میرا ماضی، میرا حال

میرا ماضی، میرا حال
(میں ہوں نذیر ملک)

عمر گزری ہے اپنوں کی خدمت و مداحی میں

دنیا داروں سے صلہ کی کیا امید

انصاف تو فقط آخرت میں رب کے ہاں ہو گا

ماں تؤ میری وفا کی ضامن تھی، باپ تھا میرا قدرداں

جب سے بڑے بزرگ چلے گئے میں اپنے آپ کو اکیلا پاتا ہوں

میں والدین کا سہارا تھا اور وہ میرے ہمدرد

میں وہ ہوں جس نے دن رات محنت کرکے ہمیشہ والدین اور اپنوں کو سہارا دیا

مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنے بچوں اور اپنے والدین کے بچوں کو منہ کا نوالہ دیا

میں نے اپنے فرض بھی نبھاۓ اور والدین کی ذمہ داریاں بھی
 
مگر افسوس کہ میرا چھوِٹا بے وفا نکلا اور بڑا مال و متاع کا غاصب

 جبکہ بڑے کی کامیابی کی بنیادیں میری ہی مرہون منت تھیں

 مگر افسوس کہ وہ احسان فراموش نکلا اور اپنوں کو ہی بھلا بیٹھا

ماں باپ میرے قدر دان اور وجیلنٹ تھے مگر میں اپنوں کی محبت میں سرشار تھا
 
اے میرے برادران یاد کرو کبھی میں پہچان تھا تمہاری

آج تم اپنے مال و زر میں اعترا تو رہے ہو

مگر سوچو کیا تمہارا رؤاں رؤاں میرا قرضدار نہیں؟

حقیقتا" تمہاری بنیادوں میں میری محنت کا پسینہ ہے

مشکل وقت آج تمہارا گزر گیا اب تم اعتراتے ہو اور میرے احسانات بھول بیٹھے؟

میری ماں یاد تیری آتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے

تم ہوتے تو شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا

احسانات میرے آج چھوٹے بڑے سب فراموش کر بیٹھے

جن کے زخموں کا  میں مرحم ہوا کرتا تھا

وہ سب آج میرے زخم و ناسور بنے بیٹھےہیں

نشتر چبھوتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں

جو کچھ ان کو دیا
وہ سب انھوں نے ہضم کیا

 میرے مال و اسباب زر جائیداد پر قبضہ کر کے حساب سے انکار کۓ بیٹھے ہیں

کسی نے کیوں نہ مجھ سے انصاف کیا؟

اب تو محشر پر امید لگاۓ بیٹھا ہوں

 بس اب تو میرا محشر کے اجر پر بھرسہ ہے

تقیہ تھا جن پے وہی پتے ہوا دینے لگے

اب تو باد صبا کا ٹھنڈا جھونکا کہیں سے نہیں آتا

اب تو سرشام لو کے تھپیڑے باقی ہیں 

دنیاوی زندگی تو گزر ہی جاۓ گی

آخرت میں حساب کیسے دے پاؤ گے

حشر محشر پہ نہیں 
موقوف

زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہےمیرا

تبصرے