عمران خان کے دور کا جائزہ

یہ سب سیاسی نعرے ہیں

ذرا بتلائیں عمران خان کے دور میں کتنے بجلی گھر لگے.

کتنے لوگوں کو روزگار دیا۔

زرا غور کرو
71 سالوں تک نا اہل چور ڈاکو حکمران ملک کو لوٹتے رہے لیکن ملک نہیں ڈوبا اور پھر ایک ایماندار حکمران نے صرف ساڑے تین سال حکومت کی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا
*یہ ہے اصل سازش*

ایک غیر ملکی جریدے میں چھپنے والے اس مضمون کو غور سے پڑھیں تاکہ حقیقت کا ادرک ہو۔


*عمران خان قومی سلامتی کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے!*

 سید مجاہد علی
                      03/06/2022
(بشکریہ کاروان ناروے)


بول ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے پاکستان کو دیوالیہ قرار دلوانے، اس کی ایٹمی صلاحیت چھین لئے جانے، فوج کے تباہ ہونے اور ملک کے تین حصوں میں تقسیم ہونے کا جو پرزور بیان دیا ہے وہ کسی بھی طرح اگست 2016 میں الطاف حسین کی تقریر سے مختلف نہیں ہے۔ اس تقریر میں بھی فوج کو مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے ’پاکستان مردہ باد‘ کے نعرے لگائے گئے تھے اور عمران خان کے انٹرویو اور آج دیر میں کی جانے والی تقریر میں بھی تقریباً وہی باتیں مختلف انداز میں کہی گئی ہیں۔ کہ اسٹبلشمنٹ کی نام نہاد غیر جانبداری اور غفلت کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا، اس کے ایٹمی اثاثے چھین لئے جائیں گے، فوج تباہ ہو جائے گی اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔

ہائبرڈ نظام قائم کرنے کے جوش میں پاک فوج کی قیادت اپنے ہی کھڑے کیے گئے لیڈر کے منہ سے اپنی ’تباہی کا پیغام‘ سن کر دم سادھے ہوئے ہے۔ اور وہی لیڈر ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے دفاع میں سامنے آئے ہیں جنہیں کبھی سیکورٹی رسک قرار دیا گیا اور کبھی ملک و قوم کے لئے بوجھ سمجھتے ہوئے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب بھی ان میں سے بیشتر لیڈروں کو ’چور لٹیرے‘ قرار دیتے ہوئے پاکستان میں بے یقینی اور سنسنی خیزی کا ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہائبرڈ نظام کی پیداوار لاڈلا اعلان کر رہا ہے کہ اگر فوج نے اس کی بات نہ سنی اور سپریم کورٹ کے جج اس کی لاقانونیت کے محافظ نہ بنے تو وہ ملک میں خانہ جنگی شروع کردے گا۔
آج کا موضوع عمران خان کی غیر متوازن اور بے بنیاد باتوں کا تجزیہ کرنا نہیں ہے بلکہ طاقت کے ان نام نہاد مراکز کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کروانا مطلوب ہے کہ جن سیاسی لیڈروں کو بدعنوانی، میمو گیٹ یا ڈان لیکس کے ذریعے بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی اور جن کے نام کے آگے تہمتوں کی طویل فہرست لف کردی گئی ہے، اب وہی پاکستان کی سالمیت اور افواج پاکستان کے وقار کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بجا طور سے عمران خان کو شٹ اپ کال دی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی حد پار نہ کریں اور ملکی سالمیت اور افواج پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی سے باز رہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ

’کوئی بھی پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی بات نہیں کر سکتا۔ عمران خان کی گفتگو کسی پاکستانی کی نہیں بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی زبان لگتی ہے‘ ۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان! اس دنیا میں طاقت ہی سب کچھ نہیں ہے، بہادر بنیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر سیاست کرنا سیکھیں۔ اس ملک کو 3 ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک ہم اور ہماری آنے والی نسلیں زندہ ہیں‘ ۔ انہوں نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا کہ ’انشا اللہ، پاکستان قیامت تک قائم رہے گا‘ ۔

یہ وہی آصف زرداری ہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر قومی سالمیت اور ملکی یک جہتی کا دو ٹوک اور واضح پیغام عام کیا تھا حالانکہ یہ شبہات موجود رہے ہیں کہ ملکی اقتدار پر قابض ایک آمر ان کی اہلیہ اور مقبول قومی لیڈر بے نظیر بھٹو کے ناجائز قتل میں ملوث تھا۔ ایک طرف ذاتی نقصان کے باوجود پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والا آصف زرداری ہے یا فوجی حکمت عملی میں نقائص کی نشاندہی پر معتوب ٹھہرایا جانے والا نواز شریف ہے جو مسلسل ملکی یگانگت کی علامت ہے تو دوسری طرف عمران خان ہے جو وزارت عظمی سے محروم ہو کر پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگانے، فوج کو تباہ کرنے اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا سودا کرنے پر تلا ہوا ہے۔

یہ باتیں تلخ ہیں۔ لیکن عمران خان نے اپنی انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور ذاتی حرص سے مغلوب گفتگو پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ آج کی تقریر میں انہی باتوں کو دہرایا ہے جو وہ گزشتہ رات ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں۔ کسی ریکارڈ کی طرح بجنے والے ان کے ترجمان ملک دشمنی سے معمور ان باتوں کو ’حقائق کا آئینہ‘ قرار دے کر بدستور عمران خان کا دفاع کر رہے ہیں۔ یہ کیسی سیاسی جماعت ہے جس میں ایک بھی ایسا لیڈر موجود نہیں ہے جو اپنے سربراہ کی مجرمانہ گفتگو کی گرفت کرنے کا اہل ہو۔

عسکری اداروں کے ان تین کارناموں کا موازنہ ہمیں صرف یہ سبق سکھاتا ہے کہ ’غیر جانبداری‘ کا جو اعلان سفارتی انداز میں کیا گیا ہے، اب اسے حقیقی بنانے کا وقت آ گیا ہے۔ فوج سیاست، معیشت و سفارت کے تمام پرجوش منصوبوں سے دست برداری کا فیصلہ کرے۔ خود کو مکمل طور سے حکومت وقت کی تابعداری میں دینے کا حتمی اعلان کرے۔ اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے ادارہ جاتی کورسز اور مباحث میں گفتگو کا آغاز کیا جائے تاکہ پاک فوج میں اس مزاج کی بیخ کنی ہو سکے جو حب الوطنی، عقل سلیم اور ایمانداری پر اجارہ داری کا تصور عام کرتا ہے۔ تب ہی مستقبل میں ملک کا کوئی سابق وزیر اعظم یہ اعلان نہیں کرے گا کہ ’منتخب وزیر اعظم تو بے اختیار ہوتا ہے۔ اصل طاقت فوج کے پاس رہتی ہے جو نیب جیسے اداروں کے ذریعے اسے استعمال کرتا ہے‘ ۔ عمران خان کے اس ایک بیان سے وہ سچائی بیان ہوئی ہے جو ملک کی سیاسی قیادت کے خلاف عائد کرپشن الزامات کی حقیقت سامنے لا رہی ہے۔

عمران خان بہادری کے لبادے میں چھپا ایک بزدل آدمی ہے۔ اسی لئے اس نے فوج پر ملک تباہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے نیب کا ذکر کیا لیکن عدلیہ کا نام نہیں لیا تاکہ کہیں انہیں توہین عدالت میں نہ دھر لیا جائے یا وہ ملک میں انتشار، بدامنی اور انارکی کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے بدستور اعلیٰ عدالتوں کو سہارا بنا سکے۔ لیکن بعض حقائق نوشتہ دیوار ہیں۔ اس وقت کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ملک کی سلامتی کو لاحق سب سے بڑے خطرے کا نام ہے لیکن قومی سلامتی کے ذمہ دار ابھی تک اسے لگام دینے پر تیار نہیں ہیں۔

سید مجاہد علی
(بشکریہ کاروان ناروے

تبصرے