امام ابو حنیفہ مختصر
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اہل راۓ تھے
آپکی پیدائش سن 80 ہجری میں کوفہ میں ہوئی اور وفات سن 150 ہجری میں کوفہ میں ہوئی۔ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جس رات حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا انتقال ہوا عین اسی رات کی صبح کو حضرت امام شافعی کی پیدائیش مکہ میں ہوئی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جس رات دین میں منطق کا بادشاہ دنیا سے رخصت ہوا اسی صبح علم الحدیث کا بے تاج بادشاہ نے مکہ میں جنم لیا۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا قول ہے کہ صحیح حدیث ہی میرا مذھب ہے امام محترم کے زمانے میں امام مالک کی کتاب مؤطا ابن مالک کی تدوین تو ہو چکی تھی مگر صحاح ستہ آپکے زمانہ میں نہ تھیں اور تقریبا" دو سو سال کے بعد ان کتب احادیث کی تدوین ہوئی۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر صحاح ستہ کا زمانہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے پایا ہوتا تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا مذھب اہل حدیث ہوتا کیونکہ آپ کا فرمان ہے کہ صحیح حدیث ہی میرا مذھب ہے اور آج جو کیفیت فقہ حنفی، فقہ مالکی، فقہ شافی اور اہل تشیع کی ہے یہ کیفیت ہرگز نہ ہوتی کیونکہ جو ذخائر احادیث زمانہ بعد میں منظر عام پر آئے اور باقاعدہ علم حدیث کی تدوین ہوئی اور اگر یہ کتب احادیث اس وقت میسر ہوتیں تو یقینا" آئمہ اکرام ان کتب سے استفادہ فرماتے اور ہو سکتا ہے ائمہ محترمین کی تحقیق کے بعد یہ آج والے اربعہ مذاھب بھی نہ ہوتے سب لوگ ایک دین اسلام پر ہوتے نہ مختلف مسلک ہوتے اور نہ یہ فرقہ پرستی یا بدعات ہوتیں اور یعنی مذھبی اخلافات بالکل نہ ہوتے۔ محمد الرسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خالص طاقتور دین اسلام اس کائنات میں نافذ ہوتا۔
جدید تدوین فقہ
آج ہم مسلمان گروہ در گروہ بنٹتے جا رہے ہیں اور مذھبی اختلافات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ آج امت مسلمہ ایک پلیٹ فارم اکٹھے نہیں ہو پا رہی اور نفرتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو کافر کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بقول علامہ اقبال کے۔۔۔۔۔
کہیں فرقے اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
امت مسلمہ کی یکجہتی
اگر تمام مذاھب، فرقوں اور مسالک کے رہنما نیک نیتی سے حرم مکی الشریف میں مل بیٹھیں اور اپنی اپنی کتب دینیہ اور فقہ سے قرآن، سنت اور احادیث نبوی کی روشنی میں مشترک دین کشید کر لیں اور فرعات و اختلافی مسائل کو چھانٹ کر علیحدہ کر دیں تو ممکن ہے کہ ہمارے علماء اکرام کسی ایک نتیجے پر پہنچ جائیں اور یقینا" وہ محمد رسول اللہ کا وہ دین حق ہوگا جو 1441 قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالی کی طرف سے لے کر آۓ تھے۔
مرکزی خیال
جب حضرت عمر شہادت سے قبل زخمی ہو گۓ تو آپ نے پانچ اصحاب رسول کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور فرمایا کہ میرے بعد آپ لوگ اتفاق رائے سے اپنا خلیفہ مقرر کر لینا اور اگر اختلاف ہو جاۓ اور ایک آدمی اختلاف کرے تو اسے قتل کر دینا اور اگر دو لوگ اختلاف کریں تو ان دونوں کو قتل کر دینا تاکہ فتنہ باقی نہ رہے۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دین اسلام کی سربلندی کے لئے ایک کر دے تاکہ تیرا دین دنیا پر غالب آ جاۓ۔
آمین یا رب العالمین
و صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
طالب الدعاء
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at
www.nazirmalik.com
تبصرے