حصول علم دین

حصول علم دین۔ قرآن و احادیث یا علماء دین

تحریر:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

حصول علم کے تین مبدا ہیں
اساتذہ یعنی علماء دین
کتب دینیہ
ماحول دینیہ

قرآن کریم میں اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ
"اگر نہیں معلوم تو اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو "
اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ جب کوئی دقت ہو تو کامل فن علماء سے رجوع کیا جائے اور جب آپ کی عقل فراست میں کوئی ابہام نہیں یعنی دین کی باتیں آپکو بخوبی سمجھ میں آ رہی ہوں تو آپ اپنا کام جاری رکھیں اور خامخواہ الجھن میں نہ پڑیں۔

فرمان ربانی ہے کہ ہم نے قرآن آسان اتارا تاکہ تم سمجھ سکو۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآن بہت آسان ہے کوئی جملہ ایسا نہیں جو سمجھ میں نہ آتا ہو خاص طور پر جو با محاورہ اچھے تراجم اور آپکی زبان میں تفاسیر آپکی علمی تشنگی احسن طریقے سے دور کر دیتی ہیں۔
بس تھوڑی سی محنت چاہیئے اس طریقہ آپکی دینی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اور رہی بات مسائل کی تخریج یہ کام آپ کا نہیں اسکے لۓ ماہر فن اساتذہ کی خدمات لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

علم تو علم ہے چاہے اساتذہ سے سیکھا جاۓ یا کتابوں سے۔
مدارس حرف آخر نہیں بلکہ ایک ذریعہ تعلیم ہیں کیونکہ دور حاضر میں بہت سے اہل علم مدارس کی پیداوار نہیں بلکہ اپنی محنت سے پالش ہوۓ ہیں یہ خدا کی دین ہے جسے وہ نوازے مثلا"
ڈاکٹر اسرار احمد رحمۃ اللہ علیہ، ڈاکٹر مرتضے ملک رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ۔ شیخ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ اور سینکڑوں دیگر جید علماء اکرام میں سے کوئی بھی دینی مدرسے کا سند یافتہ نہیں تھا مگر ان کا علمی توتی آج بھی بولتا ہے اور جتنی دینی کتابیں انھوں نے تحریر کی ہیں اتنی اہل مدرسہ نے نہیں لکھیں۔ مذید برآں کالج اور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل مذھبی اسکالرز اور ڈاکٹر صاحبان کا اپنا ایک اونچا معیار ہے اور حق یہی ہے کہ مدارس کے علماء ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے کیوں کہ عصری علوم کے بغیر دوسری زبانوں کے اہل فن کے تجربات سےفائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
ہمارے علماء اکرام صرف و نحو کو ہی علمی میراج سمجھتے ہیں جبکہ جتنے بھی لوگ بھٹکے ہیں وہ انھی صرف نحو کی بنیاد پر اپنے آپ کو عقل کل سمجھ بیٹھتے ہیں۔

میرے مطابق کوئی شخص جب تک دنیاوی علم حاصل نہ کرے دین کا کامل عالم نہیں ہو سکتا۔
ذرا غور کریں کہ ہمارے مدارس سے فارغ التحصیل علماء میں سے کتنے لوگ ہیں جو انگریزی، فارسی، فرانسیسی یا جرمن زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں؟ اور فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، ٹرگنومیٹری، مٹلرجی اور کمپیوٹر سائینس کا ادراک رکھتے ہیں

الغرض اللہ تعالی نے قرآن مجید کتابی شکل میں اتارا ہے یعنی کتاب کو مرکز بنایا ہے
ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہ ِۚ ۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾
اس کتاب ( کے اللہ کی کتاب ہونے ) میں کوئی شک نہیں  پرہیزگاروں کو راہ دکھانے والی ہے ۔  

قرآن مجید دنیا کی واحد کتاب ہے جو بغیر سمجھے پڑھی جا رہی۔
مقصد نزول قرآن یہ ہے کہ اسکو سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔

1441 سال سے ہم ناظرہ قرآن پڑھکر بس ثواب کما رہے ہیں اسکو ابھی سمجھنا باقی ہے تب کہیں اس پر عمل ہوگا۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا

کہاں سے آئے گی صدا لا الہ الا اللہ

حلقہ شوق میں وہ جرآت اندیشہ کہاں

آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق!

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

احقر الناس
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

تبصرے