مطبوعہ مضامین اگست 2023
*کبائر گناہ کون سے ہیں*
منگل یکم اگست 2023
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ فرمایا کہ :تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ ، حالاں کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ تو فرمایا کہ تم اپنے بچہ کو اس خطرہ سے مار ڈالو کہ یہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگا، تمہیں اس کو کھلانا پڑے گا، پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایاکہ: اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرنا، بدکاری خود ہی بڑا جرم ہے اور پڑوسی کے اہل و عیال کی حفاظت بھی چوں کہ اپنے اہل و عیال کی طرح انسان کے ذمہ لازم ہے اس لیے یہ جرم دوگنا ہو گیا۔
یاد رہے کہ جن کبیرا گناہوں کی سزا قرآن مجید نے مقرر کر دی ہے وہ توبہ سے بھی معاف نہ ہونگے ان کا سزا بھگتنا پڑے گی
مثلا" قتل ناحق، غصب حقوق مال و جائیداد، زنا، قرض اور چوری۔
*اکثر گناہ کبیرا درج ذیل ہیں*
*خدا کا شریک ٹھہرانا*
*خداوند کی رحمت سے ناامید ہونا۔*
*اپنے آپ کو اللہ کے مکر سے محفوظ سمجھنا*
*عاق والدین*
*بے گناہ انسان کو قتل کرنا*
*یتیم کے مال کو کھانا*
*میدان جہاد سے فرار*
*سود*
*سحر اور جادو*
*زنا*
*لواط*
*تفخیذ*
*استمنا*
*قذف*
*جھوٹ*
*خدا، پیغمبرؐ یا ائمہؑ پر جھوٹی نسبت*
*تہمت*
*غیبت*
*واجب زکات کو ادا نہ کرنا*
*شراب پینا*
*نماز ترک کرنا*
*وعدہ خلافی*
*قطع رحمی*
*چوری*
*شہادت سے کتمان*
(دوری)
*ناحق شہادت دینا*
*جوا*
*کتے، سور یا وہ حیوان جو شرعی طریقے سے ذبح نہیں کیے گئے ان کا گوشت کھانا*
*گاہکوں کو دھوکہ دینا اور کم چیز دینا*
*ایسے مقام کی طرف ہجرت کرنا جہاں وظائف دینی کا انجام دینا امکان پذیر نہ ہو*
*ظالم کے ظلم کرنے میں اس کی مدد کرنا*
*ظالم کی طرف سے مدد اور اس پر اعتماد کرنا*
*حق الناس کو ادا نہ کرنا اسراف کرنا*
*امانت میں خیانت*
*چغل خوری*
*لہو و لہب میں مگن رہنا*
*حج کو کم اہمیت سمجھںا اور اس کی طرف توجہ نہ کرنا*
*چھوٹے گناہ پر اصرار کرنا*
*حسد*
*ان میں سے، خدا کا شریک قرار دینا اور جو خداوند نے دستور دیا ہے اس کا انکار کرنا*
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی مجھے ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہ سے بچا لے۔
میں اپنے کردہ گناہوں سے تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور آئندہ سے بچنے کا وعدہ کرتا ہوں اور تجھ سے دعاء کرتا ہوں کہ تو مجھے ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ سے محفوظ فرما۔
آمین یا رب العالمین۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[01/08, 22:04] Nazir Malik: *یزید کے دربار میں حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کا خطبہ*
جمعہ 02 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دیے ہیں اور رسول کی آل کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر در بدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے۔ اور خلافت کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دیتے ہیں یہ ان کے حق میں بھلائی ہے، ہم انہیں مہلت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ گناہ میں زیادتی کریں، اور ان کے لیے خوار کرنے والا عذاب ہے۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[02/08, 16:19] Nazir Malik: *امام زین العابدین کا دمشق کی جامع مسجد میں خطبہ*
جمعرات 03 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے۔
لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:
خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے ہیں۔
صدیق امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ہم سے ہیں۔
جعفر طیار ہم سے ہیں۔
شیر خدا اور شیر رسول خدا حمزہ بن عبد المطلب سید الشہداء ہم سے ہیں۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین علیہ السلام ہم سے ہیں۔
زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور مہدی امت ہم سے ہیں۔
لوگو!
[اس مختصر تعارف کے بعد]
جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،
میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،
میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں،
میں اس عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے،
میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے،
میں ان کا بیٹا ہوں جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی۔
میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جبرائیل سدرۃ المنتہی تک لے گئے
میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر [اور وہ پروردگار کے مقام قرب پر فائز ہوئے]
میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛
میں ہوں بیٹا اس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛
میں محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ لی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛
میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ (ص) کے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛
میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد (ص)) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔
میرے داد (علی) وہ ہيں جن کو جبرائیل (ع) کی تائید و حمایت اور میکائیل (ع) کی مدد و نصرت حاصل ہے،
میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔
میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برترو قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔
میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کرکے ہدف کو بہرصورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران میں نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہوجاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔ وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (اس امت کے دو) سبطین "حسن و حسین (ع)" کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام زین العابدین نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔
پس امام زین العابدین نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا" فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام (ع) کا کلام قطع کردیا۔
مؤذن نے کہا:
الله أكبر الله أكبر
امام زین العابدین نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
مؤذن نے کہا:
أشهد أن لاإله إلا الله
امام زین العابدین نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
مؤذن نے کہا: أشهد أن محمدا رسول الله
امام زین العابدین نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تا کہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے نانا ہیں یا تمہارے؟ اگر کہو گے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤ گے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ (ص) میرے نانا ہیں تو بتاؤ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی اور یزید آگے کھڑا ہوگیا اور نماز ظہر ادا ہوئی.
الدعاَء
یا اللہ تعالی ہمیں اہل بیت کے نقش قدم پر چلنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com cell:00923008604333
[03/08, 04:09] Nazir Malik: *بی بی سکینہ بنت امام حسین علیہ السلام کا خطبہ کوفہ*
جمعرات 03 اگست 2023
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
بی بی سکینہ بنت امام حسین علیہ السلام نے کوفہ میں ایک ایسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ آپ سلام اللہ علیھاکی بلاغت و فصاحت پر دنگ رہ گئے ۔اس خطبہ نے لوگوں کے دلوں کو کاٹ ڈالا اور لوگ غم کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے اس خطبہ کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور ان کو احساس ہوا کہ ان سے کتنا بڑاگناہ سرزد ہوا ہے۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کے خطبے کا متن کچھ یوں ہے۔
” حمد ہے اللہ کی ریت کے ذروں اور سنگریزوں کے برابر ،عرش کے وزن سے لے کر زمین تک ،میں اس کی حمد بجا لاتی ہوں ،اس پر بھروسہ کرتی ہوں ،گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طاہر اولاد کو فرات کے کنارے پیاسا ذبح کر دیا گیا۔
اے اللہ ! تو نے اپنی مخلوق سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا عہد لیا اور ان کو اس عہد کی نصیحت کی ۔لیکن مخلوق نے تیرا یہ عہد توڑ ڈالا اورامیرالمومنین علیہ السلام کے حق کو غصب کر لیا گیا اور آپ علیہ السلام کو شہید کر دیا ۔جیسے کل انہی کے بیٹے حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا۔ اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دادا علی علیہ السلام کو تیرے گھر میں شہید کیا گیا جس میں دیگر مسلمان بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی زبانوں سے ان کی مظلومی کا اقرار کیا ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا لیکن انہوں نے تیری خاطر صبر سے کام لیا اور وہ اس حال میں دنیا سے گئے کہ ان کی حمد بیان کی گئی اور ان کے فضائل و مناقب ہر جا معروف ہیں اور کوئی بھی ان کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ اے اللہ! میرا سن بہت چھوٹا ہے اور میرے دادا کے مناقب بہت عظیم ہیں، میں اس پر ان کی تعریف کرتی ہوں۔ اے اللہ! تو جانتا ہے میرے دادا نے ہمیشہ تیری توحید اور تیرے رسول کی حفاظت کی اور آپ کو دنیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ آپ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تونے ان کو چن لیا اور اپنی صراط مستقیم قرار دیا۔
اے کوفیو! اے مکروفریب اور دھوکہ دینے والو! اللہ نے ہم اہل بیت علیہ السلام کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا۔ اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا، ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا گویا ہم اولاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں، کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا۔ تم نے ہمیں قتل کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور تمہارے دل خوش ہوئے تم نے اللہ پر افترا باندھا اور تم نے فریب کیا، اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا، ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بیشک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم پر لعنت اور عذاب نازل ہو گا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو۔ تمہارے لیے ویل (جہنم)ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی ،کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی ،کون ہماری طرف خود چل کر آیا ،تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے، تمہارے دل سخت ہوگئے، تمہارے جگر غلیظ ہوگئے ،اللہ نے تمہارے دلوں ،کان،آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہو گئے۔
اے کوفیو! تمہارے لیے ہلاکت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارے ساتھ کیا برا کیا تھا جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بنا کر تم فخر کرتے ہو ،کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہرنجس کو ان سے دور رکھا ؟ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے ۔تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا ۔
لوگوں پر اس خطاب کا گہرا اثر ہوا جس سے لوگوں کے دل جلنے لگے ،کہنے لگے ، اے طاہرین کی بیٹی! خدارا اپنے کلام کو روک دیجئے آپ نے ہمارے دلوں میں آگ لگا دی اور ہماری سانسیں ہمارے حلق میں اٹک گئی ہیں حتی کہ اس مجمعے میں موجود بعض افراد نے یزید اور اس کے افواج کے خلاف علم جہاد اٹھا کر جام شہادت نوش کیا۔
ایک روز جب بی بی سکینہ بنت امام حسین علیہ السلام اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور بہت آہ و بکا کیا ۔۔۔۔۔ تمام بیبیاں رو رہی تھیں یزید نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین ابنِ علی علیہ السلام کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔۔۔ یزید نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین علیہ السلام زندان میں بھجوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ، پھر ایسا ہی ہوا سرِ امام حسین علیہ السلام زندان میں لایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں۔
سید سجادعلیہ السلام طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین علیہ السلام کے سر کو لینے آگے بڑھے سکینہ سلام اللہ علیھا کی گود میں جب بابا کا سر آیا، لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام علیہ السلام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں۔بابا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔۔۔۔بابا میرے کانوں سے گوشوارے چھینے گئے ۔۔۔۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے ،نہ عمو عباس آئے، نہ بھائی علی اکبر آئے ۔۔۔۔۔۔ باباہمیں بازاروں میں گھمایا گیا، بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پیاسی سکینہ روتی رہیں، ہچکیوں کی آواز بتدریج کم ہوتی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر بالآخر خاموشی چھاگئی ۔۔۔۔۔۔سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپھی سیدہ زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا
انا للہِ وانا الیہِ راجعون۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[03/08, 20:22] Nazir Malik: *ہماری یونیورسٹیوں کا غیر تعلیمی ماحول*
جمعہ 04 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
یونیورسٹی میں تمام طلباء لڑکے ہوں یا لڑکیاں سب میچور ہوتے ہیں. اچھے برے اور فائدے نقصان کا فرق بخوبی جانتے ہیں. اس لیول پر کوئی ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتا. یہاں جو بھی کپل یعنی کے جوڑا بنتا ہے وہ دونوں کی باہمی رضامندی سے بنتا ہے.
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دو تین جوس کارنر پر جوس پینے اور کچھ ہوٹلوں پر کھانا کھانے کے بعد ہی ایک دوسرے کو اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں.
یہاں آغاز ہمیشہ دوستی کی آڑ میں ہوتا ہے کیونکہ یہاں دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ دوستی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ دو مخالف جنس اچھے دوست بھی ہوں تو بھی زندگی کے کسی نا کسی موڑ پر ایک دوسرے کو کشش کرتے ہیں
یہاں پر کچھ لوگ مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے صاف رشتہ رکھ کر آگے چلتے ہیں مگر یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے
زیادہ تر جوڑے جسمانی تعلقات میں مبتلا ہو جاتے ہیں
یونیورسٹی لیول پر کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا یہاں سب کچھ دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے
آپ لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد، کراچی، ملتان اور بہاولپور جیسے بڑے بڑے شہروں کے ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاوس اور ہوٹلوں کا اگر رات کے کسی پہر وزٹ کریں تو معلوم ہوگا یہاں پر موجود نوجوان جوڑوں میں سے اسی فیصد سے بھی زیادہ کا تعلق شہر کی مختلف یونیورسٹیوں، میڈیکل کالجوں سے ہوگا...
آپ مختلف پیزا شاپ، جوس کارنر کا وزٹ کریں تو آپ کو یہاں یونیورسٹی کی کلاسز بنک کر کے ڈیٹ پر آنے والے نوجوان جوڑوں کا ایک جم غفیر ملے گا.
اور سو روپے والا جوس کا گلاس آپ کو 200 روپے کا ملتا ہے, تیس منٹ تک کوئی پوچھنے نہیں آتا, تیس منٹ بعد آپ کو ایک اور آرڈر کرنا پڑتا ہے.
یہاں اندر کرسیوں کی جگہ صوفے لگے ہوتے ہیں یعنی کے پورا ماحول بنا ہوتا ہے,آپ جو مرضی چاہیں کر سکتے ہیں
تو یہ کہنا کہ یونیورسٹی لیول پر لڑکیوں کو جنسی زیادتی یا درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے سراسر غلط ہے
یہاں نوجوان کپل شادی شدہ جوڑوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور پوری کلاس بلکہ پورے ڈیپارٹمنٹ کو خبر ہوتی ہے کہ کونسے والی کس کی ہے اور کونسے والا کس کا ہے؟؟؟
آپ ان بڑے شہروں میں اگر شاپنگ مالز کا وزٹ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ نوجوان جوڑے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یا کمر اور کاندھے پر ہاتھ رکھ کر خریداری کرنے نکلے ہوں گے, جن میں زیادہ تر کا تعلق اس شہر کی مختلف یونیورسٹیوں سے ہوگا
پارک میں جائیں تو بہت ساری تتلیاں کچھ پروانوں کے ساتھ چپک کر یا یہ کہہ لیں کہ ان کی گود میں بیٹھی ملیں گی آپ کو
آپ یونیورسٹیوں کا اگر وزٹ کریں تو آپ کو رات کو گرلز ہاسٹل اور بوائز ہاسٹل سے بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں غیر حاضر ملیں گے ان سب کے گھر پر کال کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ تو یونیورسٹی میں ہیں.
آپ مختلف ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوس کا وزٹ کریں تو آپ کو ان میں سے زیادہ تر یہاں پر ملیں گے.
اور جن لڑکوں یا لڑکیوں کا تعلق اسی شہر سے ہے تو بھی پریشانی کی بات نہیں ہے.
آپ کو شہر میں ایسے بہت سارے ہوٹل ملیں گے جو صبح 8 بجے سے ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے کیلئے نوجوان جوڑوں کو کمرے کرایہ پر دیتے ہیں
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے ہوٹل بنے ہی اسی کام کیلئے ہیں
اور سونے پر سہاگہ کہ ان سارے ہوٹلوں کو بڑے بڑے پولیس افسران، بیورو کریٹ یا پھر سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے
ہر ہفتے یا مہینے کی بنیاد پر بھاری رقوم کی صورت میں بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سب کام آسانی سے ہو رہا ہے.
اگر کبھی میڈیا کا دباؤ یا پھر کوئی بڑی مخبری ہو بھی تو ان ہوٹل والوں کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا جاتا ہے.
پنجاب یونیورسٹی میں اپنی آنکھوں سے میں لڑکیوں کو آگے بیٹھ کر موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں اور لڑکے پیچھے بیٹھ کر ان تتلیوں کو موٹر سائیکل چلانا سکھا رہے ہوتے ہیں.
پنجاب یونیورسٹی اور خاص طور پر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں آپ کو لڑکیاں چھوٹی چھوٹی شرٹس اور بہت باریک لباس پہنے اور چھوٹے چھوٹے ٹراوزر پہنے نظر آئیں گی..
دوپٹہ برائے نام ہوتا ہے یا پھر ہوتا ہی نہیں..
اتنے باریک باریک لباس ہوتے ہیں کہ جسم سارے کا سارا آویزاں ہو رہا ہوتا ہے اور سفید کپڑوں میں سیاہ رنگ صاف جھلک رہے ہوتے ہیں.
*کچھ ذمہ داری حکومت وقت کی بھی ہے کہ ملکی درسگاہوں کے ماحول پر نظر رکھیں تاکہ بہاولپور اور انجینیئرنگ یونورسٹی والے حالیہ واقعات کو رونما ہونے سے بچایا جا سکے*
میں نے اپنی ان آنکھوں سے بہت سی خواتین کو حجاب میں یونیورسٹی آتے دیکھا ہے اور پھر ایک طرف ٹھہر کر یہ حجاب اپنے پرس میں ڈال کر پرس سے ایک چھوٹا سا باریک دوپٹہ گلے میں ڈال کر اپنی اپنی کلاسز میں جاتے دیکھا ہے.
پھر جب چھٹی کے وقت باپ یا بھائی کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو پھر سے وہی حجاب پرس سے نکال کر پہن لیا جاتا ہے.
مجھے آج تک سمجھ نہیں لگی کہ یہ tights اور اوپر سے چھوٹی چھوٹی باریک شرٹس پہننے کا آخر مقصد کیا ہوتا ہے
آ بیل مجھے مار؟
اتنی چھوٹی چھوٹی سی شرٹس پہننا اور پھر چلتے ہوئے بار بار پیچھے سے اپنی شرٹس کو درست کرنا...
کیسا عمل ہے؟
کیا ضرورت ہے.
یا تو پہنیں نہ, پہن لیا تو بس پھر ٹھیک ہے.
کیونکہ آپ کا جسم آپ کی مرضی.
پھر مرد کیوں نہ کہے کہ میری آنکھ میری مرضی؟
لیکن یہ سب فیشن ہے.
یہاں پر فقرے کسنا جرم نہیں کیونکہ کھلم کھلا دعوت دی جاتی ہے فقرے کسنے کی.
میوزک کنسرٹ، کلچرل فیسٹیول، اور اینول ڈنر کے نام پر ہونے والے رقص، مجرے کی محفلوں سے کم نہیں.
میوزک کنسرٹ پر جسم کے ساتھ جسم لگے ہوتے ہیں اور ناچ گانے عروج پر کندھے سے کندھے جڑے ہوتے ہیں.
منشیات کا سب سے زیادہ استعمال بھی یونیورسٹی کے طلباء ہی کرتے ہیں. جن منشیات کا کبھی آپ نے نام تک نہیں سنا ہوگا وہ منشیات یونیورسٹی لیول پر آپ کو نظر آتی ہیں.
لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی ان منشیات کی عادی ہیں اور یہ بھی کسی فیشن کی طرح پروان چڑھ رہا ہے.
لڑکیوں کے ہاسٹل میں یہ منشیات انتظامیہ کے زریع سے ہی فروخت کی جاتی ہیں اور بہت سے گروہ اپنے سہولت کار ان طالبات میں سے ہی چنتے ہیں.
پہلے نشے کا عادی بنایا جاتا ہے اور پھر جسم فروشی کے مقاصد کیلئے ان لڑکیوں کا استعمال کیا جاتا ہے.
دونوں ایک دوسرے کو غلط کہہ رہے ہیں خواتین کے مطابق مرد حضرات اپنی نظروں کی حفاظت کریں اور مردوں کے مطابق خواتین اپنے جسم کی حفاظت کریں...
مگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنی اصلاح کرنے کیلئے تیار نہیں کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے.
یہ ہسپتالوں اور کچرے کے ڈھیر میں ملنے والے نومولود بچے طوائف کے نہیں بلکہ ان تعلیم یافتہ افراد کے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری آپس میں انڈرسٹینڈنگ تھی.
ہسپتالوں میں غیر قانونی طور پر ہونے والے ابھورشن اسی انڈرسٹینڈنگ کے نتائج ہیں.
نان پریگننسی کی فروخت ہونے والی ادویات کے خریدار زیادہ تر یہی انڈرسٹینڈنگ والے جوڑے ہیں.
لیکن اگر یہاں کوئی سچ لکھے یا بولے تو وہ چھوٹی سوچ کا مالک ہے وہ تنگ نظر ہے وہ دیہاتی ہے.
پھر میں کیوں نہ کہوں کہ ہماری یونیورسٹیاں کوٹھے اور چکلے ہیں.
پھر میں کیوں نہ کہوں کہ یہ یونیورسٹیاں ؛ور یہ تعلیمی ادارے جسموں کی تجارت کی منڈیاں ہیں.
پھر میں کیوں نہ کہوں کہ یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی جسمانی تعلقات اور زنا کو فروغ دے کر والدین کی عزتوں کے جنازے نکال رہے ہیں.
یونیورسٹی کا مطلب "مادرِ علمی ہے"
یہ کیسی ماں ہے جو اپنی بچیوں کے سر سے دوپٹہ اور جسم سے لباس اتارنے کی تربیت کو پروان چڑھا رہی ہے.
یہ کیسی ماں ہے جو اپنے بیٹوں کو بے حیائی اور زنا کی تعلیم دے رہی ہے؟
بلکہ یہ یونیورسٹیاں شاید طوائف کے کوٹھوں سے بھی زیادہ گری ہوئی جگہ ہیں کیونکہ ایک طوائف اپنی مجبوری کے تحت اپنا جسم فروخت کرتی ہے اور اس کے پاس آنے والے گاہک پیسے دے کر اس کا جسم خریدتے ہیں
مگر ہماری یونیورسٹیاں وہ کوٹھے اور وہ اڈے ہیں جہاں عورت اپنا جسم اپنی مرضی سے اپنی پسند کے شخص کو خوشی خوشی پیش کرتی ہے
اور یہاں جسم لینے والا کوئی خریدار نہیں ہے وہ ایسا گاہک ہے جسے مفت میں شراب اور شباب مل رہی ہوتی ہے
اور جب اپنا جسم اپنی مرضی سے پیش کیا جائے اور لینے والا عورت کی مرضی سے اس کا جسم لے تو پھر نہ تو عورت اسے جنسی زیادتی یا درندگی کا نام دیتی ہے اور نہ ہی مرد اسے جنسی زیادتی اور درندگی کا نام دیتا ہے
یہاں اس فیشن کو "انڈرسٹینڈنگ" کا نام دیا جاتا ہے
اور اس سارے فسادات کی جڑ یہ Co-education ہے
ہمارا دین اسی وجہ سے اس نظام تعلیم کی مخالفت کرتا ہے یہ نظام تعلیم ہماری نسلوں کو اُجاڑ رہا ہے
تباہ کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کے جوان پڑھے لکھے جاہل کے لقب سے نوازے جا رہے ہیں.
یہ یونیورسٹیاں تعلیم، علم، تربیت، تہزیب ،ادب، شعور کچھ بھی نہیں دے رہیں بلکہ جو تھوڑا بہت ان سب کا تناسب موجود ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو جاتا ہے
ہماری یونیورسٹیاں فقط کاغذ کے ٹکڑے دے رہی ہیں.. غلامی کی سوچ اور سرکاری نوکری کے خواب عنایت کر رہی ہیں لالچ اور حسد عنایت کر رہی ہیں
ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا
انفرادی طور پر اصلاح اور کوشش کرنی ہوگی تب جا کر اجتماعی طور پر چیزیں درست ہو سکتی ہیں
تلخ لکھنے پر معذرت خواہ ہوں مگر جو بھی لکھا سچ لکھا ہے... اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے
میرے مطابق یہ موضوع بہت طویل ہے اور ایک گہرا سمندر ہے.
مگر اجازت چاہوں کیونکہ آج کل ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا لمبی لمبی تحاریر پڑھنے کا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے
: بیٹیاں کوئی خیرات نہیں ہوتی کہ کسی کو بھی اللّه کے نام پر دے دی جائیں جنکو دس بارہ لاکھ کا جہیز دیتے ہیں ان سے پندرہ بیس لاکھ حق مہر بھی لکھا لیا کریں آج کے دور میں بیٹی کا تحفظ سب سے زیادہ ضروری ہے جنکو مفت میں بیٹیاں دے دی جاتی ہیں وہ انہیں طلاق دینے میں ایک منٹ نہیں لگاتے خود تو آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن بیٹیوں پر لگا طلاق کا دھبہ بیٹیوں کو زندگی بھر ذلیل کرواتا ہے اگر بچے ہوں تو اور بڑی مصیبت بن جاتی ہے جس نے پندرہ بیس لاکھ حق مہر لکھا ہوتا ہے وہ طلاق دینے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اور جس نے کچھ نہیں لکھا ہوتا وہ چھوٹی سی بات پر طلاق دے کر آرام سے بیٹھ جاتا ہے ذلیل تو بیٹی ہوتی ہے جسکو نا کنواری بیٹھی کو لوگ برداشت کرتے ہیں نا طلاق یافتہ بیٹھی کو برداشت کرتے ہیں نکاح آسان بناؤ ان کے لئے جو آپ کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں جو آپ کیلئے مشکلیں پیدا کرتے ہیں وہ لالچی ہوتے ہیں کسی آسانی کے مستحق نہیں ہوتے۔۔۔!
نوٹ:
*یہ ذمہ داری حکومت وقت کی بھی ہے کہ ملکی درسگاہوں کے ماحول پر نظر رکھیں تاکہ بہاولپور اور انجینیئرنگ یونورسٹی والے حالیہ واقعات کو رونما ہونے سے بچایا جا سکے*
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[05/08, 04:05] Nazir Malik: *سورہ القدر کی فضیلت*
ہفتہ 05 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*ارشاد باری تعالی ہے*
ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے (1) اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے(3) فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں (4) وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک۔
*سورہ قدر آیات کی روشنی میں*
*سورۃ القدر میں 30 الفاظ ہیں جوکہ قرآن کے پاروں کی تعداد کے برابر ہیں۔
*إنا ١*
*أنزلناه ٢*
*فی ٣*
*ليلة ٤*
*القدر ٥*
*وما ٦*
*أدراك ٧*
*ما ٨*
*ليلة ٩*
*القدر ١٠*
*ليلة ١١*
*القدر ١٢*
*خير ١٣*
*من ١٤*
*الف ١٥*
*شهر ١٦*
*تنزل ١٧*
*الملائكة ١٨*
*والروح ١٩*
*فيها ٢٠*
*بإذن ٢١*
*ربهم ٢٢*
*من ٢٣*
*كل ٢٤*
*أمر ٢٥*
*سلام ٢٦*
*هی ٢٧*
*حتى ٢٨*
*مطلع ٢٩*
*الفجر ٣٠*
*اس سورۃ اور اس رات کی قدر صرف اللہ ہی جانتا ہے اور بس، (سورۃ)قدر قرآن کی قدر کو جانیں*
*آئمہ اہل بیت کے بقول سورۃ قدر پڑھنے کی فضیلت*
*امام جعفر صادق علیه السلام :*
*جو شخص فرض نمازوں میں سے کسی ایک میں سورۃ القدر پڑھے گا، ایک منادی پکارے گا: اے خدا کے بندے! اللہ تعالیٰ نے تمہارے پچھلے گناہ معاف کر دیے، لہٰذا اپنے اعمال دوبارہ شروع کرو*
*امام رضا علیه السلام :*
*ہر مومن جو وضو کرتے ہوئے سورۃ القدر پڑھتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح چھٹکارا پاجاتا ہے جیسے وہ اپنی ماں سے پیدا ہونے والے دن۔.*
*امام جعفر صادق عليه السلام :*
*جو شخص پانی پر سورۃ القدر پڑھے اور اس میں سے پیے اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں میں نور ڈال دے گا۔*
*امام جعفر صادق عليه السلام :*
*جو شخص سوتے وقت گیارہ مرتبہ سورۃ القدر پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ گیارہ فرشتوں کو اس پر مامور کرتا ہے کہ وہ اسے ہر شیطان کے شر سے بچائیں.*
*امام جعفر صادق علیه السلام :*
*جو کوئی سوره قدر کو اپنا شفیع قرار دے اور خدا کی درگاہ میں درخواست کرے تو خدا اس کی درخواست کی اجابت کرے گا.*
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[05/08, 16:26] Nazir Malik: *تعویز گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت*
اتوار 06 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
دین اسلام نے عبادات، معاملات، علاج معالجہ سمیت روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل غرض کہ ہر معاملے میں انسان کی رہنمائی فرمائی ہے۔
جو دم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہیں صرف وہی دم جائز ہیں۔
علماء عرب قرآن مجید سے دم کو جائز تو سمجھتے ہیں مگر قابل تحسین نہیں جانتے کیونکہ مریض، ڈاکٹر سے علاج اور اللہ تعالی سے دعاء مانگنے سے ہٹ کر اپنا رخ دم کرنے والوں کی طرف بدل لیتا ہے اور یہی شرک کی پہلی سیڑھی ہے۔
دوسرے یہ کہ کیا معلوم دم کرنے والا نہ جانے کیا پڑھ کر دم کر رہا ہے آیا وہ قرآنی آیات پڑھتا ہے یا شرکیہ کلمات، یہ کون جانے کیونکہ سارے دم خاموشی سے کۓ جاتے ہیں ہمیں تو کچھ نہیں سنتا اور نہ ہی وہ یہ دم کسی کو بتلاتا ہے اور نہ سیکھاتا ہے بلکہ سیکرٹ رکھتا ہے۔
تیسرے یہ کہ دم کروانے والے کا عقیدہ دھیرے دھیرے پختہ ہو جاتا ہے کہ اس شخص کا دم مجھے فائدہ دیتا ہے اور آئندہ جب کبھی اسکو کوئی تکلیف ہوتی ہےتو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دم کرنے والے کی طرف رجوع کرتا ہے اور یوں آہستہ آہستہ مریض اللہ تعالی کو بھول جاتا ہے اور دم کرنے والا یاد رہ جاتا ہے۔
*حرف آخر:*
دم کرنے والے کو یہ کس نے بتلایا کہ یہ آیات یا کلمات فلاں مرض کا علاج رکھتے ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تو چند آیات کی روایت ملتی ہیں مثلا" سورۃ فاتحہ سے دم کرنا یا معوذتین سے ہاتھوں پر دم کر کے اپنے جسم پر ہاتھوں کو پھیر لینا۔
اسی لئے جید علماء عرب و عجم دم کرنے کو قابل ستائش نہیں جانتے بلکہ مشورہ یہی دیتے ہیں کہ کسی کہنہ مشق معالج سے علاج معالجہ کرایا جاۓ کیونکہ نبی کریم کا قول مبارک ہے کہ اللہ تعالی نے کوئی بھی ایسی بیماری نہیں پیدا فرمائی جس کا علاج نہ پیدا کیا ہو۔ دیگر یہ کہ دم سے علاج کرنے کا کوئی مستند معیار نہیں اور نہ ہی اس کام کی کوئی معیاری درسگاہ ہے لوگ بس سینہ گزٹ چل رہے ہیں۔
*رقعیہ شرعیہ*
یہی حال رقعیہ شرعیہ اور تعویزوں دینے والوں کا ہے۔ معذرت کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں کہ ہندو سادھووں، جوگیوں اور دیگر غیر مسلموں سے مستعار لۓ ہوۓ علاج معالجے کے ٹونے ٹوٹکے مسلمانوں میں سرایت کرتے جا رہے ہیں اور کثرت ترویج کی وجہ سے عام مسلمان ان اعمال کو معیوب بھی نہیں سمجھتے بلکہ اکثر لوگ ان اعمال کو جائز سمجھتے ہیں اور دینی خدمات سے جڑے لوگ بھاری نذرانے بھی وصول کرنے کو جائز گردانتے ہیں۔
یاد رہے کہ حرم مکہ کے دروازوں پر تعینات علماء اکرام تعویز لٹکاۓ زائرین کے گلوں سے تعویز گنڈے، کڑے اور منکے توڑ دیتے ہیں۔
کیوں کہ وہ انھیں شرک کی پہلی سیڑھی گردانتے ہیں۔
*برادران اسلام*
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کے پیغام کو ہم نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
در حقیقت مقصد نزول قرآن کچھ اور تھا اور آج کے کلمہ گو مسلمان نے اسے کیا بنا لیا؟
کیا قرآن مجید میڈیکل کی کتاب ہے؟ کی اس سے علاج کشید کیۓ جائیں؟
کیا یہ طبیبوں اور تعویزوں گنڈوں اور دم درود کے لئے بھیجا گیا؟
کیا قرآن قسم اٹھانے کی کتاب بنا کر بھیجا گیا؟
کیا قرآن بچیوں کو قرآن کے ساۓ تلے رخصت کرنے کے لئے بھیجا گیا؟
*مقصد نزول قرآن*
قرآن مجید کو پڑھیں سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اگر کہیں سمجھ میں نہ آئے تو اہل ذکر یعنی علماء اکرام سے پوچھ لیں۔ تعجب ھے که قرآن پر عمل کۓ بغیر ھمارا چھٹکارا کیسے ھو گا؟
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں ہر قسم کی بیماریوں اور وباؤں سے محفوظ فرماء۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
تعویز گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت
[06/08, 19:54] Nazir Malik: *نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟*
پیر 07 اگست 2023
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*سوال نمبر 14156*
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ بعض لوگ تحت السرۃ والی روایت پیش کر کے کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں، جب کہ دوسری احادیث میں نبیﷺ کا معمول علی الصدر، یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا مذکور ہے۔ اس مسئلے کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کر کے شکر گزار فرمائیں۔ (سائل: شفیق الرحمٰن شاکر سیالکوٹ)
*الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته*
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں مستند احادیث کی رو سے صحیح یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔ احادیث درج ذیل ہیں:
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ» (اخرجه ابن خزیمة فی صحیحہ، بلوغ المرام: ص۲۹۔ نووی:ص۱۷۳، تحفة الاحوذی:ص۲۱۵ج۱)
’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پس آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر اپنے سینے پر رکھا۔‘‘
اس حدیئث کو علامہ ابن سید الناسؒ، شیخ محمد قائم سندھی حنفیؒ، محقق ابن امیر الحاج حنفی صاحب بحر الرائق اور علامہ محمد حیات سندھی حنفی نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ اور امام شوکانی نے بھی اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: فتح الغفور اورتحفۃ الاحوذی۔
۲۔ عن ھلب الطائی قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ» وَصَفَّ يَحْيَى: الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ۔ (رواہ احمد فی مسندہ ورواة ھذا الحدیث کلھم ثقات واسنادہ متصل، تحفة الاحوذی:ج۱ص۲۱۶، نیل الاوطار:ص۲۰۸ج۲)
’’جناب ہلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ سلام کے بعد دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب سے نمازیوں کی طرف رخ موڑتے، نیز میں نے دیکھا کہ آپ بائیں ہاتھ کے جوڑ کے اوپر دایاں ہاتھ رکھتے اور سینے پر ہاتھ باندھتے۔
۳۔ ((عَنْ طَاؤس قال کان النبیﷺ یَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلیٰ یَدِہِ الیُسْرٰی ثُمَّ یشد بِھِمَا علی صدرہ وھو فی الصلوة)) (مراسیل ابی داؤد:ص۶)
یعنی رسول اللہﷺ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر باندھا کرتے تھے۔ یہ حدیث: اگرچہ مرسل ہے، تاہم امام مالکؒ اور امام ابو حنفیہ کےنزدیک مرسل حجت ہوتی ہے۔
ان تینوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہییں ۔ رہی وہ روایتیں جن میں ناف کے نیچےہاتھ باندھنے کا ذکر ملتا ہے، جیسا کہ جناب سائل نےلکھا ہے تو گزارش ہے کہ اس قسم کی جو دو ایک روایتیں ہیں وہ سنداً مخدوش ہیں۔ مثلاً
۱۔ (( عن وائل بن حجر قال رأیت النبیﷺ یَضَعُ یَمِیْنَه عَلیٰ شِمَالِہ تَحْتَ السرة))
’’میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھے تھے۔‘‘
یہ سند کے لحاظ سے اگر چہ صحیح ہے، تاہم متن کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح نہیں۔ یہ روایت دراصل مصنف ابن ابی شیبہ کی ہے اور اس حدیث کے نیچے ابراہیم نخعی کا قول ہے جس میں تحت السرہ کا جملہ موجود ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کاتب نے غلطی کے اس صحیح سند کے ساتھ ابراہیم نخعی کا یہ جملہ ملا دیا ہے۔ ورنہ یہ جملہ وائل کی حدیث میں موجود نہیں۔ چنانچہ ہیہی وجہ ہے کہ ماہرین علم حدیث اور قائلین مذہب نے بھی اس حدیث سے استدلال نہیں کیا، جن میں حافظ ابن حجرؒ اور حافظ ابو عمروبن عبدالبر کے علاوہ حافط بدرالدین عینی حنفی شارح بخاری ابن کمانی حنفی شیخ محمد فاخر الہ آبادی شیخ محمد حیات سندھی حنفی اور ابن امیر الحجاج حنفی وغیرہ افاضل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی خاص قابل غور ہے کہ مسند احمد میں یہ حدیث بالکل اسی سند کے ساتھ مروی ہے مگر اس میں تحت السرہ کا جملہ موجود نہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اس حدیث میں جملہ (تحت السرہ) محفوظ نہیں ہے، لہٰذا اس سے استدلال صحیح نہیں۔
۲۔((عن علی رضی اللہ عنه قال إِنَّ مِنَ السُّسَّة فِی الصلوة وَضْعُ الْاَکُفِّ علی الاکف تحت السُرَّة)) (رواہ أحمد وابوداؤد، نیل الاوطار:ص۲۱۰ج۲)
یعنی نماز میں سنت یہ ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔
لیکن یہ روایت اس لیے قابل استدلال نہیں ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمٰن بن اسحاق واسطی ہے اور وہ سخت ضعیف ہے جیسا کہ حافظ زیلعی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل اور ابوحاتم نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے۔ امام یحیی بن معین نے اسے لیس بشی قرار دیا ہے۔
امام بخاری نے فیہ نظر اور بیہقی نے متروک کہا ہے۔ امام نووی نے اسے بالاتفاق ضعیف کہا ہے:
ھو حدیث متفْ علی تضعیفه فان عبدالرحمان بن اسحاق ضعیف بالتفاق(نووی:ص۱۷۳ج۱۔تحفة الاحوذی:ص۲۱۵ج۱)
لہٰذا یہ حدیث بھی قابل استدلال نہیں ہے۔
دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضٰ سے مروی بتائی جاتی ہے جس میں أخذ ألا کف علی الأکف تحت السرۃ کے الفاظ ملتے ہیں، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے مگر یہ حدیث بھی اسی عبدالرحمان بن اسحاق واسطی سے مروی ہے جو کہ سخت ضعیف ہے۔
حدیث نمبر۳: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
((ثلت من اخلاق النبوة تعجیل الافطار وتاخیر السحور ووضع الید الیمنی علی الیسری فی الصلوة تحت السرة)) (ذکرہ ابن حزم فی المحلی تعلیقا)
’’امور نبوت میں تین باتیں بھی شامل ہیں۔ (۱) روزہ جلد افطار کرنا (۲) دیر سے سحری کھانا (۳) ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا۔‘‘
مگر اس حدیث کو ہمارے حنفی بھائی اپنی کتابوں میں ضرور ذکر کرتے ہیں: مگر اس کی سند بیان نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں اس حدیث میں استدلال کرنا محض دل بہلاوہ ہے اور بس۔ ملاحظہ ہو(تحفۃ الاحوذی ص۲۱۵ج۱)
بہرحال مسنون صرف یہ ہے کہ نماز میں سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جائیں، ناف کے اوپر یا ناف کے نیچے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ اسی طرح جو لوگ سرے سے ہاتھ کھول کر نماز پرھنے کے قائل ہیں وہ بھی صحیح نہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک صحیح صرف یہ ہے کہ سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جائیں: جیسا کہ احادیث صحیحہ آپ کے سامنے ہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم وحکمہ احکم۔
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا
یاد رہے ان دو بزرگوں کا جنہوں نے نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی سنت کا مذاق اڑایا اور اس کو ہدف تنقید بنایا اور فقہ حنفی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی فقہ میں جو مسائل ہیں جن کے متعلق مشہور کر رکھا ہے یہ کتاب وسنت کا عطرونچوڑ ہیں لیکن اس میں بعض ایسے مسائل ہیں جن کا کتاب وسنت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
اب وہ روایات نقل کی جاتی ہے جو نماز کی حالت قیام میں قبل از رکوع سینہ پر ہاتھ باندھنے کے ثبوت میں ہیں۔
۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے صحیح ابن خزیمہ کی روایت:
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ» (صحیح ابن خزیمة:صفحه ۲۴۳جلد۱)
’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپﷺ نے (قیام کی حالت میں قبل از رکوع) اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینہ پر رکھا (باندھا)۔‘‘
صحیح ابن خزیمہ کی یہ روایت مفسر قرآن شیخ الحدیث امام ابو محمد عبدالستار محدث دہلویؒ نے بخاری کی شرح نصرۃ الباری (ص۶۳اپ۳) میں، امام نووی نے شرح مسلم میں (ص۱۷۳، ۲۱۵ج۱) شارح حدیث شیخ الحدیث علامہ ابو محمد عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں (ص۲۱۳، ۲۱۵ج۱) محدث شہیر ابو طیب شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود شرح ابو داؤد میں (ص۲۷۶ج۱) مولانا محمد عطاء اللہ حنفی بھوجیانیؒ نے التعلیقات السلفیہ علی النسائی میں (ص۱۰۵ج۱) م ولان محمد تھانوی نے حاشیہ نسائی میں (ص۱۳۱،ج۱مطبوعہ کراچی) محمد بن عبداللہ علوی نے مفتاح الحاجہ شرح ابن ماجہ میں (ص۱۵۹) التعلیق المغنی علی سنن الدارقطنی (ص۲۸۵،ج۱) نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار (ص۱۹۵،جلد۲) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح (طبع جیدی سرگودھا ص۶۰، ج۱) مشکوۃ شریف مترجم ترجمہ از مولانا شیخ الحدیث محمد سماعیل سلفی (حاشیہ صفحہ ۵۲۷ جلد۱) تلخیص الحبیر (ص ۲۲۴، جلد ۱) بلوغ المرام مع سبل السلام (مطبوعہ ریاض، ص۳۹۳، جلد۱) دین الحق (ص۲۱۲) میں بھی ہے۔ یاد رہے: غزنوی ترجمہ کے مولف اور مولانا شیخ الحدیث محمد اسماعیل سلفی اس روایت کے متعلق علامہ ابن حجر کی رائے اس طرح نقل کرتے ہیں: علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔
مسند احمد کی روایت:
مسند احمد میں قبیصہ بن ہلب کی روایت اس طرح ہے:
((عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ))(مسند احمد مطبوعہ گوجرانوالہ ص۲۱۴ج۵)
’’قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد سے روایت کی انہوں نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو (نماز سے سلام پھیرنے کے بعد) نکبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف پھرتے دیکھا اور (نماز میں قیام کی حالت میں قبل ازرکوع) میں نے آپﷺ کو سینہ پر ہاتھ باندھتے دیکھا۔‘‘
مسند احمد کی یہ روایت تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی (ص۲۱۶، جلد۱) عون المعبود شرح ابو داؤد (ص۲۷۶، جلد۱) التعلیقات السلفیہ علی النسائی (ص۱۰۵، ج۱) التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی (ص ۲۸۵جلد۱) حاشیہ مشکوۃ شریف مترجم غزنوی ترجمہ ص۱۷۴ ج۱) دین الحق فی تنقید جاء الحق (ص۲۱۷) میں بھی ہے۔
۳۔ بیہقی کی وائل بن حجرؒ کی روایت:
باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوٰة من السنة۔ با ب نماز میں ہاتھ سینے پر باندھناسنت ہے۔ غور فرمائیں کہ امام بیہقیؒ نماز میں میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں باقاعدہ باب باندھا ہے۔ اس باب میں وائل بن حجر ؒ کی جو روایت ہے وہ اس طرح ہے:
(( عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوْ حِينَ نَهَضَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ الْمِحْرَابَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ بِالتَّكْبِيرِ، ثُمَّ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى يُسْرَاهُ عَلَى صَدْرِهِ )) (بیھقی:ص۳۰ج۲)
’’وائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا (جب کے لیے اذا یاحین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے) جب آپﷺمسجد کی طرف کھڑے ہوئے تو آپ محراب میں داخؒ ہوئے (نماز شروع کی تو) آپﷺ نے تکبیر (اولیٰ) کے ساتھ دونوں ہاتھ بلند کئے، پھر آپﷺ نے اپنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے پر باندھا۔‘‘
بیقہی کی یہ روایت التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی (ص۲۸۵،ج۱) مین بھی ذکر کی گئی ہے۔
۴۔ بیہقی کی دوسری روایت بالفاظ دیگر:
((عن وائل انه رأی النبیﷺ وضع یمینہ علی شمالہ ثم وضعھما علی صدرہ)) (بیھقی:ص۳۰،ج۲)
’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (نماز میں قیام کی حالت میں) دیکھا کہ آپﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر ان دونوں کو اپنے سینے پر باندھا۔‘‘
بیہقی کی یہ روایت التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی (ص۲۸۵،ج۱) میں مذکورہے۔
۵۔ مسند بزار کی روایت:
مسند بزار کی جو روایت تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں ہے، وہ اس طرح ہے: عند صدرہ (تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی: ۲،۲۱۶جلد۱) صفحہ ۱۴ سینے کے پاس (یعنی سینے پر) ہاتھ باندھتے تھے۔ مسند بزار کی یہ روایت نصرۃ الباری ترجمہ وشرح صحیح البخاری صفحہ ۱۲۳ اپ ۳ اور التعلیقات السلفیہ علی النسائی (ص۱۰۵) میں بھی ہے۔
۶۔ مراسیل ابو داؤد کی روایت:
((عَنْ طَاؤس قال کان النبیﷺ یَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلیٰ یَدِہِ الیُسْرٰی ثُمَّ یشد بِھِمَا علی صدرہ وھو فی الصلوة)) (عون المعبود شرح أبی داؤد وحاشیه صفحه ۲۷۵ جلد۱ ومراسیل أبی داؤد صفحه ۶مطبوعہ کراچی)
’’طاؤس نے روایت کی کی رسول اللہﷺ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے اور (قیام کی حالت میں) پھر ان کو اپنے سینے پر باندھتے نماز میں۔‘‘
مراسیل کی یہ روایت تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی (ص۲۱۶،جلد۱) التعلیقات السلفیہ علی النسائی (ص۱۰۵جلد۱) مفتاح الحاجہ شرح ترمذی (ص۵۹) نیل الاوطار (ص۱۹۵،ج۲) دین الحق فی تنقید جاء الحق (ص۲۱۸) میں بھی ہے۔
صحابہ کے آثار:
بیہقی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر اس طرح ہے:
((قال ان علیا رضی اللہ عنه قال فی ھذہ الایة﴿ فصل لربك وانحر﴾ قال وضع یدہ الیمنی علی وسط یدہ الیسری ثُمَّ وَضَعَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ)) (بیھقی:صفحہ،۳جلد۲ باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوة من السنة۔)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آیت (فَصَل لِرَبِّکَ وَانْحَر) کی تفسیر میں فرمایا کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کےت درمیان (یعنی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر) رکھ کر سینے پر باندھا۔‘‘
بیہقی کا حضرت علی رضٰ کا یہ اثر تفسیر ابن جریر طبری (ص۲۱۰، پارہ ۳۰، جلد۱۲) احکام القرآن للحصاص حنفی (ص۷۱۹ جلد۳) حاشیہ مشکوٰۃ شریف مترجم غزنوی (ترجمہ صفحہ ۱۷۴) تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی (ص۲۱۵،جلد۱) التعلیقات السلفیہ علی النسائی (صف ۱۰۵جلد نمبر۱) میں بھی ہے۔
حضرت انس کا اثر:
عَنْ اَنَس رضی اللہ عنه مِثله۔ (بیھقی:صفحہ ۳۰،۳۱ج۲)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا قول اس جیسا (یعنی کہ حضرت علی رضٰ کے قول جیسا) ہے فصل لربک وانحر کی تفسیر میں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بیہقی میں اس طرح مروی ہے:
((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] قَالَ: " وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ النَّحْرِ )) (بیھقی:ص۳۱ج۲)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (فصل لربک وانحر) کی تفسیر میں مروی ہے کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر نحر کے پاس (یعنی سینے پر) دونوں ہاتھ باندھے۔‘‘
بیہقی کا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر نیل الاوطار (ص۱۹۵،ج۲) میں بھی ہے۔
مولانا مودودی:
مولانا مودودی اس آیت فصل لربک کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اسی طرح وانحر یعنی نحر کرو سے مراد بعض جلیل القدر بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ نماز میں بائیں ہاتھ پر دایاں رکھ کر اپنے سینے پر باندھنا ہے: الخ (تفہیم القرآن: ص۴۹۶ جلد۲)
مزید کچھ کتب کے حوالے دئیے جاتے ہیں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کتب میں بھی یہ مضمون کسی میں تو کافی تفصیل اور کسی میں بالکل مختصرہے بہرحال فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ کتب مندرجہ ذیل ہیں۔ حاشیہ مشکوٰۃ شریف مترجم (ص۳۵۲،۳۵۳ج۱) بلوغ المرام مترجم از مولانا عبدالتواب ملتانی (حاشیہ صفحہ ۱۱۴،جلد۱) اتحاف الکرام اردو شرح بلوغ المرام از مولانا صفی الرحمٰن صاحب مبارکپوری (ص۱۹۱، جلد۱) فتاویٰ نذیریہ (ص۴۵ج۱) از سید نذیر حسین دہلوی) فتاویٰ اہل حدیث از حضرت العلام حافظ عبداللہ روپڑی (ص۴۶۱( فتاویٰ علمائے اہلحدیث (س۹۱ تا ۹۵، ج۳۔ مرتبہ مولانا علی محمد سعیدی) فتاویٰ برکاتیہ (ص ۱۳۸ از علامہ ابوالبرکات احمد) مکمل نماز از مولانا عبدالوہاب محدث دہلوی (حاشیہ نمبر۲ صفحہ ۲۱۵) تعلیم الصلوٰۃ (ص۲۶،۱۰۳از حضرت العلام حافظ محمد عبداللہ روپڑی) اہلحدیث کے امتیازی مسائل (ص۷۷) راہ سنت (ص۱۰۰از حضرت مولانا ابو السلام محمد صدیق) صلوۃ الرسول مع تخریج تسھیل الوصول (ص۱۹۹ تا ۲۰۳ از مولانا محمد صادق سیالکوٹی) اہلحدیث کا مذہب (صفحہ ۱۷۲ از مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ) صلوۃ المصطفی (ص۲۵۳ از شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز) نماز کے مسائل (ص۷۳ محمد اقبال کیلانی صاحب) صلوٰۃ النبی (ص۴۳از مختار احمد ندوی)، حدیث نماز (ص۵۳ از مولانا حافظ عدالمتین صاحب جونا گڑھی) نماز نبوی (ص۱۴۴ از ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن صاحب)
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فتاویٰ محمدیہ
ج1ص329
محدث فتویٰ
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[08/08, 04:33] Nazir Malik: *موبائل فون دو دھاری تلوار ہےاور اس کے استعمال کرنے کے بھی کچھ آداب ہیں*
منگل 08 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*ایک موبائیل ہماری دسیوں الیکٹرونک ڈیوائسز کھا گیا*
موبائل ہمارا ریڈیو اور ٹی وی کھا گیا دستی گھڑی اور آلارم ٹائم پیس اور وی سی آر کیمرہ، ویڈیو گیم، ریموٹ کنٹرول اور ٹیپ ریکاڈر ہضم کر گیا۔
موبائل فون کی ایجاد نے کمونیکیشن کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے اور نت نئی اپلیکیشنز نے جہاں جدید سہولیات متعارف کرائی ہیں وہیں اس سہولت کا بےجا استعمال زندگی میں وبال جان بن گیا ہے اس پر طرئہ یہ کہ یہ ٹیکنالوجی کم پڑھے لکھے اور ان پڑھ لوگوں میں پیسے کے بل بوتے پر یکساں میسر آگئی ہے۔
وٹسایپ اور مفت ویڈیو فون، فیس بک ،ٹک ٹاک، یو ٹیوب اور ریڈ ٹیوب نے سب کچھ ننگا کر دیا ہے اور اس طرح اس گیجٹ کے مضر اثرات سے بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو گیا ہے۔ ان حالات میں خاص طور پر
*والدیں کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھیں اور وقتا" فوقتا" انکی سرچ ہسٹری چیک کرتے رہیں تاکہ بچے بے راہ روی سے بچے رہیں*
*موبائل بچوں کا کھلونا نہیں ہے*
کچھ بچے والدین کے موبائل پر گیم کھیلتے رہتے ہیں اور والدین بھی اپنی جان چھڑانے کے لیے انھیں اپنا موبائل دیکر ایک علیحدہ کمرے میں محدود کر دیتے ہیں اور خود دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
*وارننگ*
چھوٹے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں کیونکہ اسکی ریڈیائی لہروں سے آنکھوں اور خطرناک قسم کے دماغی کنسر اور دیگر پیچیدہ بیماریوں کا بہت بڑا خطرہ موجود ہے۔
یہ اک تلخ حقیقت ہے کہ اللہ بچائے تو بچائے لیکن انسان انٹرنیٹ کے منفی اثرات سے قطعا" نہیں بچ سکتا۔
*یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موبائل فون ہماری زندگی کا جزلانفک ہو گیا ہے*
*موبائل فون پر رابطہ کرنے کے آداب*
استیذان کا اصل مقصد لوگوں کی ایذا رسانی سے بچنا ہے، تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو ایسے وقت میں فون کرنا جو اس کے سونے یا دوسری ضروریات میں مشغول ہونے کا وقت ہو، بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں بھی وہی ایذا رسانی ہے جو کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے اور اس کی آزادی میں خلل ڈالنے سے ہوتی ہے۔ (معارف القرآن 382/6)
*فون پر طویل گفتگو کرنی ہو تو پہلے اجازت لی جائے*
فون پر اگر لمبی گفتگو کرنے کی ضرورت ہو تو پہلے مخاطب سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو فرصت ہو تو میں اپنی بات عرض کروں، کیوں کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فون کی گھنٹی بجنے پر آدمی طبعا مجبور ہوتا ہے کہ فوراً معلوم کرے کہ کون کیا کہنا چاہتا ہے اور وہ اپنے ضروری کام کو بھی چھوڑ کر فون اٹھاتا ہے، اب اگر کوئی بے رحم آدمی اس وقت فضول لمبی بات کرنے لگے تو سخت تکلیف ہوتی ہے، اس لیے لمبی بات اجازت ملنے کے بعد ہی شروع کرنی چاہیے۔
*فون پر بات کرنے کے لیے اجازت لینا*
جس شخص سے فون پر بات اکثر کرنا ہو تو مناسب یہ ہے کہ اس سے دریافت کرلیا جائے کہ آپ کو فون پر بات کرنے میں کس وقت سہولت ہوتی ہے، جو وقت بتائے اس کی پابندی کیا کرے۔
*اس کمبخت موبائل نے تو ہمارا لیٹرین جانا بھی دوبھر کر دیا ہے*
*فون نہ اٹھانا*
بعض حضرات فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور سننے کے باوجود نہیں اٹھاتے ہیں، یہ اسلامی اخلاق کے خلاف اور بات کرنے والے کی حق تلفی ہے، حدیث میں ہے ”ان لزورک علیک حقا․“ (بخاری حدیث نمبر: 1974، باب حق الضیف فی الصوم) یعنی جو شخص آپ کی ملاقات کو آئے اس کا تم پر حق ہے کہ اس سے بات کرو اور بلاضرورت ملاقات سے انکار نہ کرو، اسی طرح جو آدمی آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اس کا حق ہے کہ آپ اس کو جواب دیں۔
*نا پسندیدہ نمبر بلاک کرنا*
یہ ایک قبیح اخلاقی پستی ہے کی کسی کا نمبر بلاک کر دیا جائے یا اسکی کال بالکل اٹنڈ نہ کی جائے۔
*اس ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال*
مانا کہ دینی تبلیخ میں بھی موبائیل فون کا خصوصا"وٹسایپ کا خاصا
اثر دخل ہے
دنیا بھر کے علماء سے آپ ایک لمحے بھر میں کوئی بھی فتوی یا ماہرانہ رائے لے سکتے ہیں۔
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی ہمیں موبائل اور انٹرنیٹ کے منفی اثرات سے محفوظ فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[08/08, 20:15] Nazir Malik: *جاپان پر ایٹمی حملے کی یادیں*
بدھ 09 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
چھ اگست سنہ 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا۔ اس دھماکے کے بعد 13 مربع کلومیٹر تک کے علاقے میں تباہی پھیل گئی تھی۔
*ہیروشیما*
یہ 6 اگست سنہ 1945 کی بات ہے جب امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا تھا
*"Little boy" specification:*
Mass 4,400 kg
Length 10 feet
Height About 1 foot
Diameter 28 inches
Filling Uranium-235
Filling weight 64 kg
Blast yield 15 kilotons of TNT.
خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان لوگ ہلاک ہوئے جب وائی-12 میں تیار ہونے والے 64 کلوگرام یورینیم-235 والا لٹل بوائے پھٹ پڑا۔
دھماکے سے تقریباً 4.5 کلومیٹر کے دائرے میں 4,000 سینٹی گریڈ سے زیادہ درجۂ حرارت والی لہر پیدا ہوئی۔
*یاد رہے کہ لوہے کو درجہ پگھلاؤ 1538 درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے جبکہ لوہے کا بوالنگ پوانٹ 3000 ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے*
دھماکے میں زندہ بچ جانے والوں میں سے 50 فیصد بعد میں تابکاری سے مر گئے۔
لٹل بوائے کے گرائے جانے کے تین دن بعد امریکی حکومت نے دوسرا ایٹم بم ’فیٹ مین‘ گرایا جو کہ پہلے کے برعکس یورینیم کے بجائے پلوٹونیم سے بنا تھا
9 اگست کو جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرا دیا گیا۔ حالانکہ ناگاساکی اصل نشانہ نہیں تھا۔
تو آخر ناگاساکی نشانہ کیوں بنا
آٹھ اگست 1945 کی رات گزر چکی تھی۔ امریکہ کے بم گرانے والے بی۔ 29 سُوپر فوٹریس طیارے پر بم لدا ہوا تھا۔ بڑے سے تربوز کے سائز والے اس بم کا وزن 4050 کلوگرام تھا۔
اس دوسرے بم کے نشانے پر جاپان کا صنعتی شہر کوکرا تھا۔ یہاں جاپان کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں تھیں۔
صبح نو بج کر پچاس منٹ پر نیچے کوکرا نظر آنے لگا۔ اس وقت بی۔ 29 طیارہ 31 ہزار ٖفٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔
*ناگاساکی پر گرا بم*
لیکن شہر کے اوپر بادل تھے۔ طیارہ فضا میں گھوم کر بادلوں کے ہٹنے کا انتظار کرتا رہا۔ بی۔ 29 پھر سے لوٹ کر کوکرا پر آیا لیکن جب بم گرانے کا وقت آیا تو شہر پر دھوئیں کا قبضہ تھا اور نیچے توپیں آگ اگل رہی تھیں۔
بی۔ 29 کا ایندھن تیزی سے کم ہو رہا تھا اور اب طیارے میں صرف اتنا ایندھن ہی بچا تھا کہ وہ واپس لوٹ سکے۔ طیارہ زیادہ دیر فضا میں انتظار نہیں کر سکتا تھا۔
امریکہ آخر کتنا بُرا ہے؟
اس مہم کے گروپ کپتان لیونارڈ چیشر نے بعد میں بتایا ‘ہم نے صبح نو بجے پرواز شروع کی تو کوکرا نشانے پر تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بادل تھے۔ تبھی ہمیں اس علاقے کو چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ اور ہم دوسرے ٹارگٹ کی طرف بڑھے جو کہ ناگاساکی تھا۔‘
کچھ ہی دیر میں ایک بھاری بھرکم بم تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ 52 سیکینڈ تک گرنے کے بعد بم زمین سے 500 فٹ اونچائی پر پھٹ گیا
*ایٹم بم*
گھڑی میں وقت تھا گیارہ بج کر دو منٹ۔ کھمبی کی شکل کا آگ کا ایک بہت بڑا گولا اٹھا جس کا سائز آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور پورے شہر کو نگل گیا۔
ناگاساکی کے ساحل پر کھڑی تمام کشتیوں میں بھی آگ لگ گئی تھی۔ کوئی یہ جان بھی نہیں سکا کہ ان کے شہر کے ساتھ ہوا کیا۔ احساس ہونے سے پہلے سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔
شہر کے باہر چند جنگی قیدی کانوں میں کام کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے بتایا ‘پورے شہر سے انسانوں کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ کچھ بہت ہی غیر معمولی ہوا ہے۔ ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔ لوگوں کے چہرے، ہاتھ، پیر گل رہے تھے۔ ایٹم بم کے بارے میں ہم نے کبھی نہیں سنا تھا۔‘
ناگاساکی پہاڑوں سے گھرا تھا اس لیے تباہی 6.7 مربع کلومیٹر سے باہر نہیں پھیل سکی۔ بعد میں اندازہ لگایا گیا کہ ہیروشیما میں ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کی موت ہوئی تھی جبکہ ناگاساکی میں مرنے والوں کی تعداد 74 ہزار تھی۔
*الدعاء*
یا اللہ تعالی انسان کے اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے ایٹمی بموں کی تباہ کاریوں سے بچانا۔
یا اللہ تعالی انسان بے شک خسارے میں ہے کیونکہ یہ جلد باز ہے اور اپنی غلطیوں کے معال سے بے خبر اپنی تباہ کاریوں کا خود سامان کر رہا ہے۔
یا رب کائنات دنیا کے یہ جلد باز لوگ تیری سجی سجائی کائنات کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ یَوْمِ السُّوْئِ وَمِنْ لَیْلَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ سَاعَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْئِ وَمِنْ جَارِ السُّوْئِ فِیْ دَارِ الْمُقَامَۃِ۔ (نسائی، ابن ماجہ)
اے اللہ! تیری پناہ چاہتا ہوں بُرے دن، بُری رات، بُری گھڑی سے اور بُرے ساتھی اور بُرے ہمسایہ سے اپنے گھر بار میں۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell:00923008604333
[09/08, 23:13] Nazir Malik: *پڑوسیوں کے حقوق*
جمعرات 10اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
رسول اللہ ﷺ نے پڑوسی کے حقوق کی اہمیت بتائی ہے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے خواہ وہ پڑوسی رشتہ دار ہو یا اجنبی مسلمان ہو یا کافر۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اَلْجِیْرَانُ ثَلٰثَۃٌ جَارٌلَہٗ حَقٌّ وَاحِدٌ وَجَارٌلَہٗ حَقَّانِ وَجَارٌلَہٗ ثَلٰثَۃُ حُقُوْقٍ فَالْجَارُ الَّذِیْ لَہٗ ثَلٰثَۃُ حُقُوْقٍ اَلْجَارُ الْمُسْلِمُ ذُوْالرَّحِمِ فَلَہٗ حَقُّ الْجَوَار وَحَقُّ الْاِسْلَامِ وَحَقُّ الرَّحِمِ وَاَمَّا الَّذِیْ لَہٗ حَقَّانِ فَالْجَارُ الْمُسْلِمُ لَہٗ حَقُّ الْجَوَار وَحَقُّ الْاِسْلَامِ وَاَمَّا الَّذِیْ لَہٗ حَقٌّ وَاحِدٌ فَالْجَارُ الْمُشْرِکُ۔ (بزار)
تین قسم کے پڑوسی ہیں ایک وہ جس کے لیے ایک ہی حق ہے دوسرا وہ جس کے لیے دو حق ہیں اور تیسرا وہ جس کے لیے تین حقوق ہیں۔ جس پڑوسی کے تین حقوق ہیں وہ مسلمان رشتہ دار پڑوسی ہے ایک حق مسلمان ہونے کی حیثیت سے، دوسرا حق رشتہ داری اور صلہ رحمی ہونے کی وجہ سے اور تیسرا حق پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور جس کے دو حق ہیں وہ مسلمان پڑوسی ہے، اسلامی حق اور پڑوس کا حق اور جس کے لیے ایک حق وہ مشرک و کافر پڑوسی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر و مشرک کا بھی پڑوسی ہونے کی وجہ سے حق ہے جس کی ادائیگی مکارم اخلاق میں داخل ہے۔ یہ ہمسائیگی درجہ بدرجہ چالیس گھروں تک رہتی ہے
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں فلاں محلے میں رہتا ہوں اور سب سے زیادہ قریبی پڑوسی مجھے ستاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے سیدنا ابوبکر و عمر اور علی رضی اللہ عنہم کو بھیجا کہ وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر پکار پکار کر یہ اعلان کریں کہ چالیس گھروں تک ہمسائیگی ہے اور جس کا ہمسایہ اپنے ہمسایہ کی تکلیفوں سے خوف کھاتا ہے وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (طبرانی، ترغیب)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ستانا اور تکلیف دینا بڑی بے انصافی اور گناہ کبیرہ ہے، لیکن جہاں تک ہوسکے مظلوم پڑوسی ظالم پڑوسی کی تکلیفوں پر صبر کرے اور اگر ناقابل برداشت ہو تو اپنے گھر کے سامان کو باہر راستے میں ڈالے تاکہ آنے جانے والے اس ظالم پڑوسی کو بُرا بھلا کہیں، ممکن ہے کہ وہ اس کی تکلیف رسانی سے باز آجائے۔ رسول اللہ ﷺنے یہی ترکیب بتائی ہے۔
چنانچہ ترغیب و ترہیب میں ہے کہ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَشْکُوْا جَارَہٗ فَقَالَ اِطْرَحْ مَتَاعَکَ عَلٰی طَرِیْقٍ فَطَرَحَہٗ فَجَعَلَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ عَلَیْہِ وَیَلْعَنُوْنَہٗ فَجَائَ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللہِ لَقِیْتُ مِنَ النَّاسِ قَالَ وَمَا لَقِیْتَ مِنْھُمْ قَالَ یَلْعَنُوْنَنِیْ قَالَ قَدْ لَعَنَکَ اللہُ قَبْلَ النَّاسِ فَقَالَ اِنَّنِیْ لَا اَعُوْدُ فَجَائَ الَّذِیْ شَکَاہُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِرْفَعْ مَتَاعَکَ فَقَدْ کُفِیْتَ۔ (طبرانی، بزار)
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺکے پاس آکر اپنے پڑوسی کی ایذا رسانی کی شکایت کی، آپ نے صبر کی تلقین فرمائی۔ اس کے متعدد بار شکایت کرنے کی وجہ سے آخری دفعہ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر کے سامان کو نکال کر راستہ میں ڈال دو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ جو لوگ اس راستہ سے گزرتے، ماجرا سُن کر اس تکلیف رساں پڑوسی کو بُرا بھلا کہتے اور اس پر لعنت و پھٹکار بھی کرتے۔ اس نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں عرض کیا کہ لوگوں سے مجھے بہت تکلیف پہنچ رہی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تکلیف پہنچ رہی ہے۔ اس نے کہا کہ لوگ مجھے لعن طعن کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کے لعن طعن کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ تجھے لعن طعن کررہا ہے، کیوں کہ تم نے پڑوسی کو تکلیف پہنچائی ہے۔ اس نے کہا کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ شکایت کرنے والے نے رسول اللہ ﷺکے پاس حاضر ہو کر یہ سب حال بیان کیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم اپنا سامان اُٹھا لو کیوں کہ تمہاری کفایت کردی گئی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کی ایذارسانی پر حتی الامکان صبر کرنا چاہیے۔ جب معاملہ حد سے بڑھ جائے تو گھر کے سامان کو راستہ میں ڈال دے۔ جب لوگوں کو پڑوسی کی تکلیف رسانی کی خبر ہوگی تو وہ اس تکلیف رساں پڑوسی کو بُرا بھلا کہیں گے تو وہ اس کو تکلیف دینے اور مصیبت میں ڈالنے سے باز رہے گا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل فرمایا ہے:
قَاَل رَجُلٌ یَارَسُوْلَ اللہِ اِنَّ لِیْ جَارًا یُوْذِیْنِیْ فَقَالَ اِنْطَلِقْ فَاَخْرِجْ مَتَاعَکَ اِلَی الطَّرِیْقِ فَانْطَلَقَ فَاَخْرَجَ مَتَاعَہٗ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَیْہِ فَقَالُوْا مَا شَانُکَ قَالَ لِیْ جَارٌ یُوْذِیْنِیْ فَذَکَرْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنْطَلِقْ فَاَخْرِجْ مَتَاعَکَ اِلَی الطَّرِیْقِ فَجَعَلُوْا یَقُوْلُوْنَ اَللّٰھُمَّ الْعَنْہُ اَللّٰھُمَّ اَخْزِہٖ فَبَلَغَہٗ فَاَتَاہُ فَقَالَ اِرْجِعْ اِلٰی مَنْزِلِکَ فَوَاللہِ لَایُوْذِیْکَ۔
اس حدیث کا خلاصہ مطلب وہی ہے جو پہلی حدیث میں آچکا ہے۔
اور بُرے پڑوس سے بچنے کے لے رسول اللہ ﷺیہ دعاء پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ یَوْمِ السُّوْئِ وَمِنْ لَیْلَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ سَاعَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْئِ وَمِنْ جَارِ السُّوْئِ فِیْ دَارِ الْمُقَامَۃِ۔ (نسائی، ابن ماجہ)
اے اللہ! تیری پناہ چاہتا ہوں بُرے دن، بُری رات، بُری گھڑی سے اور بُرے ساتھی اور بُرے ہمسایہ سے۔
*نیک پڑوسی باعث خیر و رحمت و برکت ہے*
اور اس کی نیکی کی وجہ سے پاس پڑوس کے سو گھرانوں سے مصیبتوں کو اللہ تعالیٰ دُور فرما دیتا ہے۔ نیک پڑوسی کی بہت فضیلت ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ لَیْدَفَعُ بِالْمُسْلِمِ الصَّالِحِ عَنْ مِائَۃِ اَھْلِ بَیْتٍ مِنْ جِیْرَانِہِ الْبَلَآئَ ثُمَّ قَرَأَوَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ۔ (طبرانی)
اللہ تعالیٰ نیک مسلمان کی برکت سے سو پڑوسی کے گھرانے سے مصیبت کو دُور کردیتا ہے پھر اس کی تائید میں آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ بعض کے ذریعہ بعض مصیبتوں کو دُور فرما۔
نیک پڑوسی باعث سعادت اور موجب برکت ہے اور بُرا پڑوسی باعث نحوست ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَرْبَعٌ مِّن السَّعَادَۃِ اَلْمَرْئَ ۃُ الصَّالِحَۃُ وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ وَالْجَارُ الصَّالِحُ وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیءُ وَاَرْبَعٌ مِّن الشَّقَآئِ اَلْجَارُ السُّوْئُ وَالْمَرْئَ ۃُ السُّوْئُ وَالْمَرْکَبُ السُّوْئُ وَالْمَسْکَنُ السُّوْئُ (ابن حبان)
چار چیزیں نیک بختی کے سبب ہیں (۱) نیک بیوی (۲) کشادہ مکان (۳) نیک پڑوسی (۴) اچھی اور فرماں بردار سواری جو اپنے سوار کو تکلیف نہ پہنچائے اور چار چیزیں باعث شقاوت اور موجب نحوست ہیں (۱) بُرا پڑوسی (۲) بُری بیوی (۳) بُری سواری (۴) بری سواری (5) تنگ مکان۔
*الدعاَء*
اے اللہ! تیری پناہ چاہتا ہوں بُرے دن، بُری رات، بُری گھڑی سے اور بُرے ساتھی اور بُرے ہمسایہ سے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[10/08, 16:00] Nazir Malik: *معشرات سبعہ*
جمعہ 11 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ حدیث 1190*
نماز تہجد سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسبیح و دعاء
وَعَنْ شَرِیْقِ الْھَوْزَنِیِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عَآئِشَۃَ فَسَأَلْتُھَا بِمَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَفْتَتِحُ اِذَا ھَبَّ مِنَ اللَّیْلِ فَقَالَتْ سَأَلْتَنِی عَنْ شَیْ ءٍ مَا سَأَلَنِی عَنْہ، اَحَدٌ قَبْلَکَ کَانَ اِذَا ھَبَّ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ عَشْرًا وَّ حَمِدَ اﷲَ عَشْرًا وَقَالَ سُبْحَانَ اﷲِ وَبِحَمْدِہٖ عَشْرًا وَّ قَالَ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ عَشْرًا وَّ اَسْتَغْفِرُاﷲَ عَشْرًا وَّ ھَلَّلَ اﷲُ عَشْرًا ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ ضِیْقِ الدُّنْیَا وَضِیْقِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ عَشْرًا ثُمَّ یَفْتَتِحُ الصَّلٰوۃَ۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت شریق الہوزنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہونے کے بعد (عبادت) کس چیز سے شروع کرتے تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ تم نے مجھ سے (آج) وہ چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھی (تو سنو کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو بیدار ہوتے تو (پہلے ) اللہ اکبر دس مرتبہ الحمد اللہ دس مرتبہ، سبحان اللہ وبحمدہ دس مرتبہ، سبحان الملک القدوس دس مرتبہ کہتے، دس مرتبہ استغفار کرتے،
لا الہ الا اللہ دس مرتبہ کہتے اور دس مرتبہ یہ کہتے : اللھم انی اعوذ بک من ضیق الدنیا وضیق یوم القیامۃ (اے پروردگار ! میں تجھ سے دنیا کی تنگی (یعنی سختیوں) اور آخرت کی تنگی سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد شروع فرماتے ) " (ابوداؤد)
تشریح
صوفیاء کرام رحمہم اللہ کے ہاں دس تسبیحات ہیں جو سات سات مرتبہ پڑھی جاتی ہیں اور جنہیں ان کی اصطلاح میں " مسبعات عشرۃ " کہتے ہیں ، اس حدیث میں سات تسبیحات ہیں جنہیں دس دس مرتبہ پڑھنا ذکر کیا گیا ۔ چنانچہ صوفیاء کی اصطلاح " مسبعات عشرہ" کے مقابلہ میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں اس حدیث میں مذکورہ تسبیحات اور ان کے اعداد کو " معشرات سبعہ" کہتے ہیں
*الدعاَء*
یا ہمارے رب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[11/08, 20:05] Nazir Malik: *علم الانسان مالم یعلم*
ہفتہ 12 اگست 2023
کاوش:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
علم الانسان مالم یعلم (5:96) ” اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو انسان نہ جانتا تھا “۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک نے زندگی کے ابتدائی دور ہی میں اس حقیقت کو اخذ فرمایا اور آپ کی سوچ ، آپ کے تصرفات ، آپ کے کلام اور آپ کے عمل اور آپ کے رخ پر اور آپکی پوری زندگی میں یہ شعور چھایا رہا۔ کیونکہ یہ ایمان کا پہلا اصول تھا۔
امام شمس الدین ابو عبداللہ محمد ابن قیم الجوزیہ اپنی کتاب ” زادالمعاد فی ہدی خیر العباد “ میں رسول ﷺ کی سیرت کے اہم خدوخال کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
” اللہ کی یاد اور اس کے ذکر کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ ایک نہایت ہی مکمل انسان تھے ، آپ کی گفتگو کا اہم حصہ ذکر الٰہی اور ذات باری کے متعلق مسائل ہی پر مشتمل ہوتا تھا۔ آپ کے احکام آپ کے مناہی ، اسلامی قوانین کی وضاحت ، اور تمام دوسری ہدایات دراصل ذکر الٰہی ہی کے پہلو تھے ، اللہ کے اسماء وصفات بیان کرنا ، اللہ کے احکام اور شریعت کے مسائل بیان کرنا ، انجام بد سے ڈرانا وغیرہ سب باتیں اللہ کا ذکر ہی تھیں ، پھر اللہ کی نعمتوں پر اس کی تعریف ، اس کی برتری ، اس کی حمد ، اس کی تسبیح اللہ کا ذکر ہی تو تھا ، پھر اللہ سے مانگنا ، دعا کرنا ، اللہ کی طرف راغب ہونا ، اللہ سے ڈرنا ، یہ سب ذکر الٰہی کے مختلف انداز ہی تو تھے ، جب آپ خاموش ہوتے تو بھی یاد الٰہی کرتے ، ہر وقت ہر حال میں آپ کے شعور میں ذات باری موجود ہوا کرتی تھی۔ ہر سانس جو اندر جاتا یا باہر آتا ، آپ کھڑے ہوتے یا بیٹھے ہوتے ، چلتے پھرتے یا سوار ہوتے ، سفر میں ہوتے یا حضر میں ، اقامت پذیر ہوتے یا کوچ کی حالت میں ہوتے ، غرض ہر دم اور ہر حال میں اللہ کو یاد فرماتے “۔
آپ جب نیند سے بیدار ہوتے تو فرماتے۔
الحمدللہ الذی ............................ النشور ” اس ذات کے لئے حمدوثنا ہے جس نے ہمیں موت دینے (نیند) کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے “۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ رات کو جب کبھی ، اچانک بیدار ہوتے تو دس بار ” اللہ اکبر “ کہتے اور دس بار تہلیل کرتے یعنی کہتے۔
لاالہ الا اللہ ” نہیں ہے کوئی حاکم مگر اللہ “۔ اور اس کے بعد دس بار یہ دعا پڑھتے۔
*اللھم انی اعوذبک من ضیق الدنیا ومن ضیق یوم القیمة*
اے اللہ میں دنیا کی تنگی اور آخرت کی تنگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں “۔
اس کے بعد آپ نماز شروع کرتے۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ حضور ﷺ جب رات کو جاگتے تو یہ دعاء پڑھتے۔
*لا الہ الا انت سبحانک الھم استغفرک لذنبی واسئلک رحمتک اللھم زدنی علما ولا تزع قلبی بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمة انک انت الوھاب (ابوداﺅد)*
” اے اللہ تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ، تو پاک ہے اور برتر ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں ، اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما اور میرے دل کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کر ، اور مجھے اپنی جانب سے رحمت عطا فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا ہے “۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو اور کہے۔
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ الحمد للہ وسبحان اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ” نہیں کوئی حاکم مگر اللہ صرف وہی حاکم ہے ، اسکے ساتھ کوئی شریک نہیں ، بادشاہت اسی کی ہے ، تعریف اسی کی ہے ، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، وہی پاک ہے ، ہر عیب سے ۔ اس کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ اللہ ہی بڑا ہے ، کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں مگر اللہ کے ذریعہ ہی ہے ، جو بلند اور عظیم ہے “۔ اور پھر وہ یہ دعاء کرے۔
اللھم اغفرلی ” اے اللہ ، مجھے بخش دے “۔ یا کوئی اور دعاء کرے تو یہ دعا قبول ہوگی اور اگر وہ وضوء کرکے نماز بھی ادا کرے تو نماز قبول ہوگی (بخاری) ۔
ایک بار حضرت ابن عباس ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس رات گزاری۔ فرماتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ نے آسمان کی طرف سراٹھایا اور سورة آل عمران کی دس آیات
انا فی خلق السموت سے آخر تک تلاوت کیں اور پھر اللہ کی حمد یوں بیان کی۔
اللھم لک احمد انت نور السموت والارض ومن فیھن۔ لک الحمد انت قیم السموات والارض ومن فیھن۔ ولک الحمد انت الحق وعدک الحق وقولک الحق ولقائک الحق والجنة حق والنار حق والنبیون حق ، ومحمد حق ، والساعة حق اللھم لک اسلمت وبک امنت وعلیک توکلت والیک انبت وبک خاصمت والیک حاکمت فاغفرلی ماقدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت انت الھی لا الہ الا انت ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔
” اے اللہ سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ، تو ہی زمین اور آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ، ان کا نور ہے ، سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں ، تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان سب چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے ، حمد تیرے ہی لئے ہے ۔ تو حق ہے تیرا وعدہ حق ہے ، تیری بات حق ہے ، تجھ سے ملناحق ہے ، جنت حق ہے ، آگ حق ہے ، نبی حق ہیں ، محمد حق ہیں ، قیامت حق ہے۔ اے اللہ میں تیرا مطیع فرمان ہوں تیرے اوپر ایمان لانے والا ہوں ، آگ حق ہے ، نبی حق ہیں ، محمد حق ہیں ، قیامت حق ہے۔ اے اللہ میں تیرا مطیع فرمان ہوں تیرے اوپر ایمان لانے والا ہوں ، تجھ پر توکل کرنے والا ہوں ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں تیری ہی خاطر لڑا ، اور سب معاملات تیرے ہی سامنے پیش کیے۔ اس لئے مجھے معاف کردے۔ میری اگلی اور پچھلی غلطیوں کو معاف کردے ، جو پوشیدہ رکھا اور جو علانیہ کیا ، تو ہی مرا حکم ہے اور تیرے سوا کوئی حاکم نہیں ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی تدبیر اور کوئی قوت نہیں ہے ، جو علی وعظیم ہے “۔
اور حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے ، حضور جب رات کو قیام فرماتے تو یہ دعاء پڑھتے۔
*اللھم رب جبرائیل ومیکائیل واسرافیل فاطر السموات والارض عالم الغبت والشھادة انت منکم بین عباد لئفیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم*
” اور اللہ ، جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ، زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کھلی اور پوشیدہ ہر چیز کو جاننے والے ، تو فیصلہ کرنے والا ہے ان چیزوں کا جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں ، حق کی جن باتوں میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے ان کے بارے میں مجھے راہ راست کی طرف ہدایت کر ، بیشک تو جسے چاہتا ہے راہ راست کی طرف ہدایت کرتا ہے “۔ انہوں نے غالباً یہ کہا کہ حضور ﷺ نماز کا آغاز اسی دعاء سے کرتے تھے۔
اور جب آپ وتر پڑھتے تھے تو وتر سے فارغ ہونے کے بعد آپ
*سبحان الملک القدوس*
تین بار پڑھتے تھے اور تین بار با آواز بلند پڑھتے تھے ۔ اور تیسری بار ذرا لمبی آواز کے ساتھ۔
آپ جب اپنے گھر سے نکلتے تھے تو یہ دعاء پڑھا کرتے تھے۔
*بسم اللہ توکلت علی اللہ اللھم انی اعوذ بک من ان اضل اواضل اوازل اواظلم اواظلم او اجھل اویجھل علی۔ (حدیث صحیح)*
” اللہ کے نام سے شروع کیا ، اللہ پر بھروسہ کیا ، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں گمراہ ہوجاﺅ، یا گمراہ کردیا جاﺅں یالغزش کروں یا میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے میں کسی سے جھگڑوں یا مجھ سے ناحق جھگڑا کیا جائے “۔
اور حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے نکلے وقت یہ دعاء پڑھے۔
بسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوة الا باللہ۔
” شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے ، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور نہیں ہے کوئی تدبیر اور کوئی قوت مگر اللہ کے ساتھ “۔ تو اللہ کی طرف سے ایسے شخص کو کہا جاتا ہے۔
ھدیت وکفیت ورفیت ” تمہیں راہ راست ملی ، تمہاری حاجت پوری ہوئی اور تمہیں پورا پورا اجر ملا “۔ اور شیطان اس کنارہ کش ہوجائے گا (حدیث حسن)
حضرت ابن عباس ؓ ایک رات آپ کے پاس رہے تو فرماتے ہیں کہ صبح کو جب آپ نماز کے لئے نکلے تو آپ نے یہ دعاء پڑھی۔
اللھم اجعل قلبی نوراء واجعل فی لسانی نوراء واجعل فی سمعی نورا ، واجعل فی بصری نورا ، واجعل فی خلفی نورا ، ومن امامی نورا وجعل من فوقی نورا ، واجعل من تحتی نورا اللھم اعظم لی نورا۔
” اے اللہ ، میرے دل میں تو نور دے ، میری زبان کو منور کردے ، میرے کانوں میں نور ڈال دے ، میری آنکھوں میں روشنی کردے ، میرے پیچھے روشنی کردے ، میرے آگے روشنی کردے ، میرے اوپر روشنی کردے ، میرے نیچے روشنی کردے اور میرے نور کو عظیم کردے “۔
فضل ابن مرزوق نے عطیہ عوفی سے روایت کی ہے ، انہوں نے ابوسعید خدری سے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی اپنے گھر سے نماز کے لئے نکلے اور یہ دعا پڑھے۔
اللھم انی اسئلک بحق السائلین علیک وبحق ممشائی الیک فائی لم اخراج بطور اولا اشراولا ریاء ولا سمعة وانما خرجت اتقاء سخطک وابتغاء مرضاتک اسئلک ان تنقذنی من النار وان تغفرلی ذنوبی فانہ لایغفرالذنوب الاانت۔
” اے اللہ میں تجھ سے ان سوال کرنے والوں کے حق کے ذریعہ سوال کرتا ہوں ، جو تجھ پر ہے ، پھر میری جانب سے تیری طرف چلنے کے حق سے سوال کرتا ہوں ، کیونکہ میں نہ غرور کرتا ہوا نکلا ہوں اور نہ اکڑتا ہوا نکلا ہوں ، نہ ریاکاری سے اور شہرت کی طلب میں نکلا ہوں۔ تیرے غضب سے بچنے کے لئے نکلا ہوں اور تیری رضاکا طلبگار ہوں ، میرا سوال یہ ہے کہ مجھے آگ سے بچا دے ، میرے گناہوں کو بخش دے ، گناہ بخشنے والا تو تو ہی ہے “۔ تو اللہ ستر ہزار فرشتے مقرر فرمائے گا جو اس کے لئے بخشش طلب کریں گے اور اللہ اس کی طرف اپنا چہرہ مبارک کرے گا جب تک وہ نماز ادا نہیں کرتا (یہ حدیث سندا ومتنا ضعیف ہے)
امام ابوداﺅد نے روایت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے۔
اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم و سلطانہ القدیم من الشیطن الرجیم۔
” میں شیطان رجیم سے اللہ عظیم کی پناہ مانگتا ہوں ، اس کے مکرم چہرے کی پناہ مانگتا ہوں اور اس کے قدیم اقتدار میں پناہ مانگتا ہوں “۔ جب کوئی یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اس شخص نے پورے دن کے لئے اپنے آپ کو مجھ سے محفوظ کرلیا۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو ، تو چاہئے کہ وہ مجھ پر صلوٰة وسلام پڑھے اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے۔
اللھم افتح لی ابواب رحمتک۔
” اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے “۔ اور جب مسجد سے نکلے تو یہ کہے۔
*اللھم انی اسئلک من فضلک*
” اے اللہ میں تیرے فضل کا سوالی ہوں “۔
اور آپ سے یہ نقول ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوتے تو محمد اور آل محمد پہ صلوٰة وسلام بھیجتے اور پھر کہتے۔
*اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک*
” اے اللہ میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے اور جب آپ نکلتے تو پھر بھی حضرت محمد اور آل محمد پر صلوٰة وسلام بھیجتے اور پھر کہتے۔
اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی باب رحمتک۔
” اے اللہ ! میرے گنہ معاف کردے اور میرے لئے اپنے فضل کا دروازہ کھول دے “۔
” حضور اکرم ﷺ کی عادت تھی کہ جب صبح کی نماز پڑھتے تو مصلے پر بیٹھتے اور اللہ کو یاد فرماتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ جب صبح ہوتی تو آپ فرماتے۔ :
*اللھم بک اصبحنا وبک اسینا وبک نحیا وبک نموت والیک النشور (حدیث صحیح)*
” اللہ تیرے ہی حکم سے ہم صبح تک پہنچتے ہیں اور تیرے ہی ختم سے ہماری شام ہوتی ہے اور تیرے ہی حکم سے ہم زندہ رہتے ہیں اور تیرے ہی حکم سے ہم مرتے ہیں اور تیرے ہی طرف ہم نے زندہ ہوکراٹھنا ہے “۔ اور آپ یہ کلمات بھی کہا کرتے تھے :
*اصبحنا واصبح الملک للہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ وحد لاشریک لہ۔ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ رب اسئلک خیر مافی ھذا الیوم وخیر مابعدہ واعوذبک من شر ھذا الیوم وشرمابعدہ رب اعوذبکمن الکس وسوء الکبر رب اعوذبک من عذاب فی النار و عذاب فی القبر*
” ہم صبح میں داخل ہوئے اور تمام اقتدار اللہ کے لئے ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ، اللہ کے سوا کوئی حاکم نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کی بادشاہت ہے ، اس کی تعریف ہے اور وہ عر چیز پر قدرت رکھتا ہے اے اللہ میں تجھ سے اس دن کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کے بعد کے دن کی بھی اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس دن کے شر سے اور اس کے بعد کے دن کے شر سے اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے بڑھاپے کی کمزوریوں سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ میں آگ کے عذاب اور قبر کے عذاب سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں “۔ اور شام ہوتی تو آپ یہی دعا یوں پڑھتے :
*امسینا وامسی الملک بعد ” ہم شام کے وقت تک پہنچے اور بادشاہت اللہ کے لئے ہے تاآخر (مسلم)*
اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے ایسے کلمات بتائیے کہ میں صبح وشام کہوں تو آپ نے فرمایا یہ کلمات کہا کریں :
*اللھم فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادة رب کل شئی ملیکة ومال کہ اشھد ان لا الہ الاانت۔ اعوذبک من شر نفسی وشر الشیطن وشرکہ وان اقترف علی نفسی سو اور اجرہ الی مسلم*
” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ظاہر اور غیب کے جاننے والے ، ہر چیز کے رب حکمران اور مالک ، میں شہادت دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ میں اپنے نفس اور شیطان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے نفس کو نقصان پہنچاﺅں یا کسی مسلمان کی طرف نقصان کا رخ کروں “۔ اس کے بعد اس باب میں انہوں نے بہت سی احادیث نقل کیں۔
” اور حضور اکرم ﷺ جب نیا کپڑا پہنتے تھے تو اس کا نام لیتے تھے یعنی پاجامہ ، قمیص اور چادر پھر یہ پڑھتے تھے۔
*اللھم لک الحمد انت کسوتنیہ اسئلک خیرہ وخیر ماصنع لہ واعوذبک من شرہ وشرما صنع لہ*
” اے اللہ ، سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔ یہ تو نے مجھے پہنایا ہے۔ میں تجھ ہی سے اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس مقصد کی بھلائی چاہتا ہوں جس کے لئے یہ بنا اور تجھ ہی سے اس کے شر اور اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کے لئے اسے بنایا گیا “۔ (حدیث صحیح)
” آپ سے یہ بھی منقول ہے کہ جب آپ اپنے گھر کو لوٹتے تھے تو یہ دعاء پڑھتے تھے۔
*الحمدللہ الذی کفانی واوانی والحمدللہ الذی اطعمنی وسقانی والحمد للہ الذی من علی اسئلک ان تجیرنی من النار*
” اس خدا کی تعریف جو میرے لئے کافی ہو اور جس نے مجھے ٹھکانا دیا۔ اس خدا کی تعریف جس نے مجھے کھلایا پلایا ، اس خدا کی تعریف جس نے مجھ پر احسان کیا۔ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تم مجھے آگ سے بچا “۔
اور صحیحین میں یہ روایت مروی ہے کہ آپ جب بیت الخلا کو جاتے تھے تو یہ فرماتے۔
اللھم انی اعوذبک میں الخبث والخبائث۔
” اے اللہ میں گندی چیزوں اور گندی باتوں سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں “۔ اور جب آپ بیت الخلاء سے نکلتے تھے فرماتے۔
*غفرانک* ” اے اللہ میں تیری مغفرت طلب کرتا ہوں “۔ اور یہ بھی آتا کہ آپ یہ الفاظ فرماتے۔
*الحمد للہ الذی اذھب عینی الاذی وعافانی*
” اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھ سے تکلیف وہ چیز دور کردیا اور عافیت بخشی “۔ (ابن ماجہ)
اور آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے اپنا دست مبارک ایک برتن میں ڈالا جس میں پانی تھا اور پھر صحابہ ؓ سے کہا ، اللہ کے نام سے وضوکرو اور آپ سے بھی منقول ہے کہ آپ چاند دیکھتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔
*اللھم اھلہ علینا بالا من والا ایمان والسلامة والاسلام ربی وربک اللہ*
” اے اللہ ! اس چاند کو ہم پر امن ، ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ نکال۔ اے چاند میرا رب تیرا رب اللہ ہے “۔ (ترمذی)
اور جب آپ کھانے میں ہاتھ ڈالتے تو بسم اللہ پڑھتے اور لوگوں کو حکم دیتے کہ بسم اللہ کہہ کر کھاﺅ، اور فرماتے جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اس پر اللہ کا نام لے ، اگر وہ بھول جائے اور آغاز میں نہ کہہ سکے تو یوں کہے۔
*بسم اللہ فی اولہ واخرہ*
” اللہ کے نام سے آغاز میں بھی اور آخر میں بھی “۔ (صحیح)
یہ تھی حضور ﷺ کی زندگی اور اس پوری زندگی میں آپ اس ہدایت پر عمل پیرا تھے جو آغاز وحی میں کی گئی تھی۔ اور آپ کا ایمان ، آپ کے نظریات اور آپ کے افعال وحرکات میں یہ بات رچ بس گئی تھی۔
اس حقیقت کے تقاضے تو یہ تھے کہ انسان اللہ کی معرفت حاصل کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ، یعنی اس حقیقت پر کہ اللہ نے اسے پیدا کیا ، اس نے علم سکھایا ، اور اسے تمام مخلوقات میں مکرم بنایا ، لیکن انسان نے ایسا نہ کیا بلکہ وہ اس سے بالکل الٹا چلا اور اس کا انحراف کیا۔
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم تیرے بندے ہیں بیشک تیرے گناہگار ہیں مگر تجھے اپنا رب مانتے۔ اپنا رزاق مانتے ہیں۔ ہر مشکل میں تجھ سے ہی دعاء اور مدد مانگتے ہیں ہماری آخری امید بس تیری ذات اقدس ہے اگر تو ہماری خطائیں معاف نہیں کرے گا تو کون دوسرا کرے گا کیوں کہ تیری ذات کے علاوہ تیری اس وسیع کائنات میں تیرے علاوہ کوئی معاف کرنے والا نہیں ہے تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذہ ہمارے سارے گناہ اپنی رحمت کے وسیلے سے معاف فرما دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[12/08, 19:21] Nazir Malik: *مرغی کے انڈے کھانے کے حیران کن فوائد*
اتوار 13 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
مرغی کے انڈوں میں کئی وٹامنز اور منرلز ہوتے ہیں جو صحت مند غذا کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں انڈے آسانی سے دستیاب ، سستی خوراک ہیں۔
ماضی میں ، کچھ تنازعہ تھا کہ انڈے صحت مند ہیں یا نہیں ، خاص طور پر کولیسٹرول کے بارے میں۔ تاہم ، موجودہ سوچ یہ ہے کہ ، اعتدال میں ، انڈے صحت مند ہیں ، کیونکہ وہ پروٹین اور دیگر ضروری غذائی اجزاء کا ایک اچھا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اس آرٹیکل میں انڈوں کے غذائی اجزاء اور ممکنہ صحت کے فوائد اور خطرات کی وضاحت کی گئی ہے۔
انڈوں کے صحت سے متعلق فوائد درج ذیل ہیں جن کی تصدیق انسانی مطالعات میں کی گئی ہے۔
ناقابل یقین حد تک غذائیت سے بھرپور
انڈے دنیا میں سب سے زیادہ غذائیت سے بھرپور غذا ہیں
ایک پورے انڈے میں وہ تمام غذائی اجزاء ہوتے ہیں جو ایک سیل کو چکن میں تبدیل کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں
:ایک بڑے ابلے ہوئے انڈے پر مشتمل ہے
وٹامن اے: آر ڈی اے کا 6 فیصد
فولیٹ: آر ڈی اے کا 5 فیصد
وٹامن بی 5: آر ڈی اے کا 7 فیصد
وٹامن بی 12: آر ڈی اے کا 9 فیصد
وٹامن بی 2: آر ڈی اے کا 15 فیصد
فاسفورس: آر ڈی اے کا 9 فیصد
۔سیلینیم: آر ڈی اے کا 22 فیصد۔
انڈوں میں وٹامن ڈی ، وٹامن ای ، وٹامن کے ، وٹامن بی 6 ، کیلشیم اور زنک کی مناسب مقدار بھی ہوتی ہے۔
یہ 77 کیلوریز ، 6 گرام پروٹین اور 5 گرام صحت مند چربی کے ساتھ آتا ہے۔
انڈوں میں مختلف ٹریس غذائی اجزاء بھی ہوتے ہیں جو صحت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
درحقیقت انڈے ایک بہترین غذا ہیں۔ ان میں تقریبا ہر غذائی اجزاء کا تھوڑا سا حصہ ہوتا ہے جس کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے۔
*انڈے میں کولیسٹرول زیادہ ہے ، لیکن بلڈ کولیسٹرول پر منفی اثر نہیں ڈالتا*
انڈے ایچ ڈی ایل (“اچھا”) کولیسٹرول بڑھاتے ہیں
انڈے کولین پر مشتمل ہیں – ایک اہم غذائی جزو جو زیادہ تر لوگوں کو کافی مقدار میں نہیں ملتی ہے
انڈے دل کی بیماری کے کم خطرے سے منسلک ہیں
انڈے لوٹین اور زییکسینتھین پر مشتمل ہے – اینٹی آکسیڈینٹس جو آنکھوں کی صحت کے لیے بڑے فوائد رکھتے ہیں
اومیگا تھری یا پیسٹرڈ انڈے ٹرائگلیسیرائڈز کو کم کرتے ہیں
معیاری پروٹین سے بھرپور ، صحیح تناسب میں تمام ضروری امینو ایسڈ کے ساتھ دل کے امراض کا خطرہ نہیں بڑھاتے اور فالج کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں
انڈے دماغی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں
کولیسٹرول زیادہ ہے ، لیکن بلڈ کولیسٹرول پر منفی اثر نہیں ڈالتا
یہ سچ ہے کہ انڈوں میں کولیسٹرول زیادہ ہوتا ہے۔
درحقیقت ، ایک انڈے میں 212 ملی گرام ہوتا ہے ، جو 300 ملی گرام روزانہ تجویز کردہ نصف سے زیادہ ہے۔
تاہم ، یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ خوراک میں کولیسٹرول ضروری نہیں کہ خون میں کولیسٹرول بڑھائے ۔
جگر درحقیقت ہر ایک دن بڑی مقدار میں کولیسٹرول پیدا کرتا ہے۔ جب آپ غذائی کولیسٹرول کی مقدار میں اضافہ کرتے ہیں تو ، آپ کا جگر کم کولیسٹرول پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ اسے باہر نکال دیتا ہے ۔
بہر حال ، انڈے کھانے کا ردعمل افراد کے درمیان مختلف ہوتا ہے
70 فیصد لوگوں میں انڈے کولیسٹرول کو بالکل نہیں بڑھاتے۔
دوسرے 30 ((جسے “ہائپر رسپونڈرز” کہا جاتا ہے) میں انڈے ہلکے سے کل اور ایل ڈی ایل کولیسٹرول بڑھا سکتے ہیں۔
تاہم ، جینیاتی عوارض میں مبتلا افراد جیسے خاندانی ہائپر کولیسٹرولیمیا یا جین کی ایک قسم جسے اے پی او ای 4 کہا جاتا ہے ان کو انڈوں کو محدود کرنا یا ان سے بچنا چاہئے۔
*انڈے ایچ ڈی ایل (“اچھا”) کولیسٹرول بڑھاتے ہیں*
ایچ ڈی ایل کا مطلب ہے ہائی ڈینسٹی لیپو پروٹین۔ اسے اکثر “اچھا” کولیسٹرول کہا جاتا ہے۔
جو لوگ ایچ ڈی ایل کی زیادہ سطح رکھتے ہیں ان میں عام طور پر دل کی بیماری ، فالج اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے
انڈے کھانا ایچ ڈی ایل کو بڑھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ ایک تحقیق میں ، چھ ہفتوں تک روزانہ دو انڈے کھانے سے ایچ ڈی ایل کی سطح میں 10 فیصد اضافہ ہوا
انڈے کولین پر مشتمل ہیں – ایک اہم غذائی جزو جو زیادہ تر لوگوں کو کافی مقدار میں نہیں ملتی ہے
کولین ایک غذائیت سے بھرپور جزو ہے جسے زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ وہ موجود ہے ، پھر بھی یہ ایک ناقابل یقین حد تک اہم مادہ ہے اور اکثر وٹامن بی کے ساتھ گروپ کیا جاتا ہے۔
کولین کو سیل جھلیوں کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور دماغ میں سگنلنگ مالیکیول بنانے کے ساتھ ساتھ مختلف دیگر افعال کے ساتھ اس کا کردار ہے۔
کولین کی کمی کی علامات سنگین ہیں ، لہذا خوش قسمتی سے یہ نایاب ہے۔
انڈے کولین کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ ایک انڈے میں 100 ملی گرام سے زیادہ اہم غذائی اجزاء ہوتے ہیں۔
انڈے دل کی بیماری کے کم خطرے سے منسلک ہیں
ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو عام طور پر “برا” کولیسٹرول کہا جاتا ہے۔
یہ بات مشہور ہے کہ ایل ڈی ایل کی زیادہ مقدار دل کی بیماری کے بڑھتے ہوئے خطرے سے منسلک ہے ۔
لیکن بہت سے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ایل ڈی ایل ذرات کے سائز کی بنیاد پر ذیلی قسموں میں تقسیم ہے۔
یہ چھوٹے ، گاڑھے ایل ڈی ایل ذرات اور بڑے ایل ڈی ایل ذرات پر مستمل ہیں۔
بہت سے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں میں بنیادی طور پر چھوٹے ، گاڑھے ایل ڈی ایل ذرات ہوتے ہیں ان لوگوں کے مقابلے میں دل کی بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جن میں زیادہ تر بڑے ایل ڈیل ایل ذرات ہوتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر انڈے کچھ لوگوں میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو ہلکے سے بڑھاتے ہیں ، مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ذرات چھوٹے ، گاڑھے سے بڑے ایل ڈی ایل میں تبدیل ہوتے ہیں ، جو کہ بہتری ہے
انڈے لوٹین اور زییکسینتھین پر مشتمل ہے – اینٹی آکسیڈینٹس جو آنکھوں کی صحت کے لیے بڑے فوائد رکھتے ہیں
بڑھاپے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بینائی خراب ہونے لگتی ہے۔
بہت سے غذائی اجزاء ہیں جو کچھ انحطاطی عملوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتے ہیں جو ہماری آنکھوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔
ان میں سے دو لوٹین اور زییکسینتھین کہلاتے ہیں۔ وہ طاقتور اینٹی آکسیڈینٹ ہیں جو آنکھ کے ریٹنا میں جمع ہوتے ہیں
مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان غذائی اجزاء کی مناسب مقدار کا استعمال موتیابند اور میکولر انحطاط کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے ، آنکھوں کے دو بہت عام امراض ۔
انڈے کی زردی میں لوٹین اور زییکسینتھین دونوں کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔
ایک کنٹرول شدہ مطالعے میں ، 4.5 ہفتوں تک روزانہ صرف 1.3 انڈے کی زردی کھانے سے خون میں لیوٹین کی سطح 28-50 فیصد اور زیکسانتھین 114-142 فیصد بڑھ گئی
انڈوں میں وٹامن اے بھی زیادہ ہے ، جو یہاں ایک اور ذکر کا مستحق ہے۔ وٹامن اے کی کمی دنیا میں اندھے پن کی سب سے عام وجہ ہے۔
اومیگا تھری یا پیسٹرڈ انڈے ٹرائگلیسیرائڈز کو کم کرتے ہیں
تمام انڈے برابر نہیں بنائے جاتے۔ ان کی غذائیت کی ساخت مختلف ہوتی ہے اس پر منحصر ہے کہ مرغیوں کو کس طرح کھلایا اور بڑھایا گیا تھا۔
مرغیوں کے انڈے جو چراگاہ پر پالے گئے اور/یا کھلایا گیا ومیگا 3 افزودہ فیڈ اومیگا 3 فیٹی ایسڈ میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ومیگا 3 فیٹی ایسڈ ٹریگلیسیرائڈز کے خون کی سطح کو کم کرنے کے لیے جانا جاتا ہے ، جو دل کی بیماری کے لیے ایک معروف خطرے کا عنصر ہے
مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ومیگا 3 افزودہ انڈوں کا استعمال خون کے ٹرائگلیسیرائڈز کو کم کرنے کا ایک بہت مؤثر طریقہ ہے۔ ایک تحقیق میں ، تین ہفتوں تک فی ہفتہ صرف پانچ ومیگا 3 افزودہ انڈے کھانے سے ٹرائگلیسیرائڈز میں 16-18 فیصد کمی واقع ہوئی معیاری پروٹین سے بھرپور ، صحیح تناسب میں تمام ضروری امینو ایسڈ کے ساتھ
*پروٹین انسانی جسم کے اہم بلڈنگ بلاکس ہیں۔*
وہ ہر قسم کے ؤتکوں اور مالیکیول بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو ساختی اور فعال دونوں مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔
خوراک میں کافی پروٹین حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فی الحال تجویز کردہ مقدار بہت کم ہو سکتی ہے۔
انڈے پروٹین کا ایک بہترین ذریعہ ہیں ، ایک بڑا انڈا جس میں چھ گرام ہوتے ہیں۔
انڈوں میں صحیح تناسب میں تمام ضروری امینو ایسڈ بھی ہوتے ہیں ، اس لیے آپ کا جسم ان میں پروٹین کا بھرپور استعمال کرنے کے لیے لیس ہے۔
کافی مقدار میں پروٹین کھانے سے وزن میں کمی ، پٹھوں کے بڑے پیمانے پر اضافہ ، بلڈ پریشر کم کرنے اور ہڈیوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
دل کے امراض کا خطرہ نہیں بڑھاتے اور فالج کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں
کئی دہائیوں سے ، انڈوں کو غیر منصفانہ طور پر برا سمجھا گیا ہے۔
یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان میں موجود کولیسٹرول کی وجہ سے ان کا دل کے لیے برا ہونا ضروری ہے۔
حالیہ برسوں میں شائع ہونے والے بہت سے مطالعات نے انڈے کھانے اور دل کی بیماری کے خطرے کے درمیان تعلقات کی جانچ کی ہے۔
مجموعی طور پر 263،938 شرکاء کے ساتھ 17 مطالعات کے ایک جائزے میں انڈے کی مقدار اور دل کی بیماری یا فالج کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا گیا بہت سے دوسرے مطالعے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں
تاہم ، کچھ مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ ذیابیطس والے لوگ جو انڈے کھاتے ہیں ان میں دل کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے
کیا انڈے دراصل بڑھتے ہوئے خطرے کا سبب بن رہے ہیں ، یہ معلوم نہیں ہے ، کیونکہ اس قسم کے مطالعے صرف شماریاتی وابستگی دکھا سکتے ہیں۔ وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ انڈوں کی وجہ سے کچھ ہوا۔
یہ ممکن ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ انڈے کھاتے ہیں اور ذیابیطس رکھتے ہیں وہ صحت کے حوالے سے اوسط کم ہیں۔
کم کارب غذا پر ، جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اب تک کی بہترین غذا ہے ، انڈے کھانے سے دل کی بیماری کے خطرے والے عوامل میں بہتری آتی ہے
*انڈے دماغی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں*
ایک متوازن غذا تناؤ میں کمی اور بہتر ذہنی صحت کے طریقوں کی طرف بہت آگے جا سکتی ہے – دونوں علامات کے اثرات کو کم کرتے ہیں اور زیادہ کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں۔
اور جب انڈوں کے اہم فوائد کی بات آتی ہے) وٹامن بی 2 ، بی 12 ، کولین ، آئرن اور ٹرپٹوفن کا مجموعہ تمام اضطراب کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کے ساتھ وابستہ ہے ، افسردگی کی علامات اور قدرتی طور پر نیند آنے میں مدد کرتے ہیں۔
*انڈے کھائیں اور صحت مند رہیں*
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[13/08, 20:28] Nazir Malik: *مقصد قیام پاکستان*
14 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا اور حصول پاکستان کا مقصد یہ تھا مسمانوں کو اپنے دین پر آزادی سے عمل کرنے کے لئے ایک آزاد مملکت چاہئیے تھی جہاں پر نفاذ شرعیت محمدی کی جا سکے مگر پاکستان کے بد نیت سیاستدانوں نے آج تک مسلمانوں سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 76 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم اپنے راستے کا تعین نہ کر سکے۔
سیاستدان اور معاشرے کے کرپٹ عناصر پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہی نہیں کیونکہ ان کو اپنی گردن اور ہاتھ کٹتے نظر آتے ہیں
کاش آج بھی ہم سیدھی راہ پر آجائیں جہاں فلاح دارین ہمارا انتظار کر رہی ہے۔
یا اللہ تعالی ہماری رہنمائی فرما اور ہمارے دلوں کو اسلام کی طرف موڑ دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[14/08, 22:55] Nazir Malik: *موت کے بعد انسان کی 9 آرزوئیں۔ اے کاش*
منگل 15 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*۱- (يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا)*
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ (ﺳﻮﺭة النبأ 40#)
*۲-يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي*
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ( ﺍﺧﺮﯼ ) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ لئے ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ
( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ 24)
۳- *يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ*
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ورقہ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)
۴- *يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا*
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ-28)
*۵- يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا*
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍللہ ﺍﻭﺭ اس کے ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66)
۶- يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)
۷- يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ان کے ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73)
۸- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ٹھہرایا ﮨﻮﺗﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)
۹- يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔
ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ جن کا ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ، ﺍسی لئے ﺯﻧﺪﮔﯽ میں ہی اپنے عقائد و عمل کی ﺍﺻﻼﺡ کرنا ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔
ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں سوچنے ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎئے ۔
*آﻣِﻴﻦ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ*
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[15/08, 22:09] Nazir Malik: *یہ دس خوبیاں اپنے اندر پیدا کرلیں، جنت الفردوس آپکی ہوئی (سورۃ المؤمنون1تا 10)*
بدھ 16 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*حصول جنت کے لئے مؤمنین کی دس خوبیاں*
(سورۃ المؤمنون1تا 10)
1۔ یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی۔
2۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔
3۔ جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
4۔ جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں۔
5۔ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
6۔ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔
7۔ جو ان کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں۔
8۔ جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
9۔ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔
10۔ یہی ہیں جو جنت
الفردوس کے وارث ہونگے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
*الدعاء*
یا اللہ تعالی میں تجھ سے جنت الفردوس کا سوال کرتا ہوں فقط تیری رحمت کے وسیلے سے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[16/08, 23:40] Nazir Malik: *انعامات جنت*
جمعرات 17 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*جنت کی خوبی اور اہل جنت کے عیش و آرام:*
بے شک ﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا ، جو ایمان لائے اور جو سچے مسلمان بنے اور جنہوں نے عمل کئے اچھے اور چلے پیغمبر کے طریقے پر ، وہ جنت ایسی ہے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ یہ احوال اس بہشت کا ہے جس کا وعدہ ملا ہے ﷲ پاک کی طرف سے ڈرنے والے موحد مسلمان کو ۔اس بہشت یں کئی قسم کی نہریں ہیں کوئی دودھ کی ہے جس کا مزہ نہیں بدلتا، کوئی صاف پانی کی ہے جس کی بو نہیں پلٹتی ، کوئی شراب کی جو پینے والوں کو لذت دیتی ہے۔کوئی شہد کی جس پر جھاگ نہیں ہوتی۔نہایت صاف اور شیریں خوش ذائقہ بہت پاکیزہ اور ان کے لئے وہاں میوے ہیں ہر قسم کے لذت دار اور ﷲ کی طرف سے ان لوگوں کو وہاں معافی ہے ۔ اور فرمایا:
" تمہارے واسطے وہاں جو تم چاہو گے موجود ہے اور مہمانی ہے ہماری سرکار ہے۔ " (حٰم السجدۃ: ۳۱)
*بہشتیں آٹھ ہیں*
(۱): جنت عدن (۲): جنت الفردوس (۳): جنت الخلد (۴): جنت النعیم
(۵): جنت الماوی (۶): جنت القرار (۷): دار السلام (۸): دار المقام
نہایت خوبیوں کے ساتھ بنائی گئی ہیں ۔بہشت کی دیواریں ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی سے بنائی گئی ہیں اور ان میں مشک کا گارا لگایا گیا ہے ۔ جنت میں کنکریاں موتی، یاقوت کی ہیں ، خاک وہاں کی زعفران اور خوشبودار ہے۔جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ چین و آرام ہائیں گے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ نہ ان کی جوانی فنا ہو گی نہ ان کے کپڑے میلے ہونگے۔ہر جنتی کو جنت میں سو سو درجے اتنے بڑے ملیں گے کہ جیسے آسمان و زمین اور ہر مسلمان واسطے دو باغ ہونگے سونے کے جن کا کل سامان بھی سونے کا ہو گا اور باغ ہونگے چاندی کے جن کا کل سامان بھی چاندی کا ہو گا ۔ ان کے سوا اور ایک ایک محل ملیں گے جن کا عرض و طول ساٹھ ساٹھ میل کا ہو گا۔ہر ایک محل میں پردہ والی بیبیاں رہیں گی جن کو نہ کوئی دیکھے گا اور نہ ان سے سوا ان کے خاوندوں کے اور کوئی مباشرت کرے گا۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جنت نور کی مانند چمکدار ہوتی ہیاور اس کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔جنت میں خوشگوار ہوائیں چلتی ہیں۔جنت کے محل بڑے مضبوط ہیں ۔ ہر محل میں نہریں جاری ہیں۔میوے پکے ہوئے تیار ہیں۔عورتیں کنواری ہیں جن پر کسی آدمی یا جن نے ہاتھ نہیں ڈالا۔چہرے ان کے یاقوت و مونگے سے زیادہ روشن بناؤ سنگھار کئے ہوئے ہر محل میں موجود ہیں کیونکہ بہشت ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: " جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ۔" (بخاری: ۲۷۹۶) اور فرمایا: " جنت والے اونچے محلوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے تم روشن ستاروں کو آسمان کے کناروں پر دیکھتے ہو مشرق و مغرب کی طرف۔" صحابہ نے عرض کیا " یا رسول ﷲ (ﷺ )! ایسے عمدہ محل تو خاص پیغمبروں کے واسطے ہونگے۔" فرمایا " نہیں، قسم ہے ﷲ کی! ان کو میری امت کے مسلمان پائیں گے۔" (بخاری: ۳۲۵۶) اور فرمایا: " ﷲ سے جنت الفردوس مانگو۔" (بخاری: ۲۷۹۰) اور دیکھیں گے بہشتی لوگ جنت کے جھروکوں میں سے بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کو اور نہ دیکھ سکیں گے ایک دوسرے کی بیوی کو اور ان کی بیویاں ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں گی۔جنت میں سایہ دار اس قسم کے درخت ہیں جن پر آبخورے لبریز بھرے ہوئے رکھے ہیں۔شہد ، شراب ، شربت ، دودھ ذائقہ دار اور خوشبو دار ہے اور ان پر تکیے برابر کے لگے ہونگے ۔قالین اور اونچی مسندیں ہیں ان پر بچھائی ہوئی ہیں ، اور فرمایا:
" نیک لوگ نعمتوں کے اندر تختوں پر بیٹھے ہوئے ہر طرف سے تماشے دیکھتے ہوں گے۔ ان کے چہروں سے جنت کی نعمتوں کی سر سبزی پائی جائے گی۔پئیں گے وہ شراب خالص جس پر مشک کی مہریں لگی ہونگی، چاہئے کہ رغبت کرنے والے اس کی رغبت کریں۔ ملاوٹ اسی میں ایک چشمہ سے ہو گی جس میں سے خاص مقرب بندے پئیں گے۔ " (المصطفین: ۲۲ تا ۲۸) فرمایا: " جنتی بندے بہشت میں تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے اپنی بیویوں کو ساتھ لئے بہشت کی نعمتیں کھاتے پیتے سیر و تماشے میں مشغول رہیں گے۔ (یٰسین: ۵۶ تا ۵۵) ہر جنتی کو جنت میں بڑا ملک عطاء کیا جائے گا۔خواہ وہ کیسا ہی کم مرتبہ والا ہے دنیا سے دس حصے زیادہ ، جن میں سے ایک درخت کے نیچے ہو کر تیز گھوڑے کا سوار سو برس تک چلے تو بھی اس کے سایہ کو طے نہ کر سکے۔
جنت کی فراخی اور بڑائی سوائے ﷲ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ جنت کے دروازے اس قدر کشادہ ہیں کہ ایک چوکھٹ سے دوسری چوکھٹ تک چالیس برسوں کا فاصلہ یہے۔باوجود ایسی کشادگی کے محمد ﷺ کی امت والوں کا کھوے سے کھوا چھلتا ہو گا ، جنت میں داخلے کے وقت جب جنتیوں کا سیر کو جی چاہے گا تو اپنے اپنے تختوں پر سوار ہو کر اپنی اپنی عورتوں کو ساتھ لے کر سیر کرنے کو نکلا کریں گے۔یہاں تک ان کا جی چاہے گا ان کا تخت بہشتی ان⁸دہ قیمتی ہے۔ اگر جنت کی ایک عورت دنیا میں جھانکے تو مشرق سے لے کر مغرب تک سب روشن ہو جائے اور چاند و سورج ماند ہو جائیں اور کل اہل دنیا بے ہوش ہو جائیں۔
(رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی اَلدُّنِْیَا حَسَنَۃً وُّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وُّ قِنَا عَذَبَ النََّارِ o)
" اے ﷲ ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔"
(الھم انک عفوٌ تحبُّ العفو فاعف عنَّیْ)
" ائے ﷲ! تو در گزر کرنے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند کرتا ہے ، پس مجھ سے در گزر کر۔"
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell 00923008604333
انعامات جنت
[17/08, 23:18] Nazir Malik: *سورۃ العصر ترجمہ ومختصر تفسیر*
جمعہ 18 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
*وَالْعَصْرِ[1] إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ[2] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ[3]*
زمانے کی قسم! [1] کہ بے شک ہر انسان یقینا گھاٹے میں ہے۔ [2] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔
*مختصر نقصان اور اصحاب فلاح و نجات*
«عصر» سے مراد زمانہ ہے جس میں انسان نیکی بدی کے کام کرتا ہے، زید بن اسلم رحمہ اللہ نے اس سے مراد عصر کی نماز یا عصر کی نماز کا وقت بیان کیا ہے لیکن مشہور پہلا قول ہی ہے۔
اس قسم کے بعد بیان فرماتا ہے کہ انسان نقصان میں، ٹوٹے میں اور ہلاکت میں ہے، ہاں اس نقصان سے بچنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان ہو، اعمال میں نیکیاں ہوں، حق کی وصیتیں کرنے والے ہوں یعنی نیکی کے کام کرنے کی، حرام کاموں سے رکنے کی ایک دوسرے کو تاکید کرتے ہوں، قسمت کے لکھے پر، مصیبتوں کی برداشت پر صبر کرتے ہوں اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہوں۔ ساتھ ہی بھلی باتوں کا حکم کرنے اور بری باتوں سے روکنے میں لوگوں کی طرف سے جو بلائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو ان کو بھی
برداشت کرتے ہوں اور اسی کی تلقین اپنے ساتھیوں کو بھی کرتے ہوں یہ ہیں جو اس صریح نقصان سے مستثنیٰ ہیں
*امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورت کو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایک سورت کافی ہے۔؟*
*عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کی مسیلمہ کذاب سے ملاقات اور گفتگو:*
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے مسلمان ہونے سے پہلے ایک مرتبہ مسیلمہ کذاب سے ملے، اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا تھا، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر پوچھنے لگا، کہو اس مدت میں تمہارے نبی پر بھی کوئی وحی نازل ہوئی ہے، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ایک مختصر سی نہایت فصاحت والی سورت اتری ہے، پوچھا: وہ کیا ہے؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے سورۃ والعصر پڑھ کر سنا دی۔ مسیلمہ ذرا دیر سوچتا رہا پھر کہنے لگا، عمرو! دیکھو مجھ پر بھی اسی جیسی سورت اتری ہے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا وہ کیا؟ کہا: یہ «يَا وَبْر يَا وَبْر إِنَّمَا أَنْتَ أُذُنَانِ وَصَدْر وَسَائِرك حَفْر نَقْر» پھر کہنے لگا، عمرو کہو تمہارا کیا خیال ہے؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال تو تو خود ہی جانتا ہے کہ مجھے تیرے جھوٹے ہونے کا علم ہے ۔ [الخرائطي في مساوئ الاخلاق:173
«وبر» بلی جیسا ایک جانور ہے اس کے دونوں کان ذرا بڑے ہوتے ہیں اور سینہ بھی، باقی جسم بالکل حقیر اور واہیات ہوتا ہے۔ اس کذاب نے ایسی فضول گوئی اور بکواس کے ساتھ اللہ کے کلام کا معارضہ کرنا چاہا جسے سن کر عرب کے بت پرست لوگوں نے بھی اس کا کاذب اور مفتری ہونا سمجھ لیا۔
طبرانی میں ہے کہ دو صحابیوں کا یہ دستور تھا کہ جب ملتے ایک اس سورت کو پڑھتا دوسرا سنتا پھر سلام کر کے رخصت ہو جاتے۔ (طبراني اوسط:5120)
*امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ اس سورت کو غور و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں تو صرف یہی ایک سورت کافی ہے۔؟*
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی ہمیں قرآن مجید کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell 000923008604333
سورۃ العصر ترجمہ و تفسیر
[18/08, 21:32] Nazir Malik: *واپڈا کی نئی سائینس 35 دنوں کا مہینہ 25 فی صد اضافی بل*
ہفتہ 19 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
یہاں ہمارے ہاں واپڈا والوں نے پچھلے ماہ 9 جولائی کو میٹر ریڈنگ لی تھی اور اس ماہ 16 اگست کو ریڈنگ لی گئی جس سے صارف پر ٹوٹل 25 فی صد کا اضافی بل چارج ہو گا ٹیرف سرچاج کی رقم کا اضافی بوجھ بھی صارف کو برداشت کرنا پڑے گا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نا انصافی کا ذمہ دار کون ہے اور واپڈا والوں کی غلطی کی سزا عوام الناس کیوں بھگتیں۔
ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ عوام الناس سے یہ اضافی بل ہٹایا جائے اور اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
یاد رہے کہ عوام حکومت وقت سے ریلیف چاہتی ہے اور حالات وقت کا یہی تقاضہ ہے اور قرینہ انصاف بھی ہے
امید واثق ہے کہ ارباب اختیار اس بے قاعدگی کا سخت نوٹس لیں گے اور واپڈا کے حکام کو آئندہ ایسی غیر قانونی اور غیر انصافی سے باز رکھا جائے گا۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
[19/08, 04:52] Nazir Malik: *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاہدہ عسائیوں کے ساتھ*
ہفتہ 19 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*ایک تاریخی دستاویز*
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانے میں دنیا بھر کے عیسائیوں کو یہ امن کی یہ تحریری دستاویز عطا فرمائی تھی۔
*محمد بن عبداللہ کا یہ معاھدہ اور وعدہ ہے مسیح برادری کے لوگوں کے ساتھ کہ*
1- ان کے گرجا گھروں کو تباہ نہ کرنا
2- گرجا گھروں کو نقصان نہ پہنچانا
3- گرجا گھروں سے سامان مت لے جانا
4- ان کے قاضیوں کو مت بدلنا
5- ان کے پادریوں کو مت بدلنا
6- ان کی عورتوں سے زبردستی شادی مت کرنا جب تک وہ رضامند نہ ہوں
7- ان کی عبادت گاہوں کا احترام کرنا
8- یہ معاہدہ میرا اور میری امت کا مسیحی برادری کے ساتھ تا قیامت ہے
*مشن سٹیٹمنٹ*
ہم مسلمانوں کا دہشت گردی سے کوئ تعلق نہیں اور جو دہشتگردی کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں
ہم دنیا کو امن گا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں آئیں اس
مقصد کے حصول کیلۓ سب ملکر کام کریں۔
طالب الدعاء
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
رسول اللہ کا معاہدہ عسائیوں کے ساتھ
[19/08, 20:42] Nazir Malik: *بچے کی جنس کا انحصار باپ کے نطفے پر ہے*
اتوار 20 اگست 2023
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*جنس کاتعین*
پختہ جنین( foetus) کی جنس کا تعین ( یعنی اس سے لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی) نُطفہ کے خلیے ( sperm) سے ہوتاہے نہ کہ بیضے (ovum) سے۔ مطلب یہ کہ رحم مادر میں ٹھہرے والے حمل سے لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی اسکا انحصار کروموسوم کے ٢٣ ویں جوڑے میں بالترتیب xx / xy کروموسومز کی موجودگی پرہوتاہے۔ ابتدائی طورپر جنس کا تعین بارآوری کے موقع پر ہی ہو جاتا ہے اور اس کا انحصار خلوی نطفے (sperm) کے صنفی کروموسوم (chromosomes) پرہوتاہے۔ جو بیضے کو بار آورکرتاہے۔ اگربیضے کو بارآورکرنے والے سپرم (sperm) میں صنفی کروموسوم x ہے توٹھہرے والے حمل سے لڑکی پیداہوگی۔ اس کے برعکس، اگر اسپرم (sperm) میں صنفی کروموسوم y ہے توحمل کے نتیجے میں لڑکا پیداہوگا۔
وَ اَنَّہ خَلَقَ الذَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَ الْاُ نْثٰی ہ مِنْ نُّطْفَةٍ اِ زَ اتُمْنٰی
ترجمہ:۔ اوریہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیداکیا، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے۔
یہاں عربی لفظ نطفہ کا مطلب تومائع کی نہایت قلیل مقدار ہے جبکہ تمُنٰی کامطلب شدت سے ہونے والا اخراج یا پودے کی طرح بوئی گئی کوئی چیز ہے لہذا نطفہ بطور خاص اسپرم (sperm) ہی کی طرف اشارہ کر رہاہے کیونکہ یہ شدت سے خارج ہوتاہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے۔
اَ لَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍٍّ یُّمْنٰی ہ ثُمَّ کَا نَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰ ی ہ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّ وْ جَیْنِ الذَّ کَرَ وَا لْاُ نْثٰی ط ہ [25]
ترجمہ:۔ کیاوہ ایک حقیرپانی کانطفہ نہ تھا جو(رحم مادرمیں) ٹپکایا جاتاہے؟ پھروہ ایک لوتھڑابنا پھراللہ تعالی نے اس کا جسم بنایااوراسکے اعضاء درست کیے، پھراس سے مرد اور عورت کی دوقسمیں بنایٔیں۔
ملأ خطہ فرمایے کہ یہاں ایک بارپھر یہ بتایا گیاہے کہ نہایت قلیل مقدار ( قطرے) پر مشتمل مادہ تولید( جس کے لیے عربی عبادت نُطْفَةًمّن مَّنِیٍّ واردہوئی ہے ) جو مرد کی طرف سے آتاہے۔ اوریہ رحم مادر میں بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار ہے۔
برصغیرمیں یہ افسوس ناک رواج ہے کہ عام طور پر ساسوں کی پوتیوں سے زیادہ پوتوں کا ارمان ہوتاہے۔ اور اگربہو کے ہاں بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پیداہو رہی ہوں تووہ انہیں اولادِ نرینہ پیدانہ کرسکنے پر طعنہ دیتی ہیں۔ اگرانہیں صرف یہی پتہ چل جاتاکہ اولاد کی جنس کے تعین میں عورت کے بیضے کا کوئی کردار نہیں اور اس کی تمام ترذمہ داری مردانہ نطفے (sperm) پر عائد ہوتی ہے اور اگر پھربھی وہ لعن طعن پر آمادہ ہو تو اُنہیں چاہیے کہ وہ (اولادِنرینہ کے نہ ہونے پر) اپنی بہوؤں کی بجائے اپنے بیٹوں کو طعنہ دیں۔ قرآن پاک اور جدید سائنس دونوں اس بات پر متفق ہے کہ بچے کی جنس کا تعین میں مردانہ تولیدی مواد ہی ذمہ دا رہے، عورت کا اس میں کوئی قصور نہیں.
*الدعا*
*یا اللہ تعالی تیرے راز تو ہی جانے*
یا اللہ تعالی بے اولادوں کو اولاد عطا فرما اور جن کے ہاں بیٹیاں ہیں انھیں بیٹے عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
بچے کی جنس کا انحصار
[21/08, 00:10] Nazir Malik: *فلسطین اور بیت المقدس*
پیر 21 اگست 2023
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نا پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجیئے کہ ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ:
01: یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔
02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔
03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔
04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔
05: حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔
06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ" یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی" رکھ دیا گیا تھا۔
07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔
08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔
انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔
09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔
10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔
11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔
12: قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔
13: اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔
14: فلسطین ہی ارض محشر ہے۔
15: اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔
16: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔
17: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔
18: حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔
19: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔
20: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔
21: وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر
کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔
22: اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
23: دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔
24: بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔
25: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین" انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون" زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔
26: اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔
27: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی بیت المقدس میں نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
فلسطین اور بیت المقدس
[21/08, 18:38] Nazir Malik: *جنتی مردوں اور عورتوں کی 10 صفات*
منگل 22 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
جنتیوں کی 10 صفات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب کی آیت-35 میں جمع کر دیا ہے ۔
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ
*بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں*
وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ
*مومن مرد اور مومنہ عورتیں*
وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ
*اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں*
وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ
*سچے مرد اور سچی عورتیں*
وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ
*صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں*
وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ
*عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں*
وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ
*صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں*
لوَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ
*روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں*
وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ
*اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں*
وَالذَّاكِرِينَ للَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ
*کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں*
أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الاحزاب : 35)
ان سب کے لئے اللہ تعالی نے وسیع مغفرت اور بہت زیادہ ثواب تیار کر رکھا ہے
*اس آیت میں جہاں اللہ تعالی نے مثالی مرد کے دس اوصاف کا ذکر کیا ہے وہیں مثالی عورت کی بھی دس خوبیوں کا ذکر کیا ہے*
*الدعاء*
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر یہ دس صفات پیدا کریں تاکہ ان اوصاف کی وجہ سے اللہ تعالی ہمیں بھی اہل جنت میں شامل فرما دیں۔
یا اللہ تعالی ہمیں بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
جنتی عورتوں اور مردوں کی 10 صفات
[22/08, 18:45] Nazir Malik: *وﭨﺎﻣﻨﺰ اور ﻣﻨﺮﻟﺰ ﮐﯽ کمی بیشی*
بدھ 23 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ﻭﭨﺎﻣﻨﺰ / ﻣﻨﺮﻟﺰ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﻭﭨﺎﻣﻨﺰ / ﻣﻨﺮﻟﺰ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﺍﺷﯿﺎﺀ
اس پوسٹ کے مندرجات کے مطابق اپنی روزمرہ خوراک استعمال کریں تاکہ آپ بیماریوں اور کمزوریوں سے محفوظ زندگی بسر کر سکیں۔
*Vitamin A (Retinoids ) ﺍﮮ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺟﻠﺪ ﺧﺸﮏ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻓﻮﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﺍﺋﭩﻨﺲ ﮐﻢ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺮﺑﻠﺐ ﺁﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺻﺤﯿﺢ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ!
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﮔﺎﺟﺮ، ﺷﮑﺮﻗﻨﺪﯼ، ﭘﯿﭩﮭﮯ، ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ، ﺷﻤﻠﮧ ﻣﺮﭺ، ﺑﻨﺪ ﮔﻮﺑﮭﯽ، ﮔﻮﺷﺖ، ﺍﻧﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﮌﻭ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin B1 ﺑﯽ ﺍﯾﮏ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﻦ، ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ، ﺗﯿﺰ ﺩﮬﮍﮐﻦ، ﭼﮑﺮ ﺁﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﯿﺲ ﮐﺎ ﮨﻮﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﻮﺭﺝ ﻣﮑﮭﯽ، ﺳﻼﺩ، ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﭘﺎﻟﮏ، ﻣﭩﺮ، ﺑﻄﻮﮞ، ﮔﻨﺪﻡ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﯾﺎ ﺑﯿﻦ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin B2 (Riboflavin ) ﺑﯽ ﺩﻭ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﻟﮯ، ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﺮﺥ ﻧﺸﺎﻥ ﯾﺎ ﮐﮭﺮﻧﮉ ﺑﻨﻨﺎ، ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﮐﭧ ﻟﮓ ﺟﺎﻧﺎ، ﺑﮭﻮﮎ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺁﻭﺭ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻣﺜﺎﻧﮧ ﭘﺮ ﺟﻠﻦ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺑﺎﺩﺍﻡ، ﺳﻮﯾﺎﺑﯿﻨﺰ، ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﭘﺎﻟﮏ، ﮔﻨﺪﻡ، ﺩﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﻭﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*Vitamin B3 (Niacin ) ﺑﯽ ﺗﯿﻦ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﺳﺮﺥ ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ، ﭘﯿﭽﺶ، ﯾﺎﺩﺍﺷﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﻟﮯ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﺍﺳﭙﺮﺍﮔﻮﺱ، ﻣﻮﻧﮓ ﭘﮭﻠﯽ، ﺑﺮﺍﺅﻥ ﭼﺎﻭﻝ، ﻣﮑﺌﯽ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺳﺎﮒ، ﺷﮑﺮﻗﻨﺪﯼ، ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﮔﺎﺟﺮ، ﺑﺎﺩﺍﻡ، ﺷﻠﺠﻢ، ﺁﮌﻭ، ﺩﯾﺴﯽ ﻣﺮﻏﯽ، ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﻦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin B5 (Pantothenic acid ) ﺑﯽ ﭘﺎﻧﭻ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺨﻮﮌ ﭘﮍﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﺍﻭﺍﮐﺎﮈﻭ، ﮔﻨﺪﻡ، ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﺷﮑﺮﻗﻨﺪﯼ، ﺳﻮﺭﺝ ﻣﮑﮭﯽ، ﮔﻮﺑﮭﯽ، ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺍﻧﮉﮮ، ﭘﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﭩﺮﺍﺑﺮﯼ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin B6 (Pyridoxine ) ﺑﯽ ﭼﮭﮯ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﯽ ﺩﻭ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ، ﮔﮭﺒﺮﺍﮨﭧ، ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮧ ﺁﻧﺎ، ﺟﻨﺠﮭﻼﮨﭧ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺗﭙﺶ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﮔﻨﺪﻡ، ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺑﺮﺍﺅﻥ ﭼﺎﻭﻝ، ﭼﮭﻮﻟﮯ، ﮐﯿﻠﮯ، ﭨﻤﺎﭨﺮ، ﺍﺧﺮﻭﭦ، ﺍﻭﺍﮐﺎﮈﻭ، ﻣﭽﮭﻠﯽ، ﺷﻤﻠﮧ ﻣﺮﭺ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺴﯽ ﻣﺮﻍ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin B9 (Folic acid ) ﺑﯽ ﻧﻮ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ، ﭘﯿﭽﺶ، ﻭﺯﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﻟﮯ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺳﻼﺩ، ﺍﺳﭙﺮﺍﮔﻮﺱ، ﮔﺮﮔﻞ، ﻟﻮﺑﯿﺎ، ﻣﭩﺮ، ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﺍﻭﺍﮐﺎﮈﻭ، ﭨﻤﺎﭨﺮ، ﮐﯿﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﭙﯿﺘﮯ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*Vitamin B12 (Cobalamin ) ﺑﯽ ﺑﺎﺭﮦ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻨﯽ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺩﯾﺴﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯽ ﮐﻠﯿﺠﯽ، ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﻭﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin C (Ascorbic acid) ﺳﯽ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﻟﮯ، ﻣﺴﻮﮌﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﻮﮬﻨﺎ، ﺑﺎﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪ ﻣﯿﮟ ﺧﺸﮑﯽ، ﻣﺴﻮﮌﻭﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ، ﺟﻮﮌﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ، ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺮﻧﺎ، ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺯﺧﻢ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﻣﺮﻭﺩ، ﺷﻤﻠﮧ ﻣﺮﭺ، ﻣﺎﻟﭩﮯ، ﮐﯿﻮﯼ، ﺳﭩﺮﺍﺑﺮﯼ، ﺧﺮﺑﻮﺯﮮ، ﺷﮑﺮﻗﻨﺪﯼ، ﺍﻧﻨﺎﺱ، ﮔﻮﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ شکنجبین ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin D (Calciferol, 1,25-dihydroxy) ﮈﯼ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﭨﯿﮍﮬﺎ ﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﺳﺎﺋﺰ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ / ﺑﮍﺍ ﮨﻮﻧﺎ، ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﮍﺍ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺩﮬﻮﭖ، ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﮮ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Vitamin E (tocopherol)*
ﺍﺳﮑﯽ ﺷﺎﺫﻭ ﻧﺎﺩﺭ ﮨﯽ ﮐﻤﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ، ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺑﺎﺩﺍﻡ، ﺯﯾﺘﻮﻥ، ﮈﺭﺍﺋﯽ ﻓﺮﻭﭦ، ﭨﻤﺎﭨﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺍﮐﺎﮈﻭ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*Vitamin H (Biotin ) ﺍﯾﭻ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺷﺎﺫﻭ ﻧﺎﺩﺭ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﺎ ﺳﻔﯿﺪ ﺣﺼﮧ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﺎ ﺍﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ۔
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﮈﺭﺍﺋﯽ ﻓﺮﻭﭦ، ﺍﻭﺍﮐﺎﮈﻭ، ﺷﮩﺘﻮﺕ، ﮔﻮﺑﮭﯽ، ﮔﺎﺟﺮ، ﭘﭙﯿﺘﮯ، ﮐﯿﻠﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﻭﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*Vitamin K*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﯿﻤﺮﺝ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﯽ ﺁﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﻣﭩﺮ، ﭘﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺟﺮ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*ﻣﻨﺮﻟﺰ Minerals*
ﺍﺏ ﺍﻥ ﺷﺎﺀﺍﻟﻠﻪ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﮔﯽ ﻣﻨﺮﻟﺰ ﭘﺮ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺮﻟﺰ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﻮﺳﭧ ﺍﺩﮬﻮﺭﯼ ﮨﮯ.
ﻣﻨﺮﻟﺰ ﮐﻮ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺩﻭ ﮔﺮﻭﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺮﻟﺰ ﮨﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﻮ ﮨﯿﮟ.
*ﭘﮩﻼ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮑﺮﻭﻣﻨﺮﻟﺰ!*
ﯾﮧ ﮔﺮﻭﭖ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﺮﻟﺰﭘﮍ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﮯ.
*Calcium ﮐﯿﻠﺸﯿﻢ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﮍﮬﯽ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺩﻭﺩﮪ، ﺩﮨﯽ، ﭘﻨﯿﺮ، ﻣﮑﮭﻦ، ﻟﺴﯽ، ﺳﺎﮒ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺑﮭﻨﮉﯼ، ﺍﻭﺭ ﺗﻞ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Phosphorus ﻓﺎﺳﻔﻮﺭﺱ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺍﺯ ﻭﻗﺖ ﺣﻤﻞ ﮔﺮﺟﺎﻧﺎ، ﭘﭩﮭﻮﮞ ﮐﺎﺩﺭﺩ، ﺭﯾﮍﮪ ﮐﯽ ﮨﮉﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﮨﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﻭﭨﺎﻣﻦ ﮈﯼ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﺍﻧﮉﮮ، ﻣﭽﮭﻠﯽ، ﻣﮑﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺴﯽ ﻣﺮﻍ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Potassium ﭘﻮﭨﺎﺷﯿﻢ*
ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻟﮓ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺷﮑﺮﻗﻨﺪﯼ، ﭨﻤﺎﭨﺮ، ﺳﺎﮒ، ﮔﺎﺟﺮ، ﺁﻟﻮﺑﺨﺎﺭﮦ، ﺩﺍﻟﻮﮞ، خوبانی، ﭘﯿﭩﮭﮯ، ﻣﭽﮭﻠﯽ، ﮐﮭﺠﻮﺭ، ﮐﺸﻤﺶ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻤﺒﯽ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Magnesium ﻣﯿﮕﻨﯿﺸﯿﻢ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻧﮩﻈﺎﻡ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮉﻧﯽ ﺳﭩﻮﻥ ﺑﮭﯽ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ. ﺷﺮﺍﺏ ﻧﻮﺷﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮕﻨﯿﺸﯿﻢ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺧﻄﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﺒﺰﯾﻮﮞ، ﮈﺭﺍﺋﯽ ﻓﺮﻭﭨﺲ، ﭘﮭﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺍﮐﺎﮈﻭ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Salt (sodium chloride ) ﺳﺎﻟﭧ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﺵ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺳﺮﺩﺭﺩ ﺍﻭﺭ ﭼﮑﺮ ﺑﮭﯽ ﺁﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﺒﺰﯾﻮﮞ، ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﺍﻭﺭ ﮈﺭﺍﺋﯽ ﻓﺮﻭﭨﺲ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*ﻣﻨﺮﻟﺰ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮔﺮﻭﭖ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﻮ ﻣﻨﺮﻟﺰ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺋﮑﺮﻭﻣﻨﺮﻟﺰ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ*.
*Iron ﺁﺋﺮﻥ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﯿﻤﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪ ﮐﺎ ﭘﮭﯿﮑﺎ ﭘﮍ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ. ﺑﺎﻟﻮں ﮑﺎ ﺟﮭﮍﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﻧﮑﺎ ﺭﻭﯾﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﻔﯽ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺁﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﺎﮨﻮﺍﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﺷﺪﺕ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﻟﻌﻤﻮﻡ ﺣﺎﻣﻠﮧ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺟﻠﺪ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺑﺎﺩﺍﻡ، خوباﻧﯽ، ﺑﮭﻨﮯ ﭼﻨﻮﮞ، ﮐﮭﺠﻮﺭ، ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﮐﺸﮑﻤﺶ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺳﺎﮒ، ﺑﺮﺍﺅﻥ ﭼﺎﻭﻝ، ﭘﯿﭩﮭﮯ، ﻓﺶ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺴﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*Zinc ﺯﻧﮏ*
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﻗوت ﻣﺪﺍﻓﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ کے خلاف ﺟﺴﻢ ﺻﺤﯿﺢ ﻃﺮﺡ ﺩﻓﺎﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ۔
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺗﻞ، ﻣﭩﺮ، ﮐﺎﺟﻮ، ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺴﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*Copper ﮐﺎﭘﺮ*
ﺍﺱ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻦ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺩﻭﺩﮪ ﻧﮧ ﭘﻼﺋﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﭘﻼﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﮧ ﮐﻤﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ.
ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﭘﺎﻟﮏ، ﺳﺎﮒ، ﺟﻮ، ﺩﺍﻟﻮﮞ، ﮐﺎﺟﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺴﯽ ﮐﮑﮍﯼ ﮐﯽ ﮐﻠﯿﺠﯽ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Chromium کرﻭﻣﯿﻢ*
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﺍﻧﺴﻮﻟﯿﻦ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺩﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﻼﺩ، ﭘﯿﺎﺯ، ﭨﻤﺎﭨﺮ، ﺁﻟﻮ، ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﺁﻟﻮﺑﺨﺎﺭﮮ، ﺍﻭﺭ ﺧﺸﮏ ﻣﯿﻮﮦ ﺟﺎﺕ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
*Fluoride ﻓﻠﻮﺭﺍﺋﮉ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﺎﮞ ﻟﮓ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﭘﺎﻧﯽ، ﭼﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺶ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Iodine ﺁﯾﻮﮈﯾﻦ*
ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﯽ ﺑﮍﮬﻮﺗﺮﯼ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﻧﮉﮮ، ﺁﯾﻮﮈﺍﺋﺰﮈ ﻧﻤﮏ، ﺳﭩﺮﺍﺑﺮﯼ، ﺳﺎﮒ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Selenium ﺳﯿﻠﯿﻨﯿﻢ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﻣﺴﮑﯿﺮﺝ، ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻨﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮭﻤﺒﯽ، ﺟﻮ، ﻓﺶ، ﺍﺧﺮﻭﭦ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﮮ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Manganese ﻣﯿﻨﮕﻨﯿﺰ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻧﺸﻮﻧﻤﺎ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ.
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﭘﺎﻟﮏ، ﺳﻼﺩ، ﺳﺎﮒ، ﺷﮩﺘﻮﺕ، ﺍﻧﻨﺎﺱ، ﺟﻮ ﮐﮯ ﺩﻟﯿﮯ، ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*Molybdenum ﻣﻮﻟﯿﺒﮉﯾﻨﯿﻢ*
ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ ﺁﭘﮑﺎ اﻋﺼﺎﺑﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﮐﮉﻧﯽ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
* ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺳﺒﺰﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
* ﻣﻨﺪﺭﺟﮧ ﺑﺎﻻ ﺍﺟﻨﺎﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﺟﻨﺎﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﭘﻮﺳﭧ ﻟﻤﺒﯽ ﮨﻮﺟﺎﻧﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﯿﮯ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ۔
* ﺍﻧﮑﯽ ﮐﻤﯽ ﺳﮯ مذﮐﻮﺭﮦ ﺑﺎﻻ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔
* ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺑﮭﻮﮎ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
* ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﭨﮭﻮﮌﺍ ﮐﺮﮐﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺳﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﮯ ﻭﻗﻔﮯ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ۔
* ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺌﯿﮟ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
*الدعاء*
یا اللہ تعالی جو نعمتیں تو نے ہمیں دی ہیں ان استعمال کرنے کی صحت بھی عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
وٹامنز اور منرلز کی کمی بیشی
[24/08, 03:56] Nazir Malik: *علمِ نافع اور دینی بصیرت کا فقدان*
جمعرات 24 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِهِ الْکَرِیْمِ وَخَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَعَلٰی اٰلِهٖ وَاَزْوَجِهٖ وَاصْحَابِهٖ اَجْمَعِین۔
امابعد: ہر اسلام پسند اور اسلامی تعلیمات سے واقف شخص وطن عزیز میں اپنے قرب و جوار معاشرے کی اسلامی حیثیت سے واقف ہے، دراصل ان تمام تر معاشرتی خرابیوں کے اسباب میں سے ایک سبب دین اسلام کے حوالے سے علمِ نافع اور دینی بصیرت کا فقدان ہے، جو مجموعی طور پر عوام اور حکمران طبقہ دونوں میں دیکھا جارہا ہے اور یہ وہ خامی ہے جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے پہلے ہی پیشین گوئی فرمادی تھی اور مختلف احادیث میں آپﷺ کی یہ پیشین گوئیاں کہ قربِ قیامت لوگوں میں بصیرت اور فہم کی بڑی کمی ہوگی ،موجود ہیں۔
دور حاضر نبی اکرم ﷺ کی ان احادیث کی عکاسی کرتا ہے کہ عوام اور حکمران طبقہ دونوں بصیرت سے محروم نظر آتے ہیں۔
قرب قیامت عوام الناس کی بصیرت اور شعور کی کیفیت کی وضاحت میں سب سے پہلے ایک حدیث پیش ہے۔ سیدنا ابوھریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ بادروا بالأ عمال فتنا كقطع الليل المظلم يصبح الرجل مؤ منا ويمسي كافرا ا و يمسي مو منا ويصبح كافرا يبيع دينه بعرض من الدنيا‘‘(صحیح مسلم:118)
یعنی ’’ قرب ِقیامت ایسا وقت آئے گا کہ ایک شخص صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گااور شام کو مومن ہوگا اور صبح کافر ہوجائے گا۔ آدمی اپنے دین کو پیسوں کے بدلے بیچ دےگا۔‘‘
اب سوال اٹھتا ہے کہ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور جیسے آگے جا رہا ہے، ترقی ہورہی ہے، دنیا چاند پر پہنچ گئی۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ بصیرت اس حد تک ختم ہو جائےگی ایک ہی دن میں مختلف ادیان کو قبول کیا جارہا ہے ۔کیا وجہ ہے؟
دوسری حدیث میں اس کا جواب موجود ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يبق عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا فسئلوا فا فتوا بغير علم فضلوا وا ضلوا‘‘ (صحیح بخاری:100صحیح مسلم: 2673)
یعنی: ’’ علم اٹھ جائے گا اور اللہ تعالی علم لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نہیں نکالے گا بلکہ علماء کے چلے جانے کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔ حتی کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا اور لوگ جاہلوں کو اپنے رؤساء اور پیشوا بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ، یہ جہلاء خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کردیں گے۔‘‘
ان دونوں احایث سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہے کہ اہل علم سے تعلق اور مصاحبت بصیرت کاسبب ہے اور قربِ قیامت جیسے جیسے علماء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ذریعےسے علم اٹھتا جائے گا، لوگ بھی بصیرت سے دور ہوتے چلے جائیں گے،حتی کہ لوگ جہلاء کو پیشوا بنالیں گے اور ان سے فتاوی پوچھیں گے، نتیجتاً وہ گمراہی کی دلدل میں گرتے چلے جائیں گے۔ آج بالکل یہی کیفیت بنتی جارہی ہے کہ آج میڈیا پر جن لوگوں سے دینیات کے مسائل پوچھے جارہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مساجد کے منبروں نے قبول نہیں کیا، جو شاید دنیاوی امور میں علماء سے فائق ہوں لیکن دینی رہنما ہونے کاقطعاً حق نہیں رکھتے۔ آج دینی بصیرت کے معدوم ہونے کے اسباب میں سے بڑا سبب یہی ہے کہ علماء ربانیین بڑی تیزی سے لقمۂ اجل بن رہے ہیں اور پھر خواہش پرست لوگ بڑی تیزی سے بمصداقِ ’’نیم حکیم خطرۂ جان‘‘ لوگوں کے ایمان کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان علماء سؤ کے شرور سے ہمیں محفوظ رکھے اور عوام الناس کو قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا کرے.
آمین یا رب العالمین
*تصویر کا دوسرا رخ*
ہمارے ہاں جو کمزور اور ناکارہ ترین بچہ ہوتا ہے ہم اسے دینی مدارس بھیج کر حافظ قرآن تو بنا دیتے ہیں اور اس بچے کے والدین بھی ثواب کے ڈھیر تو لگا لیتے مگر بچے کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں اور وہ بچہ اپنی باقی ماندہ زندگی صدقہ خیرات پر گزر بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے مگر نہ تو والدین کو کبھی خیال آیا کہ اس بچے کی طرف خاص توجہ دی جائے اور اس حافظ صاحب کو بھی اپنے دوسرے بچوں کی طرح اعلی تعلیم دلوا کر معاشرے کا فعال رکن بنایا جاۓ تاکہ یہ بچہ بھی بڑا ہو کر ڈاکٹر انجینیئر یا دینی محقق بنے۔
معذرت کے ساتھ اس میں قصور وار ہمارے مدارس دینیہ بھی ہیں۔
کیوں یہ مدارس دینیہ عصری تعلیم کو اپنے مدارس میں متعارف نہیں اور عصری تعلیم کو ترویج نہیں دیتے تاکہ ان کے فارغ التحصیل حفاظ کرام بھی دنیا کی اعلی ترین یونیورسٹیوں سے اعلی ڈگریاں حاصل کرتے اور سائنسی میدان میں ملک و قوم کی خدمت کرتے۔
یہاں میں برادر ملک سعودی عرب کی مثال دینا چاہوں گا جہاں ہر بچہ عالم دین بھی ہے اور ڈاکٹر، انجینیئر اور سائنسدان بھی ہے۔
سعودی عرب کے اکثر علما پی ایچ ڈی ہیں اور ہمارے مدارس بس حافظ، امام مسجد، استاد اور خطیب سے آگے نہیں جاتے کیوں؟
ایک لمحہ فکریہ۔۔۔۔
ایک وہ زمانہ تھا جب مسلمان بڑی بڑی ایجادات کے موجد ہوا کرتے مگر آج مسلمان کچھ نہیں بنا رہے بس بچے بنا رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اسلام غالب کیوں نہیں آ رہا۔
جی چرانا کام سے اور کامیابی کا یقین۔
آفرین ہے ان اداروں پر جو تلہ گنگ جیسے دور افتادہ پہاڑی علاقہ میں ایک ماڈل دینی درسگاہ چلا رہے ہیں اور ہم امید واثق رکھتے ہیں حق کی کرنیں یہیں سے پھوٹیں گی ترقی کی راہیں یہیں سے نکلیں گی
*طالبِ علم*
خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں!
وا صلی اللہ علی النبینا محمد
Please visit us at www.nazirmalik. com
علم نافع اور دینی بصیرت کا فقدان
[25/08, 04:06] Nazir Malik: *عباسی خلیفہ معتصم کا عبرت ناک انجام*
جمعہ 25 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا کہ جب
*عباسی خلیفہ معتصم*
آھنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کےپوتے ھلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا..!
کھانے کا وقت آیا تو ھلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اورخلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ھیرے،جواھرات رکھ دیئے ....!
پھر معتصم سے کہا؛
جو سونا، چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے ھی کھاؤ،......!
بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا بولا! میں سونا کیسے کھاؤں
ھلاکو نے فوراً کہا۔
پھر تم نے یہ سونا اور چاندی جمع کیوں کیا تھا
وہ مسلمان جسے اُسکا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا کچھ جواب نہ دے سکا۔
ھلاکو خان نے نظریں گھماکر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا کہ تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آھنی تیر کیوں نہ بنائے؟
تم نے یہ جواھرات جمع کرنےکی بجائے اپنے سپاھیوں کو رقم کیوں نہ دی تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟
خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔
اللہ کی یہی مرضی تھی۔
ھلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا کہ پھر جو تمہارے ساتھ ھونے والا ھے وہ بھی خدا ھی کی مرضی ھو گی۔
پھر ھلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا اور بغداد کو قبرستان بنا ڈالا.!
ھلاکو نے کہا!
آج میں نے بغداد کو صفحہ ھستی سے مٹا ڈالا ھے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔ اور تاریخ میں ایسا ھی ھوا۔۔!
*تاریخ تو فتوحات گنتی ہے، محل، لباس، ھیرے جواہرات اور انواع اقسام کے لذیذ کھانے نہیں*
تصور کریں جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاھیں اور تحقیقی مراکز قائم ھو رھے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لیکر اپنی
محبوبہ کی یاد میں "تاج محل" تعمیر کروا رھا تھا اور اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دورانِ ڈلیوری فوت ھو جانے پر تحقیق کے لئے برطانیہ میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل اسکول بنوا رھا تھا..!!
جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رھے تھے،تب یہاں "تان سین" جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجاد کر رھے تھے اور نوخیز خوبصورت و پر کشش رقاصائیں شاھی درباروں کی زینت و شان اور وی.آئی. پیز تھیں..!
جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رھے تھے تب ھمارے اَربابِ اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدھوش پڑے تھے..!
تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے کہیں کا نہیں چھوڑا ھمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام پھیلتا چلا گیا..!
کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ھوتی کہ، حکمرانوں کی تجوریاں بھری ھیں یا خالی؟
شہنشاھوں کے تاج میں ھیرے جڑے ھیں یا نہیں؟
درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ھے یا نہیں؟
تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ھوتی ھے
اور تاریخ کبھی، عذر قبول نہیں کرتی.. !
ہمارے بعض نادان دوست کہتے ہم افواج پر اتنا بجٹ کیوں لگا رہے ہیں.میرے بھائیو یہ قیمت آزادی کے لیے بہت کم ہے , اگر شک ہے تو روہنگیا, کشمیر, افغانستان, چیچنیا, بوسنیا، لیبیا، سیریا اور فلسطین کے محکوم مسلمانوں سے پوچھ لو..؟
ہمیں فخر ہے اپنے سائینس دانوں، انجینیئرز،
تیکنیکی ماہرین اور بہادر افواج پر اور ان دور اندیش سیاسی لیڈروں پر جن کی عقل و فراست کی وجہ سے آج ہم نیوکلئر پاور ہیں اور الحمدللہ دشمنوں سے محفوظ ہیں اور یار رہے ایٹم بم ہم نے اپنی حفاظت کے لئے بنایا ہے دوسروں کی جنگ اپنے سر لینے کے لئے نہیں۔
اے ہمارے رب ہمیں دشمنوں سے مغلوب نہ ہونے دینا۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
عباسی خلیفہ معتصم کا عبرتناک انجام
[26/08, 04:09] Nazir Malik: *موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں ہمارا مستقبل*
ہفتہ 26 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ٹھنڈے دل سے سوچتا ہوں اور مخلص ہو کر وطن عزیز کے سیاسی و معاشی حالات کا جائزہ لیتا ہوں تو شرم سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ ہم کیا تھے کیا ہونا چاہیئے تھا اور کیا ہو گئے۔
کیا وجہ ہے ہم ایسے کیوں ہوگئے۔ کیا ہماری کوئی راہنمائی کرنے والا نہ تھا کیا ہمارے لیڈر کرپٹ تھے یا ہم سب کرپٹ تھے لیکن ہم تو کتاب اللہ کے ماننے والے تھے اور ہمارے سامنے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اسوہ حسنہ تھی اور پریکٹیکل ریاست مدینہ تھی لیکن ہم پھر بھی بھٹک گئے اور ترقی یافتہ قوموں کے حالات سے بھی ہم نے کچھ نہ سیکھا۔
کوا چلا تھا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔
ہم نے جو بھی ترقی کی ہے وہ دنیا کی نقل کر کے سیکھا ہے ہماری ذاتی کاوش کچھ نہ تھی اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی ٹارگٹ تھا
قوم کے پڑھے لکھے اور فتین لوگ جس ڈگر پرچل دیئے سو چل دیئے کچھ کامیاب ہو گئے اور کچھ انجانی راہوں میں کھو گئے۔
سچ تو یہ ہے کہ جو بھی ہم نے ترقی کی ہے خود ہی کی ہے کوئی ہمیں راہ دیکھانے والا نہیں تھا بچوں کو جس نے جس کام پر لگا دیا وہ لگ گئے اور اس نے اسے ہی اپنا ذریعہ معاش بنا لیا مگر حکومت نام کا کوئی ادارہ ہمارے ہاں کبھی بھی نہ تھا اور نہ رہا۔
*لمحہ فکریہ*
سوچتا ہوں ایسا کب تک چلے گا کیا قوم کے اچھے دن آئیں گے یا پچھلی جنریشن کی طرح ہم بھی مر کھپ جائیں گے
ملکی سیاست دان اپنی کرسی مضبوط رکھنے کے چکر میں ہیں ملک و قوم سے انھیں کوئی سروکار نہیں بس اپنا ووٹ بنک بنانا ہے تاکہ کرسی مضبوط رہے۔
جو بھی لیڈر آیا اپنی جیب بھر کر چلا گیا اور قوم کو بھیک پر لگا گیا۔
سوچتا ہوں آخر کب تک ایسا چلے گا کیا کوئی اچھا لیڈر آنے کی امید ہے کچھ بد ییہ کہ عوام الناس بھی آپکی پرفارمنس سے تنگ آچکی ہے اب بھی وقت ہے سدھر جاو وگرنہ بگل بجا چاہتا ہے۔
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔
وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ
*الدعا*
یا قادر مطلق ہم پچھلے پچہتر سالوں سے نت نئے حکمرانوں کے تجربے کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ اور حالات زمانہ پر عمیق نظر ڈالتے ہوئے مستقبل قریب میں ہمیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی بس اب تجھ پر ہی آخری امید اور بھروسہ ہے۔
اے ہمارے مولا تو جانتا ہے کہ اس ملک کی مٹی شہدا کے خون میں گندھی ہوئی ہے میرے مولاے کائنات ہمارے شہدا وطن کے خون کی لاج رکھ لے اور اپنی جناب سے ہمیں عمر بن عبدلعزیز جیسا حکمران عطا فرما وگرنہ ڈر ہے کہ یہ سرزمین پھر سے
کفار نما مسلمین کے تسلط میں نہ چلی جائے۔
اے وسع قدرت والے میری التجا سن لے۔
آمین یا رب العالمین
طالب الدعاَء
انجینیئر نذیر ملک
سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333
ہمارا ماضی اور مستقبل
[26/08, 19:53] Nazir Malik: *پاکستانی عوام کی جان پھنس گئی ہے کس عذاب میں*
اتوار 28 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
دور حاضر میں وطن عزیز میں جتنی بد حالی پیدا ہو گئی ہے اس قبل قطعا" نہیں تھی۔
اشیاء صرف کے نرخ آسمانوں پر بجلی، گیس، فیول، پھل، ڈالر غرضیکہ ہر شے عوام کی رسائی سے باہر جبکہ انکم مہنگائی کے مقابلہ میں بہت کم۔
عوام کا بھوکے مرنے والا حال ہو گیا ہے اور مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام بھی نہیں لے رہا۔ گو حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے کیونکہ زر مبادلہ کا ریٹ ہر لمحے بڑھ رہا ہے۔
عوام گھر کا خرچہ پورا نہیں کر پا رہے اور اوپر سے بجلی گیس اور پٹرول کے نرخ روزانہ کی بنیاد پر بڑھائے جا رہے ہیں۔
آخر یہ طوفان کب تھمے گا اور عوام کو سکھ کا سانس کب ائے گا۔
حالات تو یہ بتلاتے ہیں کہ یہ مہنگائی ہمیں کنگلا کر دے گی اور ہم مجبور ہو کر پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ جائیں گے
یہ وہ زمانہ تھا جب نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی اسکا بڑھتا ہوا بل۔ نہ پٹرول کی ضرورت اور نہ ہی اسکے نرخ کو روزانہ کی بنیاد پر بڑھنا۔
زمین سے اگنے والے اناج ضرورت کے مطابق تھے اور زراعت کے لئے کسی کھاد کی ضرورت نہ تھی۔
ان نا گفتہ بہ حالات میں ہماری حکومت عوام الناس کے لئے کیا کر رہی ہے۔اس تناظر میں فرمان نبوی ہمیں راستہ دیتا ہے
صحيح مسلم کی روایت ہے کہ
*بہترین حاکم اور برے حاکم کی وضاحت و شناخت۔*
حدیث نمبر: 1228
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بہتر حاکم وہ ہیں جن کو تم چاہتے ہو اور وہ تمہیں چاہتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لئے دعا کرتے ہو۔ اور تمہارے برے حاکم وہ ہیں جن کے تم دشمن ہو اور وہ تمہارے دشمن ہیں، تم ان پر لعنت کرتے ہو اور وہ تم پر لعنت کرتے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم ایسے برے حاکموں کو تلوار سے دفع نہ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں جب تک کہ وہ تم میں نماز کو قائم کرتے رہیں۔ اور جب تم اپنے حاکموں کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو، تو ان کے اس عمل کو برا جانو لیکن ان کی اطاعت سے باہر نہ ہو (یعنی بغاوت نہ کرو)۔
*اس مسئلے کا منطقی حل*
بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے دنیاوی ترقی ہمارے کسی کام کی نہیں رہی۔
*حکومت اس مہنگائی کے جن کو کیسے قابو کرے*
ہماری یہ حالت ایک دن میں نہیں ہوئی بلکہ پچھلے دس سالوں میں اس جن نے جنم لیا۔
اب حکومت اس جن کو کیسے قابو کرے؟
*میرے مطابق*
1۔ قوم کو سستی سولر پاور دی جائے اور سولر پلٹس پر ہر قسم کی ڈیوٹی فری اور ریٹس سبسٹیڈائز کریں۔
2۔ چھوٹے بجلی کے کارخانے لگانے کی اجازت دی جائے تاکہ لوکل بجلی ترویج پکڑے اور ٹرانسمشن کے اخراجات کم ہوں۔
2۔ ٹرینڈ مین پاور اور پروفشنل مین پاور کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں کھپت بڑھائی جائے اور اس مقصد کے لئے پاکستانی سفارت خانے کو فعال بنایا جائے۔ مذید یہ کہ ہر ملک میں پاکستانی سفارت خانے کو پاکستانی مصنوعات کی کھپت کا ٹارگٹ دیا جائے۔
8۔ پاکستانی پروفیشنل مین پاور کو دوسرے ممالک میں جاب دلوائے جائیں۔
9۔ پاکستانی یونیورسٹیز کے تھیسسز دنیا بھر کے ملکوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے الاٹ کئے جائیں تاکہ ٹیکنیکل کسٹمر ڈیمانڈ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسٹمرز ڈیمانڈ پوری کی جا سکے۔
10۔ سپیس سائینس کی ہمارے ہاں فقط چار یونیورسٹیز ہیں یہ تعداد بڑھائی جائے۔
11۔ نئے نیوکلیئر پاور پلانٹس لگائے جائیں تاکہ سستی بجلی میسر ہو سکے۔
12۔ نئے چھوٹے بڑے بجلی گھر کثرت سے لگائے جائیں تاکہ لوکل سطح پر بجلی کی ترسیل بغیر کسی لائین لاسسز اور ٹرانسمشن اخراجات کے لوکل سطح پر صارفین کو بجلی مہیا ک جا سکے۔
*عوام کیا کرے*
1۔ اپنی عیاشیاں چھوڑے اور سادگی میں زندگی بسر کریں۔
2۔ بیاہ شادی سادگی سے ون ڈش پر کریں۔
3۔ فوتگی پر بریانی بند کریں۔
4۔ بازار سے کھانا بند کریں۔ گھر میں سادہ کھانا پکائیں۔
5۔ پھل کھانا بند کر دیں۔
6۔ چٹنی روٹی کھائیں۔
7۔ چائے، کولڈ ڈرنک اور آئیس کریم بند۔
8۔ادویات انتہائی ضرورت میں استعمال کریں۔
9۔ فضول خرچی بند اور انتہائی ضروری اخراجات میں کمی۔
10۔ سفر ٹرین یا بس سے کریں اور ذاتی گاڑی فقط ایمرجنسی میں استعمال کریں۔
*الدعاَء*
یا قادر مطلق ہم پچھلے چھہتر سالوں سے نت نئے حکمرانوں کے دار المشق بنتے بنتے تھک چکے ہیں مگر موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ اور حالات زمانہ پر عمیق نظر ڈالتے ہوئے مستقبل قریب میں ہمیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی بس اب تجھ پر ہی آخری امید اور بھروسہ ہے۔
اے ہمارے مولا تو جانتا ہے کہ اس ملک کی مٹی شہدا کے خون میں گندھی ہوئی ہے میرے مولائے کائنات ہمارے شہدا وطن کے خون کی لاج رکھ لے اور اپنی جناب سے ہمیں عمر بن عبدلعزیز جیسا حکمران عطا فرما وگرنہ ڈر ہے کہ یہ سرزمین پھر سے
کفار نما مسلمین کے تسلط میں نہ چلی جائے۔
اے وسع قدرت والے میری التجا سن لے۔
آمین یا رب العالمین
*نوٹ:*
قوم اس حد تک دل برداشتہ ہو چکی ہے کہ ایک شخص ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا تھا اور رو رو کر کہہ رہا تھا کہ الله کرے کہ دنیا بھر کے رکھے ہوئے سارے ایٹم بم جہاں بھی پڑے ہیں خود بخود چل جائیں تاکہ روز روز مرنے سے ایک ہی بار سب کچھ فنا ہو جائے کیونکہ ایسی دنیا ہمارے کس کام کی جہاں مزدور دو وقت کی روٹی کے لئے ترستا ہو اور بجلی گیس اور فیول کے بل ہی پورے نہ ہوں؟
حکومت کے لئے یہ صورت حال چیلنجنگ ہے ایسا نہ ہو کہ وطن عزیز میں انارکی پھیل جائے اور ہم ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں۔
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00928604333
[27/08, 18:45] Nazir Malik: *کھوکھروں کی تاریخ*
*اشاعت اول*
جمعہ 26 نومبر 2021
*اشاعت دوئم*
پیر 28 اگست 2023
*تحقیق و تحریر*
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ویسے تو ہم سب انسان آدم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں مگر تاریخی طور پر ہمیں اپنے بارے میں پتہ ہونا چاہئے کی ہم کون ہیں اور ہماری تاریخ کیا ہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے کہ ہم نے تمہارے قبیلے بناۓ تاکہ تمہاری پہچان رہے۔
اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی جستجو میں حقیقی طور پر جو میسر آیا اسے من و عن پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
*کچھ میرے اپنے بارے میں*
*میرا تعارف*
میں پاکستان اٹامک انرجی سے ریٹائرڈ انجینیئر ہوں اور کئ ممالک میں پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکا ہوں۔ مذھبی سکالر اور مذھبی کالم نگار ہوں اور اسی سلسے میں دو بار گورنر پنجاب جناب عبدلطیف کھوسہ صاحب اور جناب چوہدری محمد سرور صاحب سے خصوصی اوارڈز بھی مل چکے ہیں اور پچھلے سال صدارتی ایوارڈ کے لئے بھی نامزدگی ہوئی تھی۔
مذید برآں الحمدللہ پندرہ سے زائد اسلامی کتب کا مؤلف ہوں اور تیرہ عدد مجموعہ رسائل و مسائل (whatsapp) کا محقق اور تین سو سے زائد مذھبی مضامین اور اخبار و جرائد کی بسیس برس کالم نگاری کی
اور درجنوں تحقیقی تھیسس اور کئ اداروں اور اسکول و کالجز میں سیمینار، سمپوزیم اور ورکشاپ میں لیکچرز دے چکا ہوں اور درجنوں مذھبی ریڈیو پاکستان سرگودھا کے پروگرامز کا حصہ رہ چکا ہوں اور آن لائن مذھبی پروگرامز کا سرگرم رکن رہنے کا شرف حاصل ہے۔
سرگودھا شہر میں بطحاء گروپ آف کمپنیز کے نام سے میرا کمونیکشن کا بزنس ہے۔ جس میں پی ٹی سی ایل وائرلیس اور وطین ٹیلیکام کی فرنچائز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
*بنیادی طور پر میرا تعلق قطب شاہی کھوکھر قبیلے سے ہے*
میرے آباؤ اجداد تقریبا" 225 سال قبل ملتان سے ہجرت کرکے ہندوستان چلے گۓ تھے اور موجودہ ہندوستانی صوبہ ہریانہ کے ضلع کرنال کی تحصیل کیتھل کے ایک گاؤں جنجر پور میں جاکر آباد ہو گۓ تھے اور آلحمدللہ ہم اس وقت بھی مسلمان تھے
جب پاکستان آزاد ہوا تو 1948 میں میرے خاندان کے لوگ ہجرت کرکے پاکستان آ گۓ اور ضلع سرگودھا کی تحصیل سلانوالی شہر میں آجکل آباد ہیں۔
*نوٹ*
میری تخلیقات سے فائدہ اٹھانے کے لئے میرے ذاتی بلاگ پر لاگ آن ہوں۔
Well come to
www.nazirmalik.com
Or call me on my
Cell: 00923008604333
*کھوکھر کون ہیں*
*بنیادی طور پر کھوکھر دو طرح کے ہیں*
1. قطب شاہی کھوکھر اور جاٹ کھوکھر ..(زیادہ تر زیریں پنجاب ساہیوال چیچہ وطنی، وہاڑی، بوریوالہ،خانیوال، میاں چنوں ،کبیروالا، جھنگ، سرگودھا، منڈی بہاؤ الدین، ملتان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، بہاولپور، رحیم یار خان، سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیر وغیرہ کے علاقوں میں آباد ہیں..)
2. راجپوت کھوکھر..(زیادہ تر اپر پنجاب اوکاڑہ ، لاہور،فیصل آباد، چنیوٹ، شیخوپورہ، گجرات، راولپنڈی قصور، آزاد کشمیر وغیرہ میں پائے جاتے ہیں..)
کھوکھر جاٹوں اور ڈوگروں کا ایک قبیلہ ہے، جنگجو قوموں(مارشل قبائیل) میں سے ایک ہے
متنوع راجپوت اور جٹ رتبے والے قبیلے کے طور پرکھوکھروں کی سب سے زیادہ تعداد جہلم اور چناب کی وادیوں میں ہے ـ اور بالخصوص جھنگ اور شاہ پور اور *ضلع سرگودھا کی تحصیل سلانوالی شہر میں کھوکھروں کی کثیر تعداد آباد ہےـ* زیریں سندھ ستلج اور لاہور کے علاوہ جہلم سے لے کر ستلج تک پہاڑیوں کے دامن میں بھی ملے ہیں ــ لیکن کھوکھر سابقہ روایت کے مطابق وہ بالاصل گڑھ کرانہ میں آباد ہوئے، جس کی وہ شناخت نہیں کرسکتے، تاہم مسٹر سٹیڈمین کی رائے میں یہ ضلع جھنگ میں شاہ پور کے جنوب میں واقع کوہ کیرانہ ہے اور تیمور نے انہیں وہاں سے بے دخل کیا۔ جہلم اور چناب پر میدانوں کے کھوکھروں کا ارتکاز اور دامن کوہ کے کھوکھروں کا وسیع اختلاط اس نظریہ میں کچھ رنگ بھرتا ہے کہ وہ پہاڑوں سے نیچے کی طرف پھیلے نہ کہ جنوب سے اُوپر کی طرف۔
اکبر کے دور میں کھوکھروں کو ہوشیار پور کے دسوئیہ پرگنھ کا ایک اہم قبیلہ دکھایا گیا تھا ـ اور مسلمان تاریخ دان ہمیں بتاتے ہیں کہ تیمور کے حملے کے وقت کھوکھر لاہور پر قابض اور اپر باری دوآب میں مقتدر تھے ــ کپور تلہ میں کھوکھروں کی چار شاخیں ہیں: "سجرائے، کالو، بیر اور جیچ" ــ شاہ پور اورجھنگ کے کھوکھروں کو متعدد شاخوں میں منقسم بتایا جاتا ہے ــ جن میں جوڑا بندیال،بھچر، گنجیال، بگھور، گھنجیرہ، جھاوری، نسوآنہ،نتھوکہ،
ریحان اور ڈب ہیں.
*جدید تحقیق کے مطابق ہمدرد فاؤنڈیشن کے مالک اور سابقہ گورنر سندھ جناب شہید حکیم سعید صاحب بھی کھوکھر تھے اور کراچی کے مشہور خیراتی گروپ چھیپا والے اور ڈیرہ غازی خان کے مہاجر صدیقی سبھی کھو کھر ہیں۔*
دلچسپ بات یہ ہے کہ مکہ معظمہ کا خوقیر قبیلہ بھی در اصل کھوکھر ہی ہے۔
ان کے علاوہ شیں مار، مجوکہ، دھولکہ، جالاپ اور راوال بھی کھوکھروں شاخوں میں سے ہیں۔ کھوکھروں کے ماخذ بھی پنجاب کے کسی بھی قبیلے جتنے ہی مبہم ہیں ـ پنجاب کے مشرق میں کھوکھر تسلیم شدہ راجپوت نسل نظر آتے ہیں ــ تاہم جالندھر میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے قبیلے کے اندر ہی شیخوں اعوانوں اور دیگر ان جیسوں کے ساتھ بیاہ کرتے ہیں نہ کہ راجپوت پڑوسیوں کے ساتھ ــ لیکن مغرب میں کھوکھر غزنی کے قطب شاہ کے سب سے بڑے بیٹے محمد کی اولاد ہونے کا دعوی کرتے ہیں جو اعوانوں کا روایتی مورث اعلیٰ ہے ،اورعموماً اعوان بھی یہ دعوی تسلیم کرتے ہیں ــ صورت حال چاہے کچھ بھی ہو، سیالکوٹ کے کھوکھر تو دیگر قبیلوں کے ساتھ باہمی شادیاں کرتے ہیں، مگر اعوان نہیں ــ گجرات میں کچھ زرخیز زمینوں کے مالک کھوکھر بھرت یا کھوکھر سے تعلق ہونے کی بنا پر راجا کہلاتے ہیں ــ تاہم وہ اعوانوں کے ساتھ قربت کے دعویدار ہیں اور ان کے اور بھٹیوں کے باہمی شادیاں کرتے ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ میں کھوکھروں کا ذکر کافی جگہوں پر ملتا ہے ـ تیمور کے موّرخین کے مطابق کھوکھروں نے اس کی فوج کے خلاف مدافعت میں کافی اہم کردار ادا کیا ـ اکتوبر 1398ء میں تیمور نے دریائے بیاس کے کنارے جال کے مقام پر شاہ پور کے سامنے پڑاؤ ڈالا ـ یہاں اسے پتہ چلا کہ کھوکھر قبیلے کے نصرت نے ایک جھیل کے کناروں پر قلعے میں مورچہ قائم کر رکھا تھا ـ تیمور نے نصرت پر حملہ کیا اور اس کو شکست دے کر بہت سا مال اسباب اور مویسی لوٹ ليے ـ خود نصرت بھی قتل کر دیا گیا، اس کے کچھ ساتھی بچ کر بیاس پار چلے گئے اس کے بعد ہمیں کھوکھروں کے کمانڈر، ملک شیخا یا شیخا کھوکھر کا ذکر ملتا ہے ـ جسے تیمور نے کُپلا یا ہر دوار کی وادی میں شکست دی اور قتل کیا تاہم ظفر نامہ اس بات سے اختلاف کرتا ہے اس میں علاؤالدین کا تذکرہ شیخ کُکاری کے نائب کے طور پر کیا گیا ـ اس بعد ہم تیمور کی واپسی کے دوران میں جموں میں آمد سنتے ہیں جموں کے نواح میں اس نے کافروں کے سات قلعوں پر قبضہ کیا جن کے لوگ ہندوستان کے سلطان کو جذیہ ادا کیا کرتے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ سلسلہ منقطع ہو چکا تھا ـ ان میں سے ایک قلعہ ملک شیخا کُرکر کا تھا، لیکن ظفر نامہ کے مطابق قلعے کا مالک ملک شیخ کوکر کا ایک رشتہ دار شیخا تھا ـ اس طرح معاملہ کچھ واضع ہو جاتا ہے ـ نصرت کھوکھر بیاس کے کنارے قتل ہوا جس کے بعد اس کے بھائی شیخا نے تیمور کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس کے ساتھ ہی دہلی چلا گیا ـ کُپلا میں ماراجانے والا ملک شیخا سرے سے کھوکھر تھا ہی نہیں، لیکن تیمور کی آپ بیتی میں ملک شیخا کو شیخا کھوکھر کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا گیا ہے غالباً ملک شیخا کا کوئی کھوکھر رشتہ دار تھا جس کا جموں کے قریب ایک چھوٹا سا قلعہ تھا ـ تیمور کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد شیخا صفحہ تاریخ سے غائب ہو جاتا ہے ،لیکن 142٠ء میں کوئی 22 برس بعدجسرت ابن شیخا منظر پر ابھرتا ہے اس برس کشمیر کے بادشاہ نے سندھ پر چڑھائی کی تو جسرت نے حملہ کر کے اس کو شکست دی قید کیا اور سارا مال اسباب اپنے قبضے میں کیا۔ اس کامیابی سے حوصلہ پاکر جسرت دہلی پر قبضے کے خواب دیکھنے لگا ـ تیمور جاتے وقت خضر خان کواپنا حاکم مقرر کر گیا ـ جسرت نے اس کی وفات کی خبر سنی تو بیاس اور ستلج پار کر کے مینا رہنماؤں کو شکست دی، لدھیانہ سے لے کر اُروبر تک کا علاقہ فتح کیا اور پھر جالندھر کی طرف بڑھا ـ جسرت نے حکمت سے زیرک خان کو قید کر کے واپس لدھیانے آیا اور پھر سرہند کا رخ کیا ـ سرہند کا قلعہ زیر نہ ہو سکا اور سلطان مبارک شاہ کی پیش قدمی نے اسے پسپاہو کر لدھیانے جانے پر مجبور کر دیا ـ مبارک شاہ کی افوج نے لدھیانہ تک اس کا تعاقب کیا مگر ستلج عبور نہ کر سکیں کیونکہ جسرت نے ساری کشتیوں پر قبضہ کر لیا تھا آخر کار جب افواج نے دریا عبور کر لیا جسرت نے پہاڑوں میں تیکھر کے مقام پر ٹھکانہ کیا ـ لیکن جمّون کے رائے بھیم نے مبارک شاہ کی فوجوں کی راہنمائی کی اور انہوں نے جسرت کے قلعے کو تباہ برباد کر ڈالا ـ البتہ جسرت کی طاقت میں زیادہ کمی نہ آئی، کیونکہ جونہی مبارک شاہ واپس دہلی گیا جسرت نو راوی اور چناب پار کئیے اور ایک بڑی فوج کو ہمراہ لاہور پر حملہ کر دیا اس نے چھ ماہ تک لاہور کا محاصرہ کیا ـ شہر کی انتہائی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بندی کی گئی تھی اور بڑی بہادری اور خوبی کے ساتھ اس کا دفاع کیا گیا ـ جب لاہور کو تسخیر کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو جسرت نے محاصرہ اٹھادیا اور کلانور کی طرف چلا گیا ـ اس جگہ سے اس نے جمّوں پر حملہ کر دیا۔ گذشتہ معرکے میں اس کے راجا نے بادشاہ کی فوجوں کی بسال تک راہنمائی کی تھی تاہم جسرت جب راجا اور اس کی سلطنت پر کوئی تاثر قائم نہ کر سکا تو وہ اپنی فوج میں ازسر نو بھرتی کرنے کے لئیے دریائے بیاس کی جانب لوٹ آیا ـ دریں اثناء لاہور میں وزیر ملک سکندر کی سرکردگی میں تازہ فوج کی کمک آ پہنچی اس نے حاکم دیپال پور ملک رجب اور حاکم سرہند اسلام خان کے ساتھ الحاق کر لیا تھا ،لہذا یہ آپنی آپنی فوج کی قیادت کر رہے تھے متحدہ فوج نو جسرت کے خلاف پیش قدمی کی اور اسے بہت زیادہ نقصان کے ساتھ پیچھے چناب پار دھکیل کرآپنی پہاڑی پناہ گاہ کی طرف جانے پر مجبور کر دیا ـ ہوشیار وزیر نے اب بے راہنما کھوکھروں کا تعاقب کیا اور دریائے راوی کے کنارے کنارے کلانور پہنچ گیا ـ وہاں جموں کے راجا سے مل کر اس نے بے شمار کھوکھروں کو ڈھونڈ نکالا جو مختلف مقامات پر چھپ گئے تھے ان سب کو تہ تیغ کر دیا ان کاروائیوں کے بعد وزیر واپس لاہور آگیا ـ بادشاہ وزیر ملک سکندر کی بہادری اور دلیری سے بہت خوش ہوا اس نے اسے لاہور کا صوبیدار مقرر کیا اور محمود وحسن کو واپس دہلی بلابھیجا ـ شاہی فوجوں کو روانہ ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ جسرت کھوکھر دوبارہ میدان میں نمودار ہوا ـ
اس نے 12 ہزار کھوکھروں کی فوج جمع کرکے جموں کے راجا رائے بھیم کو شکست دے کر ہلاک کر دیا اور لاہور اور دیپال پور کے صوبوں کو تہ بالا کر دیا ـ حاکم لاہور ملک سکندر ،لاہور سے اس کے مقابلے کے لئیے روانہ ہوا لیکن اس کی آمد پر جسرت آپنے لوٹ مار کے سامان کے ساتھ دوبارہ پہاڑوں میں پناہ گزیں ہوا ـ دریں اثناء حاکم ملتان ملک ابدالرحیم علا الملک کے انتقال کے باعث، ملک محمود حسن کو ایک فوج کے ہمراہ ملتان روانہ کیا گیا ـ غالباَ اسی دور میں حاکم کابل شاہ رخ مرزا کی ملازمت میں ایک مغل سردار امیر شیخ علی نے جسرت کے اکسانے پر بھکر اور ٹھٹھہ پر حملہ کر دیا ـ ستمبر1427ء میں جسرت کھوکھر نے کلانور کا محاصرہ کر لیا اور ملک سکندر کو شکست دے کر لاہور کی طرف پسپا ہونے پر مجبور کر دیا ـ بادشاہ نے حاکم سامانہ رزق خان اور حاکم سرہند اسلام خان کی سرکردگی میں کمک روانہ کی، لیکن پیشتر اس کے کہ وہ لاہور کی فوج کے ساتھ شامل ہوتے، ملک سکندر نے جسرت کو شکست سے دوچار کرکے اسے لوٹ مار کے سامان سے محروم کر دیا جو اس نے غارت گری کے باعث علاقے سے جمع کیا تھا ـ
1429ء میں حاکم کابل امیر شیخ علی نے شاہ رُخ مرزا کے توسط سے پنجاب پر حملہ کر دیا کھوکھروں نے اس کے ساتھ مل کر زیادہ غارت گری شروع کردی ـ لاہور پہنچنے پر اس نے حاکم لاہور ملک سکندر پر ایک سال کی آمدنی کے برابر خراج عائد کر دیا ـ اس کے بعد وہ دیپالپور روانہ ہو گیا اور وہاں پہچنے پر علاقے کو غارت کیا ـ فرشتہ کے مطابق اس موقع پر چالیس ہزار ہندؤوں کو قتل کر دیاگیا حاکم ملتان عمادالملک نے تلمبہ کے مقام پرشیخ علی پر اچانک حملہ کیا لیکن اسے ناکامی ہوئی ــ دریائے راوی کے ساتھ چلتے ہوئے مغل خیر آباد کی طرف بڑھے اور وہاں سے ملتان روانہ ہوئے ،جس پر 29 مئی 1430ء کو حملہ کیا گیا ـ جب حملہ ناکام ثابت ہوا تو ملتان کا مکمل محاصرہ کر لیا گیاـ دریں اثناء دہلی سے مظفر خان گجراتی کے بیٹے فتح خان کی قیادت میں کمک آن پہنچی، لہذا امیر شیخ علی کی قیادت میں مغل فوجوں اور عمادالملک کے تحت دہلی اور پنجاب کی فوجوں میں زبردست خونریز جنگ لڑی گئی۔ ابتدا میں مغلوں کو کچھ کامیابی ہوئی ،لیکن فتح خان گجراتی کی موت نے ہندوستانیوں میں انتقام کی پیاس کو بڑھا دیا، لہذا وہ اس مستقل مزاجی اور مضبوط ارادے کے ساتھ لڑے کہ مغلوں کو شکست ہو گئی ـ فاتحین نے ان کا لگاتار تعاقب کیا اور ان کی ساری فوج کو یا تو تہ تیغ کر دیا گیا یا وہ دریائے جہلم کو عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب گئی ـ امیر شیخ علی آپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ کابل کی طرف فرار ہو گیا ـ 1432ء میں نصرت خان گرگندز کو لاہور کا صوبیدار مقرر کیا گیا ـ پنجاب پر اس سال اور اگلے سال کے دوران ملک جسرت کھوکھر اور امیر شیخ علی نے حملہ کیا تاہم شاہی فوجوں نے ان حملوں کو بڑی کامیابی کے ساتھ پسپا کر دیا ـ 1436ء میں سلطان محمد شاہ نے شیخا کھوکھر کے خلاف ایک مہم بھیجی جس نے اس کے علاقوں میں لوٹ مار مچائیـ 1441ء میں سلطان نے بہلول خان کو دیپالپور اور لاہور کا حاکم مقرر کر کے اسے جسرت کھوکھر کے خلاف بھیجا، مگر جسرت نے صلح کرلی اور اسے دہلی کے تخت کے خواب دکھائے اس کے بعد کھوکھر طاقت کو نا معلوم وجوہ کی بنا پر زوال آگیا ـ
اکبر کے عہد میں باری دو آب میں لاہور کی سرکار کے 52 میں سے 5 محل چنھٹھ دوآب میں 21 پرگنوں میں سے سات کھوکھروں کے پاس تھے ـاس کے علاوہ ایک ایک محل بست جالندہر اور رچنا دو آب میں بھی تھا ملتان کی دیپالپور سرکار میں دس میں سے تین محل ان کے تھے ریورٹی نے اُس دور میں ان کی تعداد دو لاکھ نفوس بتائی ـ مندرجہ بالا تفصیلات کے باوجور کھوکھروں کی حثیت کے ماخذ سے پردہ نہیں اُٹھتا ــ
گورداسپور کے کاٹل راجپوتوں کے متعلق بیان کیا گیا کہ اوّلین اسلام قبول کرنے والوں میں سے کچھ کو کھوکھر کہا گیا، لیکن وہ کہتے ہیں ہمارے اجداد میں سے ایک ریاست جمّوں میں واقع منگلا دیوی کے قلعے میں آباد ہوا اور پھر خیر پور پر قابض ہو گیا، خیر پور کی نسبت سے اس کی اولادیں کھوکھر کہلوانے لگیں ـ انہوں نے غزنی کے محمد کے عہد میں اسلام قبول کیا ـ نیز کاٹل ان کے ساتھ اس ليے شادیاں نہیں کرتے کیونکہ کھوکھر محمد غزنی کی کاٹل بیویوں کی اولاد تھے ـ
کھوکھر یا كھوكر جاٹوں كى ایک گوت ہے جو كہ ہندوستان میں اترپردیش اور پنجاب میں پائے جاتے ہیں ـ جاٹوں كے علاوہ کھوکھر لوگ راجپوتوں میں بھى پائے جاتے ہیں ـ
گڑھ اور متھرا كے اضلاح میں کھوکھر جاٹوں كے تقریباً باون گاؤں ہیں ـ سكھـ دہرم كے گرو گروہرگوبند جى كے ساتھى بھائى روپ چند جى بھی کھوکھر تھے جن كے نام كا ایک گاؤں بھنڈا ڈسٹرک میں واقع ہے ـ پاكستان میں کھوکھر لوگ دین اسلام كے پیرو كار مسلمان ہوتے ہیں ـ بیرونى حملہ آور محمد غورى كے 1191 ء والے حملے میں کھوکھر لوگوں نے محمد غورى كو برى طرح مارا تھا ـ مگر 1192ء والى جمگ میں كھوكھر لوگوں نے حصہ نہیں لیا تھا اس لیے رائے پتھورا كو محمد غوری سے شكست هوی ــ
*الدعاء*
یا اللہ تعالی کھوکھر برادری کے لوگ جہاں بھی آباد ہیں انھیں تا قیامت شاد و آباد رکھنا۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cll:00923008604333
کھوکھروں کی تاریخ
[28/08, 17:22] Nazir Malik: *منافقین اور مومنین کے مابین مکالمہ*
منگل 29 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*منافقوں اور مومنین کے مابین مکالمه*
*منافق:*
اس اندھیرے میں ذرا همیں بھی اپنے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لینے دو؟
*مومن:*
یه نور حاصل کرنے کے لۓ دوباره دنیا میں جاؤ (اگر جا سکتے ھو)
*منافق:*
کیا دنیا میں هم تمهارے ساتھ نه رھتے تھے؟
*مومن:*
تم ھمارے ساتھ تو رهتے تھے لیکن الله اور اس کے رسول کے بارے میں شک میں مبتلا تھے مسلمانوں کو دھوکه دیتے رهے پس تمهارا ٹھکانا جهنم ھے
(ماخوذ سورة حدید ١٣-١٥)
*اک غلط فہمی کا ازالہ*
کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے ارواح اپنے گھروں میں پیر یا جمعرات کو آتی جاتی ہیں۔ حقیقتا" یہ عقیدہ سراسر بے بنیاد ہے کیونکہ جو روح قفس عنصری سے پرواز کر گئ وہ واپس نہیں آ سکتی۔
*حوالہ۔*
شہید کہے گا کہ یا اللہ تعالی مجھے دنیا میں جانے کی اجازت دیجئے تاکہ میں تیری راہ میں جہاد کروں اور مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور اور پھر شہید کیا جاؤں تو اللہ تعالی فرمائیں گے کہ یہاں سے واپسی کی کوئی سبیل نہیں(القرآن
دنیا سے ایک بار چلے جانے کے بعد واپسی ہرگز نہیں۔
It is like
*one way ticket*
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں پکا سچا مومن بنا اور ہمیں دنیاوی زندگی میں اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ تعالی مجھے وہ نعمتیں عطا فرما جو نہ تو بدلیں اور نہ زائل ہوں.
یا حیئ و یا قیوم برحمتک استغیث
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik. com
Cell:00923008604333
منافقین اور مومنین کے درمیان مکالمہ
[29/08, 23:59] Nazir Malik: *من چاہی زندگی یا رب چاہی زندگی*
بدھ 30 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
سورۃ دھر آیت 1 ،تا 3
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
یقیناً گزرا ہے انسان پرایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا(دھر۔1)
بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لئے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا(دھر۔2)
ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا(دھر۔3)
*رب چاہی زندگی*
کلمہ طیب کے دو حصے ہیں
*لا الہ الا اللہ*
دل سے مان کر اور زبان سے اقرار کر کے آپ اسلام میں داخل تو ہو جاتے ہیں مگر زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنے کے لۓ
*محمد الرسول اللہ*
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سی زندگی گزارنی ہے تب ہی مومن کامل بنو گے کیونکہ نبی کریم کی زندگی ہمارے لئے مثل راہ ہے اور حقیقت میں کامیاب زندگی ہے
جس میں حقوق اللہ کی ادائیگی بھی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی۔
*ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا*(دھر۔3
چونکہ اللہ تعالی نے عمل کے لئے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے چاہے تو اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ بن کر *رب چاہی* زندگی گزار دے اور جنت کا حق دار بن جائے۔ یا پھر جانوروں کی طرح اپنی *من چاہی* زندگی گزارے اور جہنم اپنا ٹھکانا بنالے۔
کتاب اللہ میں اللہ تعالی نے صاف صاف بنی نوع انسان کے لئے کامیابی اور نا کامی کے راستوں کا تعین کر دیا۔
اب یہ آپکی اپنی صوابدید ہے چاہے تو دین اسلام پر رہتے ہوۓ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کریں اور زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوۃحسنہ کے مطابق گزارو یا پھر اپنی من چاہی زندگی گزارو جس کے نتائج بھی اللہ تعالی نے واضع کر دیۓ۔
الدعاء
یا اللہ تعالی تو ہمیں دین اسلام کی راہ پر چلنے والا بنا دے اور اپنے نبی کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنا اور طاغوت سے ہماری حفاظت فرما۔
آمین یا رب العالمین
احقر العباد
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923008604333
من چاہی زندگی یا رب چاہی زندگی
[30/08, 16:45] Nazir Malik: *استغفار کے فوائد*
*قرآن وسنت کی روشنی میں*
جمعرات 31 اگست 2023
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
استغفار کے بہت سے فوائد ہیں جنمیں سے چند درج ذیل ہیں:
*١۔استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے*
ارشاد باری تعالی ہے
وَمَن یَعْمَلْ سُوء اً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّہَ یَجِدِ اللّہَ غَفُوراً رَّحِیْما۔
"جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا مہربانی کرنے والا پائے گا'' (سورہ نساء:١١٠)
*٢۔استغفار گناہوں کے مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے*
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''اللہ تعالی جب جنت میں نیک بندے کے درجہ کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا :پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟ اللہ تعالی فرمائے گا تیرے لئے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب.''
(مسند احمد'شعیب) ارنؤوط نے اس کی سند کو حسن قراردیا ہے)
*٣۔استغفار بارش کے نزول 'مال واولاد کی ترقی اور دخول جنت کا سبب ہے*
ارشاد باری تعالی ہے
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّاراً ' یُرْسِلِ السَّمَاء عَلَیْْکُمْ مِّدْرَاراً ' وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراً
''اور میں (نوح علیہ السلام) نے کہا (اپنی قوم سے) اپنے رب سے اپنے گناہ بخشواؤ (اور معافی مانگو)، وہ یقینا بڑا بخشنے والا ہے 'وہ تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا، اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا' اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لئے نہریں نکال دے گا''
(سورہ نوح:١٠۔١٢)
*٤۔استغفار ہر طرح کی طاقت وقوت کی زیادتی کا ذریعہ ہے*
ارشاد باری تعالی ہے
وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا ِلَیْْہِ یُرْسِلِ السَّمَاء َ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً وَیَزِدْکُمْ قُوَّةًالَی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْن
''اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو' تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت و قوت بڑھا دے اور تم جرم کرتے ہوئے روگردانی نہ کرو'' (سورہ ہود:٥٢)
*٥۔استغفار سامانِ زندگی کا سبب ہے*
ارشاد باری تعالی ہے
وَأَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُواْ ِلَیْْہِ یُمَتِّعْکُم مَّتَاعاً حَسَناً ِالَی أَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ
اور یہ کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ رہو وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا''(سورہ ہود: ٣)
*٦۔استغفار بندے کے دنیاوی و اخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے*
ارشاد باری تعالی ہے
وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُون
''اور اللہ تعالی ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں''
(سورئہ انفال:٣٣)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتا رہتا ہے ''
(مسند احمد'شعیب ارنؤوط نے اس حدیث کو حسن قراردیا ہے )۔
*٧۔استغفار نزولِ رحمت کا سبب ہے*
ارشاد باری تعالی ہے
قَالَ یَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون
''آپ نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو! تم نیکی سے پہلے برائی کی جلدی کیوں مچا رہے ہو؟ تم اللہ تعالی سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے''
(سورئہ نمل:٤٦)
*٨۔ استغفاردلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے*
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑ کر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر گناہ پر گناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ ''رین ''ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ)٫٫یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے''
(مسند احمد)
*استغفار کے فوائد*
(1) گناہ معاف ہونگے
(سورة نوح : ¹⁰)
(²) بارش ہوگی ۔ (سورة نوح : ¹¹)
(³) اولاد نصیب ہوگی (سورة نوح :¹²)
(⁴) مال ملے گا (سورة نوح :¹²)
(⁵) باغات ملیں گے (سورة نوح :¹²)
(⁶) نہریں جاری ہونگی (سورة نوح : ¹²)
(⁷) خوش حالی والی زندگی نصیب ہوگی (سورة ہود : ³)
(⁸) طاقت اور قوت ملے گی (سورة ہود : ⁵²)
(⁹) مبارکباد ہے اس شخص کے لیے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہو۔ (ابن ماجہ )
(¹⁰) جو پابندی سے استغفار کرے گا تو اللہ اسے ہر غم اور ہر تکلیف سے نجات دے گا ، ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرماۓ گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا ، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا(ابو داؤد ابن ماجہ)
*الدعاَء*
اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ -
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:00923998604333
استغفار کے فوائد8
تبصرے