سجدہ سہو کے احکام و مسائل

سجدہ سہو، احکام و مسائل

تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک

دوران نماز اگر نمازی سے کچھ بھول چوک ہو جائے اور وہ بھول بھی ایسی ہو کہ نماز کا کوئی رکن نہ چھوٹا ہو مثلاً قیام یا رکوع و سجود ہی نہ چھوٹ جائیں کہ جن کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی اور جن کی ادائیگی کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ۔ بعض دیگر امور میں بھول ہو جائیں تو اس کا ازالہ نماز کے آخر میں دو سجدے کرنے سے ہو جاتا ہے جنہیں ’’سجدئہ سہو‘‘ کہا جاتا ہے۔

نماز کو پوری توجہ سے ادا کرنا اور اِدھر اُدھر کے خیالات سے بچنا باعث فضیلت و اجر ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسان سے بھول چوک ممکن ہے۔ عام انسان تو کجاخیر البشر حضرت محمد سے بھی بعض اوقات نماز میں بھول ہو جایا کرتی تھی جس کاعلم صحیح احادیث میں مذکور متعدد واقعات سے ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم ابو دائود، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے:

’’میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوںاور جس طرح تم بھول جاتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوں لہٰذا جب میں بھول جائوں تو مجھے یاد دہانی کرا دیا کرو۔‘‘

صحیح مسلم میں ارشادِ نبوی ہے:

’’جب کوئی شخص اپنی نماز میں کمی یا زیادتی کر جائے تو اسے چاہئے کہ (نماز کے آخر میں) دو سجدے کرے۔‘‘

سجدۂ سہو کی صورتیں

نماز کے آخر میں سجدئہ سہو کے وقت اور موقع و محل کی تعیین اور اس کے طریقہ سے قبل آئیے دیکھیں کہ سجدئہ سہو کن کن صورتوں میں کیا جائے گا؟

(1) ان میں سے پہلی شکل یہ ہے کہ نمازی بھول کر نماز پوری ہونے سے پہلے ہی سلام پھیر لے اور بعد میں کسی کے بتانے سے پتہ چل جائے کہ نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ ایک رکعت یا کم و بیش باقی ہے،ایسی صورت میں فوراً اُٹھ کر چھوٹی ہوئی نماز مکمل کر کے سجدئہ سہو کرنا چاہئے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ اور دیگر کتب حدیث میں ذوالیدین کے واقعہ والی حدیث معروف ہے جس میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز کی امامت کرائی اور صرف دو رکعتیں پڑھ کر ہی سلام پھیر لیا اور ایک لکڑی کے پاس آ گئے جو کہ مسجد میں رکھی تھی اور اس کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ لوگ جلدی جلدی وہیں پہنچ گئے مگر کسی کو بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک صحابی حضرت ذوالیدین ؓ (جن کا اصل نام حضرت خرباق سُلمی تھا) نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم ہوگئی ہے؟ آپ نے اس بات کی دوسرے صحابہؓ سے تصدیق کرائی اور جب بات واضح ہو گئی کہ صرف دو ہی رکعتیں پڑھی گئی ہیں تو آپ کی جو دو رکعت نماز چھوٹی تھی وہ ادا فرمائی پھر سلام پھیرا‘ پھر سہو کے دو سجدے کئے اور پھر سلام پھیرا۔

(2) سہو کی دوسری صورت یہ ہے کہ نماز کی رکعتیں زیادہ پڑھ لی جائیں جیسا کہ بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ‘ مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے کہ نبی نے ایک مرتبہ نمازِ ظہر کی5 رکعتیں پڑھا دیں۔ آپ سے کہا گیا کہ کیا نماز زیادہ ہوگئی ہے؟ فرمایا: ’’کیا بات ہے؟۔‘‘

صحابہؓ نے بتایا کہ آپنے 5 رکعتیں پڑھی ہیں تو آپ نے سہو کے دو سجدے کئے اور پھر سلام پھیرا۔

(3) سہو کی تیسری شکل یہ ہے کہ نمازی قعدئہ اولیٰ یا تشہد اوّل کیلئے بیٹھنا بھول جائے اور بیٹھنے کی بجائے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے چنانچہ صحاح ستہ و مسند احمد‘ مؤطا امام مالک اور بیہقی میں ہے کہ نبی نمازِ ظہر کی دوسری رکعت کے بعد تشہد پڑھے بغیر (تیسری رکعت کے لئے) کھڑے ہو گئے اور سلام پھیرنے سے پہلے آپ نے سہو کےدو سجدے کیے اور پھر سلام پھیراجبکہ ابو داؤد‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ دارقطنی اور بیہقی میں ارشادِ نبوی ہے:

’’ جب تم میں سے کوئی شخص دوسری رکعت میں قعدہ کئے بغیر کھڑا ہونے لگے لیکن اگر وہ پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے اور کھڑا ہو چکا ہو تو اسے چاہئے کہ پھر نہ بیٹھے بلکہ آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے۔‘‘

(4) سہو کی چوتھی شکل یہ ہے کہ کسی کو اس بات میں شک ہو جائے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس شکل کا ذکر صحیح بخاری و مسلم‘ ابو دائود‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ ابن حبان‘ مستدرک حاکم اور بیہقی میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’ جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کی رکعتوں کی تعداد بھول جائے اور اسے شک ہوجائے کہ نہیں معلوم اس نے 3 رکعتیں پڑھی ہیں یا 4 تو اسے چاہئے کہ اپنا شک دُور کرے اور یقینی بات پر بنیاد رکھ کر نماز پوری کرے،پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے۔
اس طرح اگر اس نے 5 رکعتیں پڑھ لی ہوں گی تو (ان دو سجدوں کی وجہ سے) وہ شفع (جفت یا جوڑی) ہو جائیں گی اور اگر اس نے پوری نماز ہی پڑھی ہو گی تو یہ (دو سجدے) شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں شک زائل اور یقین حاصل کرنے کا طریقہ بھی لکھا ہے۔ ابو دائود‘ ترمذی‘ ابن ماجہ‘ مسند احمد اور بیہقی میں ارشادِ نبوی ہے :

’’ جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں شک ہو جائے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو تو اسے چاہئے کہ اپنی ایک ہی رکعت سمجھے اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین تو اسے چاہئے کہ اپنی دو ہی رکعتیں سمجھے‘ اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھیں یا چار تو اسے چاہئے کہ اپنی تین ہی رکعتیں سمجھے‘ پھر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سجدہ سہو سلام سے پہلے اور بعد دونوں طرح ہی ثابت ہے اور اس بات پر تمام آئمہ و فقہاء کا اتفاق ہے البتہ افضلیت میں اختلاف ہے۔ پھر اسی وجہ سے صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ و فقہاءؒ نے سجدئہ سہو کے وقت کے بارے میں مختلف مذاہب اختیار فرمائے ہیں۔

سجدۂ سہو کا موقع ومقام

علامہ عراقی ؒکی شرح الترمذی سے نقل کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہؒ نے نیل الاوطار میں 10 اقوال بیان کئے ہیں‘ جن میں سے:

٭سہو چاہے کیسا بھی ہو سجدئہ سہو سلام کے بعد ہی کرنا ہوگا۔ متعدد صحابہؓ و تابعینؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ کا یہی مسلک ہے اور ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں سلام کے بعد سجدئہ سہو کا ذکر آیا ہے۔

٭اس سلسلہ میں دوسرا قول یہ ہے کہ سجدئہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہے۔ یہ بھی متعدد صحابہ کرام ‘ اکثر فقہائے مدینہ‘ علمائے حدیث اور امام شافعی کا قول (جدید) ہے اور ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جن میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدئہ سہو کا ذکر آیا ہے۔

٭اس مسئلہ میں تیسرا قول یہ ہے کہ جہاں نماز میں کمی ہو وہاں سلام پھیرنے سے پہلے اور جہاں نماز میں زیادتی ہو وہاں سلام کے بعد سجدئہ سہو کیا جائے گا۔یہ امام مالک‘ مزنی‘ ابو ثور اور ایک قول کے مطابق امام شافعی کا مسلک ہے۔ علامہ ابن عبدالبر ؒ فرماتے ہیں کہ اس طرح دونوں قسم کی احادیث پر اُن کے موقع و محل کے مطابق عمل ہو جائیگا اور کسی حدیث کے منسوخ ہونے کے دعویٰ کی بھی ضرورت پیش نہیں آئیگی اور علامہ ابن العربی رحمہ اللہؒ نے اس مسلک کو بہت سراہا ۔

٭اس موضوع میں چوتھا قول یہ ہے کہ جس جس موقع پر سلام سے پہلے یا سلام کے بعد سجدئہ سہو حدیث میں ثابت ہے وہاں اسی طرح ہی سجدہ کیا جائے گا اور سہو کی جس شکل کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں وہاں صرف سلام سے پہلے ہی سجدئہ سہو کیا جائے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہؒ کا مسلک ہے۔

٭پانچواں قول یہ ہے کہ جس موقع پر سجدئہ سہو حدیث سے ثابت ہے وہاں اسی طرح ہی سجدہ کیا جائے گا اور جہاں کوئی حدیث ثابت نہیں وہاں نماز میں کمی کے وقت سلام سے پہلے اور زیادتی کے وقت سلام پھیرنے کے بعد سجدئہ سہو کیا جائے گا۔ یہ امام اسحاق بن راہویہؒ کا مسلک ہے۔

٭اس سلسلہ میں چھٹا قول یہ ہے کہ نماز میں شک ہو جانے کی شکل میں اگر ظنِ غالب پر اعتماد کر کے نماز مکمل کر لے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد سجدئہ سہو کرے اور اگر اس شکل میں کم مقدار پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کرے تو وہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کر لے۔ یہ ابو حاتم ابن حبان ؒ کا مسلک ہے۔

٭ساتواں قول یہ ہے کہ بھولنے والے کو اختیار ہے کہ نماز میں کمی ہو یا زیادتی وہ اپنی مرضی سے چاہے تو سلام سے پہلے سجدئہ سہو کر لے یا بعد میں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک روایت کے مطابق یہ حضرت علی اور ایک قول کے مطابق امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔

٭آٹھواں قول یہ ہے کہ صرف2شکلوں کے سوا ہر شکل میں سلام پھیرنے کے بعد ہی سجدئہ سہو کیا جائے گا اور اُن 2 شکلوں میں نمازی کو سلام سے پہلے یا بعد سجدہ سہو کا اختیار ہے۔ پہلی شکل وہ ہے جب نمازی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھے بغیر ہی تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہو جائے اور دوسری شکل وہ ہے جب نمازی کو رکعتوں کی تعداد میں شک ہو جائے۔ یہ ظاہریہ اور علامہ ابن حزمؒ کا مسلک ہے۔

٭سجدہ سہو کے مقام و موقع کی تعیین کے سلسلہ میں معروف محقق و مجتہد امام شوکانی ؒلکھتے ہیں کہ سب سے عمدہ بات تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال و افعال کے تقاضے کے مطابق ہی سلام سے پہلے یا بعد سجدہ سہو کیا جائے۔ جن شکلوں میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنے کی قید ہے وہاں پہلے اور جہاں بعد کی ہے وہاں بعد میں کیا جائے اور جہاں ایسی کوئی قید آپ کے کسی قول و فعل سے ثابت نہیں وہاں کمی یا زیادتی ہر شکل میں ہی نمازی کو اختیار ہے کہ پہلے کرے یا بعد میں کیونکہ صحیح مسلم شریف میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مطلق ہے:

’’جب انسان اپنی نماز میں کمی یا زیادتی کر جائے تو اسے چاہئے کہ سہو کے دو سجدے کر لے۔‘‘

٭المرعاۃ شرح المشکوٰۃ میں امام ابو داؤد ظاہری کا مسلک یہ لکھا گیا ہے کہ سجدہ سہو صرف انہی چند شکلوں میں ہے جن میں احادیث سے ثابت ہے، دیگر کسی بھول پر سجدہ سہو نہیں اور علامہ عبیداللہ رحمانی نے سب سے راجح مسلک اسے قرار دیا ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ کر لے یا بعد میں۔

بہرحال یہ سب اقوال محض اوّلیت و افضلیت کے بارے میں ہیں البتہ جواز کی حد تک اس بات پر سب ائمہ کا اتفاق ہے کہ سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے کر لے یا بعد میں۔

سجدۂ سہو کا طریقہ

اب رہا سجدہ سہو کا طریقہ تو وہ یوں ہے کہ اگر سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے ہو تو آخری تشہد‘ درود اور دعاء کے بعد دو سجدے کئے جائیں جبکہ سجدہ جاتے اور اس سے اٹھتے وقت اللہ اکبر کہا جائے اور پھر دونوں طرف سلام پھیر لیاجائے جیسا کہ سہو کی چوتھی شکل کے ضمن میں گزرا ہے۔ اگر سجدہ سہو سلام کے بعد ہو تو آخری رکعت میں تشہد‘ درود شریف اور دعاء کے بعد دونوں طرف سلام پھیر لیں پھر سہو کے دو سجدے کریں اور دوبارہ سلام پھیر لیں جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم‘ سنن اربعہ اور دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے جس کا ذکر سہو کی پہلی شکل کے ضمن میں گزرا ہے۔

آج کل جو طریقہ عموماً مروّج ہے کہ ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو اور پھر تشہد اور پھر دونوں طرف سلام پھیرا جاتا ہے یہ طریقہ بھی کثیر فقہاء و علماء اور ائمہ کا اختیار فرمودہ ہے اور ان کا استدلال ابو دائود و ترمذی کی ایک روایت سے ہے جسے بعض محدثینِ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے البتہ تعد ّدِ طرق کی بناء پر کبار محدثین نے ہی اسے حسن بھی قرار دیا ہے۔

لیکن صرف ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو کرنے کا طریقہ کس حدیث سے لیا گیا ہے وہ ہماری نظر سے نہیں گزری۔ وہ غالباً محض اجتہاد کی بنیاد پر ہے جبکہ دونوں طرف سلام پھیرنا ہی اصل اور معروف ہے جبکہ صحیح بخاری شریف کے ترجمۃ الباب میں حضرت انس‘ حسن اور قتادہ ؓسے تشہد نہ پڑھنے کا ذکر منقول ہے۔

ان دونوں طرح کی روایات کے پیش نظر صاحبِ محلی اور مرعاۃ نے راجح اسے ہی قرار دیا ہے کہ اگر کوئی چاہے تو سجدہ سہو کے بعد دوبارہ تشہد نہ پڑھے اور اگر چاہے تو پڑھ لے۔

سجدۂ سہو کی تسبیحات

سہو کے دونوں سجدوں میں بھی عام نماز کے سجدوں کی طرح ہی سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلٰی ہی پڑھنا ضروری ہے کیونکہ ارشادِ نبوی ہے:

’’اس تسبیح کو سجدوں میں پڑھا کرو۔‘‘

مسبوق کا سجدہ کب؟

اگر امام سے بھول ہوئی ہو تو مقتدی بھی سجدہ سہو کریں البتہ جو شخص بعد میں شامل ہوا ہو وہ امام کے سلام سے پہلے سجدہ کرنے کی شکل میں تو سجدے کرے لیکن اگر سلام کے بعد سجدہ سہو ہو تو وہ امام کے ساتھ سجدہ نہ کرے بلکہ امام کے سلام پھیرتے ہی کھڑا ہو جائے اور نماز مکمل کرے پھر سجدہ سہو کر لے۔

سجدہ سہو بھول جانا

اگر کوئی شخص سجدہ سہو بھول جائے اور سلام پھیر کر اگلی نماز شروع کر دے تو وہ سلام پھیرنے کے بعد الگ سے سہو کے دو سجدے کر لے لیکن اگر سجدہ سہو میں طویل تاخیر ہو جائے تو پھر سجدہ سہو نہ کرے۔

جبکہ امام اثرم سے مروی ہے کہ اگر کسی معمولی معاملہ میں سہو ہوا ہو تو پھر سجدہ سہو نہ کرنے پر بھی کوئی مضائقہ نہیں۔

تبصرے