حقوق العباد کی اہمیت

*حقوق العباد کی اہمیت*


جمعرات30ستمبر 2021
انجینئر نذیر ملک سرگودھا


اسلام مسلمانوں کو آپس میں اس طرح مل جل کر رہنے کی تعلیم دیتا ہے کہ کوئی دوسرے پر ظلم اور زیادتی نہ کرے، کوئی کسی کو دکھ اور تکلیف نہ پہنچائے ، کوئی کسی کو نقصان اور خسارہ سے دو چار نہ کرے کوئی کسی کے ساتھ حسد، بغض اور عداوت نہ رکھے بلکہ جہاں تک ہو سکے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی ، نیکی، ایثار، احسان ، خداترسی اور محبت کا سلوک کرے۔اس مقصد کے لئے اسلام نے ہر فرد کے حقوق اور فرائض کا تعین کیا ہے۔

مثلاً والدین اور اولاد کے حقوق ، میاں بیوی کے حقوق ، دیگر اعزہ و اقارب کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، یتیموں اور بیواؤں کے حقوق ، مسکینوں اور محتاجوں کے حقوق ، بڑوں اور چھوٹوں کے حقوق ، مہمانوں اور میزبانوں کے حقوق ، مسافر اور مقیم کے حقوق ، آجر و تاجر کے حقوق ، مالک اور ملازم کے حقوق ، زمیندار اور مزارع کے حقوق ، اولی الامر اور رعایا کہ حقوق غیر مسلموں اور ذمیون کے حقوق ، قیدیوں اور غیر مقاتلین کے حقوق ، حتیٰ کہ اہل ایمان کے کے باہمی حقوق کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں انہیں حقوق العباد کہا جاتا ہے۔

اسلام نے ان حقوق پر عمل کرنے کی محض ترغیب ہی نہیں دلائی بلکہ ہر مسلمان کو ان احکام پر عمل کرنے کا پابند بنایا ہے جو شخص یہ حقوق ادا کرتا ہے وہ دنیا میں خود بھی عزت، وقار، چین اور سکون کی زندگی بسر کرتا ہے اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی ایک نفع بخش ، خیر خواہ اور ہمدرد انسان بن کر سوسائٹی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ پھر آخرت میں ﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور انعامات کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لیکن جو شخص حقوق العباد ادا نہیں کرتا یا دوسروں کے حقوق غضب کرتا ہے وہ خود بھی دنیا میں تکلیف دہ اور بے وقار زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے ساتھ معاشرے کے دوسرے افراد کو دکھ اور تکلیف پہنچا کر سارے معاشرے کے لئے فساد اور بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ لوگوں کی نگاہ میں قابل نفرت اور قابل ملامت انسان ٹھہرتا ہے اور پھر آ خرت میں اس سے حقوق العباد کے بارے میں اتنی سخت بازپرس ہو گی کہ جب تک وہ دوسروں کے حقوق ادا نہ کر لے گا، جنت یا جہنم میں نہیں جا سکے گا۔

حقوق کی ادائیگی کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی چند احادیث ماحظہ ہوں:

1): میدان حشر میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کے بعد ﷲ تعالیٰ اعلان فرمائیں گے " میں ہوں بادشاہ ، بدلہ دلوانے والا، اگر کسی جہنمی پر جنتی کا حق ہے وہ اس وقت تک جہنم میں نہیں جائے گا جب تک جنتی کو جہنمی سے حق نہ دلوا دوں اور اگر کسی جنتی پر جہنمی کا حق ہے تو جنتی اس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک جہنمی کو جنتی سے اس کا حق نہ دلوا دوں ، خواہ ایک تھپڑ ہی کیوں نہ ہو۔"
 (مسند احمد)

2 ): ایک دفعہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا " جس نے قسم کھا کر کسی مسلمان آدمی کا حق مار لیا ، ﷲ تعالیٰ اس پر جہنم واجب کر دیتے ہیں ۔" ایک صحابی مء عرض کیا " یا رسول ﷲ ﷺ ! خواہ معمولی سا ہی ہو؟ " آپ ﷺ نے فرمایا " خواہ پیلو کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔" (مسلم)

3): ارشاد نبوی ﷺ ہے " قیامت کے روز تمہیں ایک دوسرے کے حق ضرور ادا کرنے پڑیں گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بے سینگ والی کا بدلہ بھی دلوایا جائے گا۔ (مسلم)

یاد رہے کہ حقوق کی ادائیگی کی خاطر ایک بار تمام جانوروں کو بھی زندہ کیا جائے گا اور عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مظلوم جانوروں کو ظالم جانوروں سے ان کا حق دلوایا جائے گا ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ﷲ تعالیٰ مظلوم انسانوں کے حقوق ظالم انسانوں سے نہ دلوائیں؟

قیامت کے روز رائج الوقت سکہ صرف "نیکی" ہو گی ۔ لہٰذا حقوق کی ادائیگی نیکیوں کے ساتھ ہی ہو گی کتنے بد نصیب ایسے ہونگے جو نیکیوں کے ڈھیر لے کر جائیں گے اور بڑے شاداں و فرحان نظر آئیں گے لیکن جب حساب شروع ہو گا تو اپنی ساری نیکیاں دوسروں میں تقسیم کروا دیں گے اور خود خالی ہاتھ رہ جائیں گے جنت کی بجائے جہنم ان کا مقدر ہو گی ۔ایک بار آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا " جانتے ہو مفلس کون ہے؟"
صحابہ کرام نے عرض کیا " مفلس تو وہی ہے جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں، دنیا کا مال و متاع نہ ہو۔" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز ، روزہ ، زکوٰۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا ۔ لیکن کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی ، کسی کا مال کھایا ہو گا ، کسی کو قتل کیا ہو گا ، کسی کو مارا ہو گا، چنانچہ اس کی نیکیاں حقداروں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔اگر حقدار پھر بھی باقی رہ گئے تو حقداروں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے اور وہ بالآخر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ " (مسلم)

قارئین کرام ! غور فرمائیں کس قدر بد نصیب ہو گا وہ شخص جو دنیا میں محض زبان کی لذت حاصل کرنے کے لئے دوسروں کی غیبت کرے اور قیامت کے روز اس کے بدلے میں اپنی نیکیوں سے محروم ہو جائے یا وہ شخص جو دنیا میں کسی کی بہن یا بیٹی پر تہمت لگا کر خوش ہو لیکن آخرت میں اپنے زادِ راہ سے ہاتھ دھو بیٹھے یا جو شخص چوری ، ڈاکہ ، رشوت یا دوسرے حرام طریقوں سے مال اکٹھا کر کے دنیا میں چند دن عیش کر لے لیکن آخرت میں اپنی نیکیوں سے محروم ہو کر جہنم کی راہ لے یا وہ شخص جو دنیا میں کسی کی زمین ، مکان یا پلاٹ پر نا جائز قبضہ کر لے اور دنیا کے چند روز اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد قیامت کے دن اپنی ساری نیکیاں اس زمین یا مکان یا پلاٹ کے مالک کے حوالے کر کے خود جہنم میں پہنچ جائے؟ رسول اکرم ﷺ نے کتنے وا ضع الفاظ میں امت کو نصیحت فرمائی:

 "لوگو! جس کسی نے اپنے بھائی کی بے عزتی کی ہو یا اس پر کوئی ظلم کیا ہو تو اسے چاہئے کہ اس سے معاف کروا لے اس دن کے آنے سے پہلے جس میں دینار ہو گا نہ درہم ، ہاں البتہ اگر اس کے پاس نیک عمل ہوں گے تو اس بے عزتی یا ظلم کے برابر اس سے نیک اعمال لے لئے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیک عمل نہ ہوئے تو مظلوم کے گناہ اس ظالم پر ڈال دیئے جائیں گے۔" (بخاری)

حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں آپ ﷺ نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے کہ " جب لوگوں کو پُل صراط سے گزرنے کا حکم دیا جائے گا تو ہر طرف تاریکی چھا جائے گی ۔ تاریکی کے با وجود مظلوم، ظالم کو صراط سے گزرتے ہوئے پہچان لے گا اور جب تک ظالم سے مظلوم اپنا حق وصول نہ کرے گا اسے صراط عبور نہیں کرنے دیگا۔ صراط عبور کرنے والے خوش نصیب اہل ایمان کے بارے میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ " انہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ایک مقام (قنطرہ) پر روک لیا جائے گا اور ان میں جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کوئی گلہ شکوہ یا شکر رنجی ، ناراضگی ہو گی اسے دور کیا جائے گا اور جب اہل ایمان مکمل طور پر پاک صاف ہو جائیں گے تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔ رسول اکرم ﷺ کے ارشادات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ﷲ تعالیٰ کے نزدیک حقوق العباد کی کتنی زیادہ اہمیت ہے ۔ اگر کسی نے اپنی زبان سے یا کسی بھی دوسرے طریقے سے کسی مسلمان کو دکھ دیا ہے یا کوئی ظلم و زیادتی کی ہے ، خواہ وہ رائی کے ذرہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔قیامت کے روز اسے اس سے بہر حال تلافی کرنا ہو گی۔ اب جو چاہے اس دنیا میں اپنی (انا) کی قربانی دیکر اس کی تلافی کر لے اور جو چاہے آخرت میں اپنی نیکیوں کی قربانی دیکر اس کی تلافی کرے۔

*ایک غلط فہمی کا ازالہ*
حقوق العباد کی اہمیت کے پیش نظر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حقوق ﷲ کی نسبت حقوق العباد زیادہ اہم ہیں ، ﷲ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کر دیں گے ، لیکن بندوں کے حقوق جب تک بندے معاف نہیں کریں گے ، ﷲ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔

یہ بات درست نہیں بلکہ درست بات یہ ہے کہ حقوق العباد اپنی تمام تر اہمیت کے با وجود حقوق ﷲ سے زیادہ اہم نہیں۔ جس کے درج ذیل دلال ہیں:

i): حقوق ﷲ میں سب سے پہلا حق ﷲ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا ہے ، جو شخص ﷲ تعالیٰ کا یہ حق ادا نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے جبکہ بندوں کے حقوق ادا نہ کرنے والا شخص صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا مرتکب تو ضرور ہوتا ہے ، لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔

ii): یہ بات بجا کے بندوں کے حقوق بندے ہی معاف کریں گے لیکن ﷲ تعالیٰ کی ذات ہر چیز پر قادر ہے وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کا پابند نہیں جب وہ کسی ظالم کو بخشنا چاہے گا تو مظلوم سے اس کے حقوق معاف کروانا ﷲ تعالیٰ کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول ﷲ ﷺ نے عرفات میں اپنی امت کے لئے مغفرت کی دعا مانگی تو ﷲ تعالیٰ نے فرمایا " میں ظالم اور مظلوم کا حق ضرور دلوا کے رہوں گا۔" رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا " اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت دیکر خوش کر سکتا ہے اور ظالم کو معاف فرما سکتا ہے۔" نبی اکرم ﷺ کی یہ دعا تو عرفات میں تو قبول نہ ہوئی لیکن مزدلفہ میں جب دوبارہ آپ ﷺ نے یہ دعا مانگی تو ﷲ تعالیٰ نے قبول فرمالی۔ (ابن ماجہ) جس کا مطلب یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ حقوق العباد میں سے کسی کے حقوق معاف کرو چاہیں گے تو ﷲ تعالیٰ کے لئے ایسا کرنا نا ممکن نہیں ہو گا۔مسلم شریف کی یہ حدیث تو معروف ہے کہ ﷲ تعالیٰ دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستے ہیں ۔ ایک قاتل اور دوسرا مقتول۔ جو دونوں جنت میں داخل ہوئے ۔صحابہ کرام نے عرض کیا " یا رسول ﷲ ﷺ وہ کیسے " آپ نے فرمایا " ایک ﷲ کی راہ میں لڑا اور شہید ہوا اور دوسرا (یعنی قاتل) مسلمان ہوا اور ﷲ کی راہ میں لڑا اور وہ بھی شہید ہوا۔" (اور یوں دونوں ﷲ کی رحمت سے جنت میں داخل ہو گئے۔)

iii): ایک مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ محسن کے جتنے زیادہ احسانات ہونگے ، اس کے حقوق بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔اس کی واضح مثال والدین کی ہے مخلوق میں سے انسان پر سب سے زیادہ احسانات اس کے والدین کے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ﷲ تعالیٰ نے انسان پر سب سے زیادہ حقوق بھی والدین ہی کے رکھے ہیں۔ والدین کے بعد جیسے جیسے دوسرے لوگوں کے احسانات ہوں گے ویسے ویسے انسان پر ان کے حقوق محسوس ہوں گے۔ ﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے جس کے احسانات اپے بندوں پر اتنے زیادہ ہیں کہ انسان ان کا شمار نہیں کر سکتا۔ خود ﷲ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی (وان تعدوا نعمت ﷲِ لا تحصوھا) " اگر تم ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرو تو نہیں کر سکو گے۔" (سورۃ النحل ، آیت نمبر 18) پس اس مسلمہ حقیقت کے اعتبار سے بھی حقوق ﷲ ، حقوق العباد کی نسبت زیادہ اہم ہیں۔" بے شک میں بڑا بخشنے والا ہوں اس شخص کے لئے جو توبہ کرے ، ایمان لائے (جس طرح ایمان لانے کا حق ہے) نیک عمل کرے اور اس راہ میں ڈٹا رہے۔" (سورۃ طٰہٰ ، آیت نمبر
82 اس آیت میں تعالیٰ نے مغفرت کے لئے چار شرائط مقرر فرمائی ہیں (۱) توبہ
 (۲) سچا ایمان
 (۳) نیک اعمال
 (۴) استقامت۔

 جو شخص ان شرائط کو پورا کرے گا ﷲ تعالیٰ اسے ضرور معاف فرمائیں گے اور جو شخص نہ توبہ استغفار کرے ، نہ تجدید ایمان کرے ، نہ روزہ رکھے ، نہ صدقہ خیرات کرے ، نہ ﷲ اور اس کے رسول کے احکامات پر چلنے کی کوشش کرے ۔ دین کی راہ میں کوئی تکلیف یا آزمائش آنے پر ثابت قدمی نہ دکھائے اور یہ سمجھتا رہے کہ اﷲ بڑا غفور رحیم ہے ،خود ہی بخشے گا ، تو یہ سراسر دھوکہ اور فریب ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح حقوق العباد ادا کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ حقوق العباد کے معاملے میں جب تک انسان کا دامن صاف نہیں ہو گا جنت میں نہیں جا سکے گا ۔ اسی طرح حقوق ﷲ کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔حقوق ﷲ ادا کئے بغیر کوئی آدمی جنت میں نہیں جا سکے گا۔دونوں حقوق اپنی اپنی جگہ بہت اہم ہیں ، لیکن جب دونوں کا تقابل کیا جائے گا تو ہم بلا تامل یہی کہیں گے کہ حقوق ﷲ حقوق العباد سے زیادہ اہم ہیں۔

*الدعاَء*
یا اللہ تعالی تو  ہمیں اپنے حقوق معاف فرما دے اور حقوق العباد کا بھی تو ہماری طرف سے ذمہ دار ہو جا۔

آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333

تبصرے