حکمت خداوندی اور رزق کی تقسیم

حکمت خداوندی اور رزق کی تقسیم

تحریر:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

شیخ سعدی رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ۔۔۔۔۔
اگر رزق ہوشیاری چلاکی میں ہوتا تو مجھ جیسے بیوقوف لوگ بھوکے مرتے۔

بات تو درست ہے مگر رب کی حکمت عملی ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔

دنیاوی مشاھدات۔

بڑے بڑے ذہین و فطین لوگوں کو غربت کی چکی میں پستے دیکھا۔

محنتی لوگوں کو سخت محنت مزدوری کرتے دیکھا مگر ان کی محنت انکی بھوک نہ مٹا سکی۔

دوستو!
اگر رزق تعلیم میں ہوتا تو جاہل لوگ بھوکے مرتے اور جارج فورڈ موٹر گاڑیوں کی فیکٹری Bed Ford کا مالک نہ ہوتا اور ستارہ انڈسریز کا مالک کوئی PhD ہوتا۔

ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺣﺴﺐ ﻭ ﻧﺴﺐ ﭘﮧ ﻓﺨﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮچتا ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻧﻮﺡ علیہ السلام ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺎ ﮈﻭﺑﻨﺎ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ماﻝ ﻭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﭘﮧ ﻧﺎﺯﺍﮞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﻮﮞﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﻕ ﮨﻮﻧﺎ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﻭ ﻓﻦ ﻭ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﭘﮧ ﻓﺨﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﺑﻠﯿﺲ ﮐﺎ ﺩﮬﺘﮑﺎﺭﺍ ﺟﺎﻧﺎ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍٓﻭﺍﺯ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﮨﮯ.

ﻓَﺎِﻧَّﺎ ﺧَﻠَﻘﻨٰﮑُﻢ ﻣّﻦ ﺗُﺮَﺍﺏٍ ﺛﻢَّ ﻣِﻦ ﻧُّﻄﻔۃٍ …(ﺍﻟﺤﺞ، ۵)

'' ﭘﺲ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ، ﭘﮭﺮ ﻧﻄﻔﮧ ﺳﮯ۔

ﺍﺱ ﺍٓﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺐ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﺳﻠﺐ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﺐ کچھ ﺑﮯﻣﺎﯾﺎ ﻭ ﺑﮯ ﻭﻗﻌﺖ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ اور میری حقیقت مجھ پر عیاں ہو جاتی ہے

ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﻏﺮﻭﺭ ﻭ ﺗﮑﺒﺮ ﮐﺎﺧﯿﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻢ عقلی کم مائیگی ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﭘﮭﺮ ﺳﻮچتا ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﮐﺘﻨﺎ ﮐﺮﯾﻢ ﮨﮯ ﮐﮧﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﻧﻮﺍﺯﺍ، ﻋﻠﻢ ﻭ ﺷﻌﻮﺭ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ، ﻣﯿﺮﮮ ﻋﯿﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﯽ،
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻒ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ تھا۔

ﯾﮧ ﺧﯿﺎﻝ ﺍٓﺗﮯ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭨﮑﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﻭ ﺑﮍﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻢ عقلی ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ کرتا ﮨﻮں اور اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں کامل انسان اور اشرف المخلوقات بنایا۔

اے اللہ ہمیں اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل فرما۔
آمین یا رب العالمین

Please visit us at
www.nazirmalik.com

تبصرے