میزائل اور راکٹ گذشتہ سے پیوستہ
*میزائل اور راکٹ جدید جنگی ہتھیار( بقیہ)*
*گذشتہ سے پیوستہ*
اتوار 21 اپریل 2024
تلخیص: انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
ان میزائلوں کے علاوہ دنیا میں دیگر نوعیت کے میزائل بھی موجود ہیں جن میں ابدالی، غوری I، غوری II، غوری III، غزنوی، حتف I، کندور، جیریکو، ایم 5، ایم 45، ایم 51، نوڈونگ، پیس کیپر، پلوٹن، پلورس، پوسی ڈین، پرتھوی، سکڈ، شہاب 3، شہاب 4، شہاب 5، شاہین، سکائی بولٹ، ائیر لانچڈ بلاسٹک میزائل، ایس ایس 18، ایس ایس 24، تائی پو ڈنگ I، تائی پوڈنگ 2، ٹرائی ڈینٹ، اگنی، وی ٹو، عنزہ، بکتر شکن، بابر، حسین، سٹینگر، دھنش قابلِ ذکر ہیں۔
پاکستان کا حتف 7 یا بابر میزائل زمین سے زمین اور زمین سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل کی قسم کا ہے جو ہر طرح کے جوہری اور روایتی اسلحہ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی حد پانچ سو کلومیٹر ہے۔ بابر میزائل کی نشان دہی کسی بھی ریڈار سسٹم یا دفاعی سسٹم پر نہیں ہو سکتی اور اس میزائل کو زمین کے علاوہ جنگی کشتی، آبدوز اور ہوائی جہاز کے ذریعے بھی پھینکا جا سکتا ہے اور یہ پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجینئروں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان نے سب سے دور مار کرنے والے میزائل شاہین ٹو کا بھی تجربہ کیا ہوا ہے اور یہ میزائل جوہری اسلحہ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاہین 2، دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور متعدد بھارتی مقامات تک باآسانی پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاہین میزائل کو پاکستان میں سب سے اہم بلاسٹک میزائل سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ غوری ،حتف اور عنزہ میزائل بھی موجود ہیں۔ یہ زمین سے فضا، زمین سے زمین اور اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل ہیں۔
زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کی فہرست میں سب سے زیادہ خطرناک میزائل روسی ساختہ اِگلا نامی میزائل ہے جو کچھ ہی عرصہ قبل ایک برطانوی سوداگر نے امریکا میں بھی اسمگل کیا تھا۔ اس میزائل کے ذریعہ امریکی صدر بش کے طیارے ’ایئر فورس ون‘ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ اِگلا میزائل جدید ہتھیاروں کی اس قسم سے تعلق رکھتا ہے جو زمین سے فضا میں مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ دس ہزار فٹ کی بلندی تک اڑنے والی ہر چیز کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ میزائل بوسنیا کی جنگ کے دوران بھی استعمال کیے گئے تھے۔ جبکہ دو سال قبل چیچنیا میں ایک روسی فوجی جہاز کو مار گرایا گیا تھا جس میں ایک سو اٹھارہ روسی فوجی سوار تھے۔ خیال ہے کہ اس جہاز پر بھی اِگلا میزائل ہی داغا گیا تھا۔ اِگلا میزائل روسی ساختہ ہے اور اس کی فروخت 80 اور90 کی دہائی میں ہوئی تھی۔ یہ جہاز کے انجن سے خارج ہونے والی حرارت کا پیچھا کرتے ہوئے اپنے شکار کو جا لیتا ہے۔ اسی نوعیت کے امریکی میزائل سٹنگر ہیں جو افغان روس جنگ میں آزمائے گئے۔ اب بھی افغانستان میں سینکڑوں سٹنگر میزائل موجود ہیں جو جنگ کے دوران امریکہ نے روسی طیاروں کو گرانے کے لیے سٹنگر اور دیگر نوعیت کے راکٹ، بارودی سرنگوں اور دھماکا خیز مادے سمیت طرح طرح کے ہتھیار وار لارڈز کے حوالے کیے تھے۔ بعد میں امریکا نے ان میزائلوں کو مجاہدین سے بھاری قیمت پر واپس خریدنے کی کوشش بھی کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی اور اب بھی افغانستان میں سو کے قریب سٹنگر میزائل موجود ہیں۔ بلکہ ابھی حال ہی میں افغانستان میں بین الاقوامی حفاظتی فوج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں امریکا میں بنے سٹنگر میزائل اور راکٹ فروخت کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ جنرل اکِن زورلو نے کہا کہ ان کے فوجیوں کو سٹنگر میزائل دو لاکھ ڈالر اور راکٹ پانچ سے دس ہزار ڈالر کی شرح سے فروخت کیے جانے کی پیشکش کی گئی۔ ان کے خیال میں حالیہ دنوں میں کابل پر راکٹ حملوں میں اضافہ ڈیلروں کی طرف سے بین الاقوامی امن فوجیوں پر راکٹ خریدنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کابل میں صحافیوں کو بتایا تھاکہ تقریباً ہر ایسے واقعہ کے بعد انھیں ہتھیاروں کی فروخت کی پیشکش ہوتی رہی۔ امن فوج کے ایک اڈے پر ایک ہفتے کے دوران کم از کم چھ راکٹ داغے گئے۔
ایران کا شہاب سوم میزائل زمین سے زمین پر مار کرنے والا بیلاسٹک میزائل ہے۔ یہ تیرہ سو کلومیٹر دور تک مار کرتا ہے۔ یہ میزائل 1998میں تیار کیا گیا تھا جس کا تجربہ ابھی حال ہی میں کیا گیا ہے جو اسرائیل تک پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ اسرائیل کے پاس بھی بیلاسٹک میزائلوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ جیریکو I اور جیریکوII نہ صرف ایران بلکہ تمام اسلامی دنیا اور ایشیا کے دیگر ممالک تک مار کر سکتا ہے۔ فرانس کے ایم 4 اور ایم 45 بیلاسٹک میزائل 4000 اور 5300 کلومیٹر تک پہنچتے ہیں۔ بھارت کا بیلاسٹک پرتھوی 150 سے 250 کلومیٹر جبکہ اگنی 2500 کلومیٹر تک پہنچتا ہے۔ روس کا ایس ایس 18 گیارہ ہزار، ایس ایس 19 دس ہزار، ایس ایس 24 دس ہزار، ایس ایس 25 دس ہزار پانچ سو، ایس ایس این 18 چھ ہزار پانچ سو، ایس ایس این 20 آٹھ ہزار تین سو کلومیٹر تک مار کرتے ہیں۔ برطانیہ کا ٹرائیڈینٹ D5 بارہ ہزار کلومیٹر تک پہنچ سکتا ہے۔ امریکا کا ایل جی ایم 30 G تیرہ ہزار، ایل جی ایم 118نو ہزار چھ سو، یو جی ایم 93 A سات ہزار چار سو، یو جی ایم 133 A بارہ ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔
اب میزائل ٹیکنالوجی عام ہو چکی ہے اور دنیا کے پچاس سے زائد ممالک کے پاس یہ کسی نہ کسی نوعیت کی موجود ہے جبکہ میزائل بھی دیگر عام ہتھیاروں کی طرح دوسرے ممالک سے خریدے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ہتھیار تیار کرنے والے اداروں کی ایک مہنگی اور جدید پراڈکٹ ہے اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کا عمل بھی جاری ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے میزائلوں کے حصول کی شروع کی ہوئی لڑائی اب اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ اس کو روکنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادی اپنے میزائلوں کی تیاری ترک کر دیں اور برابری کی سطح پر بات چیت کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھیں تو تب شاید دیگر ممالک بھی اس نوعیت کے اپنے ہتھیار بنانے چھوڑ دیں کیونکہ دھمکیوں اور لڑائیوں سے یہ باتیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مزید شدت اختیار کر جاتی ہیں۔
یاد رہے کہ انسان اپنی تباہی کا خود اہتمام کر رہا ہے۔ اگر دنیا میں موجود ہتھیار یکدم چلا دیئے جائیں تو یہ وقت قیامت سے کم نہ ہوگا۔
انسانی ترقی خود انسانی تباہی کا باعث بن سکتی ہے
اللہ تعالی ہمیں عقل سلیم عطا کرے اور ہماری حفاظت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
میزائل اور راکٹ جدید جنگی ہتھیار (بقیہ)
تبصرے