غرور و تکبر سے جامہ ٹخنوں سے نیچے
غرور و تکبر سے ٹخنوں سے نیچے
کپڑا لٹکانا
تخلیص
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
مغرور و متکبر لوگوں کی بد اعمالیوں اور بے اعمالیوں کی یہ ادنی سی مثال ہے، ورنہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے۔ غرور و تکبر کا اظہار، بیاہ شادی، ولادت، موت، دفتر، دکان، گھر، بازار ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
لا يدخل النار احد فی قلبه مثقال حبة من خردل من ايمان ولا يدخل الجنة احد فی قلبه مثقال حبة من خردل من کبر. (صحيح مسلم)
کوئی ایسا شخص دوزخ میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہوا اور جنت میں نہیں جائے گا، کوئی ایسا شخص جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی غرور و تکبر ہوا۔
دوسرے موقع پر فرمایا :
من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامة.(بخاری و مسلم)
جو شخص غرور و تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نگاہ کرم نہیں فرمائے گا۔
نیز فرماتے ہیں
ما اسفل من الکعبين من الازار فی النار.(بخاری)
غرور و تکبر سے چادر (یا شلوار، پینٹ، پاجامہ وغیرہ) کو جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہے، جہنم میں ہوگا۔
وضاحت مسئلہ
ان ارشادات پر بار بار غور کریں جو شخص غرور و تکبر سے کپڑا گھسیٹے اسے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، اس کی نمایاں مثال چوہدری، جاگیر دار ہیں، جو اعلیٰ قیمتی تہ بند (دھوتی) پہن کر زمین پر گھسیٹتے ہوئے مٹکتے چلتے ہیں۔ تاکہ لوگوں پر اپنا دولت مندی و امارت کا رعب ڈال سکیں۔ اسی چیز سے منع کرنا مقصود ہے کہ اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو گھٹیا نہ سمجھا جائے۔ اللہ کی نعمت کی بے قدری نہ کی جائے، اگر یہ وجوہات نہ ہوں تو ٹخنوں سے نیچے شلوار، دھوتی، پاجامہ یا پتلون وغیرہ کا ہونا ہرگز گناہ یا منع نہیں اور یہ اعلان خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جیساکہ خیلاء کے لفظ سے واضح ہے کہ غرور و تکبر سے چادر گھسیٹنا حرام ہے، اگر یہ بات نہ ہو تو حرام نہیں، جائز ہے۔
قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله اليه يوم القيامة، فقال ابو بکر ان احد شقی ثوبيی يستخرجی الا ان اتعاهد ذالک منه، فقال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم انک لست تصنع ذلک خيلاء(صحيح بخاری، 1 : 517، طبع کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے گھسیٹے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر نظرکرم نہیں فرمائے گا۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میرے کپڑے کا ایک کونہ، اگر پکڑ نہ رکھوں، نیچے لٹک جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم ایسا غرور و تکبر سے نہیں کرتے۔
گویا جس بات سے دوسروں کو اس لیے منع فرمایا کہ اس میں غرور و تکبر ہے، اس کی اجازت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس لیے دی کہ ان میں غرور و تکبر نہیں۔ پس اصل ممانعت غرور و تکبر کی ہے۔ جن محکموں میں ملازمین کی وردی ہوتی ہے، ان کو قانوناً اسی طرح پہننا پڑتی ہے، جس کا مشاہدہ ہر شخص کرتا ہے، اس پابندی میں اعلیٰ ترین آفیسرز سے لے کر ایک سپاہی یا اہل کار تک، سب شامل ہیں۔ نہ پتلون زمین پر گھسٹتی ہے نہ کوئی غرور و تکبر سے پہنی جاتی ہے۔ پس اس صورت میں پتلون، شلوار، پاجامہ یا چادر کا ٹخنوں سے نیچے ہونا ہرگز مکروہ، حرام یا ممنوع نہیں۔ زیادہ سے زیادہ بعض لوگوں نے ایسی صورت میں مکروہ تنزیہی کا قول کیا ہے، جو خلاف اولیٰ ہوتا ہے حرام نہیں۔ (مزید مطالعہ کے لیے شرح بخاری، شرح مشکوٰۃ للشیخ عبدالحق محدث دہلوی و فتاوی عالمگیری)
پس آپ جس طرح نماز پڑھیں جائز ہے، شرعاً قدغن نہیں۔ جو شدت کرے ان سے حوالہ جات کا جواب پوچھیں، اللہ پاک ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: عبدالقیوم ہزاروی
تبصرے