جائیں تو جائیں کہاں

جائیں تو جائیں کہاں؟

تحریر:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

جو لوگ دین سمجھے بغیر دین پر عمل کرتے ہیں انھیں کہتے ہیں جاہل لکیر کے فقیر۔

جو لوگ سوچ سمجھ کر دین پر عمل کرتے ہیں انھیں کہتے ہیں بے استادے۔

جو مدارس سے پڑھکر آتے ہیں ان کو کہتے ہیں فرقہ پرست ملاں۔

اگر اعلی تعلیم یافتہ طبقہ دین پڑھکر دین کی روح کو سمجھتے ہوۓ اس پر عمل یا بیان کرے تو اس سے پوچھتے ہیں کہ میاں کس مدرسے سے فارغ التحصیل ہو؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فقط مدارس دینیہ سے ہی دین کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے؟ جبکہ مدارس دینیہ کسی نہ کسی مکتب فکر یا فرقے سے منسلک ہوتے ہیں اور جو کسی فرقے یا مسلک سے منسلک نہ ہوں اور دینی احکامات کو ڈاریکٹ قرآن و حدیث اور سنت سے لیکر من و عن عمل کرتا ہو اس پر غیر مقلد ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے

یوں ایک صاحب بصیرت سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کون سا اسلام قبول کرے اور اسی تذبذب میں کسی نا کسی فرقے کی ٹوکری میں گر جاتا ہے اور پھر اسلام نہیں بلکہ فرقہ پرستی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے کالج اور یونیورسٹی جو اسلامیات کی ڈگریاں دیتے ہیں ان کی کیا والیو ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی فرقے سے جڑنا ضروری ہے؟ مگر قرآن مجید تو فرقہ پرستی کے بڑا خلاف ہے
ارشاد باری تعالی ہے منافقین کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالی ہے کہ جس فرقے کے پاس جو ہے وہ اسی میں خوش ہے۔

کیا آپ اپنی کوئی رائے رکھتے ہیں
آپکے جواب کا انتظار رہے گا

تبصرے