تقدیر کی قرآنی تشریع
تقدیر کی قرآنی تشریع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقدیر(ق۔د۔ر) کے لغوی معنی ہیں اندازہ اور پیمانہ(تاج العروس) 3۔ الاعلی
انسانی صنف، پیدائش، زندگی یعنی عمر، رزق اور موت کا تعین شکم مادر میں ہی کر دیا جاتا ہے
انسان فطری طور پر آزاد پیدا ہوا ہے اور
انسان کو نیکی اور بدی کی راہ دیکھا دی گئی ہے اور عمل میں آزادی دی گئ ہے اب انسان کا اپنا اختیار ہے کہ نیکی کا راستہ اختیار کرے گا تو جنت مقام ہو گا بدی کا راستہ جہنم میں جائے گا
احکامات اگر اللہ تعالی کے مانے گا تو کامیاب ہو گا اپنی مرضی چلائے تو نتائج بھگتے گا
زندگی بھر مکافات عمل کے تحت ہر انسان اپنے کۓ کا ذمہ دار خود ہوتا ہے
انسان جیسا عمل کرتا ہے اسے ویسا ہی بدلہ ملتا ہے۔ 147 اعراف
سزا گناہ کے مطابق ملے گی آخرت میں عین انصاف ہوگا
اگر انسان کو اپنے فیصلے خود نہیں کرنے ہوتے تو خدا اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کیوں دیتا اور یہی انسان اور حیوان میں بنیادی فرق ہے
اگر انسان اپنی مرضی کا مالک خود نہیں ہوتا تو اسے اپنے اعمال کا حساب کیوں دینا پڑتا۔
(23 المومنون، 93 النہل،39 النور، 113 الشعرا
لیکن شاعروں نے اس غلط سوچ سے متعارف کرا دیا کہ۔
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
یہ نعرہ سب سے پہلے شیطان نے لگایا۔ 16 اعراف، 39 الحجر۔
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (سورۃ اعراف آیت 16)
اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔
سورۃ حجر میں ارشاد باری تعالی ہے
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ (سورۃ حجر آیت 39)
( شیطان نے ) کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی(سورۃ حجر آیت۔39)
شیطان کے بعد یہی نعرہ کفار و مشرکین نے بلند کیا۔ 148 انعام، 20 الزخرف۔
سَیَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَاۤ اَشۡرَکۡنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمۡنَا مِنۡ شَیۡءٍ ؕ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ حَتّٰی ذَاقُوۡا بَاۡسَنَا ؕ قُلۡ ہَلۡ عِنۡدَکُمۡ مِّنۡ عِلۡمٍ فَتُخۡرِجُوۡہُ لَنَا ؕ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا تَخۡرُصُوۡنَ ﴿۱۴۸﴾
یہ مشرکین ( یوں ) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا آپ کہیے کیا کہ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے روبرو ظاہر کرو تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل سے باتیں بناتے ہو (سورۃ انعام۔148)
وَ قَالُوۡا لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰہُمۡ ؕ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ٭ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَخۡرُصُوۡنَ ﴿ؕ۲۰﴾
اور کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے انہیں اس کی کچھ خبر نہیں یہ صرف ا،ٹکل پچو ( جھوٹ باتیں ) کہتے ہیں (الزخرف۔20)
قرآن کے بقول کفار اپنی دولت غریبوں پر خرچ نہ کرنے کا جواز میں بھی یہی دلیل دیتے تھے کہ
اگر خدا کو منظور ہوتا تو وہ خود انھیں کھانا کھلا دیتا۔ 47 یس۔
اگر انسان صاحب ارادہ و اختیار نہیں ہوتا تو خدا یہ کبھی نہ کہتا کہ جو غلطی یا مجبوری یا بھول چوک سے ہو جاۓ اس پر مواخذہ نہیں۔ مواخذہ صرف اس غلطی پر ہوگا جس میں ارادہ و اختیار شامل ہے(5 الاحزاب، 106 النحل)
مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ
(سورۃ نحل آیت-106)
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے (سورۃ نحل آیت-106
اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔
﴿سورۃ احزاب ،آیت-5)
لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے پھر اگر تمہیں ان کے ( حقیقی ) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالٰی بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ احزاب آیت- 5)
وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۷﴾٪
اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے ۔ ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے ۔
سورۃ اعراف آیت 147)
علامہ اقبال کے بقول
خبر نہیں کیا ہے نام ہے اس کا خدا فریبی یا خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہء حق نے تیری جبیں
دعاء تقدیر کو پھیرتی ہے
اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر
تو مسلماں ہے تو تقدیر ہے تدبیر تری
Please visit us www.nazirmalik.com
تبصرے