مطبوعہ مضامین مارچ 2023
[28/02, 20:46] Nazir Malik: *قیام اللیل*
بدھ یکم مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
قیام اللیل سنت مؤکدہ ہے، اورکتاب وسنت میں اس کی تواتر سے نصوص ملتی ہیں۔
*قیام اللیل کا طریقہ*
اکسیسویں رات کو نماز تروایح میں وتر نہیں پڑھے جائیں گے بلکہ دو دو کرکے چار نوافل لمبی قرآت سے پڑھے جاتے ہیں اور ان چار نوافل کے بعد نمازی مساجد سے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور تقریبا" ڈھائی بجے صبح پھر سے قیام اللیل کے دو دو کرکے چار نوافل لمبی قرآت کے ساتھ امام کے پیچھے اداء کریں گے اور آخر میں امام کے پیچھے تین وتر اداء کۓ جاتے ہیں اور یہی قیام اللیل رمضان ہے اور مسنون ہے
افضل تو یہ ہے کہ قیام اللیل مسجد میں باجماعت ادا کی جاۓ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو گھر میں اکیلے بھی پڑھ سکتے ہیں۔
*قیام اللیل کا اجروثواب*
قیام اللیل سنت مؤکدہ ہے ، اورکتاب وسنت میں اس کی تواترسے نصوص ملتی ہیں جن میں قیام اللیل کرنے پر ابھارا گيا اوراس کی ترغیب دی گئي ہے ، اوراس کی شان وعظمت اورعظيم اجروثواب کو بیان کیا گيا ہے ۔
قیام اللیل کی تثبیت ایمان میں عظیم شان پائي جاتی ہے ، اوراعمال کی بزرگي اورشان میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
اے کپڑے میں لپٹنے والے ، رات کے وقت نمازمیں کھڑے ہوجاؤ مگر کم ، آدھی رات یا اس سے بھی کم کرلے ، یا اس سے بڑھادے اورقرآن ٹھر ٹھر کر صاف پڑھا کر ، یقینا ہم تجھ پر عنقریب بہت بھاری بات نازل کریں گے، بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائي مناسب ہے ، اور بات کو بہت درست کر دینے والا ہے ( المزمل 1 - 6) ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اہل ایمان اور اہل تقوی کوبہت اچھی خصلتوں اوراعمال جلیلہ کرنے پر مدح وتعریف کی ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ہماري آيتوں پر تو وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی بھی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ۔(سجدہ تلاوت)
ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ تھلگ رہتی ہیں ، اپنے رب کو خوف اورامید کےساتھ پکارتے ہیں ، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں ، کوئي نفس نہیں جانتا کہ جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک انکے لیے پوشیدہ کررکھی ہے، جوکچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا یہ بدلہ ہے (السجدۃ 15- 17
اورایک مقام پر ان کے اوصاف کچھ اس طرح بیان کیے :
فرمان باری تعالی ہے :
اورجو اپنے رب کے سامنے سجدے اورقیام کرتے ہوئے راتیں بسر کرتے ہيں ، اورجو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ، بلاشبہ وہ ٹہرنے اور رہنے کے لحاظ سےبد ترین جگہ ہے ۔
اورچند آيات آگے چل کر یہ فرمایا :
یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند وبالاخانے دیے جائيں گے جہاں انہیں دعا وسلام پہنچایا جائے گا ، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے وہ رہنے کےلیے بہت ہی اچھی جگہ اورمقام ہے(الفرقان 64 - 75
ان آیات میں قیام اللیل کی فضيلت کی تنبیہ پائي جاتی ہے اوراس کا اجروثواب بھی جو مخفی نہيں ، اورپھر یہ عذاب جہنم سے دوری اور جنت میں داخلے اور کامیابی کا سبب بھی ہے اور اسی بنا پرجنت میں پائي جانی والی ہیشہ ہمیشہ کے لیے نعمتوں کا حصول بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العالمین کا قرب و پڑوس بھی پایا جاتا ہے،
اللہ تعالی ہمیں یہ انعامات حاصل کرنے والوں میں شامل فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
[01/03, 22:12] Nazir Malik: *لعنت کیا ہے، ملعون پر اس کے اثرات اور لعنت والے گناہ*
جمعرات 02 مارچ 2023
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
اکثر لوگ بغیر سوچے سمجھے ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں جو کہ بذات خود ایک بہت بھاری عمل ہے۔
یاد رہے کہ جس شخص پر لعنت بھیجی گئی اور وہ قابل لعنت نہ ہوا تو وہ لعنت بھیجنے والے پر لوٹا دی جاتی ہے۔
لعنت ایک بھاری فعل ہے جس کے اثرات ملعون پر فوری واقع ہو جاتے ہیں۔
کتاب و سنت کے مطالعہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ ملعون کی دعاء قبول نہیں ہوتی۔
اس کے نیک اعمال اللہ تعالی کے ہاں قبول نہیں ہوتے۔
ملعون کے کردہ گناہ کی سزا فوری اسے ملتی ہے۔
ملعون سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں اور اس کے رزق میں برکت ختم ہو جاتی۔
خسارہ اور بے نوائی اس سے چپکا دی جاتی ہیں
ملعون کے رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہے اور اس کے رزق میں تنگی کر دی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ یہ تو عام ملعون کی سزا ہے اور کسی پر اللہ اور اسکے رسول اور فرشتوں اور سب لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو تو لعنت کے اثرات کا اندازہ اللہ تعالی ہی جانیں۔
استغفراللہ
*لعنت والے گناہ!*
قرآن وسنت میں بعض ایسے اعمال کا ذکر ہے جن کے کرنے والے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔البتہ یہ واضح رہے کہ قرآن وحدیث میں جس لعنت کا ذکر ہے وہ مسلمان اور کافر کے حق میں یکساں نہیں، بلکہ دونوں میں فرق ہے۔ مسلمان کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اُس رحمت سے محروم ہوگا جو رحمت اللہ تعالیٰ کے نیک اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ خاص ہے، اور عدالت وشرافت کا مرتبہ اس سے ختم ہوجائے گا، اور مؤمنین کی زبان سے اس کے حق میں اچھی بات نہیں نکلے گی، نیز جنت میں دخولِ اوّلی سے محروم ہوگا، اگرچہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ایمان کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت جنت میں داخل ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں آجائے گا۔ جب کہ کافر کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور اور محروم ہوجائے گا
ذیل میں ایسے چند گناہ لکھے جاتے ہیں، تاکہ ان سے بچنے کا خاص طور پر اہتمام کیاجائے۔
۱:-سود کھانا اور کھلانا
’’عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہٗ وکاتبہٗ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء۔‘‘ (صحیح مسلم: ۳/۱۲۱۹)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود دینےحا (۱) قولہ: لعنۃ اللّٰہ: المراد باللعنۃ ہنا البعد عن الجنۃ أول الأمر ، بخلاف لعنۃ الکفار ، فإنہا البعد عنہا کل الإبعاد أولا وآخرا۔ (عمدۃ القاری:۲۵/۳۹) قال فی القاموس: لعنہ کمنعہ طردہ وأبعدہ ، وقال فی المجمع: اللعنۃ ہی الطرد والإبعاد، ولعن الکافر إبعادہ عن الرحمۃ کل الإبعاد ،ولعن الفاسق إبعادہ عن رحمۃ تخص المطیعین، انتہٰی۔ (تحفۃ الأحوذی:۶/۱۳۷)
والے اور سودی تحریر یا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ: وہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘
۲:-شراب پینا، پلانا اور خریدوفروخت کرنا
’’عن أبی علقمۃ مولاہم وعبد الرحمن بن عبد اللّٰہ الغافقي أنہما سمعا ابن عمرؓ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’لعن اللّٰہ الخمر وشاربہا وساقیہا وبائعہا ومبتاعہا وعاصرہا ومعتصرہا وحاملہا والمحمولۃ إلیہ۔‘‘
(سنن ابی داؤد،۳/۳۶۶، والحدیث سکت عنہ ابوداؤد)
’’حضرت ابوعلقمہؒ اور حضرت عبد الرحمن بن عبد اللہ الغافقی ؒسے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اور شراب بنانے والے اور بنوانے والے پر اور جو شراب کو کسی کے پاس لے جائے اس پر اور جس کے پاس لے جائے ان سب پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی دکانوں میں شراب بیچتے ہیں،یا اپنے ہوٹلوں میں شراب پلاتے ہیں، وہ اپنے بارے میں غور کرلیں کہ روزانہ کتنی لعنتوں کے مستحق ہوتے ہیں۔ شراب کا بنانے والا تو مستحق لعنت ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ شراب کا بیچنے والا، پینے والا، پلانے والا، اُٹھاکرلے جانے والا سب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔
۳:- مرد وعورت کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرناہ
’’عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال:’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المتشبّہین من الرجال بالنساء ، والمتشبّہات من النساء بالرجال۔‘‘ (صحیح البخاری،۷/۱۵۹)
’’حضرت عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ: رسول اللہ نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں۔‘‘
۴:- تصویر کشی کرنا
’’حدثنا عون بن أبی جحیفۃ عن أبیہ، قال:’’لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الواشمۃ والمستوشمۃ، وآکل الربا وموکلہٗ، ونہی عن ثمن الکلب، وکسب البغي، ولعن المصورین۔‘‘(صحیح
البخاری، ۷/۶۱)
’’حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم گودنے اور گدوانے والیوں پر، اور سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے، اور کتے کی قیمت اور زنا کی کمائی سے منع فرمایاہے اور تصویر بنانے والے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۵:-غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا
۶:-بدعت ایجاد کرنے والے کی پشت پناہی کرنا
۷:-والدین کو بُرا بھلا کہنا
۸:- زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانا۔
’’عن أبی الطفیل قال: قلنا لعلي بن أبی طالب أخبرنا بشیء أسرہ إلیک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فقال: ما أسر إلي شیئًا کتمہ الناس ولکنی سمعتہٗ یقول: لعن اللّٰہ من ذبح لغیر اللّٰہ ولعن اللّٰہ من آوٰی محدثا ولعن اللّٰہ من لعن والدیہ ولعن اللّٰہ من غیر المنار۔‘
(صحیح مسلم،۳/۱۵۴۷)
’’حضرت ابو الطفیلؒ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی بن ابی طالب سے عرض کیا کہ: رسول اللہ نے جو آپ کو راز کی باتیں بتائی ہیں وہ تو ہمیں بتایئے! تو آپ ؓ نے فرمایا کہ: نبی کریم نے لوگوں سے چھپا کر مجھے کوئی راز کی بات نہیں ارشاد فرمائی، لیکن میں نے آپ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اور اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے اس شخص پر جو کسی بدعت کے ایجاد کرنے وا
کو سہارا دے (یعنی پشت پناہی کرے) اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے والدین کو برا بھلا کہے اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جوزمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹائے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام پر جانور ذبح کیا جائے، جیسے: کسی بت کے نام پر، یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے نام پر، یا کعبۃ اللہ کے نام پر وغیرہ۔ یہ حرام ہے اور اس طرح جو جانور ذبح کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتا، چاہے ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی۔
بدعت کرنے والے کو سہارا دینا، یعنی اس کی حمایت اور پشت پناہی کرنا بھی ایسے ہی گناہ اور لعنت کا سبب ہے، جیسے کہ خود بدعت کا ارتکاب کرنا گناہ ہے۔
والدین کو برا بھلا کہنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ صراحۃً واضح طور پر براہِ راست والدین کو برا بھلا کہے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کے والدین کو برا بھلا کہے جس کے جواب میں بدلہ لیتے ہوئے وہ اس کے والدین کو لعن طعن کرے۔
زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ملکیتی حدود میں تبدیلی کرکے دوسرے کی زمین کو اپنی ملکیت میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے، گویا یہ دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے کی صورت ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو دوسرے کی زمین کا ایک بالشت بھی ناحق لے گا قیامت کے دن اس کو سات زمینوں سے نکال کر اس کی گردن میں طوق بناکر ڈالا جائے گا۔
۹:-لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنا۔
’’عن ابن عباسؓ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط، لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط، لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط۔‘‘ (السنن الکبری للنسائی،۶/۴۸۵، قال المنذری فی الترغیب، ۳/۱۹۶: رواہ ابن حبان فی صحیحہ والبیہقی
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قومِ لوط والا عمل کرے۔‘‘
۱۰:- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا
’’عن ابن عمرؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا رأیتم الذین یسبون أصحابی ، فقولوا: لعنۃ اللّٰہ علی شرکم۔
‘‘ (سنن الترمذی،۵/۶۹۷)
’’حضرت عبد اللہ بن عمرr سے روایت ہے کہ رسول اللہa نے ارشاد فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو تم کہو کہ تمہارے شر اور برائی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘
’’عن عائشۃؓ، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’لاتسبوا أصحابی، لعن اللّٰہ من سب أصحابی۔‘‘ (المعجم الأوسط، ۵/۹۴، قال الہیثمی فی المجمع،۹/۷۴۶،فیہ عبد اللہ بن سیف الخوارزمی وہو ضعیف) (۱)
حاشیہ : (۱) وما روي فی ہذا الباب یتقوی بعضہا ببعض
’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے صحابہؓ کو برا بھلا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو میرے صحابہؓ کو برا بھلا کہے۔‘‘
۱۱:- رشوت لینا، دینا اور رشوت کے لین دین کا واسطہ بننا
’’عن ثوبانؓ قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش‘‘ یعنی: الذی یمشی بینہما۔‘‘
(مسند احمد،۳۷/۸۵، قال الہیثمی فی المجمع، ۴/۳۵۸:فیہ ابو الخطاب وہو مجہول)
’’حضرت ثوبان سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر، اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۱۲:-مومن کو تکلیف پہنچانا یا دھوکہ دینا
’’عن أبی بکر الصدیقؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من ضار مؤمنًا أو مکر بہٖ۔ (سنن الترمذی،۴/۳۳۲، ہذا حدیث غریب)
’’حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس آدمی پر لعنت ہے جو کسی مؤمن کو تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے۔‘‘
۱۳:-عورتوں کا قبرستان جانا
۱۴:-قبروں کو سجدہ گاہ بنانا اور وہاں چراغ رکھنا
’’عن ابن عباسؓ، قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیہا المساجد والسرج۔‘‘
(سنن ابی داؤد، ۳/۲۱۸، اخرجہ الترمذی، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال حدیث حسن)
’’حضرت عبد اللہ بن عباسr فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہل علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے، کیونکہ عورتیں ایک تو شرعی مسائل سے کم واقف ہوتی ہیں، دوسرے ان میں صبر، حوصلہ اور برداشت کم ہوتا ہے، ان کے حق میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ وہ قبرستان جاکر جزع وفزع کریںگی یا کوئی بدعت کریں گی، اسی لیے انہیں قبرستان جانے سے منع کردیاگیا۔
۱۵:-پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا
’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوْا فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔‘‘(النور:۲۳)
’’یادرکھو! جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑ چکی ہے، اور ان کو اس دن زبردست عذاب ہوگا۔ ‘‘
۱۶:-قطع رحمی کرنا
’’ہَلْ عَسَیْتُمْ إنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمٰی أَبْصَارَہُمْ۔‘‘ (محمد:۲۲،۲۳
’’پھر اگر تم نے (جہاد سے) منہ موڑا تو تم سے کیا توقع رکھی جائے؟ یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ اور خونی رشتے کاٹ ڈالو، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے دور کردیاہے، چنانچہ انہیں بہرابنادیا ہے اور ان کی آنکھیں اندھی کردی ہیں۔ ‘‘
۱۷:-چوری کرنا
’’عن أبی ہریرۃؓ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:’’لعن اللّٰہ السارق یسرق البیضۃ فتقطع یدہٗ ، ویسرق الحبل فتقطع یدہٗ۔‘‘
(صحیح البخاری،۸/۱۵۹)
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت فرمائی ہے جو ایک انڈہ چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیاجاتا ہے اور رسی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘
۱۸:-نابینا کو راستہ سے بھٹکانا
۱۹:-جانور کے ساتھ بدفعلی کرنا
’’عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من سَبَّ أباہ، ملعون من سَبَّ أمَّہٗ، ملعون من ذَبَحَ لغیر اللّٰہ، ملعون من غَیَّرَ تُخُومَ الأرض، ملعون من کَمَّہَ أعمٰی عن الطریق، ملعون من وَقَعَ عَلٰی بہیمۃٍ ، ملعون من عَمِلَ عَمَلَ قوم لوط۔‘‘ قالہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرارًا ثلاثًا فی اللوطیۃ۔‘‘ (مسند احمد،۵/۸۳-۸۴، اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۴/۳۹۶ (۸۰۵۲) وقال صحیح الاسناد ولم یخرجاہ واقرہ الذہبی)
’’حضرت عبد اللہ بن عباسr سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: وہ شخص ملعون ہے جو اپنے باپ کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو اپنی ماں کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، وہ شخص ملعون ہے جو زمین کی حدود بدل دے، وہ شخص ملعون ہے جو اندھے کو راستے سے بھٹکادے، وہ شخص ملعون ہے جو جانور کے ساتھ جماع کرے، وہ شخص ملعون ہے جو قومِ لوط والا عمل کرے، قوم لوط والی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔‘‘
۲۰:-بیوی سے پیچھے کے مقام میں ہمبستری کرنا
’’عن أبی ہریرۃؓ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من أتٰی امرأتہٗ فی دبرہا۔‘‘ (سنن ابی داؤد،۲/۲۴۹، سکت عنہ ابوداؤد)
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص پر لعنت ہے جو بیوی سے پائخانہ کے مقام میں ہمبستری کرے۔‘‘
۲۱:-بلاعذر شوہر کو صحبت سے انکار کرنا
’’عن أبی ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:’’إذا دعا الرجل امرأتہ إلٰی فراشہٖ فأبت فبات غضبانَ علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح۔‘(صحیح البخاری،۴/۱۱۶)
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو ہم بستری کی طرف بلائے اور بیوی (بلا کسی عذر کے) انکار کرے، جس کی وجہ سے شوہر غصہ ہوکر سو جائے تو ایسی عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے ہیں۔‘‘
۲۲:-حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا
’’عن أنس بن مالکؓ، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقول:’’من ادعی إلی غیر أبیہ، أو انتمٰی إلٰی غیر موالیہ، فعلیہ لعنۃ اللّٰہ المتتابعۃ إلٰی یوم القیامۃ۔‘‘ (سنن ابی داؤد،۴/۳۳۰، سکت عنہ ابوداؤد واصلہ فی البخاری
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے اپنے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا یا جس غلام اور باندی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کی، اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘
۲۳:-لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود امام بننا
۲۴:-بیوی کا خاوند کو ناراض کرکے سونا
۲۵:-اذان کی آواز سن کر جواب نہ دینا
’’عن الحسن قال سمعت أنس بن مالکؓ، قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃً: رجل أم قومًا وہم لہ کارہون، وامرأتہٗ باتت وزوجہا علیہا ساخط، ورجل سمع حي علی الفلاح ، ثم لم یجب۔‘‘(سنن الترمذی،۲/۱۹۱،
قال الترمذی: وحدیث انس لایصح) ای لم یذہب الی المسجد للصلاۃ مع الجماعۃ من غیر عذر (تحفۃ الاحوذی، ۲/۲۸۸)
’’حضرت حسنؒ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالکq کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے:
۱:-ایک وہ شخص جس کو لوگ (کسی معتبر وجہ سے) ناپسند کرتے ہوں اور وہ ان کی امامت کرائے۔
۲:-وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔
۳:-تیسرے وہ آدمی جو ’’حي علی الفلاح‘‘ کی آواز سنے اور جواب نہ دے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ امام سے متعلق مذکورہ حدیث کا حکم اس وقت ہے جب لوگ کسی دینی وجہ سے مثلاً: اس کی بدعت، جہل یا فسق کی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں، لیکن اگر ان کی ناپسندیدگی کسی دنیوی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے ہو تو یہ حکم نہیں۔
اذان کا جواب دو طرح کا ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف چل دیاجائے، اسے اجابت بالقدم کہتے ہیں اور یہ واجب ہے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے مؤذن کی طرح الفاظ کہے جائیں، اسے اجابت باللسان کہتے ہیں اور راجح قول کے مطابق یہ مستحب ہے۔ مذکورہ حدیث کا تعلق اجابت بالقدم سے ہے، یعنی جو آدمی اذان سننے کے بعد کسی معتبر عذر کے بغیر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے حاضر نہ ہو، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
۲۶:- بدنظری کرنا
’’عن عمرو مولی المطلب أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن الناظر والمنظور الیہ(یعنی إلی عورۃ)۔‘‘
(المرسیل لابی داؤد، ص:۳۳۰، رواہ البیہقی فی السنن الکبری، ۷/۱۵۹ عن الحسن، وقال ہذا مرسل)
’’حضرت عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غیر محرم کی طرف) دیکھنے والے اور جس کی طرف دیکھا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے (یعنی وہ عورت جو بے پردہ ہو اور بدنظری کا سبب بنے)۔‘‘
۲۷:-نوحہ کرنا اور سننا
۲۸:-گریبان چاک کرنا اور واویلا کرتے ہوئے موت مانگنا
’’عن أبی سعید الخدريؓ، قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم النائحۃ والمستمعۃ۔‘‘ (سنن ابی داؤد، ۳/۱۹۴، سکت عنہ ابو داؤد، وقال المنذری فی مختصرہ ۳/۱۵۲: فی إسنادہ محمد بن الحسن بن عطیۃ العوفی عن أبیہ عن جدہ وثلاثتہم ضعفاء)
’’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
’’عن أبی أمامۃؓ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن الخامشۃ وجہہا، والشاقۃ جیبہا، والداعیۃ بالویل والثبور۔‘‘
(سنن ابن ماجہ، ۱/۵۰۵، قال البوصیری فی المصباح، ۲/۴۶، ہذا اسناد صحیح)
’’حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ نوچنے والی، اپنا گریبان چاک کرنے والی، اور واویلا اور موت مانگنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۲۹:-راستہ یا سایہ دار جگہ میں پیشاب وپائے خانہ پھیلانا
’’من سل سخیمتہ علی طریق عامر من طرق المسلمین فعلیہ لعنۃ اللّٰہ وملائکتہ والناس أجمعین۔ طس ک عن أبی ہریرۃؓ۔ (کنز العمال،۹/۳۶۶، قال الہیثمی فی المجمع، ۱/۴۸۳: وفیہ محمد بن عمرو الأنصاری ضعفہ یحیی بن معین ووثقہ ابن حبان وبقیۃ رجالہ ثقات)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے مسلمانوں کے راستوں میں سے کسی راستے پر پاخانہ پھیلایا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘
’’اتقوا اللاعنَین الذی یتخلی فی طریق الناس أو فی ظلہم ۔ حم م د عن أبی ہریرۃؓ۔‘‘
(کنز العمال،۹/۳۶۵، صحیح مسلم، ۱/۲۲۶)
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایسی دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا باعث ہیں:
۱:- لوگوں کے راستہ میں پیشاب کرنا،
۲:- لوگوں کے سایہ کی جگہ میں پیشاب کرنا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو لعنت والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی مجھے ان سب گناھوں سے محفوظ فرما جو تیری لعنت کا سبب ہیں۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[03/03, 06:02] Nazir Malik: *سیرت النبی کریم ﷺ*
*آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مُقَوَقس شاہِ مصر کے نام خط*
جمعہ 03 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی نامہ "جریج بن متی" کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب *مُقَوَقس* تھا اور جو مصر و اسکندریہ کا بادشاہ تھا۔
(یہ نام علامہ منصور پوری نے "رحمۃ للعالمین" ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام "بنیامین" بتلایا ہے۔ دیکھئے: "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی"۔ ص ۴۱ )
نامۂ گرامی یہ ہے:
*"بسم اللہ الرحمن الرحیم"*
*اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مقوقس عظیمِ قِبط کی جانب*
"اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے، اما بعد!
میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لاؤ، سلامت رہوگے اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پر اہلِ قبط کا بھی گناہ ہوگا۔"
"اے اہلِ قبط! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے بعض، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں، پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔"
(زاد المعاد لابن قیم , ۳/۶۱.. ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے، ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے، اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے، زاد المعاد میں ہے: اسلم تسلم اسلم یوتک اللہ۔ الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللہ۔ اسی طرح زاد المعاد میں ہے: اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط۔ دیکھئے: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷)
اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب فرمایا گیا، وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا: "(اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا، اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنادیا، پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا، پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا، لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو، ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں۔"
مقوقس نے کہا: "ہمارا ایک دین ہے، جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے۔"
حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے، دیکھو! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کے خلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے، یہود نے سب سے بڑھ کر دشمنی کی اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے، میری عمر کی قسم! جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بشارت دی تھی، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بشارت دی ہے اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں، جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو، جو نبی جس قوم کو پا جاتا ہے، وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پالیا ہے اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں، بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں۔"
مقوقس نے کہا: "میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے، وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن، بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں، میں مزید غور کروں گا۔"
مقوقس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہر لگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا، پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا:
*"بسم اللہ الرحمن الرحیم"*
*محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے*
"آپ پر سلام! اما بعد! میں نے آپ کا خط پڑھا اور اس میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا، مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے، میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا، میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا اور آپ کی خدمت میں دو لونڈیاں بھیج رہا ہوں، جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے اور کپڑے بھیج رہا ہوں اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں اور آپ پر سلام۔''
مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا، دونوں لونڈیاں "ماریہ" اور "سیرین" تھیں، خچر کا نام دُلدل تھا جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے تک باقی رہا۔ (زاد المعاد ۳/۶۱)
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماریہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس رکھا اور انہی کے بطن سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا مصر سے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئی تھیں، اس لیے وہ ان سے بہت زیادہ مانوس ہوگئی تھیں، حضرت حاطب رضی اللہ عنہ نے اس انس سے فائدہ اُٹھا کر اُن کے سامنے اسلام پیش کیا، حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی بہن حضرت سیرین رضی اللہ عنہا نے تو اسلام قبول کرلیا، لیکن اُن کے چچا زاد بھائی مابور اپنے قدیم دین عیسائیت پرقائم رہے۔
حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا گو بطور کنیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئی تھیں، لیکن رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ ازواجِ مطہرات ہی کے ایسا سلوک کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اعزاز واحترام کو باقی رکھا اور ہمیشہ ان کے نان ونفقہ کا خیال کرتے رہے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک مرعی رکھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے بےحد محبت تھی اور اس وجہ سے اُن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمدو رفت بہت زیادہ رہتی تھی، گو وہ کنیز تھیں (جاربات یعنی کنیزوں کے لیے پردہ کی ضرورت نہیں) لیکن ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کی طرح اُن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ میں رہنے کا حکم دیا تھا۔ (اصابہ ، وابن سعد) اُن کے فضل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ مبارک کافی ہے کہ:
"قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسنِ سلوک کرو، اس لیے کہ اُن سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے، اُن سے نسب کا تعلق تو یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (حضرت ہاجرہ علیہ السلام) اور میرے لڑکے ابراہیم (رضی اللہ عنہ) دونوں کی ماں اسی قوم سے ہیں (اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ اُن سے معاہدہ ہوچکا ہے)۔
(الطبقات الكبرى،ابن سعد)
حوالہ:
س
یرت النبی ﷺ
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[04/03, 05:49] Nazir Malik: *قرآن مجید کا چیلنج*
ہفتہ 04 مارچ 2024
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
تمام تہذیبوں میں ادب اور شاعری انسانی اظہار اور تخلیق کا ہتھیار رہی ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کو اب ایک خاص مقام حاصل ہے اسی طرح ایک دور میں یہ مقام ادب اور شاعری کو حاصل تھا۔ یہاں تک کہ غیر مسلم علما بھی ایک بات پر متفق ہے کہ قرآن عربی ادب کی نہایت عمدہ کتاب ہے۔ قرآن بنی نوع انسان کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسی کتاب بنا کر لاؤ۔
”وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ O فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَO [5]
ترجمہ: ’’اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لیے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہوo پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہےo‘‘
قرآن کا چیلنج یہ ہے کہ قرآن میں موجود سورتوں کی طرح کوئی ایک دوسری سورت بنا لاؤ اور اسی چیلنج کو قرآن نے کئی مرتبہ دُہرایا ہے۔ قرآن کے ایک سورت بنانے کا چیلنج یہ ہے کہ وہ بنائی جانی والی سورت کی خوبصورتی، فصاحت، گہرائی اور معنی کم از کم قرآ نی سورت جیسی ہونی چاہیے۔ تا ہم ایک جدید سوچ کا معقول آدمی کبھی بھی کسی ایسی مذہبی کتاب کو قبول کرنے سے انکار کر دے گا جو حتیٰ الامکان عمدہ شاعری میں کی گئی ہو کہ یہ دنیا (گول نہیں بلکہ) چپٹی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں انسانی دلیل، منطق (logic) اور سائنس کو ترجیح دی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ قرآن کی غیر معمولی زبان کو اور اس کے کلام الٰہی ہونے کو نہیں مانتے۔ کوئی بھی کتاب جو کلام الٰہی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہو تو وہ منطق (logic) اور دلیل کے لحاظ سے بھی قابل قبول ہونی چاہیے۔
مشہور ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) کے مطابق:
”"سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے۔"“
اسی لیے آئیے کہ قرآن مجید کا مطالعہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن اور جدید سائنس میں مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ قرآن سائنس کی کتاب نہیں کہ بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار چھ سو چھتیس آیات ہیں، جن میں ایک ہزار سے زیادہ سائنس کے متعلق ہیں، (یعنی ان میں سائنسی معلومات موجود ہیں)
ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس قہقرائی حرکت (یوٹرن Uturn) کرتی ہے (یعنی طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے) اس لیے قرآنی تعلیمات کے ساتھ موازنے کے لیے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش کیا جائے گا۔ قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے بحث نہیں کی جا سکتی جو خود سائنسی طور پر ثابت نہیں ہیں۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008605333
[05/03, 05:58] Nazir Malik: *طبیب و فلسفی الرازی کا طبی انسائیکلوپیڈیا "الحاوی"*
اتوار 05 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی 864ء میں ایران کے شہر رے میں پیدا ہوئے۔ آپ نامور مسلمان عالم، طبیب، فلسفی، ماہر علم نجوم اور کیمیا دان تھے۔ جالینوس العرب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ جوانی میں موسیقی کے دلدادہ رہے پھر ادب و فلسفہ، ریاضیات و نجوم اور کیمیا و طب میں خوب مہارت حاصل کی۔ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام علم طب کے اماموں میں آتا ہے۔ پہلے کیمیا گری کے فن کو اس خیال سے اپنایا کہ کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر کے بہت جلد امیر اور دولت مند بن جائیں گے۔ رائج طریقوں میں مختلف جڑی بوٹیوں کو ملا کر دھات کو آگ پر رکھنا پڑتا تھا اس لیے ایک دوا فروش سے دوستی ہو گئی اور وقت کے ساتھ طب کے علم میں دلچسپی لینے لگے۔
وہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بغداد چلے گئے اور طب کے رموز سیکھے۔ بغداد کے بڑے شفاخانہ کے کئی برس اعلیٰ افسر رہے۔ یہ عرصہ انہوں نے طبی تحقیقات اور تصنیف وتالیف میں گزارا۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ’’الحاوی‘‘ اسی زمانے کی یاد گار ہے اس کا پورا نام ’’کتاب الحاوی فی الطب‘‘ ہے۔ الحاوی دراصل ایک عظیم طبی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ بغداد میں طب کی تعلیم کی تکمیل کے بعد رازی اپنے وطن رے واپس آئے اور وہاں نہ صرف مطب کا سلسلہ جاری کیا، بلکہ بغداد کے طرز پر شہر میں ایک بڑا بیمارستان بنایا۔ رازی نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں طب کے علاوہ فلسفہ، کیمیا، ہیئت، نجوم ، ریاضی اور علوم طبیعی پر مشتمل کتب شامل ہیں۔
ان میں سب سے اہم کتاب الحاوی سمجھی جاتی ہے۔ الحاوی زکریا رازی کی نہایت بلند پایہ اور ضخیم تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے امراض اور علاج کی ان تمام منتشر معلومات کو جمع کیا ہے جو متقدمین کی مختلف کتبِ طبیہ میں موجود تھیں۔ اس کتاب میں رازی نے ہر قول کا اس کے قائل کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب رازی نے اپنی حیات کے دوران خود مکمل نہیں کی بلکہ رازی کی وفات کے بعد ابن العمید و دیگر نے اس کتاب کے مسودات فراہم کر کے رازی کے شاگردوں کی مدد سے مرتب کرایا تھا۔ چنانچہ ابن ابی اصیبعہ نے ابوالخیر حسن بن سورا کے حوالے سے کہا ہے کہ ابن العمید رازی کی کتاب الحاوی کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔ الحاوی کی تعریف نہ صرف علمائے مشرق بلکہ مغرب کے ماہرِ تاریخ و فن بھی کرتے ہیں۔
مغرب میں بھی یہ طب کی انتہائی بلند پایہ تالیف قرار دی گئی ہے۔ چونکہ الحاوی کو رازی کے شاگردوں وغیرہ نے اس کی وفات کے بعد اس کی غیر مرتب تحریروں اور شفاخانہ کے اندراجات کی روشنی میں تالیف کیا، اس لیے الحاوی میں عنوانات اور موضوعات کی درجہ بندی اور ترتیب کی خامیاں رہ گئی ہیں
یہ کتاب کافی ضخیم اور مبسوط ہونے سے اس کے چند ہی نسخے نقل کیے جا سکے۔ عربوں کے عروج کے زمانہ میں اس کے چند ہی نسخے تھے اور دولت مندوں کے کتب خانوں کی زینت بنے رہے۔ فرج بن سالم نے اس کا لاطینی میں ترجمہ کیا جو بعدازاں کئی مرتبہ شائع ہوا۔ ابو ریحان البیرونی کے قول کے مطابق محمد بن زکریا الرازی نے 26 اکتوبر 925ء کو 61 سال شمسی کی عمر میں رے میں وفات پائی۔ رازی کی تصانیف سترہویں صدی عیسوی تک یورپ میں بڑی مستند تصور کی جاتی تھیں، ان کے تراجم لاطینی میں کیے گئے اور یورپ کی درسگاہوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہیں
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[06/03, 05:54] Nazir Malik: *شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم*
پیر 06 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*ہے کوئی نصیحت لینے والا؟*
*جس روز*
*آسمان پھٹ جائے گا(1:82)*
*چاند بے نور ہو جائے گا(8:75)*
*ستارے بکھر جائیں گے(2:82)*
*پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے(6:56)*
*قبریں کھول دی جائیں گی(4:82)*
*لوگ بکھرے پتنگوں کی طرح ہوں گے (4:101)*
*دل کانپ رہے ہوں گے(8:79)*
*دیدے پتھرا جائیں گے(7:75)*
*کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے(18:40)*
*چہرے خوف زدہ ہوں گے(2:88)*
*سورج ایک میل کے فاصلے پر ہوگا (مسلم)*
*لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے( مسلم)*
*اللہ تعالی اس قدر غصہ میں ہوں گے کہ اس سے پہلے کبھی ہوئے نہ بعد میں ہوں گے*
(بخاری و مسلم)
*کبار انبیاءکرام تک اپنی اپنی جان کی امان طلب کر رہے ہوں گے*
(بخاری و مسلم)
*لوگ شفاعت کی تلاش میں نکلیں گے*
(بخاری و مسلم)
*حضرت آدم علیہ السلام انکار کر دینگے۔ حضرت نوح علیہ السلام انکار کردیں گے حضرت ابراہیم علیہ السلام انکار کردیں گے حضرت موسی علیہ السلام انکار کر دیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی انکار کر دیں گے*
*تب۔۔۔۔۔۔۔*
*ہمارے مکرم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے کریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے رحمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،ہمارے شاہد رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،ہمارے مبشر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے نذیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے محسن رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ہمارے ہادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے شفیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے مشفیع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ،خطیب الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، شفیع الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،صاحب کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صاحب مقام محمود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آگے بڑھیں گے اور فرمائیں گے *انا لھا*
*آج میں ہی شفاعت کا اہل ہو*
*آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذن شفاعت کے لیے عرش الہی کے نیچے سجدہ میں گر پڑیں گے جب تک اللہ چاہے گا (بخاری ومسلم)*
*سجدے میں حمد و ثنا بیان کریں گے جب تک اللہ چاہے گا اور جو کچھ اللہ تعالی چاہے گا (بخاری و مسلم )*
*جب اذن شفاعت ملے گا تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سنی جائے گی اور قبول کی جائے گی( بخاری و مسلم)*
*الحمدللہ، حمدا" کثیرا" طیبا" مبارکا" فیہ، کما یحب ربنا*
*اور اے ایمان والو!*
*اے بصیرت و بصارت رکھنے والو!*
*اے دانا اور بینا لوگو!*
*ذرا غور کرو اور* *سوچو*
*اس روز نجات کے لئے شفیع اور مشفیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت حاصل کرنا اچھا ہے یا خود ساختہ سفارشیوں کی سفارش کرانا اچھا ہے؟*
*افلا تعقلون*
*کیا تم عقل سے کام نہ لو گے؟*
*الدعاء*
*اے میرے پروردیگار مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت عطا فرمانا اور اپنے عرش کے ساۓ تلے جگہ دینا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوض کوثر سے پانی پلانا۔*
*آمین یا رب العالمین*
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[06/03, 19:01] Nazir Malik: کڑوا سچ یا میٹھا زہر
Nazir Malik - 26/01/2022
*کڑوا سچ یا میٹھا زھر*
منگل 27 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگوھا
ہم پاکستانی لوگ مسلمان تو ہیں مگر اک وکھری ٹائپ کے۔
ہم کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پڑھتے ہیں اور نیو ایئر بھی کھل کر مناتے ہیں
بسنت پر کروڑوں روپۓ کی پتنگ بازی میں سینکڑوں راہگیروں کی گردنوں پر ڈور پھروا بیٹھتے ہیں
بسنت پر پتنگ بازی ایسی کی نوجوان مرد و زن آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور بو کاٹا کے نعرے سرچ لائٹ کی روشنیوں میں تھرکتی جوانیاں، سحر انگیز میوزک ڈی جے فل والیوم کے ساتھ۔ *بس نہ پوچھ آگے کی بات*
کرسمس، نیو ائیر، ہندؤں کے تہوار ہولی دیوالی ہو یا سکھوں کے گرو نانک کا جنم دن سب ہمارے ہاں ایسے ہی یاد رکھے جاتے ہیں جیسے عید بقرہ عید۔۔۔۔۔۔
ہم سودی لیں دین بھی کر لیتے ہیں، ناپ تول میں کمی بیشی کرتے ہوۓ ذخیرہ اندوزی کے حرام مال سے حج بیت اللہ بھی کرلیتے ہیں اور زندگی میں بار بار عمرہ کا احرام باندھ کر لبیک اللھمہ لبیک کا تلبیہ بھی جوش و خروش سے پکار لیتے ہیں اور حج بیت اللہ سے واپسی پر وہی کالے کرتوت۔
*میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم ہیں کون؟*
اور ہم اپنی اصل سے مرکز گریز ہو کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
نماز روزے کے عادی مسلمان اپنے عقائد کو قرآن و سنت کی بجاۓ پیروں فقیروں اور جہلا کے غیر شرعی اعمال سے کشید کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہم فرقوں میں بٹ گۓ اور اپنی اصل سے ہٹ گئے۔
تبلیغ دین کی بجائے مسالک کی ہونے لگی مسجد و محراب بھی فرقوں میں منقسم ہو گۓ اور توحید شرک سے اتنی آلودہ ہو گئ کہ سب کچھ گڈمڈ ہو گیا اور اصل کی پہچان مفقود ہو گئ اور دعائیں اللہ سے مانگنے کی بجاۓ غیر اللہ سے مانگنے لگے۔
*بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی*
*مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے*
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامتے تاکہ فلاح پاتے مگر ہم دین سے اتنے دور چلے جا رہے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
اب تو اکثر لوگ بس یہی کہتے کہ
*اپنا عقیدہ چھوڑو نہ اور دوسروں کا چھیڑو نہ*
یاد رہے یہ جملہ اسلام کی اصل یعنی تبلیغ دین کی جڑ کاٹنے کے لئے کافی ہے۔ گو حکم خدا وندی تو یہ ہے کہ مشرکوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ہر فرقہ اسی میں خوش ہے جو اس کے پاس ہے(القرآن) اور آج ہم اپنے فرقے کے خلاف کچھ نہیں سننا چاہتے چاہے ہم صریح غلطی پر ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی ہم اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم اصل دین کی طرف نہیں پلٹ رہے اور کنوؤیں کے مینڈک کی طرح اپنے باطل عقیدے پر پختہ تر ہوتے جا رہے ہیں اور جہالت کے گڑھے میں پڑے رہتے ہیں نہ کسی کی سنتے اور مانتے ہیں اور نہ کسی اہل علم سے دریافت کرتے ہیں جبکہ حکم ربانی ہے کہ اگر نہیں معلوم تو اہل علم سے پوچھ لیا کرو (القرآن)۔
.
یہ بھی اک مسلمہ حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر ہم پاک و ہند کی غیر مسلم قوموں سے مسلمان ہوۓ ہیں (ہندو، سکھ، بدھ مت وغیرہ) مگر صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی
*ہمارے اندر کا ہندو مرا نہیں*
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بتوں کی پوجا تو ہم نے چھوڑ دی مگر غیر اللہ سے امیدیں رکھنا ہم میں ابھی ہے۔ سادھو کا گیان جاتا رہا مگر پیر پرستی کی صورت میں اس باطل عقیدے کی رمق آج بھی باقی ہے اور یہ اس وقت تک نہ نکلے گی جب تک ہم اندر سے مسلمان نہ ہو جائیں گے اور اس کی تطہیر کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پکا ایمان اور علم قرآن و حدیث پر من و عن عمل کرنے سے ہو گی اور اپنی مرضی کو چھوڑ کر کتاب و سنت کے تابع ہونا پڑے گا اور سابقہ غلطیوں کی اپنے رب سے معافی مانگنا ہو گی۔ تب بات بنے گی وگرنہ جہنم ٹھکانا ہوگا
اصولی بات یہ ہے غلامی میں حکم آقا کا ہی ماننا پڑتا ہے اپنی مرضی ختم اور اگر اپنی مرضی چلانی ہے تو یہ غلامی نہیں بلکہ من مانی ہو گی۔ جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
فرمان نبوی ہے کہ حکمت مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے جہاں سے ملے پا لے (حدیث)۔
دین اسلام تو تبلیغ کا حکم دیتا ہے اور اس وقت تک قتال کا حکم دیتا ہے جب تک اسلام دنیا پر غالب نہ آجاۓ۔
لیکن کفار ہمیں اپنے مقصد عین سے ہٹا دینا چاہتے ہیں کیوں کہ عقیدہ توحید، قاطع شرک و بدعات، تبلیغ اسلام اور قتال غیرمسلموں کی موت کا کھلا پیغام ہے۔
*کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا*
*مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی*
*الدعاء*
یا اللہ تعالی بس تو ہمیں اپنے رنگ میں رنگ لے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmailk.
com
Cell:00923008604333
[07/03, 22:50] Nazir Malik: *شبرات کی شرعی حیثیت*
بدھ 08 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*شعبان کی پندرھویں رات عبادت کی خاص رات نہیں ہے*
*سوال*
میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ پندرہ شعبان کا روزہ دوسری بدعات میں سے ایک بدعت ہے جبکہ ایک دوسری کتاب میں پڑھا ہے کہ اس دن کا روزہ مستحب ہے تو سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا قطعی حکم کیا ہے
*جواب*
شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت کے بارے میں کوئی ایک بھی صحیح اور مرفوع روایت ثابت نہیں جس کےمطابق حتی کہ فضائل اعمال میں بھی عمل کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں جو کچھ وارد ہے وہ یا تو بعض تابعین سے مقطوع آثار ہیں یا پھر ایسی احادیث ہیں جن میں صحیح ترین کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ موضوع یا بے حد ضعیف ہیں۔
یہ روایات بہت سے ایسے علاقوں میں مشہور ہیں جن میں جہالت کا غلبہ ہے اور لوگ از راہ جہالت یہ سمجھتے ہیں کہ اس رات موت اور حیات کا فیصلہ ہوتا ہے ۔۔۔الخ
لہذہ اس رات کا قیام کیا جاۓ نہ دن کا روزہ رکھا جاۓ اور نہ کسی معین عبادت کے لۓ اس رات کو مخصوص کیاجاۓ۔ جاہلوں کی ایک کثیر تعداد اس رات کو جو اعمال سرانجام دیتی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ واللہ اعلم
شیخ ابن جبرین
مفتی حرمین الشریفین
المملکہ عربیہ السعوددیہ
حوالہ:
فتاوی اسلامیہ جلد۔1 صفحہ 231
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell:00923008604333
[09/03, 05:22] Nazir Malik: *اسلامی ریاست*
جمعرات 09 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
اسلام نے انسان کو مکرم، معظم اوراشرف قرار دیا ہے۔انسانی جان کو مقدس امانت اورانتہائی محترم قرار دے کر اور ایک انسان کے قتل ناحق کو تمام انسانوں کا قتل ٹھہراکر تحفظ جان کی اہمیت پر جس طرح زور دیا ہے، اس کی نظیر دنیا کے کسی مذہبی اخلاقی یا قانونی لٹریچر میں نہیں ملتی۔
اسلامی ریاست میں ایسی تمام نجی املاک جو جائز ذرایع سے حاصل شدہ ہو جن سے شریعت کے مقرر کردہ حقوق و واجبات اور حکومت کے عائد کردہ مستقل اور عارضی نوعیت کے ٹیکس ادا کیے جاچکے ہوں نیز جنھیں حرام اور ناجائز مشاغل وکاروبار میں صرف نہ کیا جارہا ہو حکومت کی مداخلت سے قطعی محفوظ ہونگی۔ حکومت کی ذاتی ملکیت کو اجتماعی مفاد کے تحت مالک کی مرضی سے یا جبراً بھی معروف معاوضہ ادا کرکے حاصل کرسکتی ہے۔ تحفظ ملکیت کے حق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے ’’جو شخص اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے‘‘
اسلامی ریاست کے ہر شہری کا یہ اہم حق ہے کہ اس کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا جائے کسی کی عزت پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ کسی کی تذلیل و توہین نہیں کی جاسکتی۔ زنا اور تہمت زنا قانونی جرم ہیں، اگر کوئی اپنی عزت و عصمت بچانے کی خاطر دست درازی کرنے والے کو قتل بھی کردے تو قاتل کوکوئی سزا نہیں۔
اسلامی ریاست میں شہریوں کی نجی زندگی کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور گھروں کی چار دیواری کو ایک محفوظ قلعے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس میں مداخلت کا کسی کوحق نہیں پہنچتا۔ اسلامی ریاست کسی بنیاد پر جاسوسی کا جال پھیلانے،کسی شہری کے پیچھے مخبر لگانے، لوگوں کے گھروں اور دفاتر میں آلات جاسوسی نصب کرنے، ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور خطوط سنسر کرنے کا حق نہیں رکھتی۔
اسلامی ریاست معقول عدالتی کارروائی کے بغیر نہ کسی شہری کو کوئی سزا دے سکتی ہے نہ اسے قید کرکے آزادی سے محروم کرسکتی ہے۔ سنگین سے سنگین جرم کو بھی کھلی عدالت میں سماعت اور ملزم کو صفائی کا موقع دیے جانے کے بغیر اس کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ شک کا فائدہ ملزم کو ملے گا۔ مجردالزام پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔
اسلامی ریاست میں شہری کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اسے دوسروں کے قصور میں نہیں پکڑا جاسکتا۔ ملزم کی بجائے اس کے باپ، بیٹوں، ماں، بہنوں یا دوسرے عزیز و اقارب کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن نے اس سلسلے میں قطعی ضابطہ مقرر کردیا ہے۔ ’’کوئی دوسرے کا وزن نہیں اٹھائے گا‘‘ (انعام)
اسلامی ریاست میں بسنے والے تمام انسان قانون کی نظر میں برابر ہوںگے۔ حضرت عمرؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ، عمروؓ بن العاص، ان کے بیٹے عبداﷲ اور خود اپنے بیٹے عبدالرحمن پر حد جاری کرکے قانونی مساوات کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کی نظیر تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کی عدالت میں حضرت عمر فاروقؓ کا مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہونا اور حضرت علیؓ کا مدعی کی حیثیت سے قاضی شریحؓ کی عدالت میں پیش ہونا اسلامی ریاست میں قانونی اور عدالتی مساوات کی روشن مثالیں ہیں۔
اسلامی ریاست کا مقصد وجود ہی قیام عدل ہے، اسلامی ریاست میں ہر شخص عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ بٹن دباتے ہی انصاف کے دروازے اس کے لیے آسانی سے کھل جاتے ہیں۔ انصاف ہر شہری کو ہوا کی طرح مفت ملتا ہے۔ اس میں نہ کورٹ فیس ہوتی ہے اور نہ وکیل کی خوشامد اور معاوضہ۔ سعودی عرب میں آج بھی انصاف امیر و غریب سب کے لیے یکساں، سہل اور بلا قیمت ہے۔ اسلام روئے زمین پر واحد نظریہ ہے جس نے انصاف کو ناقابل فروخت اور ناقابل تجارت قرار دیا۔
اسلامی ریاست میں کوئی شہری روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہیں رہ سکتا۔ معاشی انصاف حکومت کا فرض ہے حکومت ہر شہری کی سرپرست اور ولی ہے۔ بقول عمرؓ فاروق ’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرجائے تو اس کی ذمے داری عمرؓ (سربراہ مملکت) پر عائد ہوتی ہے‘‘
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمارے ارباب اختیار کو اتنی فراست عطا فرما کہ وطن عزیز میں اسلامی شرعی قانون نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[09/03, 20:38] Nazir Malik: *اسباب نزول قرآن*
جمعہ 10 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سوال 1: قرآن مجید کی وہ کون سی سورت ہے جو یہود بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟
جواب: سورہ حشر 28 پارہ۔
سوال 2: اس صحابیہ کا نام بتائیے جن کی شان میں قرآن مجید کی آیتیں اتریں؟
جواب: حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا۔ ( سنن ابی داؤد کتاب الطلاق ، باب فی اظہار)
سوال 3: آیت کریمہ{ ما کان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشر کین ولو کانوا اولی قربی من بعد ما تبینلھم انھم اصحب الجحیم}(سورہ توبہ آیت:113)[ پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعدکہ یہ لوگ دوزخی ہیں ]کا شان نزول کیا ہے ؟
جواب: اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کو مرتے وقت فرمایا تھا کہ میں اس وقت تک آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جاتا۔ ( صحیح بخاری، کتاب التفسیر )
سوال 4: آیت {انک لا تھدی من احببت}[آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ](سورہ قصص آیت :56) کس کے بارے میں اتری ہے ؟
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عم بزرگوار ابو طالب کے بارے میں اتری۔ ( صحیح بخاری کتاب التفسیر، صحیح مسلم کتاب الایمان باب قول لالہ اللہ
سوال5: جہاد کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت کون سی ہے ؟
جواب: جہاد کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت یہ ہے {اذن للذی یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علی نصر ھم لقدیر}( سورہ حج آیت:39) [جن مسلمانوں سے کافر جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں]
سوال 6: قرآن مجید کی یہ آیت{الم ترالی الذی قولوا قوما غضب اللہ علیھم ماھم منکم ولا منھم و یحلفون علی الکذب وھم یعلمون}( سورہ مجادلہ آیت:14) [کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اس قوم سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہو چکا ہے نہ یہ منافق تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں باوجود علم کے پھر بھی قسمیں کھائے جا رہے ہیں ] کن کے بارے میں اتری ہے؟
جواب: ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو یہود و نصاریٰ سے دوستی کرتے تھے ، اور ہر بد بخت مسلمان پر صادق آتی ہے جو کافروں سے ہمدردی رکھے اور مسلمانوں سے دشمنی۔
سوال7: آیت کریمہ{ذق انک انت العزیز الکریم}[اس سے کہا جائے گا چکھ تو ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا] ( سورہ دخان آیت:49) کس کے بارے میں اتری ہے ؟
جواب: یہ آیت مشہور دشمن اسلام ابو جہل عمرو بن ہشام کے بارے میں اتری ہے۔
سوال 8: فرمان الٰہی{وقالو الولا نزل ھذا القرآن ولی رجل من القریتین عظیم}( سورہ زخرف آیت:31) [اور کہنے لگے یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا ]یہ آیت کس کے بارے میں اتری ہے اور قریتین سے کون کون سی بستیاں مراد ہیں؟
جواب: یہ آیت ولید بن مغیرہ اور عروہ بن مسعود ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی، اور قریتین سے مراد مکہ اور طائف ہے۔
سوال 9: قرآن مجید کی یہ آیت{ومن الناس من یقول امنا باللہ فاذا اوذی فی اللہ جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ ولئن جاء نصر من ربک لیقولن انا معکم اولیس اللہ باعلم بما فی صدورالعلمین }(سورہ عنکبوت آیت:10)[اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہیں تو لوگوں کو ایذاء دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لیتے ہیں ہاں اگر اللہ کی مدد آ جائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالیٰ دانا نہیں ہے ] کن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟
جواب: ضحاک کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ مکہ مکرمہ میں ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے جب انہیں مشرکین کی جانب سے تکلیف پہنچی تو دوبارہ مشرک بن گئے۔
سوال 10: وہ کون صحابی ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت {یاایھا الذی امنوا لاتتخذوا عدوی وعدو کم اولیاء تلقون الیھم مودۃ}( سورہ ممتحنہ آیت:1)[اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو] نازل ہوئی ہے
جواب: صحابی رسول حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
سوال 11: سورہ اخلاص کا سبب نزول کیا ہے ؟
جواب: مشرکین مکہ نے صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد اپنے رب کا نسب نامہ اور اس کا وصف بیان کرو تو یہ سورت نازل ہوئی۔(سنن ترمذی، ابواب تفسیر القرآن، علامہ البانی
رحمۃ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے دیکھئے صحیح سنن الترمذی حدیث:2680)
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں قران مجید کی معرفت عطا فرما۔
امین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[11/03, 05:51] Nazir Malik: *گھر سے وضو کر کے فرض نماز ادا کرنے کے*
*ارادہ سے مسجد میں آنے والے کو حج کے برابا ثواب ملتا ہے*
ہفتہ 11 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا..
جو شخص گھر سے وضو کر کے فرض نماز ادا کرنے کےلئے مسجد میں آۓ اس کے لئے حج کا احرام باندھنے والے آدمی کے برابر ثواب ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز ادا کرنا جن کے درمیان کوئی لغو اور بیہودہ بات نہ کی گئی ہو ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے۔(رواہ ابوداؤد
الدعاء
یا اللہ تعالی ہمیں تیرے احکامات تیرے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق بجا لانے والا بنا دے اور ان اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاء
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
[11/03, 21:44] Nazir Malik: *حقوق نسواں سیرتِ نبوی کی روشنی میں*
اتوار 12 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*وجود زن سے ہے تخلیق کائنات میں رنگ*
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خرید و فروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتا تھا۔ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی و سیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔
لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گوارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔
مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خود فطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔
*انساں کی عظمت کو ترازو میں نہ تولو*
*یہ تو ہر دور میں انمول رہا ہے*
باقی کل جاری رہے گا
ان شاء اللہ
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[13/03, 05:58] Nazir Malik: *ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں*
پیر 13 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
4. بَابُ أَعِنْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا:
4. باب: ہر حال میں مسلمان بھائی کی مدد کرنا چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
حدیث نمبر: 2444
حدثنا مسدد، حدثنا معتمر، عن حميد، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انصر اخاك ظالما او مظلوما، قالوا: يا رسول الله، هذا ننصره مظلوما، فكيف ننصره ظالما؟ قال: تاخذ فوق يديه".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے.
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن سلیمان واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو عبیداللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن آپ کا کیا خیال ہے جب وہ ظالم ہو گا پھر میں اس کی مدد کیسے کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تم اسے ظلم سے روکنا کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔
*حوالہ*
صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
[14/03, 05:21] Nazir Malik: *حقوق نسواں سیرتِ نبوی کی روشنی میں*
(قسط دوئم)
پیر 14 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*گزستہ سے پیوستہ*
عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت و کوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس کامطالبہ کر رہی تھی؛ بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا ہی چاہیے تھا ۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔
یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے؛ بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
*عورتوں کو زندہ رھنے کاحق*
عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا؛ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ فرمایا:
وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔
ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہو اور لڑکیوں کے ساتھ وہی برتاوٴ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
*عورت بحیثیتِ انسان*
اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد و عورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے
خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً(سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)
ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انھیں فضیلت دی۔
اورسورہ التین میں فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: ۴)
ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔
چنانچہ آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔
کی حصے دارہے۔
*عورتوں کو تعلیم کا حق*
انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتاہے؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔
اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضة اور دوسری جگہ ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کمَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة
جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے؛
اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
جیسا کہ گزشتہ
میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے؛ لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں؛ بلکہ صحابہٴ کرام کے مدِمقابل تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:
حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابوبکر، ام شریع فاطمہ بنت قیس وغیرہ نمایاں تھیں۔
باقی قسط سوئم میں ملاحظہ فرمائیں۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[15/03, 05:07] Nazir Malik: *حقوق نسواں سیرتِ نبوی کی روشنی میں*
(گزشتہ سے پیوستہ)
بدھ 15 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
(قسط سوئم)
*معاشی حقوق*
معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کا مالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسے دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔
(۱) عورت کا نان و نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:
عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ: ۲۳۶)
خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔
(۲) *مہر*
عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:
وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)
عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور
خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔
*(۳) وراثت:*
بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔
(النساء: ۱۱) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
(۴) *مال وجائیداد کا حق*
اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے؛ کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے؛ اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے؛ مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
(۵) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنا دیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے؛ جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔
*تمدنی حقوق*
*شوہر کا انتخاب:*
شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
ایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن
ترجمہ: شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔
اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔
ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل اندازی کریں گے۔
*خلع کا حق*
اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔
*حسن معاشرت کا حق*
قرآن میں حکم دیا گیا:
وعاشروہن بالمعروف عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ (النساء: ۱۹)
چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خیرُکم خیرُکم لاہلہ۔
تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اپنے اہل وعیال سے لطف و مہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔
(تمت بالخیر)
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں تیرے احکامات پر تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[16/03, 05:25] Nazir Malik: *تلاش حق*
جمعرات 16 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
یہ سچ ہے کہ دین اسلام دوسری اور تیسری صدی ہجری میں چار مذاہب میں تقسیم ہو گیا تھا جبکہ کتاب اللہ فرقوں سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے
(سورۃ الانعام آیت 159)
فرمان ربانی ہے
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے (القرآن)
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالی ہے کہ جس فرقے کے پاس جو ہے وہ اسی میں خوش ہے(القرآن)
آئمہ اربعہ کے شاگردوں کی علمی بحوث اور کوفہ کی گلی کوچوں میں مناظروں کی گہما گہمی، علمی دھینگا مشتی اورکشتی میں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیۓ اپنی تمام تر قوتوں کو بروۓ کار لاتے ہوئے نتائج سے بے خبر امت چار مسالک میں تقسیم کر دی گئی اور اس طرح اسلام کی واحدانیت کا شیرازہ بکھر گیا۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ امت آج تک ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہو سکی اور کفر کے فتوؤں کی فیکٹریوں نے اسلحہ سازی کا کام کیا اور آج ہم ایک دوسرے کو مسلمان کم اور کافر زیادہ گردانتے ہیں۔
درحقیقت اندھی تقلید ایک ایسا ناسور ہے جس نے ہر دور میں مسلم امّہ کے متحد جسم کو تشتت و افتراق سے لاغر و ناتواں کیا ہے۔ جس نے ہمیشہ دین اسلام کے مجلّٰی و مصفّٰی آئینے کو دھندلایا ہے۔ اسی تقلید کی وجہ سے مسلمان آپس میں ہمیشہ سے باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے نظر آئے ہیں۔ یہ تقلید ہی تو تھی جس نے عالم اسلام کو ایک صراط مستقیم کی بجائے نجات کے مختلف راستے دکھائے، اور دیکھتے ہی دیکھتے امتِ مسلمہ کا شیرازہ یوں بکھیرا کہ مسلمانوں کی عظیم الشان ہستی نیستی میں بدلتی محسوس ہونے لگی۔ ایسے میں ایک طرف اگر حنفیت کو عالم گیر نظام حیات قرار دیا گیا تو دوسری طرف شافعیت کو راہِ نجات ٹھہرایا گیا۔ ایک طرف اگر مالکیت کا چرچہ ہوا تو دوسری طرف حنبلیت کو پروان چڑھایا گیا اور اس طرح مسلم دنیا کی تنظیم، تفرقہ بازی کی نظر ہوگئی اور مذہبی، امامی امامی کے پُر تعصب نعروں نے اُمت مسلمہ کے تابناک مستقبل کو تاریکیوں اور اندوہناک ناکامیوں سے دورچار کیا۔
اقبال نے اس پس منظر میں کہا تھا:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
جب اُمتِ مسلمہ کے افراد حنفیت، شافعیت، مالکیت اور حنبلیت سے نا آشنا تھے تب وہ عالمِ کفر پر موت اور انفکاک کی تلوار بن کر لٹکتے تھے۔ ان کے اتحاد اور بے مثل تنظیم کے سامنے باطل سرنگوں تھا، لیکن جب مسلمان مذہبی انتشار و خلفشار کا شکار ہوئے تب وہ چار دانگ عالم میں رسوا بھی ہوئے:
آبرو باقی تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
*ذرا غور کریں کہ آئمہ اربعہ سے قبل امت کا کیا مذھب تھا؟*
*وہی دین حق تھا یعنی قرآن و سنت*
قرآن و سنت کے مقابلے میں راۓ اور اہل رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دین کے مکمل اور بہترین شارع تھے۔
ذرا یاد کرو، کیا کچھ عرصہ پہلے تک حرم مکی میں چاروں آئمہ کے علیحدہ علیحدہ مصلے نہیں تھے؟
اس درجہ ہوۓ فقیہان حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
دین پر ایک لمحے کا غور و فکر ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مروجہ اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم والا اسلام قطعا" نہیں ہے اس میں بہت سے علماء سوء اور خود ساختہ سکالرز نے اپنے منطق چسپاں کر دیۓ ہیں اور اسلامی تعلیمات کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
*دعوت*
آئیں صحابہ اکرام کے دین کو کھوجیں یعنی دین حق کو کتاب و سنہ میں تلاش کریں اور اس پر عمل کریں تاکہ فلاح پائیں۔ اس مقصد کے لئے قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث نبوی کا مستند مجموعہ صحاع ستہ سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
علماء اکرام سے دست بدست التجاء ہے کہ دین اسلام کی تبلیغ کریں فرقوں کی نہیں۔
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما تاکہ ہم دنیا بھر کے مسلمان یکسو ہو کر تیرے احکامات تیرے نبی محمد صل اللہ علیہ کی سنت کے عین مطابق جماعت صحابہ کے طریقہ پر ادا کرتے رہیں۔
یا اللہ تعالی مسلمانوں کو ایک کر دے نیک کر دے اور تفرقے سے ہمیں بچا محفوظ فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
[17/03, 05:27] Nazir Malik: *نماز جنازہ میں میت کے حق میں ایک مفید دعاء*
جمعہ 17 مارچ 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء میں سے یہ لفظ یاد رکھے۔
«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلاً خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ»
ترجمہ
”یا اللہ! بخش اس کو اور رحم کر اور تندرستی دے اس کو، اور معاف کر اس کو، اور اپنی عنایت سے میزبانی کر اس کی، اس کا گھر (قبر) کشادہ کر، اور اس کو پانی اور برف اور اولوں سے دھو دے، اور اس کو گناہوں سے صاف کر دے، جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہو جاتا ہے اور اس کو اس گھر کے بدلے اس سے بہتر گھر دے، اور اس کے لوگوں سے بہتر لوگ دے اور اس کی بیوی سے بہتر بیوی دے، اور جنت میں لے جا اور عذاب قبر سے بچا۔“
یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ یہ مردہ میں ہوتا۔(رواہ مسلم 11203 - 2232)
یاد رہے کہ ہمارے ہاں نماز جنازہ کی مروجہِ دعاء میں میت کے لئے فقط ایک جملہ کی دعاء ہے۔
(اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلی َمَيِّتِنَا)
باقی نماز میں ہم اپنے زندوں کے لئے دعاء مانگتے ہیں مگر جس کی نماز جنازہ پڑھی جا رہی ہے اسکے حق میں بس واجبی سی دعاء کرتے ہیں۔
ہمارے جنازہ پڑھانے والوں کو نماز جنازہ میں یہ دعاء دینی چاہیۓ کیونکہ یہ بھی مسنون دعاء ہے اور میت کے حق میں زیادہ مفید ہے اور میت کا زندوں پر یہ آخری حق ہے۔
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at
www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[18/03, 05:33] Nazir Malik: *حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیۃ مبارک*(قسط اول)
ہفتہ 18 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*حلیہ مبارک*
1۔ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک چاند سے زیادہ حسین و جمیل تھا۔*
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا میں ایک نظر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا اور ایک نظر چاند کو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرخ رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھے مجھے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چہرہ مبارک چاند سے زیادہ خوبصورت لگا (رواہ ترمذی)
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خوش ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ایسے چمکتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہے (رواہ بخاری)
2۔ *آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ مبارک*
حضرت ابو جحیفۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے چہرے پر رکھا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور اس کی خوشبو مشک سے بھی زیادہ اچھی تھی۔
(رواہ بخاری)
3۔ *آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہتھیلی مبارک*
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے کوئی موٹا یا باریک ریشم آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم نہیں دیکھا (رواہ البخاری)
4۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلوے مبارک*
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم طویل تھے نہ پستہ قد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں اور پاؤں کے تلوے مبارک گوشت سے پر تھے آپ صلی وسلم کا سر مبارک بڑا اور ہڈیوں کے جوڑ کشادہ تھے سینے سے ناف تک باریک بال تھے ۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو ایسا نہیں دیکھا (رواہ ترمذی)
5۔ *آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دہن مبارک*
حضرت جابر بن سمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کشادہ دھن تھے
( رواہ ترمذی)
6۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ مبارک*
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ (رواہ ترمذی )
7۔ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایڑی مبارک*
[حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں پر گوشت کم تھا۔
(رواہ ترمذی)
*جاری ہے*
*حوالہ جات:*
مسلم، بخاری، صحاح ستہ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اؤل انعام یافتہ مستند کتاب الرحیق المختوم۔
*درود شریف*
ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں صحابہ کرام جیسا پختہ ایمان اور اللہ تعالی پر یقین کامل عطا فرماء
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک حصہ اؤل
[19/03, 05:32] Nazir Malik: *حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیۃ مبارک*
اتوار 19 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*حلیہ مبارک گذشتہ سے پیوستہ*
8۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلی مبارک*
حضرت ابو جحیفۃ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر نکلے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سفید چمکدار پنڈلیاں دیکھیں۔
( رواہ بخاری)
9۔ *آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بغل مبارک*
حضرت عبداللہ بن مالک بن بجینہ اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ پیٹ سے الگ رکھتے ہیں حتی کہ ہم آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھتے( رواہ بخاری)
10۔ *آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم علم کے بال مبارک*
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا "رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بال مبارک کیسے تھے؟" انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا نہ زیادہ گھنگریالے نہ سیدھے بلکہ اس کے درمیان تھے اور کانوں اور کندھوں کے درمیان تک تھے ( رواہ مسلم)
11۔ *آپ کے سر اور داڑھی میں سفید والوں کی تعداد*
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سر اور داڑھی میں بیس سے بھی زیادہ بال سفید نہ تھے (رواہ بخاری)
12۔ *آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسم مبارک کی خوشبو*
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسم مبارک سے اچھی خوشبو نہ امبر میں محسوس کی، نہ مشک میں، نہ کسی دوسری چیز میں (رواہ مسلم)
13۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک کی خوشبو*
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پسینہ آیا میری ماں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ ایک شیشی لے کر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پسینہ جمع کرکے اس میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جاگ آگئی اور دریافت فرمایا "ام سلیم! یہ کیا کر رہی ہو؟ "میری ماں نے کہا "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کا پسینہ جمع کر رہی ہوں تاکہ اسے اپنی خوشبو میں شامل کروں کیوں کہ آپ کا پسینہ مبارک تو بہترین خوشبو ہے (رواہ مسلم)
14۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ مبارک*
حضرت جریر ی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابو طفیل رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کیا ۔"کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا؟" اس نے کہا "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوبصورت سفید تھا۔ (رواہ مسلم)
15۔ *مہر نبوت*
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پشت پر کبوتری کے انڈے جیسی مہر دیکھی (رواہ مسلم)
*حوالہ جات:*
مسلم، بخاری، صحاح ستہ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اؤل انعام یافتہ مستند کتاب الرحیق المختوم۔
*درود شریف*
ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
*الدعاء*
یا اللہ تعالی میں تجھ سے ان نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو نہ تو بدلیں اور نہ ہی زائل ہوں۔ یا اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم، وسیع رزق اور ہر قسم کی بیماری سے شفاء کا سوال کرتا ہوں۔
یا اللہ تعالی ہمیں بڑھاپے کے خرافات سے بچانا اور خاتمہ بل ایمان فرمانا۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاء
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حلیہ مبارک حصہ دوئم
[20/03, 05:28] Nazir Malik: *سورہ تکاثر کی روشنی میں دنیاوی نعمتوں کا حساب*
پیر 20 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ﴿۳﴾ ثُمَّ کَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾ لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾ ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ﴿۸﴾
ایک دوسرے سے زیادہ (دنیوی سازوسامان) حاصل کرنے کی لالچ نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے
﴿۱﴾ یہاں تک کہ تم قبرستان میں پہنچ جاتے ہو
﴿۲﴾ ہرگز نہیں تم کو بہت جلد (مرتے ہی) معلوم ہو جائےگا
﴿۳﴾ پھر ہرگز نہیں تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائےگا
﴿۴﴾ ہرگز نہیں ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے (تو ہرگز ایسا نہیں کرتے)
﴿۵﴾ تم یقیناً دوزخ کو دیکھ کر رہو گے
﴿۶﴾ پھر تم لوگ اس کو بالکل یقین کے ساتھ دیکھ لوگے
﴿۷﴾ پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا (کہ کیا ان کا حق ادا کیا) ﴿۸﴾
*تفسیر*
ایک دوسرے سے زیادہ (دنیوی سازوسامان) حاصل کرنے کی لالچ نے تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے ﴿۱﴾ یہاں تک کہ تم قبرستان میں پہنچ جاتے ہو ﴿۲﴾ ہرگز نہیں تم کو بہت جلد (مرتے ہی) معلوم ہو جائےگا ﴿۳﴾ پھر ہرگز نہیں تمہیں بہت جلد معلوم ہو جائےگا ﴿۴﴾
دنیوی مال اور چیزوں کی ہوس اور ان کے حصول میں مقابلہ آرائی نے انسان کو اپنی زندگی کے اصل مقصد سے غافل کر دیا ہے۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد یہ ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرے اور جنّت کے حصول کے لئے کوشش کرے؛ لیکن افسوس ہے کہ دنیوی مال اور دولت کے اندر انسان منہمک ہو گئے اور ایک دوسرے کے ساتھ اس کے حصول میں مقابلہ بازی کرنے میں الجھ گئے۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ انسان کی شکایت کر رہے ہیں کہ وہ زندگی بھر زیادہ سے زیادہ مال ودولت حاصل کرنے کی فکر کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور وہ قبر میں پہونچ جاتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن شخّیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سورت (سورۂ تکاثر) کی تلاوت فرما رہے تھے۔ سور ت پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم (فخر سے) کہتا ہے: میرا مال، میری دولت۔ جب کہ تمہیں تمہاری دولت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے سوائے اس کے جو تم نے کھا لیا اور ختم کیا یا تم نے پہن لیا اور پرانا کر لیا یا وہ مال جو تم نے صدقہ میں دے دیا اور آگے بھیج دیا (یعنی آخرت کے لئے بھیج دیا)۔
مسلم شریف کی حدیث میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان کا ہر مال سوائے اس کا جس کا تذکرہ مذکورہ بالا حدیث میں آیا ہے (اس کی موت کے بعد) دوسروں کے لئے (وارثین کے لئے) رہ جائےگا۔
انسان کی فطرت ہے کہ اس کو جتنا بھی مال مل جائے وہ اس پر قناعت نہیں کرےگا؛ بلکہ وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے اور اس کو بڑھانے کی فکر میں لگا رہےگا۔ انسان کے اُسی بے انتہا حرص اور ہوس کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر آدم کے بیٹے کو سونے کی ایک وادی مل جائے، تو وہ دوسری وادی کی تمنّا کرےگا اور (بالآخر) قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی بھی چیز اس کا پیٹ نہیں بھرےگی۔ اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتے ہے۔ (بخاری شریف)
کَلَّا لَوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عِلۡمَ الۡیَقِیۡنِ ؕ﴿۵﴾
ہرگز نہیں ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے(تو ہر گز ایسا نہیں کرتے) ﴿۵﴾
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں کہ اے لوگو ! اگر تم یقینی طور پر جان لیتے تو ہرگز تم ایسا نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر تم موت کی حقیقت پر سوچتے اور اپنے انجام پر غورو فکر کرتے کہ ایک دن ہمیں مرنا ہے اور دنیا کے اسباب ومتاع کو چھوڑ کر جانا ہے، تو تم ہرگز دنیا میں مشغول ہو کر آخرت سے غفلت نہ برتتے۔
لَتَرَوُنَّ الۡجَحِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیۡنَ الۡیَقِیۡنِ ۙ﴿۷﴾
تم یقیناً دوزخ کو دیکھ کر رہو گے ﴿۶﴾پھر (مکرر تاکید کے لئے کہا جاتا ہے کہ )تم لوگ اس کو بالکل یقین کے ساتھ دیکھ لوگے ﴿۷﴾
یقین کے مختلف درجات ہوتے ہیں: یقین کا پہلا درجہ علم الیقین ہے۔ علم الیقین یہ ہے کہ آدمی کو کسی چیز کا یقین ذہنی طور پر حاصل ہو۔ یقین کا دوسرا درجہ عین الیقین ہے عین الیقین یہ ہے کہ ذہن میں جس چیز کا یقین تھا آدمی اس یقینی بات کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھے اور یہ عین الیقین کا درجہ یقین کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ یہ بات مسلّم ہے کہ کسی چیز کو دیکھ کر جو یقین حاصل ہوتا ہے، اس کا درجہ اس یقین سے بڑھ کر ہے۔ اس یقین کے مقابلہ میں جو صرف علم سے حاصل ہو، مثال کے طور پر ایک آدمی کو سانپ اور اس کے ضرر کے بارے میں پختہ علم ہو؛ لیکن جب سانپ اس آدمی کے سامنے آتا ہے اور وہ اس کے ضرر کا مشاہدہ کرتا ہے، تو سانپ کے متعلق اس کا یقین بڑھتا ہے اور اس کا یقین علم الیقین سے عین الیقین تک پہنچتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا پورا علم تھا اور سانپ کے بارے میں بھی ان کو واقفیت تھی؛ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ لاٹھی سانپ کی شکل میں بدل گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً پیچھے ہٹ کر بھاگنے لگے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کو دیکھ کر مشاہدہ کرنا اس چیز کے محض علم رکھنے سے مختلف ہے یعنی عین الیقین کا درجہ علم الیقین کے درجہ سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔
ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ﴿۸﴾
پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا (کہ ان کا کیا حق ادا کیا ) ﴿۸﴾
قیامت کے دن ہر انسان سے ان تمام نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائےگا جن سے اس نے دنیا میں فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر وقت، صحت اور مال وغیرہ سے متعلق پوچھا جائےگا۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا
بے شک کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال ہوگا۔
یہ آیتِ کریمہ ہمیں واضح طور پر بتا رہی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان سے کان، آنکھ اور دل ودماغ وغیرہ کے متعلق سوال ہوگا کہ اس نے ان نعمتوں کا استعمال گناہوں اور نافرمانیوں میں کیا یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری میں کیا۔ اسی طرح یہ بھی سوال ہوگا کہ اس نے اعمال کرتے وقت کیا نیّت کی اور اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے بارے میں اس نے کیا گمان کیا۔ ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ قیامت کے دن (میدان حشر میں) کوئی بھی انسان اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہلے گا، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے:
(۱) عمر کس چیز میں گزاری؟
(۲)جوانی کس چیز میں صرف کی؟
(۳)مال کہاں سے حاصل کیا؟
(۴) مال کہاں خرچ کیا؟
(۵) اور علم پر کتناعمل کیا؟
عام طور پر لوگ علم کو قابل فخر چیز سمجھتے ہیں؛ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ علم دین انتہائی مہتم بالشان نعمت ہے، ہم سے اس نعمت کے بارے میں سوال ہوگا کہ ہم نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا؛ لہذا اگر ہم نے اپنے علم پر عمل نہیں کیا، تو قیامت کے دن ہمارا مؤاخذہ ہوگا۔
*ذرا غور کیجیئے کہ ہمارا کیا حال ہو گا*
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عام طور پر کھجور اور جو کی روٹی وغیرہ تناول فرمایا کرتے تھے کچےگھروں میں رہتے تھےاور چٹائیوں پہ سویا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود انھیں خطاب کرکے اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا۔
*ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ*
پھر تم سےاس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا
صحابہ اکرام تو آسانی سے نکل جائیں گے کیونکہ ان کے پاس دنیاوی مال و متاع مختصر سا تھا ذرا غور فرمائیے ہمارا کیا بنے گا
الدعاَء
یا حئی یا قیوم برحمتک استغیث
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
[21/03, 05:21] Nazir Malik: *رمضانیات*
منگل 21 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
ماہ صیام نیکیوں کا موسم بہار شروع ہوا چاہتا ہے کمر بستہ ہو جائیں اور ماہ صیام کی رحمتوں کا بھر پور فائدہ اٹھائیں۔
رمضان مبارک شروع ھوتے ھی جنت کے دروازے کھول دیۓ جاتے ھیں اور جھنم کے دروازے بند کر دیۓ جاتے ھیں
رمضان میں عمره کا ثواب حج کے برابر ملتا ھے
حضرت ابو هریره سے روایت ھے که رسول الله نے فرمایا جب رمضان آتا ھے تو آسمان کے دروازے کھول دیۓ جاتے ھیں اور جھنم کے دروازے بند کر دیۓ جاتے ھیں اور شیاطین قید کر دیۓ جاتے ھیں. (بخاری و مسلم)
حضرت عمر بن مرة جهینی سے روایت ھے کی ایک آدمی نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ھوا اور عرض کیا یا رسول الله
اگر میں گواھی دوں که الله کے سوا کوئ الهی نهیں. آپ الله کے رسول ھیں. پانچوں نمازیں پڑھوں ذکواة ادا کروں اور رمضان میں قیام و صیام کروں تو میرا شمار کن لوگوں میں ھو گا؟
آپ نے ارشاد فرمایا صدیقین اور شهدا میں. (رواه بزار و ابن خزیمه)
فرمان نبوی الشریف ہے کہ بد بخت ہے وہ شخص جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا۔
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہماری نمازیں قبول فرمانا، روزے قبول فرمانا، ہمارے رکوع و سجود اور دیگر نیک اعمال قبول فرمانا۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاء
انجنیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik@yahoo.com
Cell:00923008604333
[21/03, 23:29] Nazir Malik: دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
*سن رسیدہ عورت کے لیے عدت وفات کا حکم*
28 شعبان 1444ھ 21 مارچ 2023 ء
خصوصی کاوش:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سن رسیدہ عورت کے لیے عدت وفات کا حکم
*سوال*
ایک بوڑھی عورت جو چل پھر بھی نہیں سکتی، عمر 80 سال سے بھی زیادہ ہے، اس کے لیے شوہر کے فوت ہو جانے کے بعد عدت کے کیا مسائل ہیں؟
*جواب*
شوہر کے انتقال کے بعد نکاح کی نعمت کے ختم ہونے پر اظہارِ افسوس کے لیے عورت پرشریعت میں چار مہینہ دس دن عدت گزارنا لازم ہے،
*خواہ عورت جوان ہو یا سن رسیدہ (بوڑھی) ہو۔*
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت پر اپنے شوہر کے انتقال کے دن سے چار مہینہ دس دن عدت گزارنا لازم ہے، اور اس دوران ان کے لیے شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا، زیب وزینت، بناؤسنگھار کرنا، خوش بو لگانا، اور شوخ رنگ اور نئے کپڑے وغیرہ پہننا جائز نہیں ہوگا۔
اگر ان کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہے تو اگر ان کے گھر ان کا کوئی عزیز آ کر رہ سکتا ہو جو ان کی تیماداری کرسکتا ہو تو وہ اپنے شوہر کے گھر میں ہی رہیں، اور گھر میں کوئی اور نہ ہو اور خود بیماری کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں تو ان کے لیے اپنے قریبی کسی رشتہ دار مثلًا بیٹا یا بیٹی کے گھر میں بھی عدت گزارنے کی گنجائش ہوگی۔
’’ البحر الرائق ‘‘ میں ہے:
"وجب في الموت إظهاراً للتأسف علی فوات نعمة النکاح؛ فوجب علی المبتوتة إلحاقاً لها بالمتوفی عنها زوجها بالأولی؛ لأن الموت أقطع من الإبانة ... دخل في ترك الزینة الامتشاط بمشط أسنانه ضیقة لا الواسعة، کما في المبسوط، و شمل لبس الحریر بجمیع أنواعه و ألوانه ولو أسود، وجمیع أنواع الحلي من ذهب وفضة وجواهر، زاد في التاتارخانیة القصب".
(۴/۲۵۳، کتاب الطلاق ، فصل في الإحداد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205201413
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
*الدعاء*
یا رب کریم ہمیں تیرے دینی احکامات سنت نبوی کریم کے
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[23/03, 05:30] Nazir Malik: *رمضان اور قرآن*
جمعرات 23 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں) جب جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملتے تو بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ یعنی ورد کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے(رواہ بخاری)
رمضان میں کم از ایک بار قرآن مجید پڑھنا یا سننا واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام رمضان میں ایک بار قرآن کا ورد کرایا کرتے تھے اور جس سال آپکا وصال ہوا اس سال آپکو دو بار قرآن مجید کا ورد کرایا گیا
یاد رہے کہ نماز تراویح کا یہی وہ عظیم فلسفہ ہے جسے مسلمان تر و تازہ رکھتے ہیں کیونکہ پورے ماہ صیام میں نمازی نماز تراویح میں کم از کم ایک بر اقرآن مجید سننے کا اہتمام کرتے ہیں
یا اللہ قرآن مجید کی سمجھ عطا فرما اور عمل کی توفیق دے
یا اللہ امت اسلامیہ پر رحم فرما اور کرونا سے محفوظ فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
[23/03, 17:38] Nazir Malik: *ماہ ِرمضان کی فضیلت*
جمعہ 24 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُط وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُ ﷲ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا ﷲ عَلٰی مَا هَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo(البقرة- 185)
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، ﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘
ماه صیام نزول قرآن کا مہینه۔ الله تعالی کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا مہینه۔ صبر اور فراخی رزق کا مہینه۔ جنت میں داخل ھونے اور جھنم سے نجات کا مہینه آپہنچا ھے
ماه صیام ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے، هر قسم کی عبادات کا اک عالمی موسم بہار ھے۔
اے لوگو! اپنا وقت ضائع مت کرو ماہ رمضان کی فضیلتوں سے فائدہ اٹھا لو شاید یہی آپ کی زندگی کا آخری رمضان ھو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیئے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں ﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کے ثواب سے محروم ہوگیا سو وہ محروم ہو گیا۔‘‘(رواہ نسائی اور ابن ابی شیبہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے لے کر دوسرا جمعہ پڑھنا اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے روزے رکھنا، ان کے درمیان واقع ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں، جب تک کہ انسان گناہ کبیرہ نہ کرے۔‘‘(رواہ مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے بیان کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے۔ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ اس میں شیاطین کو (زنجیروں میں) جکڑ دیا جاتا ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو (پھر) کب ہو گی؟‘‘
(رواہ ابن ابی شیبہ اور طبرانی)
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منبر کے پاس آجاؤ، ہم آ گئے۔ جب ایک درجہ چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ جب دوسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ اور جب تیسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘۔ جب اترے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہم نے آج آپ سے ایک ایسی چیز سنی ہے جو پہلے نہیں سنا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل میرے پاس آئے اور کہاجسے رمضان ملا لیکن اسے بخشا نہ گیا وہ بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔ جب میں دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس کے سامنے آپ کا نام لیا گیا اور اس نے درود نہ بھیجا وہ بھی بد قسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین جب میں تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس شخص کی زندگی میں اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوگیا اور انہوں نے اسے (خدمت و اِطاعت کے باعث) جنت میں داخل نہ کیا، وہ بھی بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔‘‘(رواہ حاکم، ابن حبان، ابن خزیمہ، بیہقی اور ابن ابی شیبہ)
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہو گیا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کیا ہے اور راتوں کے قیام کو نفل۔ جو شخص اس میں قرب الٰہی کی نیت سے کوئی نیکی کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ایک فرض ادا کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے اور جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں ستر فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ اور صبر کا ثواب جنت ہی ہے۔ یہ غم خواری کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کی افطاری کراتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ نیز اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس سے اس کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک روزہ افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا پانی پلانے یا دودھ کا ایک گھونٹ پلا کر افطاری کرانے والے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ہے۔ درمیانہ حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ملازم پر تخفیف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔ اس میں چار کام زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرو۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے اور دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ جن دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے ان میں سے ایک لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اور دوسرا اس سے بخشش طلب کرنا ہے۔ جن دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ ہے کہ دوزخ سے پناہ مانگو۔ جو شخص روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔‘‘
(رواہ ابن خزیمہ اور بیہقی)
حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ پہلا یہ ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو ﷲ تعالیٰ ان کی طرف نظرِ التفات فرماتا ہے اور جس پر اُس کی نظرِ رحمت پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو ﷲ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کے لیے بخشش کی دعاء کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ ہے کہ ﷲ اپنی جنت کو حکم دیتاہے کہ میرے بندوں کے لیے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘ (رواہ بیہقی)
الدعاء
یا اللہ تعالی ہمیں رمضان کریم سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرما، روزہ رکھنے میں ہمارے لۓ آسانیاں پیدا فرما، ہمیں نیک لوگوں کے زمرے میں شامل فرما۔ اے رب اس رمضان میں ہماری کوئی خطا معاف کۓ بغیر نہ چھوڑنا۔
اے رحمن، اے رحیم، یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
ماہ رمضان کی فضیلت
[24/03, 18:11] Nazir Malik: *نماز تراویح میں قرآن دیکھ کر پڑھنا*
ہفتہ 25 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سوال: نماز تراویح کے دوران قرآن مجید کھول کر تلاوت کرنے کا حکم
جواب کا متن
الحمد للہ:
نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر انکی امامت کرواتا تھا، امام بخاری (1/245) نے اس واقعہ کو معلق ذکر کیا ہے۔
ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن شہاب رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: ہمارے بہترین ساتھی رمضان میں قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے""المدونۃ" (1/224)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کرے تو اسکی نماز باطل نہیں ہوگی، چاہے اسے قرآن مجید یاد ہو یا نہ یاد ہو، بلکہ ایسے شخص کیلئے دیکھ کر تلاوت کرنا واجب ہوگا جسے سورہ فاتحہ یاد نہیں ہے، اس کیلئے اگر اسے بسا اوقات صفحات تبدیل کرنے پڑیں تو اس سے بھی نماز باطل نہیں ہوگی۔۔۔ یہ ہمارا [شافعی] مالک، ابو یوسف، محمد، اور امام احمد کا موقف ہے" انتہی مختصراً
"المجموع" (4/27)
سحنون [امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد] کہتے ہیں:
"امام مالک کہتے تھے: رمضان اور نفلی عبادات میں لوگوں کی قرآن مجید سے دیکھ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے"
اور امام امالک کے شاگرد ابن قاسم مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"امام مالک فرائض میں ایسے کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے" "المدونۃ" (1/224)
تاہم کسی اعتراض کرنے والے کا یہ کہنا کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا، اور صفحات تبدیل کرنا فضول حرکت ہے، تو یہ اعتراض ہی غلط ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی امامت کرواتے ہوئے اپنی نواسی امامہ کو اٹھایا ہوا تھا، اس واقعہ کو بخاری: (494) اور مسلم: (543) نے نقل کیا ہے، اور یہ بات عیاں ہے کہ قرآن مجید کو نماز میں اٹھانا بچی کو نماز میں اٹھانے سے گراں نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی اس عمل کے جواز میں پہلے بیان ہو چکا ہے، جو کہ سوال نمبر: (1255) کے جواب میں موجود ہے۔
واللہ اعلم
الدعاء
یا اللہ تعالی ہمیں خالص دین محمدی پر من و عن عمل کرنے والا بنا اور دین میں بدعات سے بچا۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell:00923008604333
[25/03, 15:00] Nazir Malik: *رمضان المبارک میں فجر کی اذان سے پہلے سحری کے لۓ اذان دینا سنت ھے*
اتوار 26 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*سحری کھانے میں برکت ھے*
حضرت عائشه سے روایت ھے که حضرت بلال رات کو (سحری سے قبل) آذان دے دیا کرتے تھے چنانچه رسول الله نے فرمایا اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک ابن ام مکتوم آذان نه دے دیں اس لۓ که ابن ام مکتوم اس وقت تک آذان نهیں دیتے تھے جب تک فجر نه ھو جاۓ (بخاری و مسلم)
حضرت انس سے روایت ھے که رسول الله نے فرمایا سحری کھاؤ کیونکه سحری میں برکت ھے (بخاری و مسلم
رسول الله صلّی اللّہُ عَلَیہِ وَسَلّم نے فرمایا افطار کے وقت روزہ دار کی دعاء رد نہیں کی جاتی(ابن ماجہ1753
الدعاء
یا اللہ ہم تجھ سے معافی کے طلبگار ہیں۔
یا اللہ تعالی ہم تیرے بندے ہیں ہمیں وبائی امراض سے بچا لے۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاء
انجینئر نذیر ملک
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cells 0092300860 4333
رمضان میں سحری
[27/03, 05:20] Nazir Malik: *دعاء کی مقبولیت کی محمدی گارنٹی*
پیر 27 مارچ 2023
انجینئر نذیر ملک سرگودھا
دعاء سے قبل یه الفاظ ادا کرنے سے دعاء ضرور قبول ھوتی ہے
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَسْئَلُکَ بِاَنَّکَ اَنْتَ اللہُ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَدْ
*دلیل*
مسجد نبوی الشریف میں بیٹھا ایک شخص ان الفاظ سے دعاء مانگ رھا تھا تو آپ نے فرمایا قسم ھے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ھے جن الفاظ کے ساتھ یه دعاء مانگ رھا ھے اس کی دعاء رد نہیں کی جاۓ گی
مقبولیت دعاء کیلئےمجرب نسخہ
بعد از درود ابراہیمی یہ مسنون الفاظ ادا کریں اور پھر جو بھی دعاء مانگو گے ان شاء اللہ قبول ہو گی۔ گارنٹی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہے
طالب الدعاء
انجینئر نذیر ملک
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[28/03, 05:35] Nazir Malik: *صدقہ کیا ہے اور اس کےحقدار کون ہیں*
منگل 28 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ﷲ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رضا کے لئے ہر نیک کام سرانجام دینا صدقہ ہے، لیکن ﷲ کی راہ میں مال خرچ کرنا صدقہ کے لئے زیادہ مشہور ومعروف ہو گیا ہے۔
*صدقہ کی تین اقسام ہیں:*
*فرض:*
صاحب نصاب پر زکوٰۃ اور زمین میں فصل کی پیداوار پر عشر فرض ہیں۔
*واجب:*
نذر، صدقہ فطر اور قربانی وغیرہ
*نفل:*
عام خیرات وصدقات جو کوئی بھی مسلمان ﷲ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی خاطر مال خرچ کرے یا کوئی بھی نیک کام کرے، نفل صدقات میں شامل ہے۔
فرض اور واجب صدقات کے مصارف قرآن وحدیث میں بیان کر دئیے گئے ہیں۔ سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ط فَرِيْضَةً مِّنَ اﷲِ ط وَاﷲُ عَلِيْمٌ حَکِيْمٌo
*ترجمہ*
بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور غلاموں کی گردنوں کو آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
اللہ تعالی نے زکواۃ و صدقات کے آٹھ مصارف مقرر کۓ ہیں ان کے علاوہ کوئی شخص یا ادارے زکواۃ کا قطعا" حقدار نہیں۔
*وضاحت:*
ایک بار ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مجھے زکواۃ کی مد سے کچھ دے دیجیۓ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے زکواۃ کے آٹھ مصارف مقرر کیۓ ہیں اگر تم ان میں سے ہو تو بیٹھ جاؤ جونہی کچھ مال آتا ہے میں تمہیں دے دوں گا اور اگر تم ان میں سے نہیں ہو تو میں بھی کچھ نہیں کر سکتا۔
اس حدیث پاک میں نبی کریم نے زکواۃ کے حقداروں کی مکمل تفصیل بیان فرما دی ہے
اللہ تعالی ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ
آمین یا رب العالمین۔
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[29/03, 05:31] Nazir Malik: *اسلامی اخلاقیات*
بدھ 29 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول مبارک ہے کہ جس کا اخلاق اچھا اس کا ایمان اچھا۔
کتاب وسنہ کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مندرجہ ذیل خوبیاں ہمیں اپنے اندر ضرور پیدا کرنی چاہیئیں اور یہی مومن کا معیار اور معراج ہے۔
1. ایک دوسرے کو سلام کریں - (مسلم: 54)
2. ان سے ملاقات کرنے جائیں - (مسلم: 2567)
3. ان کے پاس بیٹھنے اٹھنے کا معمول بنائیں۔ (لقمان: 15)
4. ان سے بات چیت کریں - (مسلم: 2560)
5. ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آئیں - (سنن ترمذی: 1924، صحیح)
6. ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ دیا کریں - (صحیح الجامع: 3004)
7. اگر وہ دعوت دیں تو قبول کریں - (مسلم: 2162)
8. اگر وہ مہمان بن کر آئیں تو ان کی ضیافت کریں - (ترمذی: 2485، صحیح)
9. انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں - (مسلم: 2733)
10. بڑے ہوں تو ان کی عزت کریں - (سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)
11. چھوٹے ہوں تو ان پر شفقت کریں - (سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)
12. ان کی خوشی و غم میں شریک ہوں - (صحیح بخاری: 6951)
13. اگر ان کو کسی بات میں اعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کریں - (صحیح بخاری: 6951)
14. ایک دوسرے کے خیر خواہ بنیں - (صحیح مسلم: 55)
15. اگر وہ نصیحت طلب کریں تو انہیں نصیحت کریں - (صحیح مسلم: 2162)
16. ایک دوسرے سے مشورہ کریں - (آل عمران: 159)
17. ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں - (الحجرات: 12)
18. ایک دوسرے پر طعن نہ کریں - (الھمزہ: 1)
19. پیٹھ پیچھے برائیاں نہ کریں - (الھمزہ: 1)
20. چغلی نہ کریں - (صحیح مسلم: 105)
21. آڑے نام نہ رکھیں - (الحجرات: 11)
22. عیب نہ نکالیں - (سنن ابو داؤد: 4875، صحیح)
23. ایک دوسرے کی تکلیفوں کو دور کریں - (سنن ابو داؤد: 4946، صحیح)
24. ایک دوسرے پر رحم کھائیں - (سنن ترمذی: 1924، صحیح)
25. دوسروں کو تکلیف دے کر مزے نہ اٹھائیں - (سورۃ مطففین سے سبق)
26. ناجائز مسابقت نہ کریں۔ مسابقت کرکے کسی کو گرانا بری عادت ہے۔ اس سے ناشکری یا تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں - (صحیح مسلم: 2963)
27. نیکیوں میں سبقت اور تنافس جائز ہےجبکہ اس کی آڑ میں تکبر، ریاکاری اور تحقیر کارفرما نہ ہو - (المطففین : 26)
28. طمع ، لالچ اور حرص سے بچیں - (التکاثر: 1)
29. ایثار و قربانی کا جذبہ رکھیں - (الحشر: 9)
30. اپنے سے زیادہ آگے والے کا خیال رکھیں - (الحشر: 9)
31. مذاق میں بھی کسی کو تکلیف نہ دیں - (الحجرات: 11)
32. نفع بخش بننے کی کوشش کریں - (صحیح الجامع: 3289، حسن)
33. احترام سے بات کریں۔بات کرتے وقت سخت لہجے سے بچیں - (آل عمران: 159)
34. غائبانہ اچھا ذکر کریں - (ترمذی: 2737، صحیح)
35. غصہ کو کنٹرول میں رکھیں - (صحیح بخاری: 6116)
36. انتقام لینے کی عادت سے بچیں - (صحیح بخاری: 6853)
37. کسی کو حقیر نہ سمجھیں - (صحیح مسلم: 91)
38. اللہ کے بعد ایک دوسرے کا بھی شکر ادا کریں - (سنن ابو داؤد: 4811، صحیح)
39. اگر بیمار ہوں تو عیادت کو جائیں - (ترمذی: 969، صحیح)
40. اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو جنازے میں شرکت کریں - (مسلم: 2162)
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[30/03, 05:28] Nazir Malik: *فرماں بردار بیویوں کے لیۓ صدیقین کا رتبہ*
جمعرات 30 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
اذاصَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ
'' عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھے اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور شوہر کی فرمانبرداری کرے تو وہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔' بیہقی:(کتاب النکاح،باب ما جاء فی عظم حق الزوج علی المرأۃ،۷/۴۷۶)
اس حدیث میں 4 باتیں ارشاد فرماٸی گئیں ہیں!
1۔ عورت پانچ نمازوں کی پابندی کرے،
2۔ رمضان کے مہینے کے روزے رکھے,
3۔ اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے,
4۔ شوہر کی فرماں برداری کرے۔
تو وہ جنت کے کسی بھی دروازے سے جنت میں داخل ہوسکتی ہے۔
*آپ حیران ہوتے ہیں؟*
اللہ رب العزت کی رحمتوں کا یہ درجہ مردوں میں سے بہت کم لوگوں کو ملے گا، جو صدیقین ہونگے وہ یہ رتبہ پاٸیں گے۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ حضرت محمدﷺ نے ایک مرتبہ بتایا کہ جہنم کے سات دروازے ہیں اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ تو آٹھ دروازے مختلف لوگوں کے لیۓ ہیں۔ کوٸی توبہ کرنے والا، کوئی روزہ رکھنے والا، کوئی ذکر کرنے والا۔ تو مختلف قسم کے لوگ مختلف دروازوں سے جنت میں جاٸیں گے۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے نبیﷺ! میں کس دروازے سے جنت میں داخل ہوں گا۔
نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم ایسے درجے پر فائز ہو کہ جب جاؤ گے تو تمہارے لیۓ جنت کے آٹھوں دروازے کھولے جایئں گے۔
اب بتایئے کہ مردوں میں جس کی زندگی سیدنا صدیق اکبر رضی االلہ عنہ کے نقش قدم پر ہوگی تو ایسے صدیق کے لیۓ اللہ تعالی جنت کے آٹھوں دروازے کھولے گا جب کہ عورت کے لیۓ اگر وہ پانچ نمازیں پڑھ لے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنی عزت کی حفاظت کرے اور خاوند کی اطاعت کرے تو اللہ تعالی اس عورت کے لیۓ جنت کے آٹھوں دروازے کھولے گا۔ حیران ہوتے ہیں کہ پروردگار نے کتنی بڑی مہربانی فرماٸی اور عورت کے لیے جنت میں داخلہ کتنا آسان کردیا۔ اے عورتو اپنے مقدر پر فخر کرو۔
اور ان 4 چیزوں پر عمل کر کے جنت کی حقدار بنیں۔
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل فرما اور حصول جنت ہمارے لۓ آسان فرما دے
آمین یا رب العالمین
*طالب الدعاء*
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
[30/03, 22:49] Nazir Malik: *اطاعت کے قرآنی احکامات*
جمعہ 31 مارچ 2023
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ لَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَکُمۡ ﴿۳۳﴾
اے ایمان والو!
اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو (سورۃ محمد آیت33)
یعنی اللہ اور اسکے رسول کے علاوہ دین میں کسی اور کی اطاعت کرنے سے انسان کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے
*تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین*
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
"اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو"
یعنی اللہ تعالی کے حکم اور نبی کریم کی سنت پر من و عن عمل کرو۔
اور اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی مت کریں۔
أحسن البيان
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوٰی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔
حضرت معاذ کو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے جواب دیا اللہ کی کتاب کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا سنت کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا اجتہاد کروں گا تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو (ابو داؤد و ترمذی ابن ماجہ)
سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالی ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا (59)
اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی اور جو لوگ تم پر حاکم مقرر کۓ گۓ
اگر تم میں تنازع ہو جائے تو رجوع کرو اللہ اور اسکے رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور یہ انجام کے کےلحاظ سے بہت بہتر ہے{سورۃ النسا آیت 59)
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں قرآنی احکامات پر من و عن عمل کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333
[31/03, 12:56] Nazir Malik: *ذکواۃ کے متعلق اہم معلومات*
ہفتہ یکم اپریل 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
📖 *زکوٰۃ کے متعلق اہم معلومات* 📖
*ہر مسلمان صاحبِ نصاب پر اس کے مال سے جس پر سال گُزر گیا ھو مال کا چالیسواں حصہ یعنی %2.5 زکوٰة کی ادایئگی فرض ھے. اور اس کو مستحق تک پہنچانا لازمی ھے .تفصیلات کے لیئے علماء سے رابطہ کریں.*
عوام، تاجر، زمیندار اور جانور پالنے والوں کےلئے
📝زکوۃ ان چیزوں پر واجب ہے📝
✅سونا چاندی
✅سونے چاندی کے زیورات
✅نقدی یا نقد پذیر دستاویزات
✅مال تجارت
✅بیچ کر نفع کمانے کی نیت سے لیا گیاپلاٹ
✅کاروبار کی نیت سے خریدی گئی تمام چیزیں
✅کمیٹی کی جمع کرائی گئی اقساط
✅دیا گیا قرض جس کی واپسی کی امید ہو
✅انشورنس اور پرائز بانڈ کی اصل رقم
✅ شئیرز
✅زمین کی پیداوار
✅باہر چرنےوالےجانور
📝ان چیزوں پر زکوۃ واجب نہیں📝
➖ضروریات زندگی
➖رہنے کا مکان
➖واجب الادا قرضے
➖استعمال کی گاڑیاں
➖ضرورت سے زائد سامان جو تجارت کے لیے نہ ہو
➖پہننے کے کپڑے
➖یوٹیلیٹی بلز
➖ملازمین کی تنخواہیں
🔥زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا وبال
📌1۔زکوٰۃکا انکار کرنے والاکافر ہے۔(حم السجدۃآیت نمبر6-7)
📌2۔زکوٰۃادا نہ کرنے والے کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائےگا۔(التوبہ34-35)
📌3۔زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی قوم قحط سالی کاشکار ہوجاتی ہے۔(طبرانی)
📌4۔’’زکوٰۃ کا منکر قیامت کے دن جہنم میں ہوگا۔‘‘ (کنزالعمال: ۶/۱۳۱)
📌5 ۔زکوٰۃاداکرنے والےقیامت کے دن ہر قسم کےغم اورخوف سےمحفوظ ہوں گے۔(البقرہ277)
📌6۔زکوٰۃ کی ادائیگی گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔(التوبہ103)
🔴زکوٰۃکس پر واجب ہے؟🔴
🔹ہرعاقل،بالغ،مال دارمسلمان مرد ہو
یا
عورت پر زکوٰۃ واجب ہے
🔸بشرط یہ کہ وہ صاحب نصاب ہو۔
🔘نوٹ
سود، رشوت، چوری ڈکیتی اور دیگرحرام ذرائع سےکمایا ہوا مال استعمال کرنا درست نہیں، اسے بغیر ثواب کی نیت کیےاللہ کی راہ میں صدقہ کرنا واجب ہے۔ ان سے زکوۃدینے کابالکل فائدہ نہیں ۔
✔صرف حلال کمائی سے دی گئی زکوٰۃ قابل قبول ہے۔
👑سونے کی زکوٰۃ👑
💠88گرام یعنی ساڑھےسات تولے سونا پر زکوۃ واجب ہے۔(ابن ماجہ1/1448)
🔴نوٹ۔سونا محفوظ جگہ ہو یا استعمال میں ہر ایک پرزکوۃ واجب ہے۔(سنن ابوداؤدکتاب الزکوۃ اوردیکھئے حاکم جز اول صفحہ 390 ۔فتح الباری جز چار صفحہ 13)
💍چاندی کی زکوٰۃ💍
💠612گرام یعنی ساڑھےباون تولے چاندی پر زکوۃواجب ہے اس سے کم وزن پر نہیں۔(ابن ماجہ)
✅زکوٰۃ کی شرح:
💠زکوۃ کی شرح بلحاظ قیمت یا بلحاظ وزن ڈھائی فیصد ہے۔(صحیح بخاری کتاب الزکوۃ)
🌾زمین کی پیدا وار پر زکوٰۃ🌾
زرعی زمین والےافراد گندم،مکی،چاول،باجرہ،آلو،سورج مکھی،کپاس،گنااوردیگر قسم کی پیداوار سے زکوۃیعنی (عشر )درج ذیل تفصیل کے مطابق نکالیں:
💠مصنوعی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیدا وار پر ۵ فیصد عشرواجب ہے۔
💠قدرتی ذرائع سے سیراب ہونے والی پیداوار پر شرح زکوۃ دسواں حصہ ہے ۔دیکھیے(صحیح بخاری کتاب الزکوۃ)
🐪اونٹوں کی زکوٰۃ🐪
💠پانچ اونٹوں کی زکوۃ ایک بکری اور دس اونٹوں کی زکوۃ دو بکریاں ہیں۔پانچ سے کم اونٹوں پر زکوۃ واجب نہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکوۃ)
🐃بھینسوں اور گایوں کی زکوٰۃ🐂
💠30گائیوں پر ایک بکری زکوٰۃہے۔
💠40گائیوں پردوسال سے بڑا بچھڑا زکوۃ دیں۔(ترمذی1/509)
✅بھینسوں کی زکوٰۃکی شرح بھی گائیوں کی طرح ہے۔
*بھیڑبکریوں کی زکوٰۃ*
💠40سے ایک سو بیس بھیڑ بکریوں پر ایک بکری زکوۃ ہے۔
💠120 سےلےکر200تک دو بکریاں زکوۃ۔
(صحیح بخاری کتاب الزکوۃ)
⛔چالیس بکریوں سے کم پرزکوۃ نہیں۔
🏡کرایہ پر دیئے گئےمکان پر زکوٰۃ🏡
💠کرایہ پردیے گئے مکان پر زکوٰۃنہیں لیکن اگراس کاکرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے جو نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے تو پھراس کرائے پر زکوٰۃ واجب ہے۔اگر کرایہ سال پورا ہونے سے پہلے خرچ ہو جائے توپھر زکوٰۃنہیں۔شرح زکوٰۃ ڈھائی فیصد ہوگی۔
🚌گاڑیوں پر زکوٰۃ🚌
کرایہ پر چلنےوالی گاڑیوں پر زکوٰۃ نہیں بلکہ اس کے کرایہ پر ہےوہ بھی اس شرط کےساتھ کہ کرایہ سال بھر جمع ہوتا رہے اور نصاب تک پہنچ جائے۔
⛔نوٹ
گھریلو استعمال والی گاڑیوں،جانوروں،حفاظتی ہتھیار۔مکان وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں۔ (صحیح بخاری)
*سامان تجارت پر زکوٰۃ*
دکان کسی بھی قسم کی ہو اس کےسامان تجارت پر زکوٰۃدینا واجب ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے اوراس پرایک سال گزر جائے۔
⛔نوٹ
دکان کےتمام مال کا حساب کر کے اس کا چالیسواں حصہ زکوۃ دیں یعنی ۔دکان کی اس آمدنی پرزکوۃنہیں جوساتھ ساتھ خرچ ہوتی رہے صرف اس آمدنی پر زکاہ دینا ہوگی جو پورا سال پڑی رہے اور وہ پیسے اتنے ہوکہ ان سے ساڑھےباون تولےچاندی خریدی جاسکے۔
🏕پلاٹ یا زمین پر زکوٰۃ
💠جو پلاٹ منافع حاصل کرنے کے لیے خریدا ہو اس پر زکوۃ ہوگی ذاتی استعمال کے لیے خریدا گیا پلاٹ پر زکوۃ نہیں۔
(سنن ابی داؤدکتاب الزکوۃ حدیث نمبر1562)
📋کس کس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟
💠ماں باپ اور اولاد کےسوا ،اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سوا سب زکوۃ کےمستحق مسلمانوں کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔والدین،اولاد اور بیوی پر اصل مال خرچ کریں زکوۃ نہیں۔
⛔نوٹ
(ماں باپ میں دادا دادی ، نانا نانی اور اولاد میں پوتے پوتیاں،نواسیاں نواسے بھی شامل ہیں۔
🔖زکوٰۃکےمستحق لوگ
🔸1۔مساکین(حاجت مند)
🔹2۔غریب
🔸3۔حکومت کی طرف سے زکوۃوصول کرنےوالے نمائندے
🔹4۔مقروض
🔸5۔نومسلم جو غریب ہو۔
🔹6۔قیدی
🔸7۔ مجاہدین
🔹8۔مسافرجس کے پاس فی الحال نصاب نہ ہو۔ (سورۃالتوبہ60)
*اہم سوالات*
Q1
سوال: زکوة کے لغوی معنی بتائیے؟
جواب: پاکی اور بڑھو تری کے ہیں۔
Q2
سوال: زکوة کی شرعی تعریف کیجیے؟
جواب: مال مخصوص کا مخصوص شرائط کے ساتھ کسی مستحقِ زکوۃ کومالک بنانا۔
Q 3
سوال: کتناسونا ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟
جواب: ساڑھے سات تولہ یا اس سے زیادہ ہو(جبکہ ساتھ میں کوئی اور قابل زکوۃ مال نہ ہو)
Q4
سوال: کتنی چاندی ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟
جواب: ساڑھے باون تولہ یا اس سے زیادہ ہو۔
Q5
سوال: کتنا روپیہ ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟
جواب: اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔
Q6
سوال: کتنا مالِ تجارت ہوتو زکوۃ فرض ہوتی ہے؟
جواب: اس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔
Q7
سوال: اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، یا کچھ سونا ہے، کچھ نقد روپیہ ہے، یا کچھ چاندی ہے، کچھ مالِ تجارت ہے، ان کو ملاکر دیکھا جائےتو ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت بنتی ہےاس صورت میں زکوۃ فرض ہے یا نہیں؟
جواب: فرض ہے۔
Q8
سوال: چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰة فرض ہےیانہیں؟
جواب: فرض ہے۔
Q9
سوال: عشری زمین کی پیداوار پر بھی زکوٰة فرض ہےیانہیں؟
جواب: فرض ہے۔
Q10
سوال: ایک صاحب نصاب شخص کودرمیان سال میں ۳۵ہزار کی آمدنی ہوئی،تویہ۳۵ ہزار بھی اموالِ زکوۃ میں شامل کیے جائیں گے یا نہیں؟
جواب: شامل کیے جائیں گے۔
Q 11
سوال: صنعت کار کے پاس دو قسم کا مال ہوتا ہے، ایک خام مال، جو چیزوں کی تیاری میں کام آتا ہے، اور دُوسرا تیار شدہ مال، ان دونوں قسم کے مالوں پر زکوٰة فرض ہےیانہیں؟
جواب: فرض ہے۔
Q12
سوال: مشینری اور دیگر وہ چیزیں جن کے ذریعہ مال تیار کیا جاتا ہے، ان پر زکوٰة فرض ہے یا نہیں؟
جواب: فرض نہیں ہے۔
Q13
سوال: استعمال والے زیورات پر زکوٰة ہے یا نہیں؟
جواب: زکوٰة ہے۔
Q14
سوال: زکوٰة انگریزی مہینوں کےحساب سےنکالی جائےگی یاہجری(قمری)مہینوں کےحساب سےنکالی جائےگی؟
جواب: قمری مہینوں کے حساب سے نکالی جائےگی۔
Q15
سوال: پلاٹ اگر اس نیت سے لیا گیا تھا کہ اس کو فروخت کرکے نفع کمائیں گے اس پر زکوٰة واجب ہوگی یانہیں؟
جواب: واجب ہوگی۔
Q16
سوال: پلاٹ خریدتے وقت تو فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی، لیکن بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہوگیا تو اس پر زکوٰة واجب ہےیا نہیں؟
جواب: ابھی واجب نہیں، جب فروخت کردیا جاے اور رقم پر ایک سال گزر جاےتب زکوٰة فرض ہے .اگر پہلے سے صاحب نصاب ہےتوفروخت کے بعد حاصل شدہ رقم نصاب میں مل جاے گی۔
Q17
سوال: جو پلاٹ رہائشی مکان کے لیے خریدا گیا ہو اس پر زکوٰة ہےیا نہیں؟
جواب: نہیں۔
Q18
سوال: اگر پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا جائے اور فروخت کرنے کی نیت سے پلاٹ خریدا جائے توزکوۃ کس طرح ادا کی جائےگی؟
جواب: ان کی کل موجودہ مارکیٹ ویلیو پر زکوٰة ہر سال واجب ہوگی۔
Q19
سوال: جو مکان کرایہ پر دیا ہے،اس کی زکوٰة کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس کے کرایہ پر جبکہ نصاب کو پہنچے تو زکوٰة واجب ہوگی۔
Q20
سوال: حج کے لیے رکھی ہوئی رقم پر زکوٰة ہے یا نہیں؟
جواب: زکوٰة واجب ہے۔اگر درخواست منظور ہوگئی ہے تو زکوۃ واجب نہیں۔
Q21
سوال: کسی کوہم زکوٰة د یں اور اس کو بتائیں نہیں یاہدیے کی نیت کریں تو زکوٰة اداہوجائے گی یانہیں؟
جواب: ادا ہوجائے گی۔
Q22
سوال: ملازم نے اضافی تنخواہ کا مطالبہ کیاتو مالک نے زکوٰة کی نیت سے اضافہ کردیا کیا اس کی زکوٰة ادا ہوئی یا نہیں؟
جواب: زکوٰة ادا نہیں ہوئی۔
Q23
سوال: کیاانکم ٹیکس ادا کرنے سے زکوٰة ادا ہوجاتی ہے؟
جواب: زکوٰة ادا نہیں ہوتی۔
Q24
سوال: اپنے ماں باپ، اور اپنی اولاد، اسی طرح شوہر بیوی ایک دُوسرے کو زکوٰة دے سکتےہیں یانہیں؟
جواب: نہیں۔
Q25
سوال: جو لوگ خود صاحبِ نصاب ہوں ان کو زکوٰة دینا جائزہےیا نہیں؟
جواب: نہیں۔
Q26
سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان (ہاشمی حضرات) کو زکوٰة دے سکتے ہیں یانہیں؟
جواب: نہیں۔
Q27
سوال: اپنے بھائی، بہن، چچا، بھتیجے، ماموں، بھانجے کو زکوٰة دینا جائز ہےیانہیں؟
جواب: جائز ہے اگر مستحق ہیں ۔
Q28
سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان یعنی: آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ جعفر، آلِ عباس اور آلِ حارث بن عبدالمطلب، ان پانچ بزرگوں کی نسل سے ہو تواس کو زکوٰة دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب: نہیں۔
Q29
سوال: اگرسید غریب اور ضرورت مند ہو تو ان کی خدمت کیسے کرنی چاہئے؟
جواب: زکوۃ وصدقات کےعلاوہ دُوسرے فنڈ سے۔
Q30
سوال: سادات کو زکوٰة کیوں نہیں دی جاتی؟
جواب: زکوٰة، لوگوں کے مال کا میل ہے۔
Q31
سوال: سیّد کی غیرسیّدبیوی جو زکوۃ کی مستحق ہو زکوٰة دی جاسکتی ہےیا نہیں؟
جواب: اس کو زکوٰة دے سکتے ہیں۔
Q32
سوال: مال دار بیوی کا غریب شوہربیوی کے علاوہ دوسروں سےزکوٰة لے سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: لے سکتا ہے۔
Q33
سوال: غیرمسلم کوزکوۃ فطرہ اور نفلی صدقہ دےسکتے ہیں؟
جواب: غیرمسلم کو زکوۃ اور فطرہ نہیں دے سکتے۔ ہاں !نفلی صدقات دے سکتے ہیں۔
Q34
سوال: مدارسِ عربیہ میں زکوٰة دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: بہتر ہےبوجہ دین کی اشاعت کے ۔
Q35
سوال: صاحبِ نصاب لوگ بھی خود کو مسکین ظاہر کرکے زکوۃ حاصل کرلیتے ہیں، اس کاکیا حکم ہے؟
جواب: ان کو زکوٰة لینا حرام ہے۔
Q36
سوال: چندہ وصول کرنے والے کو زکوٰة سے مقرّرہ حصہ دینا جائزہےیانہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q37
سوال: زمین بارش کے پانی سے سیراب ہوتی ہے، تو پیداوار اُٹھنے کے وقت اس پر کتنا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں دینا واجب ہے؟
جواب: دسواں حصہ۔یعنی دس فی صد۔
Q38
سوال: اگر زمین کو خود سیراب کیا جاتا ہے تو اس کی پیداوار کاکتنا حصہ صدقہ کرنا واجب ہے؟
جواب: پانچ فی صد۔
Q39
سوال: ایک ملک کی کرنسی سے زکوۃ ادا کرکے دوسرے ملک بھیجا جائے تو زکوۃ کی ادائیگی کا اعتبار کس ملک کی کرنسی کا ہوگا؟
جواب: جس ملک کی کرنسی سے زکوۃ ادا کی گئی۔
Q40
سوال: رہائشی گھر، پہننے کے کپڑے ، گھر کے سامان ،سواری میں زکوۃ فرض ہے یانہیں؟
جواب: نہیں۔
Q41
سوال: جواہر جیسے موتی ، یاقوت، اور زبر جدپر زکوۃ فرض ہے یانہیں جب کہ وہ تجارت کے لیے نہ ہوں؟
جواب: نہیں۔ تجارت کے لیے ہوں تب زکوۃ فرض ہے۔
Q42
سوال: زکوۃ کی ادائیگی کب واجب ہوگی؟
جواب: نصاب پر قمری سال کا گذرنا شرط ہے۔
Q43
سوال: اگر سال کے شروع میں نصاب کامل ہو، پھر سال کے درمیان کم ہوجائے ليكن نصاب سے كم نہ ہو پھر سال کے اخیر میں نصاب کامل ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی یانہیں؟
جواب: واجب ہوگی۔
Q44
سوال: ایک شخص شروع سال میں مالک نصاب ہوگیا،درمیان سال میں اس مال میں اوراضافہ ہوگیا،اضافہ تجارت سے ہوا ہویا کسی نے تحفہ یاہدیہ دیاہویا میراث کا مال ملاہو،بہرحال مال میں اضافہ ہوگیا،اب پورے مال پر زکوۃ واجب ہوگی یاشروع سال کے مال پر واجب ہوگی؟
جواب: پورے مال پر واجب ہوگی۔
Q45
سوال: جو شخص اپنے تمام مال کو صدقہ کردے اور اس میں زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی یانہیں؟
جواب: ساقط ہوجائےگی۔
Q46۔
سوال: اگر کسی شخص کا فقیر کے پاس قرض ہو اور وہ زکوٰۃ کی نیت سے اس کے ذمہ کو بری کردے تو زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہوگی یانہیں؟
جواب: ادائی صحیح نہیں ہوتی ۔
Q47
سوال: سونا چاندی کی زکوٰۃ میں سونا اور چاندی کا ٹکڑا وزن سے نکالے یا قیمت ادا کرے؟
جواب: اختیار ہے۔
Q48
سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں فقیر کسے کہتے ہیں؟
جواب: وہ شخص ہوتا ہے جو نصاب سے کم كا مالک ہوتا ہے۔
Q49
سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں مسکین کسے کہتے ہیں؟
جواب: جو بالکل کسی چیز کا مالک نہ ہو۔
Q50
سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں عامل کسے کہتے ہیں؟
جواب: وہ شخص ہوتا ہے جو زکوۃ اور عشر کو اکھٹا کرتا ہے۔اور اسلامی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہو.
۔
Q51
سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں مقروض کسے کہتے ہیں؟
جواب: یہ وہ شخص ہے جس کے ذمہ قرض ہو، اپنے قرض کی ادائیگی کے بعد نصاب کامل کا مالک نہ رہ جاتا ہو۔تجارتی قرض کا مسئلہ الگ ہے۔
Q52
سوال: مصارفِ زکوٰۃ میں مسافر سے کیامراد ہے؟
جواب: جس کا اپنے وطن میں مال ہو، لیکن اس کا مال سفر میں ختم ہوچکا ہو اور منگوانے کا کوئی ذریعہ بهی نہ ہو ۔
Q53
سوال: مسافر پر زکوۃ کی کتنی رقم خرچ کرنا درست ہے؟
جواب: اتنی مقدار صر ف کی جائے گی کہ وہ اپنے وطن پہنچ سکے۔
Q54
سوال: زکوۃ کی تمام قسموں پر زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیاکسی ایک قسم پر صرف کرنا جائز ہے؟
جواب: دونوں جائز ہے۔
Q55
سوال: کافر کو زکوٰۃ دینا جائزہےیا نہیں؟
جواب: جائزنہیں۔
Q56
سوال: مال دار کو زکوٰۃ دینا جائزہےیا نہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q57
سوال: مال داربچے پر زکوٰۃ صرف کرنا جائزہےیا نہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q58۔
سوال: بنی ہاشم اور ان کے غلاموں پر زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q59۔
سوال: مالک نصاب کا زکوۃ کو اپنے اصول پر جیسے باپ ، دادا ، اوپر تک صرف کرنا جائزہےیا نہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q60۔
سوال: مالک نصاب کا اپنے فروع پر جیسے ، بیٹا ،پوتا، نیچے تک زکوٰۃ کو صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q61۔
سوال: مالک نصاب بیوی شوہر پراور مالک نصاب شوہر اپنی بیوی پر زکوۃ صرف کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: نہیں۔
Q62
سوال: مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یا راستہ یا پل کے درست کرنے میں زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q63۔
سوال: میت کو کفنانے یا میت کے قرض کو پورا کرنے میں زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q64
سوال: زکوٰۃ کی ادائیگی بغیر تملیک(مالک بنانا) کے صحیح ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب: نہیں۔
Q65
سوال: زکوۃ رشتہ داروں پر اورپھر پڑوسیوں پر صرف کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: بہتر ہے۔
Q66
سوال: مکمل نصاب کےبقدر زکوۃ ایک شخص کو دینا درست ہےیانہیں؟
جواب: مکروہ تنزیہی ہے یعنی بہتر نہیں لیکن گناہ بھی نہیں۔
Q67
سوال: مقروض پر اس کے قرضے کی ادائی کے لیے نصاب سے زیادہ صرف کرنا مکروہ ہے یا نہیں؟
جواب: مکروہ نہیں۔
Q68
سوال: بغیر ضرورت کے ایک جگہ سے دوسری جگہ زکوٰۃ کو منتقل کرنا کیسا ہے؟
جواب: مکروہ تنزیہی ہے۔
Q69۔
سوال: اپنے رشتہ داروں کےلیے زکوۃ کا منتقل کرناکیسا ہے؟
جواب: مکروہ نہیں ہے۔
Q70
سوال: مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یا راستہ یا پل کے درست کرنے میں زکوۃ صرف کرنا جائز ہےیانہیں؟
جواب: جائز نہیں۔
Q71
سوال: ایک شخص جو زکاة کا مستحق نہیں ہے، لیکن وہ ڈاکٹر بننا چاہتاہے،کیا اس کو زکاة دی جاسکتی ہے؟
جواب: صدقات نافلہ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔
Q72
سوال: اگر زکاة کسی غریب غیر مسلم کو دیدی جائے تو اداہوجائے گی یا نہیں؟
جواب: زکاة ادا نہ ہوگی۔
Q73
سوال: کیا اپنے مستحق زکاة بھائی کو زکاة کی رقم دی جا سکتی ہے؟
جواب: دی جا سکتی ہے ۔
Q74
سوال: کیا مستحق زکاة چچازاد ،ماموں زاد خالہ زاد بھائی کو یا اپنے بھتیجے کو زکاة دے سکتے ہیں ؟
جواب: دے سکتے ہیں۔
Q75
سوال: زکوۃ کی ادائیگی کے لیےسونےکی قیمت فروخت کا اعتبارہوگا یاقیمت خرید کا ؟
جواب: مارکیٹ کی قیمت فروخت کا۔
Q76
سوال: سونے پر زکاة موجودہ قیمت کے حساب سے ہوگی یا خریدنے کے وقت کی قیمت کے حساب سے ہوگی ؟
جواب: موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔
Q77
۔
سوال: کیا زکاة مستحق زکاة اپنے بھانجے کی تعلیم پر خرچ کرسکتے ہیں؟
جواب: ہاں۔مگر اس کو دے دی جائے تاکہ وہ مالک بن جاے۔
Q78
سوال: کیا نابالغ بیٹا یا بیٹی کے مال پر بھی زکوة دینا فرض ہے؟
جواب: نہیں
Q79
سوال: مسجد کے امام یامؤذن کی ماہانہ تنخواہ زکوۃ سے ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: نہیں۔
Q80
سوال: کیا لڑکی زکوة کی رقم اپنے والدین کو دے سکتی ہے۔
جواب: نہیں۔
Q81
سوال: کیا نفلی صدقہ کا گوشت صدقہ کرنے والا بھی خود استعمال کرسکتا ہے؟
جواب: کرسکتا ہے۔
Q82
سوال: صدقات واجبہ جیسے نذر وغیرہ کا گوشت کیا صدقہ دینے والا خود بھی کھاسکتا ہے۔
جواب: نہیں۔
Q83
سوال: کیا مدرسہ کے مہتمم یا ناظم کو جو طلبہ کی وکیل ہوتے ہیں زکاة دی جاسکتی ہے ؟
جواب: دی جاسکتی ہے۔بلکہ افضل ہے۔
Q84
سوال: زکوۃ کی ادائیگی میں کس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟جہاں زکوۃ دینے والا موجود ہے وہاں کی قیمت کا یا جہاں مال موجود ہے وہاں کی قیمت کا؟مثلا:مال سعودیہ میں ہو اور آدمی کراچی میں ہو۔
جواب: جس جگہ مال موجود ہے اس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہے۔وعلیہ الفتوی
Q85
سوال: زکوٰۃ کی ادائیگی بغیر تملیک(یعنی کسی انسان کو مالک بنائے بغیر) صحیح ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب: نہیں۔کسی غریب کو مالک بناکر دینا ضروری ہے،ورنہ زکوۃ ادا نہ ہوگی۔لہذاجو ہسپتال یاجماعت یا انجمن تملیک کا خیال نہیں کرتی انہیں زکوۃ نہیں دینی چاہیے!
🌼تصحیح وایڈیٹنگ🌼صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333
تبصرے