 شعبان کے روزہ کے متعلق صرف ایک روایت ھے حضرت علی رض سے، ابن_ماجہ:1388جو کہ سند کےلحاظ سے نہایت ضعیف ھے
:
15 شعبان کی رات کو عبادت اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت والی روایت موضوع ھے.
#المجوعہ_فی_الاحادیث_الضعیفہ_والموضوعہ: 148/1
:
15 شعبان کے روزے کے متعلق ابن_ماجہ کی روایت سند کے لحاظ سے نہایت ضعیف ھے.
#معارف_الحدیث:126/4
:
15 شعبان کی رات میں دعا و استغفار کے متعلق کوئ ایک حدیث بھی قابل_ اعتماد نھیں ھے.
#معارف_الحدیث:126/4
:
15 شعبان کی رات گلیوں، بازاروں اور اسی طرح مساجد میں چراغاں کرنا (لائٹیں لگانا) بدعت ھے.
#البحرالرائق:215/5
:
مشائخ اور فقھاء میں سے کوئ بھی 15 شعبان کے فضائل کی طرف متوجہ اور قائل نھیں ھوا ھے.
#تذکرۃ_الموضوعات: 45
:
علامہ ابن_عربی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ھے:
15 شعبان کی فضیلت میں کوئ بھی روایت قابل_اعتماد نھیں ھے.
#احکام_القرآن_1696/

مزید برادر محترم کے کتاب نادان مسلمان ضرور دیکھیں
((((تحریر جاری))))
l
[20/04 5:22 am] Malik Ziaulhak: .......((((((شب برات کی شرعی حیثیت))))).......
مسج  نمبر   (3)
شبھات ضعیف روایات  اور جوابات
روزہ:۔
اسی طرح کی ایک اور روایت سنن ابن ماجہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: " إذا كانت ليلة النصف من شعبان ، فقوموا ليلها وصوموا نهارها ، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا ، فيقول : ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا ، حتى يطلع الفجر " [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏138۸‏]
" جب نصف شعبان کی رات آئے تو ا س قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو ، بے شک اللہ تعالیٰ غروب شمس کے بعد آسمان دنیا پر آجاتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ کیا کوئی مجھ سے معافی مانگنے والا نہیں کہ میں اس کو معاف کردوں ؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا نہیں ہے کہ میں اس کو رزق دوں؟ کیا کوئٰ پریشانی میں مبتلا نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ کیا کوئی ایسا نہیں ہے؟؟ حتی کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔"
اس روایت کی سند میں ابوبکر بن محمد بن ابی سبرۃ السبری المدنی ہے، جو کہ ضعیف ہےبلکہ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ یہ روایتیں گھڑتا ہے۔ لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔ اور من گھڑت روایات ضعیف کی بدترین قسم ہے۔
مشرک یا کینہ پرور کے سوا عام معافی:۔
ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو مشرک اور بغض وکینہ رکھنے والے کے سوا اپنی ساری مخلوق کو معاف فرمادیتے ہیں: [سنن ابن ماجه - كتاب إقامة الصلاة والسنۃفیھا، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان - حديث:‏13۹۰‏]
لیکن اس کی سند میں بھی کئی علتیں ہیں جن میں سے عبداللہ بن لھیعہ کا مختلط ہونا اور ضحاک بن ایمن کا مجہول ہونابالخصوص قابل ذکر ہیں۔ لہٰذا ان دوموٹی موٹی وجوہات کی بنا پر یہ روایت بھی ساقط الاعتبار ٹھہری۔

صلاۃ الفیۃ:۔
شعبان کی نصف کی رات کو بعض لوگ صلاۃ البراۃ یا صلاۃ الالفیۃ ادا کرتے ہیں جس میں سو رکعات میں سے ہر رکعت میں ۱۰ بار "قل ھواللہ " (سورۂ اخلاص) پڑھی جاتی ہے۔ اس کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے۔

حاصل البحث:۔
اس مذکورہ بالا توضیح سے یہ نتیجہ نکلا کہ نصف شعبان کے بارہ میں جو بھی مرویا ت ہیں وہ تمام تر موضوع یا ضعیف ہیں ۔ یہی بات امام عقیلی نے الضعفاء ۲۹/۳ میں اور حافظ ابو الخطاب ابن دحیہ نے الباعث علی انکار البدع والحودث ص۲۵ میں کہی ہے۔
لہٰذا ان تمام تر بدعات و خرافات سے اجتناب کیاجائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تـــــــــــمـــــــــت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرے