موجودہ پاکستان میں 350 سال سے رشوت ہے
*موجودہ پاکستان میں 350 سال قبل بھی رشوت تھی اور اسلام بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا*
منگل 21 دسمبر 2021
تحریر و تحقیق:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
فرانسس برنیئر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا،
یہ فرانس کا رہنے والا تھا. یہ 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک بارہ سال ہندوستان میں رہا۔
یہ شاہجہاں کے دور کے آخری دن تھے، برنیئر طبی ماہر تھا چنانچہ یہ مختلف امراء سے ہوتا ہوا شاہی خاندان تک پہنچ گیا، اسے مغل دربار، شاہی خاندان، حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.
فرانسیس برنیئر نے واپس جا کر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا، یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس سے شائع ہوا، یہ بعد ازاں انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا، برطانیہ میں چھپا
اور اسکے بعد آؤٹ آف پرنٹ ہو گیا۔
*فرانسس برنیئر اپنے سفر نامے میں ہندوستان میں رشوت کے بارے میں یوں رقم طراز ہے کہ ہندوستان میں رشوت عام ہے، آپکو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے*
صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں،
یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں،
خزانچی بھی،
وکیل بھی،
جج بھی،
پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی. سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹتے ہیں،
بادشاہ نے اپنے لیے 3 کروڑ 184 روپے کا (1660ء میں) تخت بنوایا.
سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں،
فرانسیس برنیئر نے 1660ء میں جو ہندوستان
*(موجودہ پاکستان)*
دیکھا تھا وہ آجتک اسی اسپرٹ اور اسی کلچر کے ساتھ قائم ہے اور آجکے پاکستان پر نظر دوڑائیے آپکو یہ جان کر اطمینان ہو گا کہ ہم ساڑھے تین سو سال میں کچھ نہیں بدلے اور سچ تو یہ ہے کہ
*موجودہ پاکستان میں 350 سال قبل بھی رشوت تھی اور آج بھی یعنی اسلام بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا*
الحمدللہ آج پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر افسوس صد افسوس ہم نے اسلام سے کچھ نہیں سیکھا بلکہ مجھے کہنا چاہئے کہ
*350 سال میں اسلام بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا*
در اصل ہم نے اسلام کا لبادہ تو اوڑھ لیا ہے مگر آج بھی ہمارے اندر ایک بدبو دار ہندو بنیا چھپا ہوا ہے
*بقول شاعر مشرق*
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جن کو دیکھ کر شرمائیں یہود
اس امر واقعی میں یہ کوئی دو راۓ نہیں کہ وطن عزیز میں لوگ رشوت کو حرام تو کیا *گناہ بھی نہیں سمجھتے۔*
*جبکہ رشوت لینا کبیره گناه ھے(بقره-١٨٨)*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی (ترمذی
رشوت لینے والے اور دینے والا دونوں جھنم میں جائیں گے (طبرانی)
کسی کی شفارش کرکے ھدیه وصول کرنا بھی رشوت ھے(ابوداؤد)
بھته وصول کرنے والا ھم میں سے نھیں(ترمذی)
بھته وصول کرنے والا جنت میں نھیں جاۓ گا (ابو داؤد)
جس نے کسی دوسرے کا حق مارا اس پر جنت حرام اور جھنم واجب ھو گئ(مسلم)
حرام مال کمانے والے کو جھنم کی آگ سب سے پهلے جلاۓ گی(طبرانی)
حرام کمائی کھانے والے کی عبادت اور دعاء قبول نھیں ھوتی
حرام کمائی سے دیا گیا صدقه قبول نھیں ھوتا(مسلم
قطع رحمی کرنے والوں پر الله کی لعنت(سورة محمد آیت ٢٢-٢٣
کرپشن کا قلع قمع اس ملک سے بہت مشکل ہو گیا ہے رشوت ستانی قوم کی رگوں میں سرایت کر گئ ہے اور یہ کینسر کی طرح پھیلتی جا رہی ہے اس کے روکنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ جو پکڑا جاۓ اسے سخت سے سخت سزا دی جاۓ
مگر سب سے پہلے افسران بالا ٹھیک ہو جائیں تو بات بنے وگرنہ
*رشوت لیتے پکڑے گۓ تو رشوت دے کر چھوٹ جائیں*
آییۓ مل کر رشوت کے خلاف جہاد کریں
مگر حکومت ہمیں پروٹیکشن دے وگرنہ ان سانپوں کے بلوں میں ہاتھ ڈالنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے
*حرف آخر*
جب تک قوم میں اتنی ایمانداری نہیں آجاتی کہ لوگ رشوت کو حرام جاننیں لگیں اور اس سے نفرت نہ کرنے لگیں اس وقت تک قوم نہیں سدھر سکتی۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ رشوت ملک سے فقط دو طریقے سے ختم ہو سکتی ہے ایک تو یہ کہ لوگ اللہ سے ڈرنے لگیں اور رزق حلال کمانے اور کھانے کو اپنے اوپر لازم کر لیں یا پھر حکومت وقت رشوت خور کی اتنی سخت سزا رکھے کہ حرام خوروں کی عقل ٹھکانے آ جائے۔
جہاں تک اللہ سے ڈرنے کا تعلق ہے وہ تو آپ بھول جائیں۔ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان سے اللہ کا ڈر تو یکسرختم ہو گیا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے جزا سزا آخرت میں رکھی ہے اور اس یقین کا تعلق ایمان سے ہے اور اگر ایمان نہ رہا تو پھر تو ڈر بھے ختم۔
میں ذاتی طور پر کچھ ایسے نڈر بے ایمانوں کو جانتا ہوں جو از راہ جہالت کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ! اللہ کیا کرے گا جہنم میں ڈالے گا تو ڈال لے گا لیکن کبھی تو نکالے گا(شفاعت رسول کا غلط تصور)۔
افسوس کچھ لوگ آج بھی آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتے اور اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ
*"کل نہیں کسے نے ویکھی تے مزا لییۓ اج دا"*
*اک مختلف زاویہ نگاہ*
ایک دفعہ میں آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس اپنے والد صاحب کی آنکھیں چیک کرانے گیا تو دو سو لوگ لائین میں کھڑے تھے میں نے بکنگ کاؤنٹر سے استفسار کیا کہ میرا نمبر کب آۓ گا تو اس نی بتلایا کہ کچھ لوگوں کے گزرے کل کے نمبر بھی ہیں تو میں نے کہا کہ میرے پاس تو اتنا وقت نہیں ہے تو وہ بڑے بیباک انداز میں بولا کہ صاحب آپ ڈبل فیس جمع کرا دیں تو اندر والے مریض کے بعد آپ کا نمبر آجاۓ گا۔
میں نے ڈبل فیس فورا" ادا کی اور والد صاحب کا چیک اپ کروا لیا۔
یہ رشوت نہیں تھی لیکن ڈبل فیس تھی اگر ہم سب لیگل کاموں کی فیس مقرر کر دیں اور فوری کام کروانے پر ڈبل فیس ادا کریں اصل فیس گورنمنٹ کے خزانے میں جاۓ اور باقی آدھی یعنی زائد فیس افسر مجاز کو دے دی جائے تو اس طرح کام کی رفتار بھی بڑھے گی اور ریوینیو بھی بڑے گا اور افسر مجاز بھی بھاگ بھاگ کر کام کرے گا۔
جج صاحبان پر بھی یہی فارمولا لگایا جاۓ گا مگر ان کو پابند کیا جائے گا کہ روزانہ کی بنیاد پر تیس کیس ضرور نمٹاۓ گا وگرنہ پچیس فی صد اس دن کی کمیشن کم ہو جاۓ گی۔
*ناجائز اور غیر قانونی کام*
جو افسر ناجائز یا غیر قانونی کام کرے یا ایسا کرنے کے لۓ تعاون اور وکیل اپنے مؤکل کی
ناجائز طرف داری کرے تو اس کے لائسنس پر نیگیٹیو مارکنک کی جاۓ یہ عادی کردار کش وکیل کا لائسنس ضبط کیا سکے گا۔
*اہل علم اپنی آراء کا اظہار کریں شاید کوئی بہتر حل نکل آۓ*
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333
تبصرے