ایک اسلام چار مسالک میں تقسیم
ایک اسلام چار مسالک میں تقسیم
اسلام دوسری اور تیسری صدی ہجری میں چار گرہوں میں تقسیم ہو گیا تھا
آئمہ اربعہ کے شاگردوں کی علمی بحوث اور کوفہ کی گلی کوچوں میں مناظروں کی گہما گہمی، علمی دھینگا مشتی اورکشتی میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیۓ اپنی تمام تر قوتوں کو بروۓ کار لاتے ہوئے نتائج سے بے خبر امت چار مسالک میں تقسیم کر دی گئی اور اس طرح اسلام کی واحدانیت کا شیرازہ بکھر گیا۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ امت آج تک ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہو سکی اور کفر کے فتوؤں کی فیکٹریوں نے اسلحہ سازی کا کام کیا اور آج ہم ایک دوسرے کو مسلمان کم اور کافر زیادہ گردانتے ہیں۔
درحقیقت اندھی تقلید ایک ایسا ناسور ہے جس نے ہر دور میں مسلم امّہ کے متحد جسم کو تشتت و افتراق سے لاغر و ناتواں کیا ہے۔ جس نے ہمیشہ دین اسلام کے مجلّٰی و مصفّٰی آئینے کو دھندلایا ہے۔ اسی تقلید کی وجہ سے مسلمان آپس میں ہمیشہ سے باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے نظر آئے ہیں۔ یہ تقلید ہی تو تھی جس نے عالم اسلام کو ایک صراط مستقیم کی بجائے نجات کے مختلف راستے دکھائے، اور دیکھتے ہی دیکھتے امتِ مسلمہ کا شیرازہ یوں بکھیرا کہ مسلمانوں کی عظیم الشان ہستی نیستی میں بدلتی محسوس ہونے لگی۔ ایسے میں ایک طرف اگر حنفیت کو عالم گیر نظام حیات قرار دیا گیا تو دوسری طرف شافعیت کو راہِ نجات ٹھہرایا گیا۔ ایک طرف اگر مالکیت کا چرچہ ہوا تو دوسری طرف حنبلیت کو پروان چڑھایا گیا اور اس طرح مسلم دنیا کی تنظیم، تفرقہ بازی کی نظر ہوگئی اور مذہبی، امامی امامی کے پُر تعصب نعروں نے اُمت مسلمہ کے تابناک مستقبل کو تاریکیوں اور اندوہناک ناکامیوں سے دورچار کیا۔
اقبال نے اس پس منظر میں کہا تھا:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
جب اُمتِ مسلمہ کے افراد حنفیت، شافعیت، مالکیت اور حنبلیت سے نا آشنا تھے تب وہ عالمِ کفر پر موت اور انفکاک کی تلوار بن کر لٹکتے تھے۔ ان کے اتحاد اور بے مثل تنظیم کے سامنے باطل سرنگوں تھا، لیکن جب مسلمان مذہبی انتشار و خلفشار کا شکار ہوئے تب وہ چار دانگ عالم میں رسوا بھی ہوئے:
آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
ذرا غور کریں کہ آئمہ اربعہ سے قبل امت کا کیا مذھب تھا؟
وہی دین حق تھا یعنی قرآن و سنت
قرآن و سنت کے مقابلے میں راۓ اور اہل رائے کی کوئی اہمیت نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دین کے مکمل اور بہترین شارع تھے۔
ذرا یاد کرو، کیا کچھ عرصہ پہلے تک حرم مکی میں چاروں آئمہ کے علیحدہ علیحدہ مصلے نہیں تھے؟
اس درجہ ہوۓ فقیہان حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
دین پر ایک لمحے کا غور و فکر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مروجہ اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم والا اسلام قطعا" نہیں ہے اس میں بہت سے علماء سوء اور خود ساختہ سکالرز نے اپنے منطق چسپاں کر دیۓ ہیں اور اسلامی تعلیمات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آئیں صحابہ اکرام کے دین کو کھوجیں اور اس پر عمل کریں تاکہ فلاح پائیں۔
یا اللہ ہمیں دین کی سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عطا کر۔
آمین یا رب العالمین
تحریر:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
تبصرے