نومولود بچے اٹھا کر بیچنے والے گروہ

نو مولود بچے اٹھا کر بیچنے والے گروہ

تحریر و تحقیق:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

لاہور پولیس نے حال ہی میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت پکڑی جو اسپتالوں سے نومولود بچے اٹھا کر بیچتی تھی اسکے ساتھ اس کا میاں بھی شامل تھا اور یہ لوگ پچیس سے چالیس ہزار روپۓ میں بچہ آگے کسی منظم گروہ کو بیچتے تھے اور نہ جانے اس طرح کے کتنے نا عاقبت اندیش لوگ اس گھناونے جرم میں ملوث ہیں، کتنے تو پکڑے جاتے ہیں اور اکثر پولیس کے ہتھے چڑھتے ہی نہیں ہیں اور نہ جانیں کتنی ماؤں کی گود اجاڑ رہے ہیں۔

اس گھناونے جرم کے کئی پہلو ہیں جیسے اسپتالوں کی نرسری کی ناقص حفاظت، عملے کی غفلت یا ملوث، بچے والوں کی غفلت، پکڑے جانے والے مجرموں کو سزا کا نہ ملنا، والدین اور نومولود کی باقی زندگی، ماؤں کا ساری عمر تڑپنا اور نہ جانے کون کون سی کہانیوں کا جنم لینا۔

یہ سب کچھ اور اسی نظیر کے دوسرے نت نۓ جرائم اب اتنے کیوں کیوں بڑھ گۓ ہیں۔

بڑے غور و خوذ کے بعد کچھ انکشافات ہوۓ ہیں۔ آیۓ ان پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ ان جرائم اور مجرموں کا سدباب کرنے میں مدد اور رہنمائی مل سکے

انسان کو جب چھوٹے گناہ پر سزا نہیں ملتی تو اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور دھیرے دھیرے انسان مجرم بن جاتا ہے اور اس کا ضمیر مر جاتا ہے جس پر اسکو گناہ کرنا برا ہی نہیں لگتا۔
اور جب گناہ کرنے پر ڈٹھائی آجاۓ تو خوف خدا ختم ہو جاتا ہے اور جب خوف خدا ختم ہو جاتا ہے تو جذا سزا سے یقین اٹھ جاتا ہے تو اللہ تعالی بھی اسکے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور انسان حیوانیت کے درجے سے بھی گر جاتا ہے آخر کار یہ ظالم شیطان بن جاتا ہے اور اسے آخرت کی سزائیں بھی جھوٹ لگنے لگتی ہیں۔ اب یہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسے دنیاوی سزاؤں سے بچتا رہا ہے اسی طرح ہلکی پھلکی سزا کے بعد آخرت میں بھی چھٹکارا مل ہی جاۓ گا۔

جب یہ کیفیت آجاۓ تو اسے مرنے سے بھی ڈر نہیں لگتا اور یہ نڈر ہو کر ہر قسم کے گناہ کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے بس پیسے اور برائی کے چسکے کا بچاری ہو جاتا ہے اور اسکے اندر رحم کا مادہ مفقود ہو جاتا ہے۔

اس مقام پر اللہ تعالی بھی اسکی رسی دراز کرتا چلا جاتا ہے اور آخر کار ایک دن اللہ تعالی کی پکڑ میں آجاتا ہے اور اللہ تعالی کی سزا سے اسے اب کوئی نہیں بچا سکتا۔

اب توبہ سے بات بہت آگے چلی جا چکی ہوتی ہے۔ یاد رہے یہ جرائم توبہ سے بھی معاف نہیں ہوتے اور ان گناہوں کی آخرت میں سزا پوری کرنی پڑے گی چاہے انکی کھالوں کو ستر دفعہ ہی کیوں نہ بدلنا پڑے (غیر جلودھا سبعین مرہ) ان کی کھالوں کو ستر دفعہ بدل دیا جاۓ گا (القرآن) تاکہ سزا پوری کی جا سکے۔

نہ دیکھ دیر گیری کو اسکی
کہ سخت ہے گرفت اسکی


انسان کے مجرم بننے کی ممکنہ وجوہات۔

احساس کمتری
احساس محرومی
مجرمانہ ماحول
حق تلفی
نشہ کی لت
مجرمانہ ذہنیت
انتہائی غربت یا امارت
انصاف کا نہ ملنا
ظلم کا تختہ مشق رہنا

لوگو ڈرو آخرت کی سزا سے۔ دنیا میں سزا سے بچنے کے درجنوں فارمولے ہیں جیسے رشوت، شفارش، چوکس وکیل، راشی جج، کمزور قانوں اور جھوٹے گواہ، راشی پولیس وغیرہ وغیر۔

مگر آخرت میں ان میں سے کوئی بھی چور دروازہ نہ ہو گا بس انصاف، انصاف اور انصاف۔
ذرا سوچو جج بھی اس کائینات کا رب ہو گا جوکہ عالم الغیب، شاھد و بصیر

مجرموں ایک لمہے کے لئے اپنا محاسبہ کر کے سوچو اور اپنے آپ کو مظلوم کی جگہ رکھ کر سوچیں اور پھر سوچیں۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جاۓ میری بات۔

یا مجرمین
موت سے قبل اپنا محاسبہ کرو اور جرم والی زندگی کو خیرباد کہہ دو۔ جس جس کا حق مارا ہے اسے اس کا حق ادا کرو اور کردہ گناہوں کی توبہ کرو شاید اللہ تعالی تمہیں بخش دے۔

تحریر و تحقیق:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

Please visit us at www.nazirmalik. com

تبصرے