ارتقا اور انسان
ارتقا اور انسان
بلال الرشید 23 مئی ،
2021
FacebookTwitterWhatsapp
قرآن میں لکھا ہے :اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ وہ بولے :کیا تو ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تعریف بیان کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں۔ فرمایا:جو میں جانتا ہوں ، وہ تم نہیں جانتے۔ فرشتے انسان میں تو نقص نکال ہی رہے ہیں ، ساتھ اپنی خوبیاں کیوں بیان کر رہے ہیں ؟ کیا وہ خود زمین پہ ﷲ کا نائب بننا چاہتے تھے ؟ پھر فرشتوں کو کیسے علم ہوا کہ آدمی زمین پر قتل و غارت کرے گا۔ آدمؑ سے تو ان کا آمنا سامنا ہوا ہی نہیں تھا۔ آدمؑ تو ا س وقت تک زمین پہ اترے ہی نہیں تھے۔ آدم ؑ کا جوڑا ابھی نہ بنا تھا۔ نہ ان کی کوئی اولاد پیدا ہوئی تھی اور نہ ہی ابھی تک کوئی قتل ہوا تھا۔ پھر فرشتوں کو کیسے علم ہواکہ آدمی زمین پر جا کے خون بہائے گا ؟ اگر ان کا ویژن اتنا زیادہ تھا کہ وہ مستقبل کو دیکھ سکتے تو یہ نہ دیکھ لیتے کہ ﷲ آدمؑ کو سارے اسما سکھائے گا۔ اس لیے وہ فرشتوں سے برتر ہیں۔
پھر کیسے پتہ چلا فرشتوں کو کہ آدمؑ کی اولاد زمین میں قتل و غارت کرے گی ؟ اور ایسا ہی ہوا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ فرشتوں نے کوئی اندازہ لگایا ہی نہیں۔ وہ تو صرف وہ ماجرا بیان کر رہے تھے، جو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔فاسلز کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ آدمؑ کی زمین پر آمد سے پہلے ہی دو ٹانگوں پہ چلنے والی کم از کم بیس مخلوقات زمین پہ پیدا ہو چکی تھیں اور ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہی تھیں۔ گو کہ وہ ہومو سیپین ، یعنی ہماری طرح بہت خوبصورت تو نہیں تھے لیکن جسم اسی نقشے پر تعمیر ہوا تھا ، خاص طور پر ہومو اریکٹس اور نی این ڈرتھل کا۔ہومو اریکٹس وہ پہلا آدمی تھا، جو انسان سے بے حد مشابہہ تھا۔ فرشتوں نے حساب لگایا، جہاں بیس آدمی ایک دوسرے کی گوشمالی کررہے ہیں ، وہاں اب ایک اور کا اضافہ ہونے والا ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ آدم ؑ کیسی عظیم ہستی ہیں۔ ابھی علم نازل ہونا تھاآدمؑ پر۔
یہ کروڑوں سالوں پہ محیط وہ داستان ہے ، جس میں کچھ جانوروں کے دماغ کا سائز دوسروں سے بڑھ رہا تھا۔ وہ درختوں سے اتر کر میدانوں میں چلے آئے تھے اور جزوی یا مکمل طور پر دو ٹانگوں پہ چلتے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام پروکونسل تھا اور وہ دو کروڑ سال پہلے اس زمین پہ زندگی گزارتا رہا۔ بیس لاکھ سال پہلے ہومو اریکٹس سامنے آیا۔ وہ جنگلی انسان تھا، بن مانس یا چمپینزی نہیں۔ یہ اتناکامیاب انسان تھا کہ پورے یورپ اور ایشیا میں پھیل گیا تھا۔ یہ اس قدر کامیاب انسان تھا کہ 19لاکھ سال تک باقی رہا۔ اس کے مقابلے میں آپ اپنے آپ کو دیکھیں تو آپ کی عمر صرف تین لاکھ سال ہے۔ آپ نی اینڈرتھل مین کو دیکھ لیں۔ وہ چار لاکھ سال زندہ رہا۔ ہومو اریکٹس آگ استعمال کرتا تھا۔ اس نے ہاتھی جیسے بڑے جانور شکار کیے۔ وہ پتھر کے اوزار بنا لیتا تھا۔
آج کا انسان جس دنیا میں جی رہا ہے ، اس میں مشکل ہی لگتا ہے کہ آپ پانچ ہزار سال بھی مزید زندگی گزار سکیں۔ ایٹمی میزائلوں سے لدا ہوا کرئہ ارض اس وقت بارود کا ایک ڈھیر ہے۔ ہومواریکٹس کی آخری بستی ایک لاکھ سال پہلے انڈونیشیا کے جزیرے جاوا پر قائم تھی۔
ان میں ہر قسم کی جبلتیں پائی جاتی تھیں۔ وہ رینگنے اور چار ٹانگوں والے سے بہتر تو تھے کہ سادہ اوزار بنا رہے تھے لیکن تھے جانور ہی۔ فرشتے آدمؑ کو اسی تناظر میں دیکھ رہے تھے کہ وہ بھی دو ٹانگوں پہ سیدھے کھڑے ہونے والوں میں سے تھے۔
صرف ہومو سیپین یعنی ہمارے آبائو اجداد تھے، جن پر لباس نازل ہوا۔ اس کے علاوہ یہ بیس کی بیس اقسام شرم سے عاری تھیں۔ ہومو سیپین یعنی انسان کا جتنا بھی ارتقا ہے ، وہ کل سات ملین سال یعنی ستر لاکھ سال پہ محیط ہے۔ یہ جو ڈارون کی تھیوری کا برصغیر میں ترجمہ ہوا کہ ڈارون کہتاہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے ، یہ سرے سے غلط ہے۔ اس نے یہ کہا تھا کہ اگر آپ لاکھوں کروڑوں سال پیچھے چلے جائیں تو مختلف جانوروں کے ابائواجداد مشترک ہیں۔ جیسا کہ بلی، چیتے اور شیر کا جد امجد ایک ہے۔ گھوڑے اور گدھے کا جد امجد ایک ہے۔ اس سے زیادہ پیچھے جائیں تو پرائمیٹس کا جد امجد ایک ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو میملز کا جد امجدایک ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو ریپٹائلز کا جد امجد ایک ہے۔ سب سے پہلے جائیں تو سب کا جدامجد ایک ہے اور وہ ایک زندہ خلیہ۔ یہ زندہ خلیہ کیسے بنا؟ ﷲ کہتاہے : ہم نے ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا کیا۔ کڑکتی ہوئی بجلیوں میں پانی اور مٹی کا اشتراک۔ پھر فرماتا ہے کہ آدمؑ کو مٹی سے پیدا کیا۔ اس میں نشانیاں ہیں۔
استاد سے میں نے پوچھا کہ عقل تو جانوروں میں بھی ہوتی ہے۔ فرمایا: لوکل زمینی عقل کہ اپنا بچائو کیسے کرنا ہے۔ آسمانی عقل صرف آدمؑ پہ نازل ہوئی۔ فاسلز کا ریکارڈ کہتاہے کہ ایک لاکھ سال پہلے اچانک انسان نے اپنے مردے دفنانے شروع کر دیے۔ جو تجلی یا آسمانی عقل کی برق گری انسان پر، اگر وہ بندر چھوڑ کوّے پہ بھی گر جاتی تو کوّا ہی انسان کو تباہ و برباد کرنے کیلئے کافی تھا۔ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہے۔
ایک دو ٹانگوں والی مخلوق پاکستان میں بھی دریافت ہوئی تھی۔ اس کا نام تھاRamapithecus۔ یہ ڈ
تبصرے