دعاء قنوت واجب یا سنت کی بحث پر فتاوی

دعائے قنوت بھول جانے پر سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں۔

سوال۔
 میں کبھی کبھار گھر میں وتر کی نماز پڑھتا ہوں کیا یہ صحیح ہے اور کبھی کبھار اس میں دعاء قنوت پڑھنا بھول جاتا ہوں تو کیا مجھے آخر میں سجدہ سہو کرنے کی ضرورت ہے؟

جواب:
وتر کی نماز مسجد اور گھر کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں ، یہ رات کی آخری نماز ہے اور اس میں دعائے قنوت بھول جانے پر سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ واجب نہیں سنت ہے اورنماز میں سنت چھوٹ جانے پر سجدہ سہو نہیں ہے

فتوی
شیخ مقبول احمد
اسلامی دعوة سنٹر طائف سعودی عرب

الدعاء۔
اے اللہ تعالی اپنی مخلوق کو کرونا کے موذی وائرس سے بچا لے۔

اَللّٰھُمَّ عَافِنِی فِی بَدَنِی اَللّٰھُمَّ عَافِنِی فِی سَمعِی اَللّٰھُمَّ عَافِنِی فِی بَصَرِی لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنتَ۔

ترجمہ
اے اللہ میرے جسم کو عافیت دے۔
اے اللہ میرے کانوں کو عافیت دے۔
اے اللہ میری آنکھوں کو عافیت دے۔
تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں(روی ابوداؤد:۳/۳۵۹

آمین یا رب العالمین

طالب الدعاء
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com


محترم انجینئر صاحب کو چاھیئے کہ سعودی علماء کے مسئلے یہاں مت پھیلائیں ، یہ اختلافی مسائل کا فورم نہیں ھے ، کسی کو بھی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاھیئے ، اپنی فیلڈ میں رھنا اور اس میں کام کرنا اچھا ھوتاھے ۔ 
جب سعودی حضرات جو کہ فقہ حبنلی کو فالو کرتے ھیں ان کے نزدیک وتر ہی واجب نہیں تو ان کی قضاء کیسے واجب ھوگی ، اور ان کے نزدیک وتر میں جب قنوت ہی واجب نہیں تو دعاء قنوت نہ پڑھنے کی وجہ سے وتر کا اعادہ کیونکر واجب ھوگا ۔ 
انجینئر صاحب اس کے متعلق کیا فرمائیں ھے ؟


كيا وتروں كى دعاء واجب ہے اور اگر ياد نہ ہو تو كيا پڑھے ؟

 15-02-2010
    
 سوال 9061
مجھے دعائيں ياد كرنے ميں مشكل پيش آتى ہے، مثلا وتر كى دعا، ميں اس كے بدلے وتر ميں كوئى سورۃ پڑھتا كرتا تھا، ليكن جب مجھے يہ علم ہوا كہ يہ فرض ہے تو ميں نے اسے ياد كرنے كى كوشش كى اور نماز ميں كتاب سے ديكھ كر پڑھنى شروع كر دى اور يہ كتاب ميرى ايك جانب ميز پر ركھى ہوتى تھى اور ميرا رخ قبل كى طرف ہى رہتا ہے تو كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
نماز کا طریقہ

جواب کا متن
الحمد للہ.

1 - نماز وتر ميں وتروں كى دعاء كتاب يا ورقہ سے ديكھ كر پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں، حتى كہ آپ اسے ياد كر ليں اور ياد كرنے كے بعد اسے زبانى ہى پڑھا كريں، اسى طرح جو حافظ نہ ہو اس كے ليے نفلى نماز ميں قرآن مجيد سے ديكھ كر قرآن پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے نماز تراويح ميں قرآن مجيد ديكھ كر پڑھنے كے حكم اور كتاب و سنت ميں اس كى دليل كے متعلق دريافت كيا گيا ؟

تو ان كا جواب تھا:

رمضان المبارك كے قيام ميں قرآن مجيد ديكھ كر قرآت كرنے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ ايسا كرنے ميں مقتديوں كو سارا قرآن سنايا جا سكتا ہے، اور اس ليے بھى كہ كتاب و سنت كے شرعى دلائل نماز ميں قرآن مجيد كى قرآت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ دلائل قرآت ميں عام ہے چاہے وہ قرآن مجيد ديكھ كر كى جائى يا زبانى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ثابت ہے كہ انہوں نے اپنے غلام ذكوان كو حكم ديا كہ وہ رمضان كا قيام كروائيں اور وہ قرآن مجيد سے ديكھ كر قرآت كرتے تھے، امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے اسے تعليقا اور بالجزم روايت كيا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 155 ).

2 - دعاء قنوت ميں يہ واجب نہيں وہ بعينہ انہى الفاظ ميں كى جائے بلكہ نماز كے ليے اس كے علاوہ دوسرے الفاظ يا اس ميں كمى و زيادتى كرنى جائز ہے، بلكہ اس نے كوئى ايسى آيت پڑھ لى جس ميں دعاء ہو تو مقصد پورا ہو جائے گا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ صحيح مذہب كے مطابق قنوت ميں كوئى دعا متعين نہيں، اس ليے كوئى بھى دعاء كر لى جائے تو قنوت ہو جائے گى، چاہے قرآن مجيد كى ايك يا كئى آيات پڑھ لى جائے جو دعا پر مشتمل ہو تو قنوت ہو جائے گى، ليكن افضل يہ ہے كہ وہ دعاء پڑھى جائے جو سنت ميں وارد ہے.

ديكھيں: الاذكار النوويۃ ( 50 ).

3 - اور سائل كرنے والے بھائى نے جو يہ بيان كيا ہے كہ وہ دعاء قنوت كے بدلے قرآن كى تلاوت كرتا تھا، بلاشك ايسا نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ قنوت كا مقصد دعاء ہے، اسى ليے اگر يہ آيات دعاء پر مشتمل ہو تو اس كى قرآت كر كے قنوت كرنا جائے ہے:

مثلا فرمان بارى تعالى:

 ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذا هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب 

اے ہمارے رب ہميں ہدايت نصيب كرنے كے بعد ہمارے دلوں ميں كجى پيدا نہ كرنا، اور اپنى جانب سے ہم پر رحمت فرما بلا شبہ تو ہى ہبہ كرنے والا ہے. آل عمران ( 8 )

4 - اور سائل كا يہ كہنا كہ قنوت فرض ہے، يہ صحيح نہيں بلكہ قنوت سنت ہے، اس ليے اگر كوئى شخص قنوت نہيں كرتا تو اس كى نماز صحيح ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

رمضان المبارك ميں رات كے قيام ميں نماز وتر ميں دعاء قنوت كرنے كا حكم كيا ہے، اور كيا اسے چھوڑنا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

نماز وتر ميں دعاء قنوت سنت ہے، اور اگر بعض اوقات نہ بھى كى جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

اور يہ بھى سوال كيا گيا:

ہر رات وتر ميں مسلسل قنوت كرنے والے كے متعلق كيا حكم ہے، اور كيا يہ سلف صالحين سے منقول ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ سنت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب حسين بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو وتر كى دعا سكھائى تو انہيں بعض اوقات ترك كرنے كا حكم نہيں ديا اور نہ ہى مسلسل كرنے كا حكم ديا، جو كہ دونوں كام كرنے كے جواز كى دليل ہے.

اور اسى ليے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ جب وہ صحابہ كرام كو مسجد نبوى ميں نماز پڑھايا كرتے تھے تو بعض اوقات اور راتوں كو وتر ميں قنوت نہيں كرتے تھے، اور ہو سكتا ہے يہ اس ليے تھا كہ لوگوں كو يہ معلوم ہو جائے كہ يہ فرض اور واجب نہيں.

اللہ تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 159 ).

واللہ اعلم .

السلام علیکم
اگر انسان نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنا بھول گیا اور سجدے میں چلا گیا تو کیا اس پر سجدہ سہو ہے یا اسکو اپنی نماز وتر دھرانا پڑے گی۔
والسلام

Sent from my SM-G925F using Tapatalk
اسحاق سلفی
اسحاق سلفی
فعال رکن رکن انتظامیہ
اگست 31، 2017
#2
aamirrafiq نے کہا ہے:
السلام علیکم
اگر انسان نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنا بھول گیا اور سجدے میں چلا گیا تو کیا اس پر سجدہ سہو ہے یا اسکو اپنی نماز وتر دھرانا پڑے گی۔
والسلام
Sent from my SM-G925F using Tapatalk
Click to expand...ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر وتر میں دعائے قنوت بھول جائے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر وتر میں دعائے قنوت بھول جائے اور تشہد پڑھنے کےوقت یاد آئے تو اس حال میں کیا کرے۔ ؟​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال​

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دعائے قنوت محدثین کے نزدیک فرض واجب یا سنت موکدہ نہیں اس لئے اس کے ترک پر کوئی مواخذہ نہیں واللہ اعلم (19 مئی 33ء؁)
تشریح

دعائے قنوت وتر میں پڑھنی ضروری نہیں ہے۔ نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں اس کے وجوب پر کوئی شرعی دلیل قائم نہیں ہے۔ اور ا یجاب کا حق اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ البتہ قصدا اس کا ترک کردینا ٹھیک نہیں ہے۔ وتر ادا ہوجائے گا لیکن وہ بات نہیں حاصل ہوگی جو دعا کے ساتھ ادا کرنے میں ہوگی۔ حنفیہ وجوب دعا قنوت وتر کے قائل ہیں۔ صاحب ہدایہ نے ایک بے سند و بے ثبوت و بے اصل روایت پیش کردی ہے۔ (حضرت مولانا عبید اللہ صاحب۔ شیخ الحدیث مبارکپوری۔ مرسلہ مولانا عبد الروف صاحب جھنڈے نگری۔ )

فتاویٰ ثنائیہ​

جلد 01 ص555​

محدث فتویٰ​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ
کا بھی یہی فتوی ہے کہ دعاءِ قنوت پڑھنا واجب ،فرض نہیں ، بلکہ مستحب ہے اسلئے اسکے بھولنے پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا ، بلکہ اگر کسی وقت عمداً بھی ترک کردے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
سوال :
ما حكم من نسي دعاء القنوت في صلاة الوتر وسجد قبل أن يدعو به، وهل يجبره سجود السهو؟
__________________
جواب :
ليس عليه شيء من نسي قنوت الوتر فلا شيء عليه ولا يلزمه سجود السهو فإن سجد فلا بأس، ولكن لا يلزمه؛ لأن قنوت الوتر مستحب وليس بواجب، وإذا تركه بعض الأحيان عمداً فلا بأس كما فعله الصحابة - رضي الله عنهم - فالأمر في هذا واسع والحمد لله.
http://www.binbaz.org.sa/noor/11145​
اسحاق سلفی
اسحاق سلفی
فعال رکن رکن انتظامیہ
اگست 31، 2017
#3
معروف مستند مفتی شیخ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ اسی سوال کے جواب فتویٰ دیتے ہیں کہ :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭وتروں میں دعائے قنوت پڑھنا مسنون ہے اگر رہ جائے تو وتر ہوجاتے ہیں انہیں دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ،جیسا کہ حضرت ابن عمر،حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت عروہ بن زبیرؓ ،امام مالکؒ سے ایسی روایات ملتی ہیں ،کہ وہ وتروں میں دعائے قنوت نہیں کرتے تھے۔ (مختصر قیام اللیل،ص:۲۲۷)
حضرت امام اوزاعی ؒ فرماتے ہیں کہ قنوت چھوڑدینا ایک سنت کا ترک ہے ، جس پر سجدہ سہو ضروری نہیں ہے،البتہ حضرت حسن بصری،ابن ابی لیلیٰ،حماد اور سفیانؒ فرماتےہیں کہ اگر وتروں میں دعائے قنوت رہ جائے تو سجدہ سہو سے تلافی ہوسکےگی۔ (مختصر قیام اللیل ،ص:۲۴۲)
صحابہ کرامؓ کےتعامل کے پیش نظر ہمارا یہ رحجان ہے کہ وتروں میں قنوت کرنا مستحب اور بہتر ہے اگر رہ جائے تو وتر ہوجائیں گے سجدہ سہوکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭وتروں کے بعد دورکعت پڑھنا مسنون ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا عمل مبارک ہے۔حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ وتر کے بعد دورکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ (مسند امام احمد،ص:۹۸،ج۶)
حضرت عائشہ ؓ کی روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہﷺ وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر ادا کرتے اور جب رکوع کرناہوتا تو کھڑے ہوجاتے۔ (ابن ماجہ،الصلوٰۃ:۱۱۹۶)
رسول اللہﷺ نے امت کو ان کے ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔آپ نے فرمایا کہ ‘‘یہ سفر گرانی اور مشقت کا باعث ہے،اس لئے وتر کے بعد دورکعت پڑھ لی جائیں ،اگر صبح کی نماز تہجد کےلئے بیدار ہوجائے تو بہتر بصورت دیگر اس کےلئے یہی دورکعات کافی ہیں۔’’(صحیح ابن خزیمہ،ص:۱۵۹،ج۲)
اگرچہ بعض روایات میں وتر کو رات کی آخری نماز قرار دیا گیا ہے،جیسا کہ حضرت ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘وتر کو تم اپنی رات کی آخری نما ز بناؤ۔’’(صحیح بخاری،الوتر:۹۹۸)
لیکن مندرجہ بالا آپ کا عمل مبارک اور حکم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حکم محض استحباب کےلئے ہے وجوب کےلیے نہیں ۔ اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ وتر کے بعد دورکعت پڑھناامت کےلئے استحباب کے درجہ میں ہے ،البتہ انہیں بیٹھ کر ادا کرنا رسول اللہﷺ کا خاصہ ہے،جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ انہیں رسول اللہﷺ کی اس حدیث کا علم ہوا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی نسبت نصف ثواب ملتا ہے،چنانچہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے،ا س پر انہوں نے تعجب کیا ہے اور عرض کیا کہ مجھے تو آپ کی فلاں بات پہنچی ہے اس پر آپ نے فرمایا :‘‘میں آپ کی طرح نہیں ہوں۔’’(صحیح مسلم،المسافرین:۷۳۵)
اس سے معلوم ہوا کہ آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھنے سےبھی پورا ثواب ملتا ہے، اس کے باوجود آپ صرف قراءت بیٹھ کر کرتے تھے رکوع کرنے سے پہلے کھڑے ہوجاتے تھے جو حضرات وتروں کے بعد مکمل دورکعت بیٹھ کر ادا کرتے ہیں ان کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث​

ج2ص176​

محدث فتویٰ





[11/01 10:42 am] +92 323 7277438: آپ شیخ بن باز کے مقلد ھیں ، نام قرآن وسنت کا اور مخالفت امام ابو حنیفہ کی اور باتیں بن باز کی ۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی
[11/01 4:12 pm] Engr. Nazir Malik: السلام علیکم و رحمۃ

نبی کریم کا قول مبارک ہے کہ جس کا اخلاق اچھا اس کا ایمان اچھا

برادرم
مجھے شرم کیوں آۓ گی مجھے تو فخر ہے کہ میں  اللہ تعالی کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم احادیث کے حوالاجات سے بات کر رہا ہوں بیشک شرم تو انھیں آنی چاہیۓ جو اللہ اور اسکے رسول کے مقابلہ میں کسی اور کا قول نقل کرتے ہیں۔

اگر جواب بنتا ہے تو کتاب و سنت اور احادیث نبوی سے دلائل کی روشنی میں بات کریں۔ 

وگرنہ نہ اپنا وقت ضائع کریں اور نہ ہی میرے کام کا حرج کریں۔

غلطی سے میں آپکو اہل علم سمجھ بیٹھا تھا اور وقت لگا کر اتنا مدلل جواب بھیجا۔

میری ایک بات پر غور کر لینا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اسلام مکہ مدینہ میں  تشریف لاۓ تھے اور قرآن مجید بھی وہیں نازل ہوا تھا 
مجھے افسوس ہے کہ آج حرمین الشریفین کے علماء اکرام اور ان کے فتاوی کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی۔

عالم دین کسی بھی ملک کا ہو وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے۔ علماء اکرام کی عزت کریں کیونکہ یہ ممبر و محراب کے رکھوالے ہیں۔

برخوردار
 الحمدللہ میں پاکستان اٹامک انرجی سے ریٹائرڈ انجینیئر ہوں اور 23 سال سے زائد عرصہ سعودی عرب میں گزارا اور دین کا علم وہیں سے حاصل کیا ہے۔
اگر آپ کو میری بات سے اتفاق نہیں تو چھوڑ دیں مجھے نہ پڑھیں مگر مخالفت نہ کریں۔ ذرا غور کریں کہ اگر میری باتیں درست ہوئیں تو یوم حساب آپ کے پاس کیا جواب ہو گا؟

آخر میں نیک تمناؤں کے ساتھ اجازت چاہوں گا اور اللہ تعالی سے دعاء کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو دین اسلام کا صحیع علم عطا فرمائے اور علم کا قدردان بناۓ

آمین یا رب العالمین

وما علینا الا بلاغ المبین
 
داعی علی الخیر
انجینیئر نذیر ملک
[11/01 5:00 pm] +92 323 7277438: محترم ! 
جس کو دائ اور داعی کا فرق معلوم نہیں وہ کیا جانے قرآن اور حدیث کو ۔ 
آپ جس گروپ میں بھی ھوں اس میں شر پھیلانے سے باز نہیں آتے ، امت میں اتفاق پیدا کرنے کی ھر کوشش مبارک ھے اور امت میں اختلاف پیدا کرنا اور لوگوں کو دینی مسائل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا کرنا مردود ھے ۔ 
آپ کی علمی استعداد تو آپ کی زبان اور آپ کے الفاظ سے معلوم ھورھی ھے آپ جیسے لوگ دوسرے کی سمجھتے بالکل نہیں بس اپنی ہی بولی بولتے جاتے ھیں ۔
صرف یہی گذارش ھے کہ امت کو تفریق اور تشویش میں مبتلا نہ کری ، آپ انجینئر ھیں ، انجینیئر بن کر رھیں ۔

تبصرے