سمندر کی گہرائیوں میّ عمیق اندھیرا

*سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا*

جممہ 13 مئی 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا

پروفیسر درگارائو (Darga Rao) دنیا کے جانے پہچانے ماہربحری ارضیات ہیں اور وہ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ (سعودی عرب) میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے درج ذیل آیت مبارکہ پر تبصرہ کرنے کے لیے کہاگیا۔

اَوْکَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍلُُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْج مِّنْ فَوْ قِہ مَوْج مِّنْ فَوْقِہ سَحَاب ط ظُلُمٰت بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ ط اِذَآاَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرٰ ہَا ط وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہُ نُوْرًافَمَالَہُ مِنْ نُّوْرٍ 

ترجمہ:۔ یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہوجس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو۔ اس کے اوپر ایک اور موج آ رہی ہو اور اس کے اوپر بادل ہو، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ اللہ جسے نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔

پروفیسر رائو نے کہا کہ سائنس دان صرف حال ہی میں جدید آلات کی مدد سے یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ  20یا 30میٹر سے زیادہ گہرائی میں اضافی سازو سامان اور آلات سے لیس ہوئے بغیر غوطہ لگا سکے۔ علائو ازیں، انسانی جسم میں اتنی قوت برداشت نہیں کہ جو 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں پڑنے والے آبی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے زندہ بھی رہ سکے۔ یہ آیت تمام سمندروں کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ ہر سمندر کو پرت در پرت تاریکی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ یہ آیت مبارک بطور خاص گہرے سمندروں کی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی اس آیت میں بھی وسیع اور گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ دیا گیا ہے، گہرے سمندر کی یہ تہ در تہ تاریکی دو اسباب کا نتیجہ ہے ۔

1۔ عام روشنی کی ایک شعاع سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ سات رنگ با ترتیب، بنفشی، کاسنی، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی اور سرخ ہے۔ روشنی کی شعاع جب پانی میں داخل ہوتی ہے تو انعطاف (Refrection) کے عمل سے گزرتی ہے اوپر کے دس سے پندرہ میٹر کے دوان پانی میں سرخ رنگ جذب ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر کوئی غوطہ خود پانی میں پچیس میٹر کی گہرائی تک جا پہنچے اور زخمی ہو جائے تو وہ اپنے خون میں سرخی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ سرخ رنگ کی روشنی اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح 30سے 50میٹر تک کی گہرائی تک آتے آتے نارنجی روشنی بھی مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے۔ پیلی روشنی 50 سے 110میٹر تک، سبز روشنی 100سے 200میٹر تک، نیلی روشنی 200میٹر سے کچھ زیادہ تک جبکہ کاسنی اور بنفشی روشنی اس سے بھی کچھ زیادہ گہرائی تک پہنچتے پہنچتے مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہیں۔ پانی میں رنگوں کے اس طرح ترتیب وار غائب ہونے کی وجہ سے سمندر بھی تہ در تہ کرکے باریک ہوتا چلا جاتا ہے، یعنی اندھیرے کا ظہور بھی روشنی کی پرتوں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ 1000میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے۔[10]

2۔ دھوپ کی شعاعیں بادلوں میں جذب ہوتی ہیں۔ جو نسبتاً روشنی کی شعا عوں کو اِدھر اُدھربکھیرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بادلوں کے نیچے تاریکی کی ایک پرت (تہ) سی بن جاتی ہے۔ یہ تاریکی کی پہلی پرت ہے جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو وہ (سمندری) لہروں کی سطح سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں اور جگمگانے کا سا تاثر دیتی ہیں، لہٰذا یہ (سمندری) لہریں ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں تاریکی کی وجہ بنتی ہیں۔ غیر منعکس شدہ روشنی، سمندر کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ لہٰذا سمندر کے دو حصّے ہوئے، سطح کی امتیازی علامت روشنی اور گرمی ہیں۔ جب کہ اندھیرا سمندری گہرائیوں کی وجہ سے ہے۔ علاوہ ازیں گہرے سمندر اور سطح سمندر کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والی چیز بھی لہریں ہی ہیں۔

اندرونی موجیں سمندر کے گہرے پانیوں کا احاطہ کرتی ہیں کیونکہ گہرے پانیوں کی کثافت اپنے اوپر موجود کم گہرائی والے پانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اندرونی پانیوں میں تاریکی کا راج ہوتا ہے۔ سمندر کی اتنی گہرائی میں مچھلیاں بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ روشنی کا واحد ذریعہ خود ان کے جسم ہوتے ہیں۔

اسی بات کو قرآن پاک نہایت جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔

ترجمہ:۔ مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں، جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھاہو۔ بالفاظ دیگر ان لہروں کے اوپر مزید اقسام کی لہریں ہیں یعنی وہ لہریں جو سمندر کی سطح پر پائی جائیں۔ اسی تسلسل میں یہ آیت مبارکہ فرماتی ہے۔پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غرض اندھیروں میں جواوپر تلے پے درپے ہیں۔ جیسا کہ وضاحت کی گئی یہ بادل وہ پے در پے رکاوٹیں ہیں۔ جو مختلف سطحوں پر روشنی کے مختلف رنگ جذب کرتے ہوئے اندھیرے کو بڑھا وا دیتی چلی جاتی یہںں۔ پروفیسر درگاائو نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات مکمل کی 1400سال پہلے کوئی عام انسان اس مظہرکو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ معلومات یقیناً کسی مافوق الفطرت(super natural) ذریعے سے آئی ہیں۔

ترجمہ:۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا یہی کل ہے

*الدعاء*
یا اللہ تعالی تیری قدرت کے راز سمجھنا ہمارے لئے آسان کر دے۔ 

آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333

تبصرے