نیزہ بازی

نیزہ بازی

ماہرینِ کھیل کا کہنا کہ ایشیا میں نیزہ بازی کاکھیل سب سے پہلے یورپی حکمران لے کر آئے تھے، پھر یہ یہاں مقبول ہوکر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ تحقیقی ماہرین کے مطابق، 326 قبلِِ مسیح میں جب سکندرِ اعظم نے ہندوستان پر چڑھائی کی، تو اس کے گھڑ سواروں نے سب سے پہلے راجا پورس کی فوج اور ہاتھیوں کے خلاف نیزہ بازی کا استعمال کیا۔

اس کے چاق چوبند گُھڑ سوار دستے بڑی پُھرتی اور ہوشیاری سے ہاتھیوں کے پائوں کو نیزہ چبھوکر زخمی کردیتے اور وہ زخموں کی تکلیف سے چیختے چلّاتے، بھگدڑ میں اپنی ہی فوج کو روندتے ہوئے میدان چھوڑ جاتے۔ گُھڑ سوار حملے سے پہلے زمین میں دبی لکڑی کے ٹکڑوں کو نشانہ بناکر حملے کی مشق کرتے، جس نے بعد میں نیزہ بازی کے مقبول کھیل کی صورت اختیار کرلی۔ اس کھیل کے رنگ ڈھنگ مختلف ممالک میں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ جیسے ہمارے ملک میں اس کھیل کے دوران نیزے کا، جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں تلواروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کھیل میں شامل سوار کھیل کا آغاز ہوتے ہی مخصوص پگڑی اور مخصوص لباس پہن کر میدان میں اُترتا ہے۔کھلاڑی کے سامنے زمین میں لکڑی کے ٹکڑے گاڑ دئیے جاتے ہیں، جنہیں کھلاڑی اپنے نیزے سے نشانہ بناتا ہے، اگر وہ لکڑی کے کسی ٹکڑے کو نشانہ بنانے کے بعد تقریباً دس فٹ کے فاصلے تک اپنے نیزے کو سنبھالے رکھے، تو اس کو چار پوائنٹس مل جاتے ہیں اور وہ کھیل کے اگلے مرحلے میں پہنچ جاتا ہے اور اگر وہ پہلے مرحلے میں نشانہ دُرست نہ لگا پائے، تواُسے ایک موقع اور دو پوائنٹس دئیے جاتے ہیں اور اگر گُھڑ سوار ہدف کو مکمل طور پر ٹارگٹ کرنے میں ناکام ہوجائے، تو پھر وہ مقابلے سے باہر ہوجاتا ہے۔ کھیل کے دوران تماشائیوں کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ وہ چیخ چیخ کر اپنے کھلاڑی کی ہمّت بندھاتے ہیں اور جب وہ دُرست نشانہ لگاتا ہے، تو تالیاں بجاکر اس کے اچھے کھیل کی داد دیتے ہیں۔کھلاڑی بھی دُرست نشانہ لگانے پر مختلف انداز سے اُچھل کُودکر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ نیزہ بازی کے مقابلے زیادہ تر پنجاب میں منعقد کیے جاتے ہیں اور تقریباً سارا سال جاری رہتے ہیں۔

نیزہ بازی کا سب سے بڑا مقابلہ فور ٹریس اسٹیڈیم، لاہور میں ہارس اینڈ کیٹل شو کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے مقابلے ہر برس، اکتوبر کے مہینے میں فیصل آباد کے نزدیک کنجوانی کے مقام پر بھی ہوتے ہیں، جہاں کھیل کے تماشبین اور کھلاڑیوں کا جوش دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ نیزہ بازی کی طرز کا دوسرا مقبول کھیل، تِیر اندازی ہے، جِو ہر دور میں اہم رہا ہے، لیکن یہ آج کے دور میں کچھ مختلف انداز سے کھیلا جاتا ہے۔ پُرانے زمانے کا انسان، جب جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا، تو وہ اسی کی مدد سے جنگلی جانوروں کا شکار کیا کرتا تھا۔اس کھیل کی ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، تو عِلم ہوگا کہ آج بھی تِیر اندازی میں وہی کمان استعمال کی جارہی ہے، جو زمانۂ قدیم کا انسان استعمال کرتا تھا۔

ابتدائی دور میں نیزہ بازی اور تِیر اندازی کو جنگوں میں مرکزی حثیت حاصل تھی اور حریف ایک دوسرے کے خلاف تِیر اندازی کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔16ویں صدی میں یہ نہ صرف جنگوں کا ہتھیار تھا بلکہ کھیلوں کی تاریخ کا بھی ایک اہم حصّہ تھا۔ ڈیڑھ صدی قبل، باہر سے آنے والے باشندوں نے جب امریکا پرقبضہ کرنا چاہا، تو انہیں یہاں کے قدیم باسیوں، یعنی ریڈ انڈینز کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ ریڈ انڈینز کا مؤثر ہتھیار، تِیر اندازی ہی تھا اور وہ پھونکنی طرز کے ہتھیار کو بطور کمان استعمال کرتے ہوئے اپنے دشمن پر تیروں کی بارش کردیا کرتے تھے، جو ایک نہایت حیران کُن نظارہ ہوتا تھا۔ تِیر کو پھونکنی میں رکھ کر پھونک ماری جاتی، تو تیر اپنے ہدف پر جاکر لگتا تھا۔ معروف انگریزی کردار، رابن ہڈ کی داستانِ شجاعت میں تِیر اور کمان کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ یورپ میں تو یہ مقبول ترین کھیل ہے اور تقریباً 300 برس سے کھیلا جارہا ہے۔

زمانۂ قدیم میں چین کا یہ قومی کھیل مانا جاتا تھا اور اس کے باقاعدہ مقابلے منعقد کیے جاتے تھے، چھٹی صدی میں چین سے یہ کھیل جاپان تک پہنچا اور جاپانی کھلاڑیوں نے مہارت حاصل کرکے ایک دنیا کو محظوظ کیا۔ پُرانے زمانے میں جاپان کا مقبول کھیل مارشل آرٹ ’’جیو جستو‘‘ بو کمان کا فن کہلاتا تھا، آج کل اس کا نام کو ’’کیڈو‘‘ ہے۔ اسی طرح، 5000 برس قبل، قدیم مصری جانوروں کے شکار کے لیے تِیر اور کمان استعمال کرتے تھے۔ تحقیقی ماہرین کے مطابق، تِیر اندازی کے کھیل کا باقاعدہ آغاز 1931ء میں پولینڈ سے ہوا۔ 1933ء فیٹا(Fita) کے نام سے اس کھیل کی ایک باقاعدہ انجمن کی بنیاد رکھی گئی، جس نے اس کے سالانہ مقابلوں، یعنی اس کی سالانہ چیمپئن شپ کا آغاز کیا۔

ابتدائی دور میں فرانس، بیلجیئم، پولینڈ اور سویڈن اس کے اہم ممبر تھے، بعد میں امریکا بھی اس کا ممبر بن گیا۔ 1908ء کے اولمپک کے بعد اسے اولمپک مقابلوں سے دیس نکالا دیا گیا، لیکن 1972ء کے میونخ اولمپک میں اسے دوبارہ شامل کرلیا گیا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں، خاص طور پر صوابی میں یہ کھیل بہت مقبول ہے ۔ پاکستان میں اس کھیل کی باقاعدہ تنظیم قائم ہے، جس کا نام ’’آرچری فیڈریشن‘‘ ہے۔ اس کی بنیاد 1995ء میں رکھی گئی۔ اس تنظیم کے زیرِ اہتمام، 1996ء میں تِیراندازی کا پہلا باقاعدہ مقابلہ ہوا

تبصرے