آئیں بھکاریوں کو معاشرے کا فعال رکن بنائیں

*بھکاریوں کو معاشرے کا فعال رکن بنایۓ*


منگل 30 نومبر 2021
انجینئر نذیر ملک سرگودھا


رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا!

 اے قبیصہ مانگنا حلال نہیں مگر تین لوگوں کو۔

@ جس نے کسی کی ضمانت اٹھائی ہو۔

@ جس کو کوئی آفت پہنچی اور اس کا مال اسباب ہلاک ہو گیا

@جس کو  سخت فاقہ پہنچا ہو جسکی تین آدمی گواہی دیں کہ فلاں شخص کو سخت فاقہ پہنچا ہے۔

آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ ان تین صورتوں کے علاوہ سوال کرنا حرام ہے اور مانگنے والا حرام کھاتا ہے ( مسلم)

حضرت عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔

جو لوگ گداگری اور بھیک کو پیشہ بنا لیتے ہیں روز قیامت وہ اس حالت میں آئیں گے کہ ان کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا ( بخاری)

غور کریں کہ ہماری عمر کا ایک حصہ گذر گیا ہم سبھی خیرات اور صدقات دے رہے ہیں  مگر وطن عزیز میں بھکای کم نہیں ہوِۓ اور غربت بھی ختم تو کیا کم بھی نہیں ہوئی۔۔۔۔ آخر کیوں؟

دیکھا گیا ہے کہ وطن عزیز میں اکثر لوگوں کی نیت خراب ہے۔ لوگ مال سے محبت کرنے لگے ہیں۔ حلال و حرام کی تمیز جاتی رہی ہے اور ضروریات زندگی اتنی بڑھا لی ہیں کہ الامان۔
پھر کہتے ہیں کہ گھر کے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ عوام اپنی ضروریات پوری کرنے کے لۓ ہر جتن کر گزرے ہیں اور اپنے گھر چلانے کے ساتھ ساتھ ان بھکاریوں کو بھی کما کر دینا پڑتا ہے


*گداگری کیسے بڑھی ہے (اک لمحہ فکریہ)*

اس کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔ مخیر حضرات اور حکومت وقت بھی۔
ہم بغیر سوچے سمجھے سب مانگنے والوں کو بھیک دے دیتے ہیں۔

مخیر حضرات اپنی آنکھیں میچ لیتے ہیں اور تھوڑے پیسے دیکر بھکاری بناۓ رکھتے ہیں اور انھوں نے کبھی گداگروں کے لۓ کوئی منصوبہ بنایا ہی نہیں اور یہی حال حکومت وقت کا بھی ہے بس سمجھتے ہیں کہ ذکواۃ فنڈ قائم کر کے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہو گۓ۔

کیا کسی نے سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ تین مہینے میں دی جانے والی رقم کیا ایک ہفتے کے لۓ بھی کافی ہے؟
مذید برآں! کیا مسلمان حکومت، حضرت عمر کا قول بھول گئ کہ فراط کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار سمجھے گا۔۔۔۔۔

اشیاء خورد و نوش کی بے تحاشہ مہنگائی کے سبب بھکاری روز بروز بڑھ رہے ہیں اور بازاروں میں شاپنگ کرنا خاص طور پر خواتین کے لۓ محال ہو گیا ہے

بھکاریوں کے لۓ مارکیٹ میں حالات بڑے سازگار بھی ہیں بھیک مانگنا بہت آسان ہے۔ بس بندے کو بے غیرت ہونا پڑتا ہے۔ شروع شروع میں حیاء آتی ہے لیکن پھر غیرت دھیرے دھیرے مٹ جاتی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ بھیک مانگنے سے غیرت مٹ جاتی ہے۔
ایک بار غیرت مٹی بس پھر کیا تھا وارے نیارے روزانہ اوسطاً پانچ سو سے لیکر ایک ہزار روپۓ آمدن ہو جاتی ہے۔

ایک روز میرے بچوں نے از راہ تمسخر ایک بھکاری کو پکڑا اور لالچ دیکر پوچھا کہ کیا کما لیتے ہو تو وہ گویا ہوا کہ آجکل مندہ ہے پھر بھی چھ سات سو روپۓ روزانہ بن ہی جاتے ہیں

میں نے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر مندرجہ ذیل نتائج اخذ کۓ ہیں۔

1_ اکثر بھکاری پروفیشنل مانگنے والے ہیں اور ان پر صدقہ خیرات نہیں لگتا۔

2_ کچھ بھکاری نشہ کرنے والے ہیں اور اپنی نشے کی لت مانگ کر پوری کرتے ہیں کیونکہ جب ان ک پاس مال تھا وہ تو انھوں نے لٹا دیا اب عادت پوری کرنے کے لۓ کچھ رہا نہیں تو بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔

3_ عادی مجرم جو بھیک کی آڑ میں چوری بھی کرتے ہیں اور جنسی کاروبار بھی۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کچھ ذمہ داری حکومت کی بھی بنتی ہے کہ ان مانگنے والوں کو روزگار مہیا کرے یا انکو ماہوار وظیفہ دے تاکہ مجبور لوگ اپنی گزر بسر کر سکیں۔ یاد رہے کہ وطن عزیز میں بھکاریوں کو پکڑنے کے لیے

*بھکاری مکاؤ ایکٹ_1976 بھی ہے*

حکومت اس پر سختی سے عمل درآمد کرواۓ۔
تاکہ پیشہ ور بھکاریوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔

*آئیں ایک کوشش کریں*

آئیں کوشش کریں اور کسی ایک بھکاری کو صاحب روزگار بنائیں۔

 مثلا"
€۔ کسی کو مزدوری پر لگائیں۔

€۔ کسی کو ٹھیلی لگوا دیں۔

€۔ اپنی ذکواۃ کی رقم سے محلے میں کسی کو کھوکھا کھلوا دیں، دودھ دہی کی دوکان کروا دیں۔
 
€۔ محلے میں کسی غریب کی سبزی کی دوکان کھلوا دیں۔

*یاد رہے کہ یہ زکواۃ کی رقم کے بہترین مصارف ہیں اور غریب آدمی کو یہ بتلانا بھی ضروری نہیں ہے کہ یہ رقم زکواۃ کی ہے تاکہ اسکی عزت نفس مجروح نہ ہو*

آئیں ملجل کر بھکاریوں کو معاشرے کا فعال رکن بنائیں اور غیر مستحق بھکایوں کو بھیک مت دیں تاکہ ان کی دل شکنی ہو۔ شاید ایسے انکو بھیک مانگنے سے نفرت ہو جاۓ۔

*الدعاء*
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ یا اللہ تعالی ہمیں وطن عزیز کے ساتھ مخلص بنا اور اس کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا فرماء۔

 آمین یا رب العالمین
 Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333

تبصرے