مطبوعہ مضامین اگست 2022
[01/08, 04:43] Nazir Malik: *ماہ محرم کی اہمیت*
پیر یکم اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ہجری سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں-محرم کا مہینہ بھی ان حرمت والے مہینوں میں شامل ہے۔ اسے اللہ کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے اور محرم سے ہی ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے یعنی یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔
فرمان باری تعالی ہے-
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ
(التوبة - الآية 36)
ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ،ان میں سے چار (مہینے) حرمت کے ہیں۔ یہی درست دین ہے ،تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
(سورت توبہ کی ایت نمبر36-پارہ نمبر10)
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا (زمانہ گھوم کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جیسے
اس دن تھا جس دن اللہ تعالی نے زمین واسمان بناۓ تھے سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں تین تو مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ محرم اور چوتھا رجب
(جس کی قبیلہ مضر بہت تعظیم کرتا ہے) جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے (باب ماجاء في سبع أرضين)(مختصر صحیح بخاری/صفحہ 899)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (رمضان کے بعدافضل روزے اللہ کے مہینہ محرم کے روزے ہیں اور فرض نماز کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے (یعنی تہجد کی نماز) رواہ مسلم-1163
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لاۓ تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا آپ ﷺ نے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ ایک اچھا دن ہے یعنی اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا آپ ﷺ نے فرمایا میں تم سے زیادہ حضرت موسی علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہوں چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا -(باب صوم يوم عاشوراء )(مختصر صحیح بخاری/صفحہ نمبر/602)
عاشوراء محرم ( یعنی محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( مجھے اللہ تعالی سے امید ہےکہ وہ گزشتہ سال کے گناہوں کو معاف فرمادے گا ۔
(صحیح مسلم -1162)
مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ (آئندہ سال زندہ رہا تو) نو (9 محرم) کا روزہ بھی رکھوں گا۔
(مسلم-1134)
ایک دوسری روایت (عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مسند احمد میں روایت ہے کہ یہود کی مخالفت کرو اور 10 محرم سے پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو(یعنی 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھا جاسکتا ھے) یا 10 اور 11گیارہ کا روزہ رکھا جاسکتا ہے۔
*الدعاء*
یا ہمارے رب! ہمیں تیرے احکامات پر اور تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر من و عن عمل کرنے والا بنا دے اور ہمارے نیک اعمال قبول فرما اور اپنی رحمت کے وسیلے سے ہمیں بخش دے اور ہمیں جنت فردوس عطا فرماء
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاء
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell: 0092300860 4333
[01/08, 20:40] Nazir Malik: *ہم جنت کے طلبگار ہیں مگر حقدار نہیں*
منگل 02 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
دنیا کا اصول ہے کہ کسی مقام کے حصول کیلئے اس کی قابلیت ہونا ضروری ہے۔ اللہ سبحان تعالی نے جنت کے حصول کیلئے کچھ شرائط رکھی ہیں اگر کوئی مسلمان اپنے اندر وہ خوبیاں پیدا کر لیتا ہے تو جنت کا حقدار ٹھہرے گا
اسکے دو معیار ہیں ایک وہ کام ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا اور وہ کام سرانجام دینے سے آپ جنت کے حقدار بن سکتے ہیں اور کچھ کام ایسے ہیں جن کے چھوڑنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے جن کے اجتناب سے آپ جنت کے حقدار بن سکتے اور یہی حکم احادیث اور سنت نبوی الشریف کا بھی ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ اللہ تعالی نے چھوٹے چھوٹے نیک اعمال کے عوض جنت کی بشارت دی ہے اور جہنم سے خلاصی کا مژدہ سنایا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالی تو ہمیں بخشنے کے بہانے تلاش کر رہے ہیں مگر ہم ہی اپنی کمزوری دیکھا رہے ہیں اور سدھر نہیں رہے۔ زبانی کلامی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عمل ندارد۔
قرآن مجید فرقان الحمید سورۃ المومنؤن1تا 10
میں اللہ تعالی نے جنتی کی دس خوبیاں بیان کی ہیں
*جنتی کی دس خوبیاں*
اگر آپ یہ دس خوبیاں اپنے اندر آپ پیدا کرلیں، تو جنت فردوس آپکی ہوئی۔
*مومنین کی دس خوبیاں*
1۔ یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی۔
2۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔
3۔ جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
4۔ جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں۔
4۔ جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں۔
5۔ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
6۔ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔
7۔ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں۔
8۔ جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
9۔ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں
10۔ یہی وارث ہیں۔
جو فردوس کے وارث ہونگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
ایک حدیث شریف میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ جس نے دس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی اس کا جنت میں گھر ہوگا۔
لیکن اللہ تعالی کی ندا بھی اس سلسلے میں یاد رہے
*کیا جنت میں ایسے ہی داخل کر دیۓ جاؤ گے اور آزماۓ نہ جاؤ گے(القرآن*
جنت کی امید سب رکھتے ہیں مگر عمل سے غافل۔
نماز پڑھتے نہیں
قرآن پڑھتے نہیں
سچ بولتے نہیں
حلال کھاتے نہیں
خلوتیں پاک رکھتے نہیں
نگاہیں نیچی رکھتے نہیں
شرم گاہوں کی حفاظت کرتے نہیں
اللہ تعالی کے احکام مانتے نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے نہیں
دوسروں کا حق غصب کرتے ہیں۔
ایک بار اپنی سرچ ہسٹری تو چیک کرلیں۔
اور پھر ایمانداری سے بولیں کہ کیا آپ جنت کے حقدار ہیں ہیں؟؟؟
*شفاعت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم*
امت محمدی پر میرے رب کا احسان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم, صاحب شفاعت نبی ہیں مگر ہماری جھولی بھی خالی نہ ہو وگرنہ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کس منہ سے ہم شفاعت کی درخواست کریں گے؟
*الدعاء*
یا اللہ ہم تیرے آخری نبی کی امت ہیں۔اپنےگناہوں کی معافی مانگتے ہیں
یا اللہ ہمیں سچا مومن بنا اور جنت الفردوس کا وارث بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[03/08, 04:50] Nazir Malik: *یوم عاشورہ کی بزرگیاں*
بدھ 03 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*قسط اول*
ﷲ تعالی کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں ۔اور ماہ محرم ان مہینوں میں سے ہی ہے اور انہی میں عاشورہ کا دن واقع ہوتا ہے جو آدمی اس میں طاعت اور عبادت کرتا ہے خدا وند تعالیٰ اس کو بڑا اجر عطاء فرماتا ہے اور ابو نصر اپنے باپ سے اور وہ اپنی سند کے ساتھ مجاہد سے اور وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ " اگر کوئی آدمی محرم کے مہینے میں روزہ رکھے تو اس کو ہر ایک روزہ کے عوض تین روزوں کا ثواب مرحمت فرمایا جاتا ہے ۔" میمون بن مہرانؓ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ خدا کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ " اگر کوئی آدمی ماہ محرم میں عاشورہ کے دس روزے رکھے تو اس کو دس ہزار فرشتوں کو ثواب عنایت کیا جاتا ہے اور اگر کوئی خاص عاشورہ کے دن روزہ رکھے تو اس کو دس ہزار حج اور دس ہزار عمرہ کرنے والوں کا ثواب عطاء ہوتا ہے اور اگر آدمی عاشورہ کے دن کسی یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے تو اس کے عوض ﷲ تعالیٰ اس کو بہشت میں اس قدر درجے عنایت کرتا ہے جس قدر اس کے سر کے بالوں کی تعداد ہو اور اگر کوئی آدمی عاشورہ کی رات میں کسی مومن کا روزہ افطار کرائے تو وہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس نے محمد ﷺ کی تمام امت کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔
(حوالہ: غنیتہ الطالبین)
*باقی قسط دوئم میں ملاحظہ فرمائیں*
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں اہل بیت سے محبت کرنے والا بنا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت اور کتاب اللہ پر عمل کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاء
خادم اہل بیت
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell: 0092300860 4333
[03/08, 18:14] Nazir Malik: *جنتی مردوں اور جنتی عورتوں کی 10 صفات*
جمعرات 4 اگست2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
جنتیوں کی 10 صفات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب کی آیت-35 میں جمع کر دیا ہے ۔
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ
*بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں*
وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
*مومن مرد اور مومنہ عورتیں*
وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ
*اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں*
وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ
*سچے مرد اور سچی عورتیں*
وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ
*صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں*
وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ
*عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں*
وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ
*صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں*
وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ
*روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں*
وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ
*اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں*
وَالذَّاكِرِينَ للَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ
*کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں*
أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الاحزاب : 35)
*ان سب کے لئے اللہ تعالی نے وسیع مغفرت اور بہت زیادہ ثواب تیار کر رکھا ہے*
*اس آیت میں جہاں اللہ تعالی نے مثالی مرد کے دس اوصاف کا ذکر کیا ہے وہیں مثالی عورت کی بھی دس خوبیوں کا ذکر کیا ہے*
*الدعاء*
ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر یہ دس صفات پیدا کریں تاکہ ان اوصاف کی وجہ سے اللہ تعالی ہمیں بھی اہل جنت میں شامل فرما دیں۔
یا اللہ تعالی ہمیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[04/08, 23:24] Nazir Malik: *جنتیں اور جنتی*
جمعہ 05 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنت کے کل آٹھ درجے بنائے ہیں اور جنتیوں کے نیک اعمال کے حساب سے ان کی درجہ بندی ہوگی اور ہر درجے میں سہولیات بھی مختلف ہوں گی مگر جنت الفردوس جنت کا وہ اعلی مقام ہے جو انبیاء کرام، رسولوں، صدیقین، اولیاء اللہ، شہدا اور صالحین کے لئے مخصوص ہے اس درجے میں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے ہوں گے۔
*جنتوں کے نام*
(۱): جنت الفردوس
(۲): جنت عدن
(۳): جنت الخلد
(۴): جنت النعیم
(۵): جنت الماوی
(۶): جنت القرار
(۷): دار السلام
(۸): دار المقام
یہ سب جنتیں نہایت خوبیوں کے ساتھ مزین گئی ہیں ۔بہشت کی دیواریں ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی سے بنائی گئی ہیں اور ان میں مشک کا گارا لگایا گیا ہے ۔ جنت میں کنکریاں موتی، یاقوت کی ہیں، خاک وہاں کی زعفران اور خوشبودار ہے۔جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ چین و آرام پائیں گے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ نہ ان کی جوانی فنا ہو گی نہ ان کے کپڑے میلے ہونگے۔ہر جنتی کو جنت میں سو سو درجے اتنے بڑے ملیں گے کہ جیسے آسمان و زمین اور ہر مسلمان واسطے دو باغ ہونگے سونے کے جن کا کل سامان بھی سونے کا ہو گا اور باغ ہونگے چاندی کے جن کا کل سامان بھی چاندی کا ہو گا ۔ ان کے سوا اور ایک ایک محل ملیں گے جن کا عرض و طول ساٹھ ساٹھ میل کا ہو گا۔ہر ایک محل میں پردہ والی بیبیاں رہیں گی جن کو نہ کوئی دیکھے گا اور نہ ان سے سوا ان کے خاوندوں کے اور کوئی مباشرت کرے گا۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت نور کی مانند چمکدار ہوتی ہے اور اس کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جنت میں خوشگوار ہوائیں چلتی ہیں۔جنت کے محل بڑے مضبوط ہیں ۔ ہر محل میں نہریں جاری ہیں۔میوے پکے ہوئے تیار ہیں۔ عورتیں کنواری ہیں جن پر کسی آدمی یا جن نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ چہرے ان کے یاقوت و مونگے سے زیادہ روشن بناؤ سنگھار کئے ہوئے ہر محل میں موجود ہیں کیونکہ بہشت ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔
" نیک لوگ نعمتوں کے اندر تختوں پر بیٹھے ہوئے ہر طرف سے تماشے دیکھتے ہوں گے۔ ان کے چہروں سے جنت کی نعمتوں کی سر سبزی پائی جائے گی۔پئیں گے وہ شراب خالص جس پر مشک کی مہریں لگی ہونگی، چاہئے کہ رغبت کرنے والے اس کی رغبت کریں۔ ملاوٹ اسی میں ایک چشمہ سے ہو گی جس میں سے خاص مقرب بندے پئیں گے۔ " (المصطفین: ۲۲ تا ۲۸)
فرمایا: " جنتی بندے بہشت میں تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے اپنی بیویوں کو ساتھ لئے بہشت کی نعمتیں کھاتے پیتے سیر و تماشے میں مشغول رہیں گے۔ (یٰسین: ۵۶ تا ۵۵) ہر جنتی کو جنت میں بڑا ملک عطاء کیا جائے گا۔خواہ وہ کیسا ہی کم مرتبہ والا ہے دنیا سے دس حصے زیادہ ، جن میں سے ایک درخت کے نیچے ہو کر تیز گھوڑے کا سوار سو برس تک چلے تو بھی اس کے سایہ کو طے نہ کر سکے۔
جنت کی فراخی اور بڑائی سوائے اﷲ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جنت کے دروازے اس قدر کشادہ ہیں کہ ایک چوکھٹ سے دوسری چوکھٹ تک چالیس برسوں کا فاصلہ ہے۔باوجود ایسی کشادگی کے محمد ﷺ کی امت والوں کا کھوے سے کھوا چھلتا ہو گا ، جنت میں داخلے کے وقت جب جنتیوں کا سیر کو جی چاہے گا تو اپنے اپنے تختوں پر سوار ہو کر اپنی اپنی عورتوں کو ساتھ لے کر سیر کرنے کو نکلا کریں گے۔یہاں تک ان کا جی چاہے گا ان کا تخت بہشتی ان کو اشارہ کے ساتھ سیر کروائے گا۔ ہر مرد کو جنت میں سو سو عورتوں سے صحبت کرنے کی طاقت دی جائے گی اور اس سے اس کو ہرگز تکان نہ معلوم ہو گی بلکہ قوت اور بڑھتی رہے گی۔ جنت کی عورتوں کی آنکھیں بڑی بڑی ، دل کو بھانے والی، رسیلی اور خوشگوار ہونگی۔ ان کی اوڑھنی کا ایک پلو دنیا و ما فیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر جنت کی ایک عورت دنیا میں جھانکے تو مشرق سے لے کر مغرب تک سب روشن ہو جائے۔
اور چاند و سورج ماند ہو جائیں اور کل اہل دنیا بے ہوش ہو جائیں۔
(رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی اَلدُّنِْیَا حَسَنَۃً وُّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وُّ قِنَا عَذَبَ النََّارِ o)
" اے اﷲ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔"
(الھم انک عفوٌ تحبُّ العفو فاعف عنَّیْ)
" ائے ﷲ! تو در گزر کرنے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند کرتا ہے، پس مجھ سے در گزر فرما۔"
یا اللہ تعالی میں تجھ سے جنت کے اعلی مقام کا سوال کرتا ہوں۔
یا اللہ میری دعائیں قبول فرما۔
آمین یا رب عالمین
Please visit us @ www.nazirmalik.com
Cell: 0092300860 4333
[05/08, 21:19] Nazir Malik: *سیاسی اور غیر سیاسی اجتماعی اور انفرادی اسلامی اخلاقیات*
ہفتہ 06 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
اس پر فتن دور میں کچھ نا عاقبت اندیش سیاسی لیڈروں نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے اور شتر بے مہار کی طرح جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہیں اور بولتے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ عوام الناس اور ان کے اپنے چاہنے والوں کی اخلاقی قدروں پر ان منفی رویوں سے کیا اثرات مرتب ہونگے۔
سیاسی لیڈر قوم کے معمار ہوا کرتے ہیں اور اگر معمار ہی منحنی سوچ و بد زبان ہوں تو پھر قوم کی تعمیر نہیں بلکہ اخلاقی اور معاشرتی تباہی ایسی قوم کا مقدر بن جایا کرتی ہے جس کے سدھرنے کے لئے سال نہیں صدیاں چاہیئں۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ جس کا اخلاق اچھا اس کا ایمان اچھا۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بگڑے ہوئے عرب معاشرے کو اپنے حسن اخلاق سے ریوڑ سے مسلمان قوم بنا دیا۔
اے عقل و دانش والے لوگو۔
ہم تو نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کے مالک تھے ہم نبی کریم کی مرتب کردہ اخلاقیات سے کیوں مرکز گریز ہوتے جا رہے ہیں؟
کیا معمار انسانیت نے کبھی یہ زبان استعمال کی تھی؟
ہم اپنے آپ کو اہل سنت والجماعت گردانتے ہیں مگر نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جاری کردہ سنتوں کو جھوڑ کر شیطان مردود کے پیروکار بن بیٹھے ہیں جس سے قومی یکجہتی فیتی فیتی ہونے لگی ہے۔
اے قوم رسول ہاشمی آیئے اپنی اصل کی طرف لوٹ چلیں اور نبی کریم کی ان سنتوں پر عمل کر کے پھر سے ایک عظیم قوم بن جائیں۔
آمین یا رب العالمین
یہ ہیں وہ اسلامی اخلاقیات جو ہم چھوڑتے جا رہے ہیں ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصل کے طرف لوٹ آئیں۔
*حکم باری تعالی ہے کہ*
*آڑے نام نہ رکھیں- (الحجرات)*
*ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں - (الحجرات: 12)*
*ایک دوسرے پر طعن نہ کریں - (الھمزہ: 1)*
*پیٹھ پیچھے برائیاں نہ کریں - (الھمزہ: 1)*
*چغلی نہ کریں - (صحیح مسلم)*
*عیب نہ نکالیں - (سنن ابو داؤد: 4875،*
1. ایک دوسرے کو سلام کریں (مسلم:
2. ان سے ملاقات کرنے جائیں - (مسلم: 2567)
3. ان کے پاس بیٹھنے اٹھنے کا معمول بنائیں۔ - (لقمان: 15)
4. ان سے بات چیت کریں - (مسلم: 2560)
5. ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آئیں - (سنن ترمذی: 1924، صحیح)
6. ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ دیا کریں - (صحیح الجامع: 3004)
7. اگر وہ دعوت دیں تو قبول کریں - (مسلم: 2162)
8. اگر وہ مہمان بن کر آئیں تو ان کی ضیافت کریں - (ترمذی: 2485، صحیح)
9. انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں - (مسلم: 2733)
10. بڑے ہوں تو ان کی عزت کریں - (سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)
11. چھوٹے ہوں تو ان پر شفقت کریں - (سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)
12. ان کی خوشی و غم میں شریک ہوں - (صحیح بخاری: 6951)
13. اگر ان کو کسی بات میں اعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کریں - (صحیح بخاری: 6951)
14. ایک دوسرے کے خیر خواہ بنیں - (صحیح مسلم: 55)
15. اگر وہ نصیحت طلب کریں تو انہیں نصیحت کریں - (صحیح مسلم: 2162)
16. ایک دوسرے سے مشورہ کریں - (آل عمران: 159)
17. ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں - (الحجرات: 12)
18. ایک دوسرے پر طعن نہ کریں - (الھمزہ: 1)
19. پیٹھ پیچھے برائیاں نہ کریں - (الھمزہ: 1)
20. چغلی نہ کریں - (صحیح مسلم: 105)
21. آڑے نام نہ رکھیں - (الحجرات: 11)
22. عیب نہ نکالیں - (سنن ابو داؤد: 4875، صحیح)
23. ایک دوسرے کی تکلیفوں کو دور کریں - (سنن ابو داؤد: 4946، صحیح)
24. ایک دوسرے پر رحم کھائیں - (سنن ترمذی: 1924، صحیح)
25. دوسروں کو تکلیف دے کر مزے نہ اٹھائیں - (سورہ مطففین)
26. ناجائز مسابقت نہ کریں۔ مسابقت کرکے کسی کو گرانا بری عادت ہے۔ اس سے ناشکری یا تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں - (صحیح مسلم: 2963)
27. نیکیوں میں سبقت اور تنافس جائز ہےجبکہ اس کی آڑ میں تکبر، ریاکاری اور تحقیر کارفرما نہ ہو - (المطففین : 26)
28. طمع ، لالچ اور حرص سے بچیں - (التکاثر: 1)
29. ایثار و قربانی کا جذبہ رکھیں - (الحشر: 9)
30. اپنے سے زیادہ آگے والے کا خیال رکھیں - (الحشر: 9)
31. مذاق میں بھی کسی کو تکلیف نہ دیں - (الحجرات: 11)
32. نفع بخش بننے کی کوشش کریں - (صحیح الجامع: 3289، حسن)
33. احترام سے بات کریں۔بات کرتے وقت سخت لہجے سے بچیں - (آل عمران: 159)
34. غائبانہ اچھا ذکر کریں - (ترمذی: 2737، صحیح)
35. غصہ کو کنٹرول میں رکھیں - (صحیح بخاری: 6116)
36. انتقام لینے کی عادت سے بچیں - (صحیح بخاری: 6853)
37. کسی کو حقیر نہ سمجھیں - (صحیح مسلم: 91)
38. اللہ کے بعد ایک دوسرے کا بھی شکر ادا کریں - (سنن ابو داؤد: 4811، صحیح)
39. اگر بیمار ہوں تو عیادت کو جائیں - (ترمذی: 969، صحیح)
40. اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو جنازے میں شرکت کریں - (مسلم: 2162)
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل فرما اور نبی کریم کا صحیح پروکار بنا دے
آمین یا رب العالمین
*طالب الدعاء*
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[06/08, 23:18] Nazir Malik: *جنتیں اور جنتی*
اتوار 07 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنت کے کل آٹھ درجے بنائے ہیں اور جنتیوں کے نیک اعمال کے حساب سے ان کی درجہ بندی ہوگی اور ہر درجے میں سہولیات بھی مختلف ہوں گی مگر جنت الفردوس جنت کا وہ اعلی مقام ہے جو انبیاء کرام، رسولوں، صدیقین، اولیاء اللہ، شہدا اور صالحین کے لئے مخصوص ہے اس درجے میں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے ہوں گے۔
*جنتوں کے نام*
(۱): جنت الفردوس
(۲): جنت عدن
(۳): جنت الخلد
(۴): جنت النعیم
(۵): جنت الماوی
(۶): جنت القرار
(۷): دار السلام
(۸): دار المقام
یہ سب جنتیں نہایت خوبیوں کے ساتھ مزین گئی ہیں ۔بہشت کی دیواریں ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی سے بنائی گئی ہیں اور ان میں مشک کا گارا لگایا گیا ہے ۔ جنت میں کنکریاں موتی، یاقوت کی ہیں، خاک وہاں کی زعفران اور خوشبودار ہے۔جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ چین و آرام پائیں گے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ نہ ان کی جوانی فنا ہو گی نہ ان کے کپڑے میلے ہونگے۔ہر جنتی کو جنت میں سو سو درجے اتنے بڑے ملیں گے کہ جیسے آسمان و زمین اور ہر مسلمان واسطے دو باغ ہونگے سونے کے جن کا کل سامان بھی سونے کا ہو گا اور باغ ہونگے چاندی کے جن کا کل سامان بھی چاندی کا ہو گا ۔ ان کے سوا اور ایک ایک محل ملیں گے جن کا عرض و طول ساٹھ ساٹھ میل کا ہو گا۔ہر ایک محل میں پردہ والی بیبیاں رہیں گی جن کو نہ کوئی دیکھے گا اور نہ ان سے سوا ان کے خاوندوں کے اور کوئی مباشرت کرے گا۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت نور کی مانند چمکدار ہوتی ہے اور اس کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جنت میں خوشگوار ہوائیں چلتی ہیں۔جنت کے محل بڑے مضبوط ہیں ۔ ہر محل میں نہریں جاری ہیں۔میوے پکے ہوئے تیار ہیں۔ عورتیں کنواری ہیں جن پر کسی آدمی یا جن نے ہاتھ نہیں ڈالا۔ چہرے ان کے یاقوت و مونگے سے زیادہ روشن بناؤ سنگھار کئے ہوئے ہر محل میں موجود ہیں کیونکہ بہشت ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔
" نیک لوگ نعمتوں کے اندر تختوں پر بیٹھے ہوئے ہر طرف سے تماشے دیکھتے ہوں گے۔ ان کے چہروں سے جنت کی نعمتوں کی سر سبزی پائی جائے گی۔پئیں گے وہ شراب خالص جس پر مشک کی مہریں لگی ہونگی، چاہئے کہ رغبت کرنے والے اس کی رغبت کریں۔ ملاوٹ اسی میں ایک چشمہ سے ہو گی جس میں سے خاص مقرب بندے پئیں گے۔ " (المصطفین: ۲۲ تا ۲۸)
فرمایا: " جنتی بندے بہشت میں تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے اپنی بیویوں کو ساتھ لئے بہشت کی نعمتیں کھاتے پیتے سیر و تماشے میں مشغول رہیں گے۔ (یٰسین: ۵۶ تا ۵۵) ہر جنتی کو جنت میں بڑا ملک عطاء کیا جائے گا۔خواہ وہ کیسا ہی کم مرتبہ والا ہے دنیا سے دس حصے زیادہ ، جن میں سے ایک درخت کے نیچے ہو کر تیز گھوڑے کا سوار سو برس تک چلے تو بھی اس کے سایہ کو طے نہ کر سکے۔
جنت کی فراخی اور بڑائی سوائے اﷲ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جنت کے دروازے اس قدر کشادہ ہیں کہ ایک چوکھٹ سے دوسری چوکھٹ تک چالیس برسوں کا فاصلہ ہے۔باوجود ایسی کشادگی کے محمد ﷺ کی امت والوں کا کھوے سے کھوا چھلتا ہو گا ، جنت میں داخلے کے وقت جب جنتیوں کا سیر کو جی چاہے گا تو اپنے اپنے تختوں پر سوار ہو کر اپنی اپنی عورتوں کو ساتھ لے کر سیر کرنے کو نکلا کریں گے۔یہاں تک ان کا جی چاہے گا ان کا تخت بہشتی ان کو اشارہ کے ساتھ سیر کروائے گا۔ ہر مرد کو جنت میں سو سو عورتوں سے صحبت کرنے کی طاقت دی جائے گی اور اس سے اس کو ہرگز تکان نہ معلوم ہو گی بلکہ قوت اور بڑھتی رہے گی۔ جنت کی عورتوں کی آنکھیں بڑی بڑی ، دل کو بھانے والی، رسیلی اور خوشگوار ہونگی۔ ان کی اوڑھنی کا ایک پلو دنیا و ما فیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر جنت کی ایک عورت دنیا میں جھانکے تو مشرق سے لے کر مغرب تک سب روشن ہو جائے۔
اور چاند و سورج ماند ہو جائیں اور کل اہل دنیا بے ہوش ہو جائیں۔
(رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی اَلدُّنِْیَا حَسَنَۃً وُّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وُّ قِنَا عَذَبَ النََّارِ o)
" اے اﷲ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔"
(الھم انک عفوٌ تحبُّ العفو فاعف عنَّیْ)
" ائے ﷲ! تو در گزر کرنے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند کرتا ہے، پس مجھ سے در گزر فرما۔"
یا اللہ تعالی میں تجھ سے جنت کے اعلی مقام کا سوال کرتا ہوں۔
یا اللہ میری دعائیں قبول فرما۔
آمین یا رب عالمین
Please visit us @ www.nazirmalik.com
Cell: 0092300860 4333
[08/08, 04:54] Nazir Malik: *عاشورہ محرم کے روزے کا اجر، پچھلے ایک سال کے گناہ معاف*
پیر 08 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*عاشوراء محرم (یعنی محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کی فضیلت*
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لاۓ تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا آپ ﷺ نے پوچھا یہ روزہ کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا یہ ایک اچھا دن ہے یعنی اس دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی تو حضرت موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا آپ ﷺ نے فرمایا میں تم سے زیادہ حضرت موسی علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہوں چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا -(باب صوم يوم عاشوراء )(مختصر صحیح بخاری/صفحہ نمبر/602)
عاشوراء محرم ( یعنی محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( مجھے اللہ تعالی سے امید ہےکہ وہ گزشتہ سال کے گناہوں کو معاف فرمادے گا ۔
(صحیح مسلم -1162)
مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ (آئندہ سال زندہ رہا تو) نو (9 محرم) کا روزہ بھی رکھوں گا۔
(مسلم-1134)
ایک دوسری روایت (عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مسند احمد میں روایت ہے کہ یہود کی مخالفت کرو اور 10 محرم سے پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو(یعنی 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھا جاسکتا ھے) یا 10 اور 11گیارہ کا روزہ رکھا جاسکتا ہے۔
*الدعاء*
یا ہمارے رب! ہمیں تیرے احکامات پر اور تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر من و عن عمل کرنے والا بنا دے اور ہمارے نیک اعمال قبول فرما اور اپنی رحمت کے وسیلے سے ہمیں بخش دے اور ہمیں جنت فردوس عطا فرماء
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاء
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell: 0092300860 4333
[08/08, 22:50] Nazir Malik: *اسمائے 72 شہدائے کربلا علیہ سلام*
منگل 09 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
1 حضرت امام حسین بن علی
2 حضرت عباس بن علی
3 حضرت علی اکبر بن حسین
4 حضرت علی اصغر بن حسین
5 حضرت عبداللہ بن علی
6 حضرت جعفر بن علی
7 حضرت عثمان بن علی
8 حضرت ابوبکر بن علی
9 حضرت ابوبکر بن حسن بن علی
10 حضرت قاسم بن حسن بن علی
11 حضرت عبداللہ بن حسن
12 حضرت عون بن عبداللہ بن جعفر
13 حضرت محمد بن عبداللہ بن جعفر
14 حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیل
15 حضرت محمد بن مسلم
16 حضرت محمد بن سعید بن عقیل
17 حضرت عبدالرحمن بن عقیل
18 حضرت جعفر بن عقیل
19 حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی
20حضرت أنس بن حارث اسدی
21 حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی
22 حضرت قیس بن عشر اسدی.
23 حضرت ابو ثمامہ بن عبداللہ
24 حضرت بریر ہمدانی
25 حضرت ہنزلہ بن اسد
26 حضرت عابس شاکری
27 حضرت عبدالرحمن رہبی
28 حضرت سیف بن حارث
29 حضرت عامر بن عبداللہ ہمدانی.
30 حضرت جندا بن حارث
31 حضرت شوذب بن عبداللہ
32 حضرت نافع بن حلال
33 حضرت حجاج بن مسروق مؤذن
34 حضرت عمر بن کرضہ
35 حضرت عبدالرحمن بن عبد رب
36 حضرت جندا بن کعب
حضرت جندا بن کعب
37 حضرت عامر بن جندا
38 حضرت نعیم بن عجلان
39 حضرت سعد بن حارث
40 حضرت زہیر بن قین
41 حضرت سلمان بن مضارب
42 حضرت سعید بن عمر
43 حضرت عبداللہ بن بشیر
44 حضرت وھب کلبی
45 حضرت حرب بن عمر-شیخ الاسلام قیس
46 حضرت ظہیر بن عامر
47 حضرت بشیر بن عامر
48 حضرت عبداللہ ارواح غفاری
49 حضرت جون غلام ابوذر غفاری
50 حضرت عبداللہ بن امیر
51 حضرت عبداللہ بن یزید
52 حضرت سلیم بن امیر
53 حضرت قاسم بن حبیب
54 حضرت زید بن سلیم
55 حضرت نعمان بن عمر
56 حضرت یزید بن سبیت
57 حضرت عامر بن مسلم
58 حضرت سیف بن مالک
59 حضرت جابر بن حجاج
60 حضرت مسعود بن حجاج
61 حضرت عبدالرحمن بن مسعود
62 حضرت بیکر بن حئ
63 حضرت عمار بن حسن تائی
64حضرت زرغامہ بن مالک
65 حضرت کینانہ بن عتیق
66 حضرت عقبہ بن سولت
67 حضرت حر بن یزید تمیمی
68 حضرت عقبہ بن سولت
69 حضرت حبلہ بن علی شیبنی
70 حضرت کنب بن عمر.
71 حضرت عبداللہ بن یکتیر
72 حضرت اسلم غلام ای ترکی
رضوان الله تعالى عليه اجمعين
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی ہمیں سچ اور حق کا ساتھ دینے والا بنا دے اور دین کی سر بلندی کے لئے حضرت حسین علیہ سلام کی پیروی کی توفیق عطا فرماء
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[10/08, 04:39] Nazir Malik: *امام حسین علیہ السلام کا خطبہ میدان کربلا*
بدھ 10 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
اے لوگو! تم میری بات سنو عجلت نہ کرو تا آنکہ جہاں تک مجھ پر واجب ہے کہ میں تم کو سمجھا نہ لوں اور میں اپنے آنے کا سبب تم سے نہ بیان کرلوں ۔ اگر تم میرے عذر کو قبول کر و گے اور میری بات کی تصدیق کروگے اور حق پسند کرو گے تو تمہاری اس میں سعادت مندی ہے اور تمہارا اس میں کوئی حرج نہ ہوگا۔ اور اگر تم میرا عذر قبول کرنا نہیں چاہتے تو تم لوگ جمع ہو اور اپنے لشکر کو یکجا کرلو تاکہ تم پر کوئی امر مشتبہ نہ رہے۔ اسکے بعد میرے سامنے آو اور مجھ سے کوئی رعایت نہ کرو۔ دیکھو بے شک میرا ولی اللہ ( یہ وہی الفاظ ہیں جو رسول اللہ نے غدیر میں مسلمانوں سے کہے تھے) جس نے کتاب اتاری ہے اور صالحین کا ولی ہے۔
اما بعد ! تم میرے نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں پھر اپنی طبیعتوں کی طرف رجوع کرو اور اپنے آپ کو جھنجھوڑو اور غور کرو۔ کیا میرا قتل کرنا اور میری آبتوہیں تمہیں روا اور جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبی محمد صلعم کا نواسہ نہیں ہوں اور اسکے چچا زاد بھائی اور افضل ترین مومنین اور رسالت کی تصدیق کنندہ رسول کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا حمزہ سید الشہدہ میرے باپ کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر الشہید جو جنت میں اڑ رہے ہیں میرے چچا نہیں ہیں؟
کیا تم کو یہ خبر نہیں پہنچی کہ رسول اللہ نے میرے اور میرے بھائی کے حق میں فرمایا کہ تم دونوں سردار جوانان جنت ہو اور اہل سنت کی آنکھ کی ٹھنڈک ہو؟ پس جو میں نے کہا ہے اسکی تصدیق کرو اور یہی سچ ہے۔ بخدا میں نے جھوٹ کبھی نہیں بولا۔ جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ اور اگر پھر بھی تم مجھے جھوٹا جانتے ہو تو تم میں ایسے لوگ موجود ہیں جن سے یہ دریافت کروگے تو تم کو وہ آگاہ کریں گے ۔ جابر بن عبد اللہ ، ابو سعید، سہل بن سعد، زید بن ارقم اور انس سے دریافت کرو۔ وہ تم کو بتلائیں گے کہ انہوں رسول اللہ سے یہ سنا ہے
کیا تم میں ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو تمہیں میرے خون ریزی سے روکے۔ اگر تم لوگ میرے کہنے پر مشکوک ہو یا میرے نواسہ رسول مقبول صلعم ہونے پر شک کرتے ہو تو واللہ مابین مشرق و مغرب میرے سوائے تمہارے نبی کا تم میں اور نہ کسی غیر میں کوئی نواسہ رسول نہیں ہے( یہ وہی جملہ ہے جو حضرت فاطمہ بنت محمد صلعم نے باغ فدک کے قضیہ میں دربار حضرت ابوبکر خلیفۃ المسلمیں میں ادا کئے تھے اس روئے زمیں پہ میرے سوا اور کوئی رسول کی بیٹی نہیں ہے،اگر ہو تو بتلاو) کیا میں نے تم میں سے کسی کو مارڈالا ہے۔ جسکا عوض مجھ سے طلب کرتے ہو یا کسی کا میں نے مال دبا لیا ہے جسکا معاوضہ مانگتے ہو یا کسی قسم کا قصاص مانتے ہو۔
لیکن شام کی فوج میں سے کوئی جواب نہ آیا تو آپ نے فرمایا۔
ثبت بن ربعی، حجاز بن الجیر، قیس بن الحرت کو نام با نام پکار کر فرمایا کیا تم لوگوں نے مجھے طلبی کا خط نہیں لکھا۔ ان لوگوں نے لکھنے اور بلانے سےانکار کا تو آپؑ نے ارشاد فرمایا۔ بے شک تم نے یہ کیا ہے۔ اے لوگو! تم کو مجھ سے نفرت ہے تو مجھے چھوڑ دو میں کسی محفوظ سر زمیں کی طرف چلا جاوں۔
قیس بن الاشعت بولا تم اپنے چچاکے لڑکے یعنی ابن زیاد کے حکم کی اطاعت کیوں نہیں کرتے وہ تمہاری برائی کا خواہاں نہ ہوگا۔ آپ نے جواب دیا کیا تیرا یہ مقصد ہے کہ بنی ہاشم تجھ سے مسلم بن عقیل کے علاوہ دوسروں کا بھی خون بہا طلب کریں؟ اللہ کی قسم میں ذلیل و خوار ہو کر تمہارا مطیع نہ ہونگا اور نہ میں غلاموں کی طرح مجبور ہو کر اسکی امارت کا اقرار کرونگا۔
اے اللہ کے بندو! میں اپنے اور تمہارے رب سے امان کا خواہشتگار ہوتا ہوں اور ہر متکبر اور اس شخص سے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ہے اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔
دعاء
یا اللہ تعالی ہمیں اہل بیت سے محبت کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell: 0092300860 4333
[11/08, 04:34] Nazir Malik: *سوانح حیات حضرت حسین بن علی سلام اللہ علیہ*
جمعرات11اگست2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*حضرت حسین ابن علی علیہ سلام*
علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے بیٹے، نواسہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بن عبد اللہ بن عبدالمطلب۔
حسینؑ بن علیؑ بن ابی طالبؑ ( ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) نبی اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی شہزادی بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیونکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے (اہل بیت) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی ہیں
بن علیؑ بن ابی طالبؑ ( ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) نبی اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور امام علی ابن ابی طالب ⁸علیہ السلام اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی شہزادی بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لخت تھے
ولادت 3 شعبان 4ھ، 7 8 جنوری 626ء
مدینہ منورہ۔
وفات 10 محرم 61ھ، بمطابق 10 اكتوبر 680ءكربلا، عراق
*محترم دراسلام نسب*
والد : علی ابن ابی طالب
والدہ : فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا
بھائی۔ بہن :
حسن بن علی زینب بنت علی عمر بن التغلبيہ ابو بكر بن علی محمد بن حنفیہ عثمان بن علی عباس بن علی
*ازواج :*
شاہ زنان بنت يزدجرد لیلیٰ بنت عروہ بن مسعود ثقفی
رباب بنت امرؤ القیس بن عدی
ام اسحاق بنت طلحہ
*اولاد :*
علی اکبر، علی اوسط، علی اصغر، جعفر، فاطمہ بنت حسین بن علی، سکینہ بنت حسین، رقیہ بنت حسین، خولہ بنت حسین، صفیہ بنت حسین
*اولادِ محمد*
حضرت محمد کے بیٹے
قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم
حضرت محمد کی بیٹیاں
فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ
حضرت فاطمہ کی اولادبیٹے
حسن _ حسین
حضرت فاطمہ کی اولاد بیٹیاں
زینب _ ام کلثوم
حسین بن علی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ 'حسین' نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ یعنی 'حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کر۔ حسین میرے الْأَسْبَاطِ میں سے ایک سِبْطٌ ہے'
حسین بن علی بن ابی طالب (4-61 ھ) اباعبد اللہ و سید الشہداء کے نام سے مشہور شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ دس سال منصب امامت پر فائز رہے اور واقعہ کربلا میں شہید
ہوئے۔ آپ علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کے دوسرے بیٹے اور پیغمبر اکرم ؐ کے نواسے ہیں۔
شیعہ اور اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے دوران میں آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہ حسن بن علی اور حسین بن علی کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش بھی کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ایک بھی ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات بھی نقل ہوئی ہیں انہی میں سے یہ روایات بھی ہیں؛ «حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں» نیز «حسین چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہے۔
اپنی وفات سے قبل، اموی حکمران معاویہ نے حسن معاویہ معاہدے کے برخلاف اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ جب معاویہ 680ء میں فوت ہوئے تو، یزید نے مطالبہ کیا کہ حسین اس کی بیعت کریں۔ حسین نے یزید سے بیعت کرنے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس کا مطلب اپنی جان کی قربانی دینا تھا۔ نتیجہ کے طور پر، انہوں نے 60 ہجری میں مکہ مکرمہ میں پناہ لینے کے لیے، اپنے آبائی شہر مدینہ چھوڑ دیا۔ وہاں، کوفہ کے لوگوں نے ان کو خط بھیجا اور بیعت کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اپنے رشتہ داروں اور پیروکاروں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ کچھ سازگار اشارے ملنے کے بعد، کوفہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن کربلا کے قریب انہیں یزید کی فوج نے روک لیا۔
یزید نے 10 اکتوبر 680 (10 محرم 61 ہجری) کو کربلا کی لڑائی میں ان کے بیشتر اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت، جس میں حسین کا چھ ماہ کا بیٹا، علی الاصغر، خواتین اور بچوں سمیت قتل کیا گیا تھا اور ان کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔
حسین نے اپنی زندگی کے ابتدائی سات سال اپنے نانا، محمد کے ساتھ گزارے۔ محمد کے حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں جو حسین اور اس کے بھائی حسن مجتبیٰ میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے: "حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے مالک ہیں۔" حسین کے بچپن کا سب سے اہم واقعہ مباہلہ کی تقریب میں شرکت کرنا اور مباہلہ کی آیت میں "ابناءَنا " کہلائے جانا ہے۔ علی ابن ابی طالب کی خلافت کے دوران میں، حسین اپنے والد کے نقش قدم پر تھے اور جنگوں میں ان کے ساتھ تھے۔ پھر، اس نے معاویہ کے ساتھ اپنے بھائی کے امن معاہدے پر قائم رہا اور معاویہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ تاہم، اس نے معاویہ کی جانب سے اسلام میں صلح نامہ اور مذاہب کے خلاف یزید کو ولی عہد کی حیثیت سے قبول کرنے کی درخواست پر غور کیا اور اسے قبول نہیں کیا۔
60 ھ میں معاویہ کی موت کے بعد، انہوں نے یزید کے ساتھ بیعت کرنے سے گریز کیا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ مکہ چلے گئے اور چار ماہ تک وہیں مقیم رہے۔ کوفہ کے لوگ، جو زیادہ تر شیعہ تھے، معاویہ کی موت پر خوش تھے اور انہوں نے حسین کو ایک خط لکھا کہ وہ اب بنی امیہ کی حکومت کو برداشت نہیں کریں گے اور اس سے بیعت کریں گے۔
حسین نے اپنے کزن، مسلم بن عقیل کو بھی، وہاں اس صورت حال کی چھان بین کے لیے بھیجا۔ پھر، کوفہ کے نئے حکمران عبید اللہ ابن زیاد کے اقدامات کے نتیجے میں، لوگ خوفزدہ ہو گئے اور مسلم کو تنہا چھوڑ گئے۔ حسین، کوفہ میں ہونے والے واقعات سے بے خبر، اپنے دوستوں کے ایماں پر ذوالحجہ 60ھ میں کوفہ کے لیے روانہ ہوئے، خدا نے وہ کیا کرنا چاہا۔ اس سڑک کے وسط میں، حرف ابن یزید ریاحی کی سربراہی میں کوفہ کی سپاہ نے کوفہ جانے والے قافلے کا راستہ روک لیا اور اس کے نتیجے میں یہ قافلہ اپنے راستے سے ہٹ گیا اور سن 61 ہجری میں محرم کے دوسرے دن کربلا پہنچے۔ عمر بن سعد کی کمان میں محرم کے تیسرے دن سے فوجیں کوفہ سے اس علاقے میں داخل ہوگئیں۔ محرم کے دسویں دن کی صبح، عاشورہ، حسین نے اپنی فوج تیار کی اور گھوڑے پر سوار ہوکر ابن سعد کی فوج کو خطبہ دیا اور ان سے اپنا مؤقف بیان کیا۔ لیکن اسے دوبارہ بتایا گیا کہ اسے پہلے یزید کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔ اس نے جواب دیا کہ وہ کبھی بھی خود کو غلام کی حیثیت سے سرنڈر نہیں کرے گا۔ یوں، کربلا کی جنگ شروع ہوئی اور دونوں فریقوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو گئی۔ دوپہر کے بعد، حسین کی فوج کا بہت محاصرہ کیا گیا۔ اس کے سامنے حسین کے ساتھیوں اور کنبہ کے قتل کے ساتھ، وہ آخر کار تنہا رہ گیا اور اس کے سر اور بازو کو زخمی کر دیا اور اس کے چہرے کے بل زمین پر گر پڑے اور سنان ابن انس نخعی یا شمر بن ذی الجوشن نے ان کا سر کاٹ دیا۔ جنگ ختم ہوئی اور ابن زیاد کے سپاہیوں نے لوٹ مار کی۔ ابن سعد نے میدان جنگ چھوڑنے کے بعد، بنی اسد نے حسین اور دوسرے مقتول کو وہاں دفن کر دیا۔ حسین کا سر، دوسرے بنوہاشم کے سروں کے ساتھ، قیدیوں کے ایک قافلے کے ساتھ کوفہ اور دمشق لے جایا گیا۔
تمام اسلامی مذاہب، بنوامیہ کے حامیوں کے علاوہ، حسین کو محمد کا نواسہ اور صحابی کہتے ہیں۔ شیعہ اسے ایک معصوم امام اور شہید سمجھتے ہیں۔ بہت سارے مسلمان خصوصا شیعہ کربلا کی برسی پر سوگ مناتے ہیں۔ ان کے بقول، حسین کوئی من مانی باغی نہیں تھا جس نے ذاتی مفاد کے لیے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان قربان کردی۔ انہوں نے معاویہ کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ یزید سے بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے والد کی طرح، اس کا بھی ماننا تھا کہ خدا نے اہل بیت کو محمد کی قوم کی رہنمائی کے لیے منتخب کیا ہے۔ اور کوفی خطوط کی آمد کے ساتھ ہی اس نے اپنے چاہنے والوں کے مشورے کے برخلاف، فرض شناسی کا احساس محسوس کیا۔ تاہم، انہوں نے جان بوجھ کر شہادت کی تلاش نہیں کی۔ اور یہ واضح ہونے کے بعد کہ اسے کوفیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، اس نے عراق چھوڑنے کی پیش کش کی۔ مسلم ثقافتوں، خاص طور پر شیعوں کے مشہور ثقافت، فن اور ادب میں، حسین اور اس کے ساتھیوں کی زندگی اور قتل عام کے بارے میں بہت سارے کام ہیں۔
اسلام میں، اس دن کو (محرم کے مہینے کی 10 تاریخ) بہت ہی مقدس سمجھا جاتا ہے
*الدعاَء*
یا اللہ تعالٰی ہم تجھ سے کامل ایمان کے ساتھ شہادت کی موت کی آرزو کرتے ہیں
یا اللہ تعالی ایمان کی سلامتی کے ساتھ شہادت والی موت عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاَء
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell: 0092300860 4333
[11/08, 23:18] Nazir Malik: *نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے ساے میں*
جمعہ 12 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربوں کے صحرا نوردوں کو ایک امت بنا دیا تھا لیکن آج کے اہل علم منبر و محراب کے وارثوں نے امت محمدی کو فرقوں میں بانٹ دیا۔
خدا را امت محمدی کو جوڑو تاکہ یہ پھر سے امت رسول ھاشمی بن جائے۔
اے عقل و دانش والے لوگو تبلیغ اسلام کی کیجیئے فرقوں کی نہیں۔
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالی ہے۔
*جس فرقے کے پاس جو ہے وہ اسی میں خوش ہے (القرآن)*
یاد کرو اس وقت کو
جب امام عالی مقام میدان کربلا میں لڑ رہے تھے زخموں سے چور ھوکر گھوڑے سے گرے وقت نماز تھا قبلہ رخ کر کے نماز ادا کی اور لوگوں کو بتایا نماز عشق ادا ھوتی ہے تلواروں کے سایہ میں۔
ایک یزیدی فوجی آگے بڑھا تو امام عالی مقام نے پوچھا کون ھو اس نے اپنا تعارف کرایا۔ پوچھا کیا چاہتےھو
کہا آپ کاسر چاہتا ھوں امام نے فرمایا تم میں وہ نشانی نہیں تم جہنم کے حقدار نہ بنو۔ وہ فوجی ڈوڑتا ھوا گیا اور کہا عجیب ہستی ہے جس کو اپنی جان کی بجائے نانا کی امت کو جہنم سے بچانے کی فکر ہے پھر شمر نے اس گردن کو تن سے جدا کردیا جس گردن پر طائف میں پتھر کھا کر دعاء دینے والے دونوں جہانوں کے سردار محمد رسول اللہ بوسہ دیا کرتے تھے جنت کے سردار کی گردن تن سے جدا کر دی گی باقی شہداء کی گردنیں بھی کاٹ دی گی لاشوں پر گھوڑے دوڑا دئیے گئے امام حسین کے کپڑے اتار لیے گئے خواتین نواسہ رسول کی چادریں اتار لی گی بچیوں کے کانوں سے بالیاں نوچ لی گئیں۔
ابن زیاد نے جامع مسجد میں سروں کی سر عام نمائش کی اور خطبہ دیا۔ سر دمشق بھیج دیئے گئے خواتین کو قید کرلیا گیا امام حسین کے خاندان کی ایک عورت نے جب امام عالی مقام کی لاش کو دھوپ میں دیکھا تھا تو عہد کیا تھا میں سایہ میں نہ بیٹھوں گی تو ایک دن امام زین العابدین رضی اللہ تعالی نےفرمایا سایہ پر آجاو تو انہوں نے فرمایا تم رونا چھوڑ دو امام زین العابدین نے فرمایا میں کیسے وہ منظر بھول سکتا ھوں زیادہ زور دیا خاتون خاندان نواسہ رسول کو سایہ میں لانے کی کوشیش کی تو انکی روح پرواز کر گی۔
میں گناہ گار کہاں وہ ہستیاں جن کاذکر میں کر رہا ھوں وہ کہاں۔ لوگوں کو رلایا جاسکتا ہے لیکن مجھے غم حسین بھی ہے لیکن مجھے رونا تو اس بات پر ہے وہ شہدا کربلا نواسہ رسول شہید ہیں زندہ ہیں لیکن نانا کے جس دین کو ہمارے حوالہ کر گئے جس مشن کو ہمارے ذمہ لگا کر گے جو سبق پڑھا گئے نماز نہیں چھوڑنی تلواروں کے سایہ میں بھی ادا کرنی ہے قرآن سر نیزے پر ھوتو پھر بھی پڑھنا ہے اور صبر کرنا ہے ایک خاتون نے تیر نکال کر یزیدی فوج پر نشانہ لیا
تو بی بی زینب نے فرمایا ہم نے تلوار اور تیر نہیں چلانے ہمیں صبر کا حکم ہے ہم نے اس پیغام کو کتنا سمجھا اور عمل کیا۔
محراب و منبر کے ورثا سے میری دست بدستہ التجا ہے امت محمدی کو جوڑو مگر توڑو نہیں۔
دعاء
یا اللہ تعالی امت محمدی کو پھر سے ایک بنا دے اور ہماری عظمت رفتہ بحال کر دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[13/08, 00:52] Nazir Malik: *واقعہ کربلا کے بعد*
ہفتہ 13 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
واقعہ کربلا سے امت محمدی کو جو سبق سیکھنا چاہیئے تھا وہ نہ سیکھا بلکہ امت محمدی خلفشار کا شکار ہو کر فرقوں میں بٹ گئی اور اس طرح امت کی یکجہتی پامال ہو کر پھر سے شتر بے مہار کی طرح بے ہنگم ہو کر رہ گئی۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ ابھی کربلا کے زخم بھر نہ پائے تھے کہ ایک اور شرمناک جنگ مدینہ رسول میں چھیڑ دی گئی۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگ حرہ میں یزید کا دس ہزار فوج کو مدینہ بھیج کر اس کا تقدس پامال کرنا فوج کا خواتین کی عصمت دری کرنا، خانہ کعبہ پر سنگ ریزی کروانا اور آگ لگوانے کے واقعات نے مسلمانوں کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا بلکہ شرافت اور اخوت کی سبھی حدود پامال ہو کر رہ گئیں۔
حکمرانی کو بچانے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے میرے ییش نظر تاریخ کے تاریخی حوالے بیان کرنا نہیں بلکہ میرے پیش نظر پیغام میدان کربلا ہے
کسی اللہ کے ولی سے کسی نے سوال کیا بتاوں حضرت علی علیہ سلام کا قد کتنا تھا انہوں نے سوال کرنے والے سے کہا میں آپ کو یقین دلاتا ھوں کہ آخرت میں تم سے یہ سوال نہیں ھوگا البتہ انکی سیرت پر کتنا عمل کیا یہ سوال ھو سکتا ہے جاو عمل کرو۔
زین العابدین کے پاس ایک شخص آیا کہا امام صاحب میں رات کو عبادت کر رہا تھا کہ مجھ سے ایک مچھر مر گیا کفارہ بتائیں آپ رو پڑے اور فرمایا امام حسین شہید ھوگے انکا خاندان شہید ھوتا رہا اس وقت کفارہ نہ پوچھا اب مچھر کا کفارہ پو چھتے ھو؟ کسی نےکہا ہم ہاتھی نگل جاتے ہیں مچھر چھانتے ہیں۔
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی تو دلوں کے بھیت بخوبی جانتا ہے۔
ہمارے آباو اجداد نے جو غلطیاں کی ہیں انھیں معاف فرما کیونکہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند فرماتا ہے
لہٰذا انھیں معاف فرما۔
یا اللہ تعالی ہم اسلامی تاریخ پڑھ کر پشیماں ضرور ہوتے ہیں مگر ہم بے بس ہیں کیوں کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے۔
یا اللہ تعالی ہماری رہنمائی فرما تاکہ ہم تیرے احکامات تیرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ماننے اور عمل کرنے والے بن جائیں۔ ہمیں ایسا بنا دے کہ ہم تجھے پسند آجائیں اور جنت فردوس ہمیں عطا فرمانا۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333.
[13/08, 15:53] Nazir Malik: *پاکستان اور پاکستانیت*
اتوار 14 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
آجکل کچھ خام ذھن نوجوان قومی یکجہتی کا شیرازہ بکھیرنے کے در پہ ہیں۔
علیحدہ صوبوں کی باتیں کرنے والے ایک بات یاد رکھیں گو کہ ہر صوبے کے کچھ نا عاقبت اندیشوں نے علیحدگی کا نعرہ ضرور لگایا ہے مگر الحمد للہ پنجاب نے کبھی بھی یہ بات نہیں کی۔ کیوں کہ بڑا بھائی ہونے کے ناطے یہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو کنبے کی شکل میں جوڑے رکھے ہوئے ہے اور اسی کی وجہ سے پاکستان کی یکجہتی قائم ہے۔
ان کمبخت نا عاقبت اندیش سیاست دانوں کی وجہ سے ابھی تو ہم اپنے مشرقی بازو کے کٹ جانے کا دکھ نہیں بھولے اور یہ کمبخت پھر سے اجڑ جانے کی باتیں کرتے ہیں؟
ہم پاکستانی وہ قوم ہیں جس نے کائنات کی سب سے بڑی ہجرت کرکے پاکستان بنایا۔ جس کی مٹی میں لاکھوں لوگوں کا خون شامل ہے ہزاروں ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں اس ارض پاک کے حصول کے لئے لٹی اور پامال ہوئی ہیں اور آج بھی وہ کنبے پاکستان میں آباد ہیں جن کے کنبے کے افراد نے ہجرت تو کی تھی مگر پاکستان نہ پہنچ سکے اور شہید ہو کر امر ہو گئے۔
کیا یہ قربانیاں اور ہجرت کی صعوبتیں بھلا پاؤ گے؟
ان شاء اللہ تعالٰی پاکستان تا قیامت قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور قائم رہے گا۔ گھر کے افراد میں سو اختلاف سہی مگر ہم ایک کنبہ ہیں اور ان شاء اللہ تعالی ہم مل جل کر ایک کنبے کی شکل میںں رہیں گے اسی میں ہماری کامیابی ہے اور یہی پاکستانیت کا راز ہے۔
جناب احمد ندیم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ازبر یاد کرنے کے ہیں۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
*پاکستان زندہ باد پائندہ باد*
ایک محب الوطن سینئر سٹیزن کے دل کی آواز جسے شاید ہر پاکستانی سن سکے اور دل سے محسوس کر سکے۔
اے رب کائنات ہمارے وطن کو ابدا" آباد رکھنا۔
آمین یا رب العالمین
*انجینیئر نذیر ملک سرگودھا*
جذبہ حب الوطنی سے لبریز ایک سینیئر سٹیزن
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[14/08, 20:12] Nazir Malik: *مقصد قیام پاکستان*
پیر 15 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا اور حصول پاکستان کا مقصد یہ تھا مسمانوں کو اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے کے لئے ایک آزاد مملکت چاہئیے تھی جہاں پر نفاذ شرعیت محمدی کی جا سکے مگر پاکستان کے بد نیت سیاستدانوں نے آج تک مسلمانوں سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 75 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم اپنے راستے کا تعین نہ کر سکے۔
سیاستدان اور معاشرے کے کرپٹ عناصر پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہی نہیں کیونکہ ان کو اپنی گردن اور ہاتھ کٹتے نظر آتے ہیں
کاش آج بھی ہم سیدھی راہ پر آجائیں جہاں فلاح دارین ہمارا انتظار کر رہی ہے۔
یا اللہ تعالی ہماری رہنمائی فرما اور ہمارے دلوں کو اسلام کی طرف موڑ دے۔
75 ویں یوم آزادی کے موقع پر ہمیں بحثیت قوم اللہ تعالی سے صدق دل سےمعافی مانگنی چاہیئے۔
*خواتین و حضرات*
موت کو ہمیشہ یاد رکھیں کیونکہ نہ جانے کب موت آ جائے۔
لہذا اس سانس کو غنیمت جانیۓ اور فورا" اپنے ذمہ حقوق اللہ اور حقوق العباد اداء کیجۓ اور اللہ تعالی کے حضور ندامت کے ساتھ توبہ کیجئے تاکہ اللہ تعالی کے حضور گناہوں سے پاک دامن لیکر جائیں۔
*الدعاء*
اے رب العالمین، اے دلوں کے بھید کو جاننے والے، میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں اور تیری معافی کا طلبگار ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ دوبارہ یہ گناہ اور دیگر گناہوں کے کام جن سے تو نے منع فرمایا ہے انکو کبھی نہیں کروں گا
اے رحمن الرحیم میری توبہ قبول فرما اور میرے کردہ گناہ معاف فرما دے۔ آمین
اللہ تعالی آپکی توبہ قبول فرمائے اور آپ کے ظاہری و باطنی ہر قسم کے گناہ اور کوتاہیاں معاف فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
احقر العباد
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[15/08, 17:17] Nazir Malik: *شہدائے کربلا بنو ھاشم*
منگل اگست 16 2022
انجینیئر نذیر ملک
معتبر مآخذ میں امام حسینؑ کے علاوہ بنو ہاشم کے 18 افراد نے کربلا میں جام شہادت نوش کیا۔
*اولاد امام علیؑ علیہ سلام*
ا۔حضرت عباس بن علی
2۔عبد اللہ بن علی
3۔عثمان بن على
4۔ابو بکر بن علی
5۔محمد بن على
6۔عون بن علی
*اولاد امام حسنؑ علیہ سلام*
1۔قاسم بن حسن
2۔ابو بکر بن حسن
3۔عبداللہ بن حسن
*اولاد امام حسینؑ علیہ سلام*
1۔على بن حسین جو حضرت علی اکبرؑ کے نام سے مشہور ہیں۔
2۔عبداللہ بن حسین جو حضرت علی اصغرؑ کے نام سے مشہور ہیں۔
*بنی ہاشم کے دیگر شہداء کرام*
1۔جعفر بن عقیل
2۔عبدالرحمان بن عقیل
3۔عبداللہ بن عقیل
4۔محمد بن ابی سعید بن عقیل
5۔عبد اللہ بن مسلم بن عقیل
6۔محمد بن عبد اللہ بن جعفر
7۔عون بن عبد اللہ بن جعفر
*درود و سلام*
سلام ان پر جو سفر کربلا میں شامل حسین تھے۔
سلام ان پر جنھوں سے شھادت کا رتبہ پایا۔
سلام ان پر جنھوں نے غم حسین میں زندگی گزاری۔
سلام ان پر جو اہل بیت نہ ہوتے ہوئے بھی اہل بیت کا ساتھ دیا اور اپنی جانیں نچھاور کیں۔
سلام ان پر جو وفادار اہل بیت رہے
سلام ان پر جو خانوادہ رسول کے غلام تھے
سلام ان پر جو رجال اہل بیت کی گھر والیاں تھی
سلام ان ننھے بچوں پر جنھوں نے والدین کے ساتھ شب و روز کٹھن گزارے۔
سلام ان ننھی کلیوں اور پھولوں پر جنھوں نے جام شہادت نوش فرمایا اور نیزوں میں پروے گے۔
سلام ان پر جو غم حسین میں آج بھی تڑپتے ہیں اور انکے دل خون کے آنسو بہاتے ہیں۔
اے رحمن و رحیم رب کائنات تو ہر شے پر قادر ہے چاھے تو اس جرم کے مجرموں کو جنھوں نے اہل بیت کو یہ اذیتیں پہنچائی ان کے گھناونا ⁸جرموں کو معاف کر دے یا ان کو قرار واقعی سزا دے۔
يا حَیُّ یآ قیّوُم بِرَحْمَتِکَ آسْتَغِيث
اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو مجھے میرے گناہ معاف کردے۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاَء
خادم اہل بیت رسول
نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[17/08, 00:10] Nazir Malik: *اللہ تعالی کا بلاوا*
بدھ 17 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
مؤذن نے اللہ اکبر کہا
بابا جی نےپکوڑوں کی کڑاہی کے نیچے شورمچاتے چولہے کو بند کیا ۔
اور بولے
دوستو ! تھوڑا سا انتظار کر لو ، بلاوا آگیا ہے
حاضری لگوا کے آتا ہوں۔
میں ذاتی طور انکی سیدھی سادھی باتوں سے بہت متاثر ہوا
میں سوچ رہا تھا کہ اب ہمیں بھی نماز کی دعوت ملے گی
مگر بابا جی نے کسی سے کچھ نہیں کہا
دو تین گاہک شاید جلدی میں تھے ، بڑبڑاتے چلے گئے
" آپ کے دو تین گاہک چلے گئے ہیں"
میں نے بابا جی کے آتے ہی انہیں کہا ؟؟
انہوں نے سنی ان سنی کر دی ۔
" رزق حلال کی کوشش بھی عبادت ہے
آپ گاہک فارغ کر کے بھی نماز پڑھ سکتے تھے
بابا جی مسکراتے ہوئے بولے میرے مالک نے کتنی محبت سےفلاح کی طرف بلایا۔
میں رزق کی کمی کی غرض سے رک کر فلاح کا موقع نہیں گنوانا چاہتا تھا
رزق تو ملتا رہا ہے ملتا رہے گا
بیٹا کبھی اسکی آواز پر لبیک کہہ کر تو دیکھو
ساری لذتیں ایک طرف
یہ لذت ایک طرف "
رزق تو ہر دروازے پر اپنے وقت کے مطابق پہنچ جاتا ہے مگر فلاح کی آواز کسی کسی دل پہ دستک دیتی ہے
کئی کان اسے قریب سے بھی نہیں سن پاتے
دعاء کرو اللہ وہ دل دے دے ، جس پر یہ آواز دستک دے
*یہ اللہ کی محبت کی آواز ہے بیٹا* "
میں اپنا دل ٹٹول رہا تھا
آواز تو میں نے بھی سنی تھی اوروں نے بھی
مگر دل پہ دستک نہیں ہوئی۔
الدعاَء
یا اللہ تعالی ہمیں قرآن مجید پر غور و خوض کرنے اور سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[17/08, 19:27] Nazir Malik: *قرآن اور جدید سائنس*
جمعرات18اگست 2022
تحقیق و تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں
*قرآن مجید کا چیلنج (Challenge)*
تمام تہذیبوں میں ادبق اور شاعری انسانی اظہار اور تخلیق کا ہتھیار رہی ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کو اب ایک خاص مقام حاصل ہے اسی طرح ایک دور میں یہ مقام ادب اور شاعری کو حاصل تھا۔ یہاں تک کہ غیر مسلم علما بھی ایک بات پر متفق ہے کہ قرآن عربی ادب کی نہایت عمدہ کتاب ہے۔ قرآن بنی نوع انسان کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسی کتاب بنا کر لاؤ۔
”وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ O فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَO [5]
میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لیے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہوo پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘
قرآن کا چیلنج یہ ہے کہ قرآن میں موجود سورتوں کی طرح کوئی ایک دوسری سورت بنا لاؤ اور اسی چیلنج کو قرآن نے کئی مرتبہ دُہرایا ہے۔ قرآن کے ایک سورت بنانے کا چیلنج یہ ہے کہ وہ بنائی جانی والی سورت کی خوبصورتی، فصاحت، گہرائی اور معنی کم از کم قرآ نی سورت جیسی ہونی چاہیے۔ تا ہم ایک جدید سوچ کا معقول آدمی کبھی بھی کسی ایسی مذہبی کتاب کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا جو حتیٰ الامکان عمدہ شاعری میں کی گئی ہو کہ یہ دنیا (گول نہیں بلکہ) چپٹی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں انسانی دلیل، منطق (logic) اور سائنس کو ترجیح دی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ قرآن کی غیر معمولی زبان کو اور اس کے کلام الٰہی ہونے کو نہیں مانتے۔ کوئی بھی کتاب جو کلام الٰہی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہو تو وہ منطق (logic) اور دلیل کے لحاظ سے بھی قابل قبول ہونی چاہیے۔
مشہور ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein
کےمطابق
سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔"“
اسی لیے آئیے کہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن اور جدید سائنس میں مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں کہ بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار چھ سو چھتیس آیات ہیں، جن میں ایک ہزار سے زیادہ سائنس کے متعلق ہیں، (یعنی ان میں سائنسی معلومات موجود ہیں)
ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس قہقرائی حرکت (یوٹرن Uturn) کرتی ہے (یعنی طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے) اس لیے قرآنی تعلیمات کے ساتھ موازنے کے لیے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش کیا جائے گا۔ قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے بحث نہیں کی جا سکتی جو خود سائنسی طور پر ثابت نہیں ہیں۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[19/08, 05:00] Nazir Malik: *ووٹ ایک شہادت ہے*
جمعہ 19 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
قرآن حدیث میں جس طرح جھوٹی شہادت دینے سے منع فرمایا ہے اسی طرح سچی شہادت کو لازم واجب فرمایا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے {کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط} مائدۃ :٨
دوسری جگہ باری تعالی کا ارشاد ہے : {کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط}نساء ١٣۵ ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چھڑائیں، اللہ تعالی کے لیے ادائیگی شہادت کے لیے کھڑے ہوجائیں، تیسری جگہ سورة طلاق میں ارشاد ہے کہ” اللہ تعالی کے لیے سچی شہادت قائم کرو ” ایک آیت میں ارشاد ہے کہ ” سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے” مزید ارشاد ہے کہ شہادت کو نہ چھپاؤ جو شہادت کو چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے”۔ ان تمام آیات نے مسلمانوں پر فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چھڑائیں، ضرور ادا کریں، اور آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں، ان کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک صالح افراد عموما ووٹ دینے سے گریز کرنے لگے ہیں جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ آرہا ہے، کہ ووٹ عموما ان لوگوں کے آتے ہیں، جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں، اور ان لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے۔
اس لیے جس حلقہ میں کوئی بھی امیدوار قابل اور نیک معلوم ہو اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی حرام اور پوری قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے اور اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیداور صحیح معنوں میں قابل اور دیانت دار نہ ہو، مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کا اور خدا ترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت غنیمت ہو تو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دینا جائز ہے، بلکہ مستحسن ہے، جیسا کہ نجاست کے پورے ازالے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیل نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیل ظلم کو فقہاء رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔
مختصر یہ کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے، جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور کتمان حق، اور بر موقع گواہی چھپانے کے مترادف ہے، جبکہ پاکستانی قانون مطابق ووٹ ڈالنا شہری کی ذمہ داری ہے اس لیے آپ کے حلقہ کو انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریہ کا حامل اور دیانت دار نمائندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ اور کوئی دیانت دار نہ ملے تو تو مذکورہ خدا ترسی کے اصول کی بنیاد پر جو بہتر ہو اسے ووٹ دے دینا مستحسن ہے۔ تاہم اگر حلقہ انتخاب میں امیدوار نظریہ اسلام کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہو، تو اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے، جو گناہ کبیرہ ہے۔ ایسے شخص کو ووٹ نہ دیا جائے بہرحال ووٹ دینے میں مذکورہ تفصیل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ووٹ دینے نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے۔ البتہ مذکورہ تفصیل کا لحاظ رکھے بغیر بالکلیہ انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کرنا درست نہیں، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی ہمیں حق و سچ کے ساتھ درست نمائندے چننے کی توفیق عطا فرما تاکہ وطن عزیز کا نظام صحیح ہو سکے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923⁰8604333
[19/08, 23:06] Nazir Malik: *ہمارے صادق اور امین وزیر اعظم اور انکے فقیر وزیراعظم*
ہفتہ 20 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا سچا واقعہ ہے ایک نوے برس کے آدمی کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا ۔ بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔
سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن ۔ پیرانہ سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھا ر پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہواکہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزر رہا تھا۔ اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں۔ ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا۔ اور پھر محلہ داروں نے بیچ میں پڑ کر دو ماہ کا وقت لے کر دیا ہے۔ *ایڈیٹر نے بزرگ شخص کی تصاویر دیکھیں تو چونک اٹھا* ۔
رپورٹر سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کو جانتے ہو۔ رپورٹر ہنسنے لگا کہ ایڈیٹر صاحب ۔ اس بابے میں کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ کوئی بھی اس پر توجہ دے۔ اسے تو محلہ والے بھی نہیں جانتے۔ ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے۔ برتن بھی خود دھوتا ہے۔ معمولی سے گھر میں جھاڑ پوچا بھی خود لگاتا ہے۔ اس کو کس نے جاننا ہے۔
*ایڈیٹر نے حد درجہ سنجیدگی سے رپورٹر کو کہا کہ یہ*
*ہندوستان کا دومرتبہ وزیراعظم رہ چکا ہے اور اس کا نام گلزاری لال نندہ ہے*۔
رپورٹر کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اور اس بدحالی میں۔ خیر اگلے دن اخبار چھپا تو قیامت آ گئی۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ عاجز سا بوڑھا ہندوستان کا دوبار وزیراعظم رہ چکا ہے۔
وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم کو بھی معلوم ہو گیا کہ گلزاری لال کس مہیب مفلسی میں سانس لے رہا ہے۔ خبر چھپنے کے چند گھنٹوں بعد‘ ریاست کا وزیراعلیٰ ‘چیف سیکریٹری اور کئی وزیر اس محلے میں پہنچ گئے۔ سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ کو سرکاری گھر میں منتقل کر دیتے ہیں اور سرکار ماہانہ وظیفہ بھی لگا دیتی ہے۔
خدارا اس معمولی سے مکان کو چھوڑیے۔ مگر گلزاری لال نے سختی سے انکار کر دیا کہ کسی بھی طرح کی سرکاری سہولت پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ یہیں‘ اسی کوارٹر میں رہے گا۔ گلزاری لال کے چند رشتہ داروں نے منت سماجت کر کے بہر حال اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہر ماہ‘ پانچ سو روپے وظیفہ قبول کر لے۔ سابقہ وزیراعظم نے حد درجہ مشکل کے بعد یہ پیسے وصول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اب اس قلیل سی رقم میں کرایہ‘ کھانا پینا شروع ہو گیا۔
مالک مکان کو جب علم ہوا کہ اس کا کرایہ دار پورے ملک کا وزیراعظم بن چکا ہے۔ تو گلزاری لال کے پاس آیا اور پیر پکڑ لیے کہ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس کا کرایہ دار اس اعلیٰ ترین منصب پر فائر رہ چکا ہے۔ بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ اسے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کون ہے۔ وہ تو ایک معمولی سا کرایہ دار ہے اور بس۔ جب تک گلزاری لال زندہ رہا‘ اسی مکان میں رہا اور مرتے دم تک پانچ سو روپے میں گزارا کرتا رہا۔
گلزاری لال نندہ حیرت انگیز کردار کا انسان تھا۔ سیالکوٹ میں 1898 میں پیدا ہوا۔ اور 1998 میں احمد آباد میں فوت ہو گیا۔ جواہر لال نہرو کے انتقال کے بعد 1964 میں وزیراعظم رہا۔ اور 1966میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد بھی اس بلند پایہ منصب پر فائز رہا۔ *بنیادی طور پر ایف سی کالج لاہور سے اقتصادیات کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ دراصل وہ اقتصادیات کا استاد تھا۔*
ممبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتا رہا۔ سیاست میں آیا تو یونین منسٹر‘ وزیر خارجہ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن بھی رہا۔ متعدد بار لوک سبھا کا ممبر بھی منتخب ہوا۔ گلزاری لال کافلسفہ تھا کہ زندگی کو بہت سادہ گزارنا چاہیے۔ کسی شان و شوکت کے بغیر انتہائی قلیل رقم میں خوش رہنا ہی اصل امتحان ہے۔ویسے گلزاری لال سادگی بلکہ عسرت میں رہنے کی جو مثال قائم کر گیا اس کے لیے حد درجہ مضبوط کردار کی ضرورت ہے۔
نناوے سال کی عمر میں فوت ہوتے وقت‘ اس کے پاس کسی قسم کی جائیداد‘ کوئی بینک بیلنس اور کوئی ذاتی گھر تک نہیں تھا۔
بس ایک عزت و احترام کا وہ خزانہ تھا جو امیر سے امیر لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔
یہ بھی حقیقت
سیاست میں حد درجہ کرپشن ہے مگر اس کے باوجود ہمیں بارہا گلزاری لال جیسے کردار مل ہی جاتے ہیں ۔انڈیا میں کئی ایسے بلند سطح کے سیاست دان موجود ہیں جن کے اثاثے کچھ بھی نہیں ہیں۔
*یہ پڑھتے وقت خیال رکھئیے کہ یہ تاریخ کا ایک ورق ھے، اسے اپنے **ہاں تلاش کرنے کی کوشش نہ کیجئے*.
*الدعاَء*
یا قادر مطلق ہم پچھلے پچہتر سالوں سے نت نئے حکمرانوں کے تجربے کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ اور حالات زمانہ پر عمیق نظر ڈالتے ہوئے مستقبل قریب میں ہمیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی بس اب تجھ پر ہی آخری امید اور بھروسہ ہے۔
اے ہمارے مولا تو جانتا ہے کہ اس ملک کی مٹی شہدا کے خون میں گندھی ہوئی ہے میرے مولا کائنات ہمارے شہدا وطن کے خون کی لاج رکھ لے اور اپنی جناب سے ہمیں عمر بن عبدلعزیز جیسا حکمران عطا فرما وگرنہ ڈر ہے کہ یہ سرزمین پھر سے
کفار نما مسلم کے تسلط میں نہ چلی جائے۔
اے وسع قدرت والے میری التجا سن لے۔
آمین یا رب العالمین
برحمتک استغیث۔
طالب الدعاَء
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell: 0092300860 4333
[20/08, 17:06] Nazir Malik: *صلہ رحمی کتاب و سنت کی روشنی میں*
اتوار 21 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*صلہ رحمی کیا ہے*
صلہ رحمی سے مراد اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔
*صلہ رحمی کی اہمیت*
ارشاد باری تعالی ہے
"جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں(البقرہ۔27)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اوراسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :
یا رسول اللہ ! کن(صفات والوں) کو؟
آپﷺنے فرمایا:
جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر، جو تُجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر، اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
یا رسول اللہ! اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھے اللہ تعالی اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرما دے گا۔
*صلہ رحمی رزق میں اضافہ اور درازی عمر کا سبب ہے*
*دلیل اؤل*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔ (بخاری 5986)
*دلیل دوئم*
”حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
جو شخص چاہتاہے کہ اس کے رزق میں وسعت وفراخی اور اس کی اجل میں تاخیر کی جائے (یعنی اس کی عمر دراز ہو) تو اس کو چاہیے کہ وہ رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کرے
*انسان کی عمر گھٹتی بڑھتی رہتی ہے مندرجہ بالا دو احادیث مبارکہ اس کی دلیل ہیں*
اِس کے برخلاف رشتہ ناطہ کو توڑ دینا اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ تعالی کے نزدیک حد درجہ مبغوض ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ " میدانِ محشر میں رحم (جو رشتہ داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑ کر یہ کہے گا کہ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا (یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)"۔ (بخاری ٥٩٨٩، مسلم ٢٥٥٥)
نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی پیشگی سزا کا ہونا بجا ہے:
ایک ظلم، دُوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ ٤٢١١، ترمذی ٢٥١١)
ہمارے معاشرے میں قطع رحمی بڑھتی جا رہی ہے، اچھے بھلے دین دار لوگ بھی رشتہ داروں کے حقوق کا خیال نہیں کرتے۔ جب کہ رشتہ داروں کے شریعت میں بہت سے حقوق بتائے ہیں
”سو (اے مخاطب) تو قرابت دار کو اس کا حق دیا کر اور (اسی طرح) مسکین اور مسافر کو۔
ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ تو فلاح پانے والے ہیں(سورۃ الروم۔35)
”حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں ، میں رحمان ہوں (یعنی صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتا کے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا (ابو داؤد)
*قطعی رحمی کی سزا دنیا وآخرت میں*
”حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا“
*حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور (مرتکب کو) آخرت میں بھی دینے کے لیے (اس سزا) کو اٹھا رکھے، ہاں دوگناہ اس بات کے لائق ہیں: ایک تو زنا کرنا اور دوسرا ناتا توڑنا*
*یا مالک الملک!*
اس پر فتن دور میں صلہ رحمی مفقود ہوتی جا رہی ہے لہذا تو ہمارے دلوں میں پہلی سی محبت اور رواداری پیدا فرما دے۔
آمین یا رب العالمین
(طبع اؤل 2018)
Please visit us and www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[21/08, 11:38] Nazir Malik: موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں ہمارا مستقبل
پیر 22 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ٹھنڈے دل سے سوچتا ہوں اور مخلص ہو کر وطن عزیز کے سیاسی و معاشی حالات کا جائزہ لیتا ہوں تو شرم سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ ہم کیا تھے کیا ہونا چاہیئے تھا اور کیا ہو گئے۔
کیا وجہ ہے ہم ایسے کیوں ہوگئے۔ کیا ہماری کوئی راہنمائی کرنے والا نہ تھا کیا ہمارے لیڈر کرپٹ تھے یا ہم سب کرپٹ تھے لیکن ہم تو کتاب اللہ کے ماننے والے تھے اور ہمارے سامنے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اسوہ حسنہ تھی اور پریکٹیکل ریاست مدینہ تھی لیکن ہم پھر بھی بھٹک گئے اور ترقی یافتہ قوموں کے حالات سے بھی ہم نے کچھ نہ سیکھا۔
کوا چلا تھا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔
ہم نے جو بھی ترقی کی ہے وہ دنیا کی نقل کر کے سیکھا ہے ہماری ذاتی کاوش کچھ نہ تھی اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی ٹارگٹ تھا
قوم کے پڑھے لکھے اور فتین لوگ جس ڈگر پرچل دیئے سو چل دیئے کچھ کامیاب ہو گئے اور کچھ انجانی راہوں میں کھو گئے۔
سچ تو یہ ہے کہ جو بھی ہم نے ترقی کی ہے خود ہی کی ہے کوئی ہمیں راہ دیکھانے والا نہیں تھا بچوں کو جس نے جس کام پر لگا دیا وہ لگ گئے اور اس نے اسے ہی اپنا ذریعہ بنا لیا
مگر حکومت نام کا کوئی ادارہ ہمارے ہاں کبھی بھی نہ تھا اور نہ رہا۔
*لمحہ فکریہ*
سوچتا ہوں ایسا کب تک چلے گا کیا قوم کے اچھے دن آئیں گے یا پچھلی جنریشن کی طرح ہم بھی مر کھپ جائیں گے
ملکی سیاست دان اپنی کرسی مضبوط رکھنے کے چکر میں ہیں ملک و قوم سے انھیں کوئی سروکار نہیں بس اپنا ووٹ بنک بنانا ہے تاکہ کرسی مضبوط رہے۔
جو بھی لیڈر آیا اپنی جیب بھر کر چلا گیا اور قوم کو بھیک پر لگا گیا۔
سوچتا ہوں آخر کب تک ایسا چلے گا کیا کوئی اچھا لیڈر آنے کی امید ہے کچھ بد زبان اور راہ گم گشتہ پرانی شراب نئے پیالوں میں بیچنے والے آتے رہئیں گے اور قوم کو بیوقوف بناتے رہیں گے۔ ہمارے سیاسی لیڈروں کو اپنی بے مقصد دھیگامشتی سے ہی فرصت نہیں کہ ملکی ترقی کی طرف دھیان دیں۔
سیاسی لیڈروں کی اخلاقی قدریں اتنی پست ہو گئ ہیں یہ گالی اور کوسنے اور طعنہ زنی کے علاوہ ان کی جھولی میں کچھ نہیں۔
یہ شاید بھولے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالی اس چیز پر قادر ہیں کہ تمہاری جگہ دوسرے لوگ لے آئیں اور اگر ایسا ہوا تو اسکی سزا سے تم ہرگز نہ بچ پاو گے۔
نہ دیکھ دیر گیری اس کی کہ سخت ہے گرفت اسکی۔
نیز یہ کہ عوام الناس بھی آپکی پرفارمنس سے تنگ آچکی ہے اب بھی وقت ہے سدھر جاو وگرنہ بگل بجا چاہتا ہے۔
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔
وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ
*الدعا*
یا قادر مطلق ہم پچھلے پچہتر سالوں سے نت نئے حکمرانوں کے تجربے کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ اور حالات زمانہ پر عمیق نظر ڈالتے ہوئے مستقبل قریب میں ہمیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی بس اب تجھ پر ہی آخری امید اور بھروسہ ہے۔
اے ہمارے مولا تو جانتا ہے کہ اس ملک کی مٹی شہدا کے خون میں گندھی ہوئی ہے میرے مولاے کائنات ہمارے شہدا وطن کے خون کی لاج رکھ لے اور اپنی جناب سے ہمیں عمر بن عبدلعزیز جیسا حکمران عطا فرما وگرنہ ڈر ہے کہ یہ سرزمین پھر سے
کفار نما مسلمین کے تسلط میں نہ چلی جائے۔
اے وسع قدرت والے میری التجا سن لے۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاَء
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333
[23/08, 05:13] Nazir Malik: *الدعاَء للوطن*
منگل 23 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
یا قادر مطلق ہم پچھلے پچہتر سالوں سے نت نئے حکمرانوں کے تجربے کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ اور حالات زمانہ پر عمیق نظر ڈالتے ہوئے مستقبل قریب میں ہمیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی بس اب تجھ پر ہی آخری امید اور بھروسہ ہے۔
اے ہمارے مولا تو جانتا ہے کہ اس ملک کی مٹی شہدا کے خون میں گندھی ہوئی ہے۔
اے مولا کائنات ہمارے شہدا وطن کے خون کی لاج رکھ لے اور اپنی جناب سے ہمیں عمر بن عبدلعزیز جیسا حکمران عطا فرما وگرنہ ڈر ہے کہ یہ سرزمین وطن پھر سے کفار نما مسلم کے تسلط میں نہ چلی جائے۔
اے وسع قدرت والے میری التجا سن لے۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاَء
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333
[23/08, 23:25] Nazir Malik: *شہد وہ امرت دھارا ہے جس میں اللہ تعالی نے طاقت اور شفا رکھی*
بدھ 24 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
رب ِ ذوالجلال نے شہد کو باعثِ شفاء قرار دیا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے
*﴿فِیہِ شِفآءٌ لِّلنَّاس﴾ (النحل:۶۹)*
ترجمہ: اس(شہد)میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں) کے لیے شفاء ہے۔
اسی آیت کے تحت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب اپنی شہرہ آفاق تفسیر معارف القرآن (۵:۳۵۲) میں لکھتے ہیں:
﴿اس میں اللہ تعالی کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کی قاطع دلیل موجود ہے، کہ ایک چھوٹے سے جانور کے پیٹ سے کیسا منفعت بخش اور لذیذ مشروب نکلتا ہے؛ حالانکہ وہ جانور خود زہریلاہے ،زہر میں سے یہ تریاق واقعی اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ کی عجیب مثال ہے ،پھر قدرت کی یہ بھی عجیب صنعت گری ہے کہ دودھ دینے والے حیوانات کا دودھ موسم اور غذا کے اختلاف سے سرخ و زرد نہیں ہوتا اور مکھی کا شہد مختلف رنگوں کا ہو جاتا ہے﴾ اسی وجہ سے اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿ یَخْرُجُ مِن بُطُوْنِھا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُہ‘﴾ (النحل:۶۹)
*اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد)جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں۔*
ماہرین ِ طب نے اپنی تحقیقات اور تجربات کی روشنی میں شہد کے کئی فوائد ذکر کیے ہیں جن میں سے چند فوائد ہدیہٴ ناظرین کیے جاتے ہیں:
۱- شہد پیاس کو بجھاتا ہے ۔
۲- حافظہ کو قوت بخشتا ہے؛چنانچہ امام ِزہری کا ارشاد ہے :﴿عَلَیْکَ بِالْعَسَلِ فَاِنَّہ جَیِّدٌ لِلْحِفْظِ﴾
ترجمہ :شہد کا اہتمام کرو؛ کیونکہ یہ حافظہ کے لیے بہترین ہے
۳- شہد ردی رطوبتیں نکالتا ہے ۔
۴- اس کا کثرتِ استعمال استسقاء، یرقان ، عسرالبول، ورمِ طحال، فالج ،لقوہ، زہروں کے اثرات اور امراض سر و سینہ میں مفید ہے۔
۵- پتھری کو خارج کرتا ہے ۔
۶-باہ ، بصارت ،اور جگر کو قوت ملتی ہے۔
۷- بو علی سینا اسے مقوی معدہ بھی قرار دیتے ہیں۔
۸- دانتوں کے لیے شہد ایک بہترین ٹانک ہے ،اسے سرکہ میں حل کرکے دانتوں پر ملنا ان کو مضبوط کرتا ہے، اور مسوڑھوں کے ورم دور کرنے کے علاوہ دانتوں کو چمکدار بناتاہے، گرم پانی میں شہد اور سرکہ کے ساتھ نمک ملا کر غرارہ کرنے سے گلے اور مسوڑھوں کا ورم جاتا رہتا ہے۔
۹- نہار منہ شہد پینے سے پرانی قبض ٹھیک ہو جاتی ہے،کھٹے ڈکار آنے بند ہو جاتے ہیں اور اگر پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہو تو وہ نکلے جاتی ہے ۔
۱۰- اطباء قدیم نے افیون ،پوست اور بھنگ کے نشہ کو زائل کرنے کے لیے گرم پانی میں شہد مفید بتایا ہے
۱۱- انسان بڑھاپے میں عموماً تین مسائل کا شکار ہو تا ہے
:۱۔ جسمانی کمزوری،
۲۔بلغم،
۳۔جوڑوں کا درد،
قدرت کا کرشمہ ہے کہ شہد کے استعمال سے یہ تینوں مسائل آسانی سے حل ہو جاتے ہیں ۔
۱۲- شہد میں Antiseptic
خصوصیات ہونے کی بنا پر زخموں پر لگانا یا جلی ہوئی جلد پر لگانا نہایت مفید پایا گیا ہے۔
۱۳- چہرے سے مہاسے اور پھنسیاں دور کرنے کے لیے بہت اچھا علاج سمجھا جا تا ہے ۔
۱۴- طب ِنبوی کے مشہور مرتب علاء الدین کحال (م۷۲۰ھ -۱۳۲۰م) نے شھد کو اسہال کے علاوہ غذائی سمیت یعنی Food poisining میں مفید قرار دیا ہے
۱۵- طالبِ علموں کے لیے انتھائی مفید بتایا جاتا ہے ،زیادہ دیر تک پڑھ سکنے کا باعث اور ان کی یادداشت کے بہتر رہنے کا ذریعہ ہے۔
۱۶- دل کے مریضوں کو اسے پینے کے دوران دورے نہیں پڑتے۔
یہ شہد کی چند خصوصیات تھیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدرت کا یہ عظیم الشان تحفہ کتنی اہمیت و افادیت کا حامل ہے جو ایک معمولی سی لطیف گشتی مشین جو ہر قسم کے پھل پھول سے مقوّی عرق اور پاکیزہ جوہر کشید کرکے اپنے محفوظ گھڑوں میں ذخیرہ کرتی ہے، اس سے حاصل کیا جاتا ہے، ربّ ذوالجلال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نعمتوں کی کما حقّہ قدردانی اور اپنے حبیب جناب ِنبی کریم ا کے قیمتی ارشادات کو اپنے سینوں سے لگانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[25/08, 04:39] Nazir Malik: *عظیم باپ کی عظیم نصیحتیں*
جمعرات25اگست2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سیدنا سعد بن ابى وقاص (رضی الله عنه) اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”بیٹا! میرے بعد تجھے میرے سے بڑھ کر اپنا خیر خواہ نہیں ملے گا۔ سو :
*- إذا أردت أن تصلي فأحسن الوضوء،*
جب تم نماز پڑھنا چاہو تو اچھی طرح وضو کرو،
*- وصل صلاة ترى أنك لا تصلي بعدها أبدا،*
اور نماز یوں پڑھو گویا پھر کبھی نماز نہیں پڑھ سکو گے،
*- وإياك والطمع فإنه حاضر الفقر،*
اور لالچ سے بچو، یہ فقیری کا باعث ہے،
*- وعليك بالإياس فإنه الغنى،*
اور لوگوں سے بے نیاز ہو جاؤ، یہی حقیقی دولت ہے،
*- وإياك وما يعتذر منه من القول والعمل،*
اور ایسے قول و عمل سے بچو جس کی بعد میں صفائیاں دینی پڑیں،
*- وافعل ما بدا لك.*
اور وہ کرو جو تم کرنا چاہو۔ (لوگوں کو راضی کرنا چھوڑ دو)
- (الزهد لأحمد : ١٠١٧، صحيح)
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں صحابہ اکرام کے طریقے پر عمل کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[25/08, 23:22] Nazir Malik: *سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا*
جمعہ 26 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
پروفیسر درگارائو (Darga Rao) دنیا کے جانے پہچانے ماہربحری ارضیات ہیں اور وہ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی، جدہ (سعودی عرب) میں پروفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ ان سے درج ذیل آیت مبارکہ پر تبصرہ کرنے کے لیے کہاگیا۔
اَوْکَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍلُُّجِّیٍّ یَّغْشٰہُ مَوْج مِّنْ فَوْ قِہ مَوْج مِّنْ فَوْقِہ سَحَاب ط ظُلُمٰت بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ ط اِذَآاَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرٰ ہَا ط وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہُ نُوْرًافَمَالَہُ مِنْ نُّوْرٍ
ترجمہ:۔ یا پھراس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا ہوجس پر ایک موج چھائی ہوئی ہو۔ اس کے اوپر ایک اور موج آ رہی ہو اور اس کے اوپر بادل ہو، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔ اللہ جسے نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔
پروفیسر رائو نے کہا کہ سائنس دان صرف حال ہی میں جدید آلات کی مدد سے یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ سمندر کی گہرائیوں میں تاریکی ہوتی ہے۔ یہ انسان کے بس سے باہر ہے کہ وہ 20یا 30میٹر سے زیادہ گہرائی میں اضافی سازو سامان اور آلات سے لیس ہوئے بغیر غوطہ لگا سکے۔ علائو ازیں، انسانی جسم میں اتنی قوت برداشت نہیں کہ جو 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں پڑنے والے آبی دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے زندہ بھی رہ سکے۔ یہ آیت تمام سمندروں کی طرف اشارہ نہیں کرتی کیونکہ ہر سمندر کو پرت در پرت تاریکی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ یہ آیت مبارک بطور خاص گہرے سمندروں کی جانب متوجہ کرتی ہے کیونکہ قرآن پاک کی اس آیت میں بھی وسیع اور گہرے سمندر کی تاریکی کا حوالہ دیا گیا ہے، گہرے سمندر کی یہ تہ در تہ تاریکی دو اسباب کا نتیجہ ہے ۔
رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔ یہ سات رنگ با ترتیب، بنفشی، کاسنی، نیلا، سبز، پیلا، نارنجی اور سرخ ہے۔ روشنی کی شعاع جب پانی میں داخل ہوتی ہے تو انعطاف (Refrection) کے عمل سے گزرتی ہے اوپر کے دس سے پندرہ میٹر کے دوان پانی میں سرخ رنگ جذب ہو جاتی ہے۔ لہذا اگر کوئی غوطہ خود پانی میں پچیس میٹر کی گہرائی تک جا پہنچے اور زخمی ہو جائے تو وہ اپنے خون میں سرخی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ سرخ رنگ کی روشنی اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی۔ اسی طرح 30سے 50میٹر تک کی گہرائی تک آتے آتے نارنجی روشنی بھی مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے۔ پیلی روشنی 50 سے 110میٹر تک، سبز روشنی 100سے 200میٹر تک، نیلی روشنی 200میٹر سے کچھ زیادہ تک جبکہ کاسنی اور بنفشی روشنی اس سے بھی کچھ زیادہ گہرائی تک پہنچتے پہنچتے مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہیں۔ پانی میں رنگوں کے اس طرح ترتیب وار غائب ہونے کی وجہ سے سمندر بھی تہ در تہ کرکے باریک ہوتا چلا جاتا ہے، یعنی اندھیرے کا ظہور بھی روشنی کی پرتوں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ 1000میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے۔[10]
2۔ دھوپ کی شعاعیں بادلوں میں جذب ہوتی ہیں۔ جو نسبتاً روشنی کی شعا عوں کو اِدھر اُدھربکھیرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بادلوں کے نیچے تاریکی کی ایک پرت (تہ) سی بن جاتی ہے۔ یہ تاریکی کی پہلی پرت ہے جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو وہ (سمندری) لہروں کی سطح سے ٹکرا کر پلٹتی ہیں اور جگمگانے کا سا تاثر دیتی ہیں، لہٰذا یہ (سمندری) لہریں ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں تاریکی کی وجہ بنتی ہیں۔ غیر منعکس شدہ روشنی، سمندر کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتی ہے۔ لہٰذا سمندر کے دو حصّے ہوئے، سطح کی امتیازی علامت روشنی اور گرمی ہیں۔ جب کہ اندھیرا سمندری گہرائیوں کی وجہ سے ہے۔ علاوہ ازیں گہرے سمندر اور سطح سمندر کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے والی چیز بھی لہریں ہی ہیں۔
اندرونی موجیں سمندر کے گہرے پانیوں کا احاطہ کرتی ہیں کیونکہ گہرے پانیوں کی کثافت اپنے اوپر موجود کم گہرائی والے پانیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اندرونی پانیوں میں تاریکی کا راج ہوتا ہے۔ سمندر کی اتنی گہرائی میں مچھلیاں بھی نہیں دیکھ سکتیں۔ روشنی کا واحد ذریعہ خود ان کے جسم ہوتے ہیں۔
اسی بات کو قرآن پاک نہایت جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔
ترجمہ:۔ مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہ میں، جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھاہو۔ بالفاظ دیگر ان لہروں کے اوپر مزید اقسام کی لہریں ہیں یعنی وہ لہریں جو سمندر کی سطح پر پائی جائیں۔ اسی تسلسل میں یہ آیت مبارکہ فرماتی ہے۔پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غرض اندھیروں میں جواوپر تلے پے درپے ہیں۔ جیسا کہ وضاحت کی گئی یہ بادل وہ پے در پے رکاوٹیں ہیں
گئی یہ بادل وہ پے در پے رکاوٹیں ہیں۔ جو مختلف سطحوں پر روشنی کے مختلف رنگ جذب کرتے ہوئے اندھیرے کو بڑھا وا دیتی چلی جاتی یہںں۔ پروفیسر درگاائو نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات مکمل کی 1400سال پہلے کوئی عام انسان اس مظہرکو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ معلومات یقیناً کسی مافوق الفطرت(super natural) ذریعے سے آئی ہیں۔
ترجمہ:۔ اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑا ہی قدرت والا یہی کل ہے
*الدعاء*
یا اللہ تعالی تیری قدرت کے راز سمجھنا ہمارے لئے آسان کر دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[26/08, 22:57] Nazir Malik: *یا اللہ میں تجھ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو نہ تو بدلیں اور نہ ہی زائل ہوں*
ہفتہ 27 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
خوش و خرم اور صحت مند زندگی گزارے کے لئے مندرجہ ذیل مشوروں پر عمل کریں۔
*پہلا مشورہ:*
ہمیشہ پانی پئیں چاہے آپ کو پیاس نہ بھی لگے یا ضرورت بھی نہ ہو... صحت کے سب سے بڑے مسائل اور ان میں سے زیادہ تر جسم میں پانی کی کمی سے ہوتے ہیں۔ 2 لیٹر کم از کم فی دن (24 گھنٹے)
*دوسرا مشورہ:*
کھیل کھیلو یہاں تک کہ جب آپ اپنی مصروفیت کے عروج پر ہوں... جسم کو حرکت میں لانا چاہیے، چاہے صرف پیدل چل کر... یا تیراکی... یا کسی بھی قسم کے کھیل ہی کیوں نہ ہوں۔ پیدل چلنا شروع کرنے کے لیے اچھا ہے...
*تیسرا مشورہ:*
ضرورت سے زیادہ کھانے کی خواہش کو چھوڑ دو... کیونکہ یہ کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو محروم نہ کریں بلکہ مقدار کم کریں۔ پروٹین، کاربوہائیڈریٹس پر مبنی خوراک کا زیادہ استعمال کریں۔
*چوتھا مشورہ*
جہاں تک ممکن ہو، گاڑی کا استعمال نہ کریں جب تک کہ بالکل ضروری نہ ہو... اپنے پیروں پر پہنچنے کی کوشش کریں جو آپ چاہتے ہیں( گروسری، کسی سے ملنا...) یا کسی مقصد کے لیے۔ لفٹ، ایسکلیٹر استعمال کرنے کے بجائے سیڑھیوں کا استعما کریں۔
*پانچواں مشورہ*
غصہ چھوڑ دو...
غصہ چھوڑ دو...
غصہ چھوڑ دو...
فکر چھوڑو.... چیزوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرو...
شامل نہ کریں ... یہ سب صحت کو کم کرتے ہیں اور روح کی رونق کو چھین لیتے ہیں۔ نیک نیتی سے انتخاب کریں جس کے ساتھ آپ آرام دہ محسوس کریں۔ ان لوگوں سے بات کریں جو مثبت ہیں اور سنیں
*چھٹا مشورہ*
جیسا کہ کہا جاتا ہے.. اپنا پیسہ دھوپ میں چھوڑ دو.. اور سایہ میں بیٹھو.. اپنے آپ کو اور اپنے آس پاس والوں کو محدود نہ کرو.. پیسہ اس سے جینے کے لیے بنایا گیا تھا، اس کے لیے نہیں جینے کے لیے۔
*ساتواں مشورہ*
اپنے آپ کو کسی کے لیے رنجیدہ نہ کرو، اور نہ ہی کسی ایسی چیز پر جو آپ حاصل نہ کر سکے،
اور نہ ہی کوئی ایسی چیز جس کے آپ مالک نہ ہو سکے۔
اسے نظر انداز کریں، بھول جائیں؛
*آٹھواں مشورہ*
عاجزی.. پھر عاجزی.. پیسے، وقار، طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے... یہ سب چیزیں ہیں جو تکبر اور تکبر سے خراب ہو جاتی ہیں..
عاجزی وہ ہے جو لوگوں کو محبت کے ساتھ آپ کے قریب لاتی ہے۔
*نواں مشورہ*
اگر آپ کے بال سفید ہو جاتے ہیں، تو اس کا مطلب زندگی کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک بہتر زندگی شروع ہو چکی ہے۔ پر امید بنیں، یاد کے ساتھ زندگی گزاریں، سفر کریں، خود سے لطف اندوز ہوں۔
*دسواں مشورہ*
دنیا میں ہر شے بکاو ہے بس خریدار چاہیے۔
اگر کچھ خرچ کر کے صحت خریدی جا سکتی ہے تو فورا" خرید لو بشرطیکہ مال آپ رکھتے ہوں۔
زندگی بچ گئی تو مال پھر کمایا جا سکتا ہے
تنگ دستی گر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
*گیارہواں مشورہ*
کھانا کھائیں زندہ رہنے کے لئے
زندہ مت رہیں کھانے کے لئے
*بارہواں مشورہ*
یہ ہے
خوراک کم کھائیں لیکن متوازن کھائیں۔
*تیرہواں مشورہ*
فرمان النبوی الشریف ہے کہ رات کا کھانا ضرور کھاو چاہے دو نوالے کھاو۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[27/08, 23:28] Nazir Malik: *حقوق نسواں سیرتِ نبوی کی روشنی میں*
اتوار 28 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*وجود زن سے ہے تخلیق کائنات میں رنگ*
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خرید و فروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتا تھا۔ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی و سیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔
لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گوارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔
مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خود فطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔
*انساں کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو*
*یہ تو ہر دور میں انمول رہا ہے*
باقی کل جاری رہے گا
ان شاء اللہ
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[28/08, 17:55] Nazir Malik: *حقوق نسواں سیرتِ نبوی کی روشنی میں*
(قسط دوئم)
پیر 29 اگست 2020
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*گزستہ سے پیوستہ*
عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت و کوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس کامطالبہ کر رہی تھی؛ بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا ہی چاہیے تھا ۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔
یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے؛ بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
*عورتوں کو زندہ رھنے کاحق*
عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا؛ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ فرمایا:
وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔
ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہو اور لڑکیوں کے ساتھ وہی برتاوٴ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
*عورت بحیثیتِ انسان*
اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد و عورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے
خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً(سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)
ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انھیں فضیلت دی۔
اورسورہ التین میں فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: ۴)
ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔
چنانچہ آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔
کی حصے دارہے۔
*عورتوں کو تعلیم کا حق*
انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتاہے؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔
اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضة اور دوسری جگہ ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کمَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة
جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے؛
اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
جیسا کہ گزشتہ
میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے؛ لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں؛ بلکہ صحابہٴ کرام کے مدِمقابل تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:
حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابوبکر، ام شریع فاطمہ بنت قیس وغیرہ نمایاں تھیں۔
باقی قسط سوئم میں ملاحظہ فرمائیں۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[29/08, 16:13] Nazir Malik: *حقوق نسواں سیرتِ نبوی کی روشنی میں*
(گزشتہ سے پیوستہ)
منگل 30 اگست 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
(قسط سوئم)
*معاشی حقوق*
معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کا مالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسے دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔
(۱) عورت کا نان و نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:
عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ: ۲۳۶)
خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔
(۲) *مہر*
عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:
وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)
عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور
خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔
*(۳) وراثت:*
بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔
(النساء: ۱۱) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
(۴) *مال وجائیداد کا حق*
اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے؛ کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے؛ اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے؛ مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
(۵) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنا دیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے؛ جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔
*تمدنی حقوق*
*شوہر کا انتخاب:*
شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
ایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن
ترجمہ: شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔
اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔
ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل اندازی کریں گے۔
*خلع کا حق*
اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔
*حسن معاشرت کا حق*
قرآن میں حکم دیا گیا:
وعاشروہن بالمعروف عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ (النساء: ۱۹)
چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خیرُکم خیرُکم لاہلہ۔
تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اپنے اہل وعیال سے لطف و مہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔
(تمت بالخیر)
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں تیرے احکامات پر تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
تبصرے