قربانی کی شرعی حیثیت حصہ دوئم
*قربانی کی شرعی حیثیت*
(گزشتہ سے پیوستہ)
منگل 20 جولائی 2021
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
قربانی کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسوۃ حسنہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اس سارے عرصہ میں آپ نے ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں فرمائی حتی کہ دوران سفر بھی آپ نے قربانی کا اہتمام فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ہم ایک سفر میں نبی کریم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی آگئ ہم لوگ ایک گاۓ میں سات اور ایک اونٹ میں دس لوگ شریک ہوۓ۔
حجۃ الواداع کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے 100 اؤنٹ ذبح فرمائے اؤنٹ خریدنے کےلئے آپ نے حضرت علی کو خصوصا" اؤنٹ خریدنے کے لئے یمن بھیجا جس کامطلب ہے کہ اتنی بڑی تعداد مکہ میں دستیاب نہ تھی اور نہ ہی مدینہ میں۔ پھر یوم نحر جیسےمصروف دن میں 63 اؤنٹ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے ذبح فرماۓ۔ اونٹ ذبح کرنے میں صحابہ اکرام کا بھر پور کردار تھا۔ اس کے باوجود اونٹ کو قربانی کی جگہ لانا اسے ذبح کرنا اور پھر اسے گرانا۔ اس سارے عمل پر استعمال کیا ہوا وقت کم از کم پانچ منٹ فی اونٹ شمار کیا جاۓ تب بھی رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم نے پانچ گھنٹے پندرہ منٹ صرف فرماۓ۔
غور فرمائیے وہ ذات جو زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کۓ بغیر ہر وقت امت کو دینی احکام سیکھلانے میں مصروف رہتی ہو اس کا ایسے موقع پر جب کے 124000 صحابہ اکرام کا مجمع ارد گرد موجود تھا جسے آپ خود فرما رہے تھے
مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا قربانی کے لئے اتنی مشقت اٹھانا یقینا" ایک غیر معمولی فعل تھا۔
اس واقعہ کا اگر حیات طیبہ کا معاشی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو قربانی کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے
مدنی زندگی میں ایک طرف تو نو گھروں کے اخراجات کا بار گراں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کندھوں پر تھا دوسری طرف کوئی مستقل ذریعہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے آپکی معاشی حالت ایسی تھی کہ بعض اوقات فاقہ کشی تک نوبت پہنچ جاتی تھی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب سے مدینہ تشریف لاۓ آل محمد نے متواتر تین دن رات کبھی سیر ہو کر گندم کی روٹی نہی کھائی حتی کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گۓ (بخاری)
نیز فرماتی ہیں " ہم پر ایسے مہینے بھی گزرے ہیں جن میں ہم نے گھر میں آگ تک نہیں جلائی۔ ہمارا گزرا صرف پانی اورکھجوروں پر ہوتا سواۓ اس کے کہ کہیں سے گوشت(کا ہدیہ) آجاتا(بخاری)۔
ایسے معاشی حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سو اونٹ ذبح کرنے کے لئے وسائل مہیا کرنا قربانی کی اہمیت کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سو اونٹ ذبح فرمائے تو سارے گوشت کو تقسیم کرنے کا اہتمام نہیں فرمایا بلکہ ہر اونٹ سے ایک ایک ٹکڑا حاصل کرکے اسے پکوایا اور کھایا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کا تقسیم نہ ہو سکنا قربانی نہ کرنے کا جواز نہیں بن سکتا۔
قربانی کا گوشت تقسیم ہو یا نہ ہو۔ استعمال میں آۓ یا نہ آۓ اس سے قربانی کی اہمیت کسی صورت بھی کم نہیں ہوتی.
اللہ تعالی کا ارشاد مبارک ہے
"اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقوی پہنچتا ہے(سورۃ الحج۔ 37)"
یعنی اللہ تعالی کو گوشت تقسیم ہونے یا نہ ہونے سے غرض نہیں بلکہ وہ دیکھتا ہے کہ کس نے کس نیت اور ارادے سے قربانی کی ہے۔
آخر میں قربانی کی استطاعت رکھنے کے با وجود قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد مبارک بھی پڑھ لیجئے
ارشاد نبوی ہے
جو شخص قربانی کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آۓ (مسند احمد)
پس اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارک میں بہترین نمونہ ہے کہ وہ دل و جان سے ان کی پیروی اور اتباع کریں۔
وما علینا الاالبلاغ المبین
ٰ
الدعاء
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں دین اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
تبصرے