ایک محب الوطن عام آدمی کی آواز
وطن عزیز ترقی کی راہ پر یا تباہی کے دھانے پر
یہ تو آنے والا وقت بتلاۓ گا کہ میرے وطن کو تباہ و برباد کس نے کیا۔
کیا اس حکومت کے دور میں کوئی ترقی ہوئی ہے یا ہو رہی ہے؟
اتنا تو آپ کو بھی نظر آ رہا ہو گا کہ جو بھی ترقی نظر آ رہی ہے وہ پچھلے ادوار کی مرہون منت ہے۔
ملک کی معاشیات کو تباہ کر کے اب موجودہ حکومت " کرونا " کے پیچھے چھپ رہی ہے
یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف ایک بزنس مین تھا اس نے اپنے دور میں فیکٹریاں لگائیں اور خوب منافع کمایا کیا یہ کارخانے پاکستان میں نہیں لگے اور کیا یہ سڑکیں پاکستان میں نہیں بنیں؟
کاروبار کا اصول ہے کہ سرمایا دار اپنا سرمایا اپنے منافع کے لئے لگاتا ہے۔ جب کسی ملک میں کارخانے لگتے ہیں تو مزدوروں کو روزگار ملتا ہے۔ کاروبار سے بہت سے تاجر منسلک ہو کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
کیا ملکی ترقی اسی کا نام نہیں؟
میں ایک مثال دیتا ہوں
ایوب خان کے دور میں گوہر ایوب صاحب نے بنک سے کچھ قرض لیا اور قندھارا انڈسٹری کے نام سے کراچی میں بیڈ فورڈ ٹرک اور بسوں کا اسمبلی پلانٹ لگایا اور کچھ سالوں کے بعد اس نے لیا ہوا قرضہ بنک کو واپس کر دیا اور قندھارا انڈسٹریز گوہر ایوب کی ہو گئ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہے کہ کیا یہ کرپشن تھی؟
یا یہ ملک سے غداری تھی
یا یہ بے ایمانی تھی؟
قطعا" نہیں
یہ بزنس تھا جو گوہر ایوب نے کیا اور کامیاب ہو گیا۔
اے عقل و دانش والے لوگو!
موجودہ ملکی حالات پر غور کیوں نہیں کرتے۔
کیا غریب مہنگائی کی چکی میں نہیں پس رہا؟
کیا سب کاروبار ٹھپ نہیں ہو گۓ؟
کیا خورد و نوش کی اشیاء بے تحاشہ مہنگی، گیس بجلی اور ادویات اپنی مہنگی ترین سطح پر نہیں پہنچ گئیں؟
عمران خان حکومت کی ٹیم کے اکثر ممبر غیر ملکی اور غیر الیکٹڈ ہیں یہ غیر ملکوں میں رہتے ہیں انھیں پاکستان سے کیا دلچسپی؟
ڈوبے یا ترے۔
جب یہ حکومت ختم ہو جاۓ تو یہ اپنا بستہ لپیٹ کر اپنے اپنے ملک لوٹ جائیں گے۔
پھنس تو گۓ ہم متوسط طبقہ کے پاکستان میں بسنے والے لوگ کیونکہ ہمارا مرنا جینا یہیں ہے
ایک پاکستانی غیر سیاسی محب الوطن کی دل کی آواز۔
تبصرے