آفات و وبا میں آذان کی شرعی حیثیت
*آفات، وبا میں اذان کی شرعی حیثیت*
جمع وترتیب :
*عثمان بن خالد مرجالوی*
خويدم العلم وأهله
📌اذان نماز کی طرف بلانے کے لیے ہے، مصیبت، آٖفت اور پریشانی، شیاطین کو بھگانے، جادو توڑنے کے لیے اذان کہنا قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔
📌 اس حوالے تین روایات نشر ہو رہی ہیں، جن سے ثابت کیا جا رہا ہے کہ وبا کی صورت میں اذان کہنا مستحب ہے۔
📌 وہ تین روایات مع التحقیق پیش خدمت ہیں:
1⃣ پہلی روایت:
*" إذا أذن في قرية آمنها الله من عذابه ذلك اليوم ".*
❒ مفہوم :
جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ
❒ تخریج:
رواه الطبراني (رقم 746) ، وفي الصغير (رقم 499) ، وفي " الأوسط " (54/2) ، وأبو موسى المديني في " اللطائف " (40/2) عن بكر بن محمد القرشي: حدثنا
عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد عن صفوان بن سليم عن أنس بن مالك مرفوعا. وقال الطبراني:
" لم يروه عن صفوان إلا عبد الرحمن، تفرد به بكر أبو همام ".
❒ حکم:
قال الشيخ الألباني: ولم أجد من ترجمه، وشيخه عبد الرحمن بن سعد ضعيف، كما في " التقريب "
، وبه أعله الهيثمي (1/328) ، ومع ذلك سكت عن الحديث في " التلخيص "(1/208)
2⃣ دوسری روایت:
*" ما أذن في قوم بليل إلا أمنوا العذاب حتى يصبحوا، ولا نهارا إلا أمنوا العذاب حتى يمسوا ".*
❒ تخریج:
" المصنف لابن شيبة" (1/481/1873)
❒ حکم:
قال الألباني: وهذا موقوف ضعيف؛ محمد بن يوسف لا يتابع على حديثه؛ كما قال البخاري، ورفعه حبان بن أغلب بن تميم عن أبيه بسنده عن معقل بن يسار مرفوعا. أخرجه الطبراني (20/215/498) .
وحبان بن أغلب ضعيف، وأبو هـ أشد ضعفا. قال البخاري:
" منكر الحديث ".
◈ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت ضعیف ہے.
3⃣ تیسری روایت:
عن القعقاع بن عمرو قال: شهدت وفاة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فلما صلينا الظهر جاء رجل فقام فى المسجد فأخبر بعضهم بعضا أن الأنصار قد اجتمعوا أن يولوا سعدًا ويتركوا نقول عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فاستوحش المهاجرون من ذلك (ابن جرير)
❒ مفہوم:
جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنت سے ھندوستان میں اترے انہیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اتر کر اذان دی۔
❒ تخریج:
[كنز العمال 14149] وذكره الحافظ فى الإصابة (5/451)
❒ حکم:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب الاصابہ میں ابن السکن کے حوالے سے فرماتے ہیں: اس روایت میں سیف بن عمر ضعیف راوی ہے۔
4⃣ چوتھی روایت :
قال الديلمي: "أنبأنا الشيخ الحافظ أبو جعفر محمد بن الحسن بن محمد وقال: قد جربته فوجدته كذلك، أنبأنا السلمي محمد بن الحسين وقال: قد جربته فوجدته كذلك، أنبأنا عبد الله بن موسى السلامي البغدادي وقال: قد جربته فوجدته كذلك، أنبأنا الفضل بن العباس الكوفي وقال: قد جربته فوجدته كذلك، ثنا الحسين بن هارون الضبي وقال: قد جربته فوجدته كذلك، حدثنا عمر بن حفص بن غياث وقال: قد جربته فوجدته كذلك، ثنا أبي وقال: قد جربته فوجدته كذلك، ثنا جعفر بن محمد وقال: قد جربته فوجدته كذلك، حدثنا علي بن الحسين وقال: قد جربته فوجدته كذلك، ثنا أبي وقال: قد جربته فوجدته كذلك حدثنا علي بن أبي طالب وقال: قد جربته فوجدته كذلك، قال رآني النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "يا ابن أبي طالب أراك حزينا، فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك فإنه دواء للهم".
❒ مفہوم :
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔
❒ تخریج:
كنز العمال: 5000
❒ حکم:
مولانا عبد الجبار سلفی صاحب حفظہ اللہ رقم طراز ہیں:
یہ روایت من گھڑت اور باطل ہے اس میں متعدد ایسے راوی ہیں جع دجال و کذاب اور وضع احادیث میں معروف ہیں مثلا سند کا پہلا راوی ابو عبد الرحمن محمد حسین السلمی ہے جس کے بارے امام محمد بن یوسف قطان فرماتے ہیں یہ صوفیاء کے لیے احادیث گھڑا کرتا تھا (میزان؛ ج:3، ص:523 ) امام ذھبی فرماتے ہیں کہ اس کی کتب میں من گھڑت احادیث و حکایات ہیں ائمہ نے اسے زندیق اور بدظنی قرار دیا ہے (سیر اعلام النبلاء ج:2،ص:274) ابو عبدالرحمن السلمی یہ روایت جس راوی عبد اللہ بن موسی السلمی سے روایت کی ہے وہ بھی کذاب راوی ہے (میزان؛ ج: 2، ص:509)
تبصرے