تبلیغ دین پر کام کرنے والے مبلغین سے اہم اہم گزارشات

*تبلیغ دین پر کام کرنے والے مبلغین سے اہم گزارشات*

اتوار 12 دسمبر 2021
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

ہمارے ہاں دین اسلام کی تبلیغ نہیں ہو رہی بلکہ تبلیغ فرقوں کی ہو رہی ہے مبلغین سے گذارش ہے کہ لوگوں کو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا لایا ہوا خالص دین محمدی پہنچائیں نہ کی اپنی پسند کا دین۔ 

دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ نہ عاقب اندیش لوگ اپنے عقیدے کو درست سمجھتے ہوۓ دوسروں کے عقیدے کو حقیر جان کر اس کا تمسخر اڑاتے ہیں جس سے مد مقابل کو ایذا پہنچتی ہے اور ایک دوسرے کو ہیچ کرنے کے لۓ بے جا بحث مباحثہ چھیڑ بیٹھتے ہیں اور بعض اوقات بات لڑائی جھگڑے تک پہنچتی ہے اور اپنے اپنے گروپوں کو شامل کر کے نوبت دنگا فساد بلوا اور قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے اور یوں کچھ لوگ چھوٹے سے مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اس طرح محلے،
شہر اور ملک میں کشیدگی کا باعث بنتے ہیں جو کہ بعض اوقات ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔
 جیسے کہ سیالکوٹ والا مسئلہ۔

دین میں بحث ہے مگر قرآن و سنت کے پختہ دلائل کے حوالہ جات کی روشنی  میں نہ کہ دھونس، غیظ و غضب کی بنیاد پر۔

*"اپنا عقیدہ چھوڑو نہ اور دوسرے کو چھیڑو نہ* والا فارمولا تو سرے سے تبلیغ دین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے یعنی پھر تو سبھی اپنے آپ کو درست جانیں گے تو دین کی تبلیغ کس کو کرو گے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو فتنہ بنی اسرائیل پر آیا وہی قدم با قدم میری امت پر آنے والا ہے کہ اگر ان میں سے ایک شخص ایسا ہو گا جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہو گا، تو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہو گا یہ حرکت کرے گا بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کے بعد بہتر (٧٢) فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے، اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں متفرق ہو جائے گی ان میں بہتر (٧٢) دوزخی ہوں گے اور ایک فرقہ ناجی یعنی جنتی ہو گا، صحابہ رضوان علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ! ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟۔ فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہما کے طریقہ پر چلتا ہوگا۔
(ترمذی)

اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروبندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبہہ و نصیحت تھی لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اس حدیث کو اپنے لئے ڈھال بنا لیا ہے اور (ماآنا علیہ واصحابی) کی کسوٹی سے صرف نظر کرتے ہیں ہر گروہ اپنے آپ کو ناجی فرقہ کہتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر کو ضال و مضل اور بہتر (٧٢) فرقوں میں شمار کرتا ہے۔

حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالٰی پر اس کے ملائکہ پر اس کے رسولوں پر قیامت کے دن پر اچھی بُری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں زکواٰۃ ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اس کے رسول کی نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں احادیث قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی انہیں جنتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔

بیشک ﷲ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور (دنیوی) فائدے اٹھا رہے ہیں اور (اس طرح) کھا رہے ہیں جیسے چوپائے (جانور) کھاتے ہیں سو دوزخ ہی ان کا ٹھکانا ہے​(محمد۔ ١٢)

یہ اور اس طرح کی بیشمار آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں مومنین صالحین کی مغفرت اور فوز و فلاح کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفار مشرکین کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے ایمان سے خارج نہیں ہوتا دین کی فہم نہ تو سب کو یکساں عطا کی گئی ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلاف میں قلت فہم کی بناء پر دو فریقوں میں سے ایک یقینی طور پر غلطی پر ہو گا اور دوسرے فریق کا نظریہ درست اور شریعت کے مزاح و احکام کے مطابق لہذا ایسی صورت میں جو فریق دانستہ طور پر غلطی پر ہے تو اس کا دینی اور اخلاقی فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی انائیت اور کبر و غرور کو پس پشت ڈال کر اس غلطی سے تائب ہو جائے اور اپنی کم فہمی اور جہالت کے لئے اللہ تعالٰٰی سے مغفرت طلب کرے بلاشبہ وہ غفور رحیم ہے اور اگر اس فریق سے غلطی کا ارتکاب نادانستہ طور پر ہو رہا ہے تو اس کا شمار (سیئات) میں ہو گا ایسی صورت میں فریق مخالف یعنی فریق حق کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو نرمی محبت اور دلسوزی سے سمجھائیں اور صحیح راہ عمل واضح کریں۔ اس کے باوجود بھی اگر دوسرا فریق سمجھ کر نہیں دیتا تو اس کے لئے ہدایت کی دُعا کریں۔ آپ اپنی ذمداریوں سے سبکدوش ہو گئے مسلمانوں کی (سیئات) یعنی کوتاہیوں کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔۔۔

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے اور ان سب چیزوں پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں وہ چیزیں ان کے رب کے پاس سے امر واقعی ہیں اللہ تعالٰی ان کو تاہیوں کو درگذر فرمائے گا اور ان کی حات درست کرے گا۔
(محمد۔ ٢)

لہذا معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایمان و عمل صالح کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بعد ان کے تمام گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنے کا اعلان عام کر رہا ہے تو دوسروں کو یہ حق کب پہنچتا ہے کہ وہ اپنے صاحب ایمان بھائیوں کو محض فروعی اختلافات کی بناء پر جہنم رسید کر دیں اور ان کا شمار ان بہتر (٧٢) ناری فرقوں میں کرتے رہے جو خارج ایمان ہونے کی بناء پر زبان وحی و رسالت سے دوزخی قرار پائے؟ کیا ان کی یہ روش اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے مترادف نہیں ہے؟۔۔۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں فرقہ پرستی سے دور رکھ اور فقط قرآن و احادیث, سنت رسول اور آثار صحابہ پر عمل کرنے والا بنا دے تاکہ ہم تیرے نبی صلی کی علیہ والہ وسلم کے دین پر سچے عمل کرنے والے بن جائیں۔

یا اللہ تعالی ہمیں حق گو ، حق لکھنے، بولنے اور حق کا ساتھ دینے والا بنادے اور بدعات و خرافات سے بچاۓ رکھنا۔

آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333

تبصرے