قرآن اور فلکیات
*قرآن اور فلکیات*
قرآن اور فلکیات
(Astronomy) دراصل قرآن میں جدید فلکیات کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف فلکیات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔
کائنات کی تخلیق :بگ بینگ (Big Bang)
پھیلتی ہوئی کائنات
کہکشائوں کی تخلیق سے پہلے، ابتدائی گیسی کمیت یعنی مادہ
زمین کی کروی (گول نہا Spherical) ساخت
چاند کی روشنی، منعکس شدہ (Reflected) روشنی ہے
سورج گھومتا ہے
سورج بجھ جائے گا
بین الخمی مادہ (Interstellar Matter)
پچھلے زمانوں میں منظم فلکیاتی نظاموں سے باہر کی خلاء (بیرونی خلا) کو مکمل طور پر خالی خلا (vaccum) تصور کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں ماہرین فلکی طبیعیات نے اسی خالی خلا یعنی بین النجمی خلا میں مادے کے پل (برج ) دریافت کیے۔ مادے کے ان برجوں پلوں کو پلازما
(plasma) کہا جاتا ہے۔ جو مکمل طور پر آئن
شدہ گیس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جس میں مثبت چارج والے آئن اور آزاد الیکٹرانوں کی مساوی تعداد ہوتی ہیں۔ مادے کی تین جانی پہچانی حالتوں یعنی، ٹھوس، مائع اور گیس کو چھوڑ کر پلازما کو بیشتر اوقات مادے کیچوتھی حالت بھی کہا جاتا ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ میں قرآن پاک بین النجمی مادے (انٹر سٹلر میٹر) کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَ رْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا
ترجمہ:۔ وہ جس نے زمین اور آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں پیدا کیا،
کسی کے لیے بطور قیاس بھی یہ کہنا مضحکہ خیز ہو گا کہ بین النجمی کہکشانی مادے کی موجودگی آج سے 1400 سال پہلے ہمارے علم میں تھی۔
علاوہ ازیں اور بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق، مثلا بگ بینگ، سے کائنات کی ابتدا وغیرہ سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنا لوجی میں ترقی کے عروج پر تھے لہٰذا قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کسی بھی طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔ درحقیقت اس کے بر عکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لیے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔
تبصرے