دیگ سے چند چاول

دیگ سے چند چاول

مسئلہ کشمیر دنیا بھر کی خبروں میں آجکل اتنا ہائیلائٹ ہو چکا ہے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی بھی نہیں ہوا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ یہ وزیر اعظم عمران کا کارنامہ ہے۔ اگر مسئلہ کشمیر کو حالیہ تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ کیس اب الجھ گیا ہے اور اسکی ڈور دن بدن مذید الجھتی جا رہی ہے اور اسکا سرا ملتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

شروع ایام میں پاکستان کمزور کھیلا اور ہندوستان نے اپنی تمامتر توانائیاں اس پر صرف کردیں اور اسے اپنے قابو میں کر لیا اور اب حالت یہ ہے کہ قابو سچا جھگڑا جھوٹا لگتا ہے۔ اب تو یہ کیس اتنا گھمبیر ہو گیا ہے کہ اس کا مرض لا علاج ہو کر کشمیر ہی نہیں بلکہ پورا خطہ اس کینسر کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اب تو ہم اقوام متحدہ پر امید لگاۓ بیٹھے۔

دو نیوکلئیر پڑوسی ملکوں کے درمیان اسکی مثال سانب کے گلے میں چچندر والی ہو گئ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان ہیومین رائٹس فورم پر اپنا کیس ہی فائل نہ کرسکا اور یہ ہماری خارجہ پالیسی کی فیلیئر ہے اور اسکی ذمہ دار ہماری وزارت خارجہ نہیں تو کیا جیلوں میں مقید اپوزیشن ہے؟

اے میری قوم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے بلی نہیں مرے گی۔

آپ مانیں یا نہ مانیں حکومت کی کشمیر پالیسی لیڈنگ نہیں لیگنگ رہی ہے۔ مودی سرکار کی حکمت عملی نے ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔

مجھے کہنے دیں کہ اقوام متحدہ کا رول نہ کہ کشمیر بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لئے صفر ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا تھا

یو این او (UNO) میں U تو USA کا ہے اور باقی تو NO ہی NO ہے

اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان UNO پر انحصار کرنا چھوڑ دیں اور اپنی علیحدہ تنظیم بنائیں اور ترکی کو اپنا لیڈر بنائیں ملائشیا اور برونائی اسے فنانس کرائیں اور اسلامی ممالک اپنی فوج اور اپنا انڈسٹریل زون بنائیں۔ تب تو بات بنے گی وگرنہ ان کفار نے ملکر اسلام کو تو باندھ کر رکھ دیا ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم کشمیر کشمیر کہتے کہتے بنگلہ دیش دے بیٹھے۔ بھول جائیں اب کشمیر کو۔ کشمیر کبھی نہیں بنے گا پاکستان۔
یاد رہے کشمیری، بنگالی اور افغانی کی طرح کبھی بھی پاکستان کے نہ تھے اور نہ بنیں گے

افغانستان کے پھڈے نے ہمارا امن تباہ کر دیا۔ دہشتگردی افغان وار کا بائی پروڈکٹ ہے۔
ہم عربوں کے واچ مین تھے عمران خان کی پالیسیوں نے ہمیں عربوں سے دور کر دیا اور پاکستان کی اکانومی کو باہر سے سہارا لگنا بند ہو گیا اور ہماری کرنسی اتنی ڈی ویلؤ ہو گئی کہ روپیہ زمین پر آگیا اور اب تو ایک روپیہ فقیر بھی قبول نہیں کرتا۔

پی ٹی آئی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو کرپشن کے نام پر جیلوں میں بند کر دیا۔ عوام پر بے تحاشہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا جس کے نتیجے میں پاکستانی بزنس مین کا مارکیٹ سے اعتماد اٹھ گیا اور اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی انڈسٹری کا پہیہ رک گیا۔

ذرا غور کریں ملک میں مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور غریب آدمی کا گزارہ مشکل ہو گیا ہے۔ ملک میں سٹریٹ کرائم بڑھ گئی۔
ملک بھر میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ گھر کا خرچہ چلانے کے لئے نہ جانے عوام کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ گئے ہیں

سننے میں آتا ہے کہ عمران خان پاکستان کا وہ واحد وزیر اعظم ہے جس کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں ہے اور اس نے کاروبار عوام کا بھی رہنے نہیں دینا۔۔۔۔۔

اب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیاسی مخالفتوں سے باہر نکلیں اور پاکستان اور اسلام کی سر بلندی کے بارے میں کام کریں نہ کہ بیان بازی۔

یا رب العالمین ہم تیری مدد کے خواشتگار ہیں

یا اللہ ہم اندرونی اور بیرونی دشمنوں میں گھر گئے ہیں اور دن بدن ہم لاچار، بے بس اور کمزور ہوتے جا رہے ہیں

ایسے حالات میں میرے مولا تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ اے اللہ تعالی ہمارے ایمان کو بچانا اور ان اسلام دشمن عناصر کو نیست و نابود کر دے اور اگر یہ ملعون کام یاب ہو گۓ تو وطن عزیز میں مسلمان تو رہیں گے مگر اسلام نہ رہے گا

یا اللہ ہمیں بچا لے۔
آمین یا رب العالمین

تحریر:
حقیقت پسند سپاہی

تبصرے