ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں یا علماء کرام کی دینی خدمات

*ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کی یا علماء کرام کی دینی خدمات؟*

20 فروری 2021

انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

اگر مسلمان بادشاہ دین اسلام کو ترویج دیتے تو آج سارا ہندوستان مسلمان ہوتا۔ مگر آفرین ہے علماء اکرام پر جنھوں نے ہندوستان بھر میں اپنی ذاتی کاوشوں سے دین کی خدمت کی اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا۔ درس قرآن سے لیکر تراجم و تفاسیر القرآن کی مرحلہ وار ترویج کی اور یہ سب کچھ سرکاری سطح پر نہیں بلکہ اپنے محدود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوۓ تبلیغ دین کا وسیع پیمانے پر اتنا بڑا کام کیا جس کی مثال بلاد مصر و شام میں نہیں ملتی اور یہ مسلمانوں کی زکواۃ، عشر، خیرات اور صدقات کی جمع کردہ رقوم سے یہ سب کچھ کیا اور انھی کی تبلیغ کا صلہ پاکستان کی صورت میں نکلا اور ہمارے آباواجداد انھی علماء اکرام کی کاوشوں سے مسلمان ہوۓ لیکن مغل بادشاہوں کی اس میں کوئی قابل ذکر خدمات نہیں تھیں۔

دینی اور عصری تعلیم کے میدان میں سرسید احمد خان کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد یونیورسٹی علیگڑھ میں تھی اور یہ سرسید احمد خان صاحب کی مرھون منت تھی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو پاکستان کا اعلی تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگ علیگڑھ سے ہی فارغ التحصیل تھے اور یہ لوگ فخر سے اپنے ناموں کے ساتھ *علیگ* لکھتے تھے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہی علیگ گروپ پاکستان کا اثاثہ تھا جو پاکستان کو لیکر آگے بڑھا۔

مسلم لیگ کی بیشتر قیادت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلباء کے ہاتھ میں ہی تھی۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، پاکستانی سینیٹ کے پہلے چیئرمین خان حبیب اللہ خان مروت، سابق صدر پاکستان فضل الٰہی چودھری، سابق صدر جنرل ایوب خان، گورنر جنرل ملک غلام محمد اور گورنر جنرل اور پھر وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے خواجہ ناظم الدین سمیت برصغیر کی بہت سی نامی گرامی مسلم شخصیات نے یہیں سے تعلیم حاصل کی۔

*ہندوستان میں علماء کرام کی خدمات*
تاریخ کے اورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں 30 مئی 1867 سے قبل کوئی دیو بندی نہیں تھا اور 1880 سے قبل کوئی بریلوی نہیں تھا

دیوبند اور بریلی ہندوستان کے دو شہر ہیں۔ ان دونوں شہروں میں ترویج دین کے لئے دینی مدارس کی بنیاد رکھی گئی جوکہ بعد میں مکتب فکر بن کر ابھرے اور دین کی زبردست خدمت کی مگر بعد کے آنے والوں نے ان دونوں مکاتب فکر کو دو فرقوں کی شکل دے دی۔

جو مسلمان  بزرگ اولیاء اللہ بلاد عرب وشام سے حجرت کرکے تبلیغ دین یا جو عرب تجارت کی غرض سے ہندوستان تشریف لاۓ وہ کسی خاص مسلک کے داعی ہرگز نہ تھے بلکہ کتاب اللہ سنت رسول اور آثار صحابہ کے پکے پیروکار تھے جن میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت بہاالدین ذکریا، حضرت بابا فرید شکر گنج اور حضرت علی ہجویری المعروف داتا  گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اجمعین۔

ان جلیل القدر بزرگوں نے دین کی شمعیں نہیں بلکی شمعدان روشن کۓ اور ان کے ہاتھ پر کروڑوں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوۓ۔ صرف داتا صاحب نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگ مسلمان کیۓ مگر افسوس کہ ان بزرگوں نے اور بعد کے مبلغین نے مقدار پر زور دیا اور معیار قائم نہ کر سکے۔

تاریخ ہند کے اسلامی دور کی تاریخ کے مطالعے  کرنے پر ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں نے اپنے آٹھ سو سالہ دور میں نہ تو تبلیغ اسلام کی، نہ ہی رعایا کے حالات سدھارے اور نہ ہی ملک کو ترقی دی۔

 بس انھوں نے عمارتیں بنائیں اور شادیاں رچائیں اور رقص و سرور کی محفلین گرم کیں جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا گیا اور عوام پر گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ جب بہادر شاہ ظفر سے پوچھا گیا کہ آپ نے بھاگ کر اپنی جان کیوں نہ بچائی تو بادشاہ سلامت نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جوتا پہنانے والا کوئی نہ تھا۔

اگر مسلمان بادشاہ دین کو ترویج دیتے تو آج سارا ہندوستان مسلمان ہوتا۔ مگر یہ تو ہندو زدہ مسلمان تھے ان کے کلمے تک درست نہ تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس سلسلے میں تعلیمات تو یہ رہی ہیں

 وَالسُّلْطَانُ (الْعَادِلُ) ظِلُّ اللهِ فِیْ الْاَرْضِ مَنْ اَهَانَ سُلْطَانَ اللهِ فِی الْاَرْضِ اَهَانَهُ اللهُ ۞اِنَّ اللهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ

یا اللہ ہمارے بڑوں کی کوتاہیوں کو معاف فرما اور ہمیں سیدھا راستہ دیکھا کہ ہم تیرے دین کی ترویج و تبلیغ کرتے رہیں

آمین یا رب العالمین

تبصرے