تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت
*تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟*
منگل 11 جنوری 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*تبلیغ سب پر واجب ہے*
یہ امت امت دعوة ہے یعنی دعوة الی اللہ اس امت کی بنیادی ذمہ داری ہے، ارشاد خداوندی ہے وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ ( آل عمران: آیت:104)
ترجمہ: اورتم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (اور لوگوں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اورایسے لوگ (آخرت میں ثواب سے) پورے کامیاب ہوں گے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ (حٰمٓ سجدة: آیت:33)
پہلی آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مسلمان صرف اپنے اعمال و افعال کی اصلاح پر بس نہ کریں بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کی اصلاح کی فکر بھی ساتھ ساتھ رکھیں۔
دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ انسان کے کلام میں سب سے افضل و احسن وہ کلام ہے جس میں دوسروں کو دعوت حق دی گئی ہو، اس میں دعوت الی اللہ کی سب صورتیں داخل ہیں، زبان سے تحریر سے یا کسی اور عنوان سے۔ (معارف القرآن: ج7،ص652)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک ہردور میں امت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس فریضہ کو انجام دیتی رہی ہے۔ تعلیم و تدریس، وعظ و تبلیغ، تصنیف و تالیف، تزکیہ و احسان یہ سب ہی امر بالمعروف، نہی عن المنکر کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے طرق ہیں۔
تبلیغی جماعت جس کو ہمارے بزرگوں نے قائم فرمایا ہے یہ بھی دعوت الی اللہ کا ایک طریقہ ہے جس سے بے
نمازی نماز کے پابند اور مسجد سے دور رہنے والے مسجد میں حاضر باش ہونے لگتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ پر یقین اوراس کے فیصلوں پر یقین اور آخرت پر یقین پیدا کرنے کی محنت کی جاتی ہے جو ایمان کی بنیاد ہے۔ اور ہرمومن کے لیے ضروری ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما - سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ”میری طرف سے لوگوں کو (احکامِ الٰہی) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے روایت کرو، ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔
عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما-: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا فَلْيَتَبَوَّأْ مقعده من النار».
*شرح الحديث :*
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ علم جو وراثت میں مجھ سے قرآن و سنت کی شکل میں چلتا آرہا ہے اسے لوگوں تک پہنچاؤ، اگر چہ وہ جو تم لوگوں تک پہنچاؤ قرآن کریم کی ایک آیت جتنا تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پہنچانے والا عالم ہو اور جو کچھ پہنچائے اسے سمجھنے والا ہو۔ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کرنے کا حکم اس حال میں دیا گیا ہے جب اس پر تبلیغ کرنا واجب ہو۔ اگر اس پر اس کی تبلیغ کرنا واجب نہ ہو جیسے وہ ایسے شہر میں ہو جہاں اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے والے دعاۃ موجود ہوں جو لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں اور ان کے دینی معاملات میں ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں تو اس پر تبلیغ کرنا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جیسے قربانی کو جلانے کے لیے آسمان سے آگ کا اترنا، اسی طرح بچھڑے کی عبادت کرنے سے توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنے کا واقعہ یا قرآن کریم میں مذکور وہ تفصیلی قصے جو عبرت اور نصیحت کے لیے ذکر کیے گئے ہیں۔ جو شخص آپ ﷺ پر جھوٹ بولے گا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ پر جھوٹ بولنا عام لوگوں پر جھوٹ بولنے کی طرح نہیں، بلکہ اللہ کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے، پھر یہ شریعت میں جھوٹ بولنا ہے۔ کیوں کہ جس چیز کی خبر اللہ کے رسول ﷺ وحی کے ذریعے دے رہے ہیں وہ اللہ کی شریعت ہے۔چنانچہ اس کی سزا بہت سخت ہے۔
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرماء تاکہ ہم اس پر عمل کر سکیں اور دوسروں کو بھی دین سیکھا سکیں۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
تبصرے