قبلہ اول مسجد اقصی قسط نمبر 1
*قبلہ اول مسجد ِ اقصی*
قسط نمبر 1
بدھ 16 اپریل 2025
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
الحمد للہ رب العالمین ,والصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد۔۔۔۔
مسجد ِ اقصی اس عظیم مسجد کا نام ہے جسے حضرت سلیمان ۔علیہ السلام نے تعمیر فرمایا تھا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے
ترجمہ: سلیمان بن داود علیہ السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے انہوں نے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کرے جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملے، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔
اس مسجدِ عظیم کو المسجد الأقصی یا بیت المقدس کے نام سے موسوم کیا جاتاہے, یہ مسجد (یروشلم ) یا فلسطین میں واقع ہے ,اور حضرت عمر نے سنہ یکم ھجری میں فاتحانہ طور پر اس کی چابی حاصل کی تھی اور سرزمین قدس میں داخل ہوئے۔اس وقت قدس کے بطریق سیفرنیوس نے مدینہ قدس کی کلید آپ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں دینے سے عدم رغبت کا اظہارکیا اور اس وقت کی مسلح قیادت کو چابی حوالہ کرنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میں چاہتاہوں کہ خلیفۃ المسلمین بنفس نفیس تشریف لائیں اورمدینہ قدس کی زمام کار اپنے ہاتھوں میں سنبھالیں چنانچہ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا تاریخی سفرطے کرکے قدس پہنچے جس کا قصہ تاریخی کتابوں میں انتہائی معروف ومشہور ہےاور تعجب خیز بھی ہے اور سبق آموز بھی ۔
بہرحال آپ قدس پہنچے اور مسجد اقصی کی چابی وصول کی۔ اس کے بعد آپ نے ایک معاہدہ تحریرفرمایا جس کو *معاہدہ عمریہ* کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس معاہدہ میں تحریری طورآپ نے فرمان جاری کیا کہ ان لوگوں کو جو اس سرزمین پر ہیں جانی ومالی تحفظ عطا کیا جاتا ہے نیز ان کی ذریت اوراہل وعیال محفوظ ومامون ہوں گے۔ ان کی عبادت گاہوں اوران کے شعائرِ دینیہ اوررسم ورواج سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا اور ہر اس چیز کا ان کو حق حاصل ہے جس کے حصول کی لوگ کوششیں کرتے ہیں اور ہاتھ پاؤں مارتے ہیں,اس معاہدہ میں ایک بند یہ بھی تحریر تھا کہ *اس مقدس سرزمین پر یہودیوں میں سے کسی فرد کو آباد ہونے کے لئے جگہ نہ دی جائے۔*
اسلامی عقیدہ کے اعتبار سے اسے ایک اہم مقام حاصل ہے جبکہ یہودی اسے حضرت سلیمان علیہ سلام کی تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے منہدم کرکے دو بارہ ہیکل ِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں,حالانکہ آج تلک وہ بد باطن دلائل و براہین سے اس کو ثابت نہ کر سکے اور صبح ِ قیامت تک ثابت نہیں کرسکتے کہ ہیکل ِ سلیمانی یہیں تعمیر کیا گیا تھا حالانکہ مسجد اقصی دنیا کی وہ دوسری مسجد ہے جو اس زمین پر بنائی گئی ہے وہ ایک تاریخی ہی نہیں اسلامی اور مکمل اسلامی مسجد ہے جسے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ مل جائیں گے جو بیت المقدس کے اسلامی حقائق سے نہ صرف یہ کہ ناآشنا ہیں بلکہ معاذ اللہ وہ مسجد ِ اقصی کو یہودیوں کا جائز حق مانتے ہیں( تف ہے ایسی بیہودہ عقلوں پر اور افسوس ہے ایسے ناہنجاروں کی سوچ و فکر پر) اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ قبلہ اول :مسجد ِ اقصی
کے حقائق و وقائع پر چند وضاحتیں حیطہ تحریر میں لائی جائیں مبادا گم گشتہ راہ کو کچھ سامانِ ہدایت میسر ہوجائے *فأقول و باللہ التوفیق*
(۱)مسجد ِ حرام کے قبلہ قرار دئے جانے سے پہلے مسلمان مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے یعنی بیت المقدس قبلہ اول تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ} (البقرۃ:۱۴۳)
ترجمہ:
جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اسی لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابع دار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے,گویہ کام مشکل ہے مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے (ان پر کوئی مشکل نہیں)اللہ تعالی تمہارے ایمان (نماز)ضائع نہ کرے گا اللہ تعالی تو لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے یہ کوئی 17 ماہ کی مدت پر محیط تھی پھر بیت الحرام کی طرف قبلہ کا رخ موڑ دیا گیا جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما۔ کی روایت میں موجود ہے فرماتے ہیں
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے نانیہال کے یہاں اترے، جو انصار تھے۔ اور وہاں آپ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہو ( جب بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا ) تو سب سے پہلی نماز جو آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ وہاں آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی نکلا اور اس کا مسجد ( بنی حارث) کی طرف گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے۔ وہ بولا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ ( یہ سن کر ) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور جب رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہود اور عیسائی خوش ہوتے تھے مگر جب آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا تو انھیں یہ امر ناگوار محسوس ہوا (اچھا نہیں لگا)نیز فرمایا:
ترجمہ حدیث: نبیٔ کریم ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ؛ جب کہ آپ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ شریفہ) کی طرف ہو تو سب سے پہلی نماز جو آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ وہاں آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی تو ایک آدمی جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی نکلا اور مسجد والوں کے پاس سے گزرا حالانکہ وہ لوگ رکوع میں تھے چنانچہ عرض گزار ہوا: میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے ( یہ سن کر ) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے)
اس درمیان نبی ٔکریمﷺ کی خواہش تھی کہ قبلہ کا رخ بدل دیا جائے, اور قبلہ مسجد ِ حرام کی طرف پھیر دیا جائے, اللہ تعالی نے اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے, ارشاد ِ ربانی ہے(قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ)(البقرۃ:۱۴۴)
(ترجمہ آیت: ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوے دیکھ رہے ہیں اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں آپ اپنا منہ مسجد ِ حرام کی طرف پھیر لیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں
(۲) مسجد ِ اقصی دنیا کی ان عظیم ترین مساجد میں سے دوسری مسجد ہے جسے دوسرے نمبر پر بنائی گئی جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:جب آپ سے پوچھا گیا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ۔ فرماتے ہیں:
ترجمہ حدیث: میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ زمین میں سب سے پہلی کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسجد حرام میں نے عرض کیا پھر اس کے بعد کونسی؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد اقصی میں نے عرض کیا: ان دونوں مسجدوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال پھر آپﷺ نے فرمایا:جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو وہی مسجد ہے۔
(۳)مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہےجس کی طرف بغرض عبادت سفر کرکے جانا جائز ہے ورنہ (ان تین مساجد کے علاوہ)دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے,جس کے لئے سفر کیا جا سکتا ہے (بغرض عبادت) جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
*لا تُشَدُّ الرِّحالُ إِلَّا إلىَ ثَلاثَةِ مَساجِدَ:المَسْجِدِ الحَرامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَىَ
ترجمہ حدیث: کجاوے صرف تین مساجد کے لئے کسے جائیں گے( یعنی سفر کیا جائے گا) مسجد ِ حرام مسجد نبوی الشریف اور مسجد اقصی
(۴)مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب پانچ سو نماز کے برابر ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: (الصلاةُ في المسجد الحرام بمائة ألف صلاةٍ، والصلاةُ في مسجدي بألف صلاة والصلاةُ في بيت المقدس بخمس مائة صلاة)
ترجمہ:مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ کے برابر مسجد نبوی میں ایک ہزار کے مساوی جبکہ بیت المقدس میں پانچ سو کے برابر ثواب ہے) نیز حضرت ابو ذرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ترجمہ حدیث: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے یہ گفتگو کر رہے تھے کہ مسجد نبوی افضل ہے یا مسجد بیت المقدس؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس میں پڑھی گئی چار نمازوں کے برابر ہے ہاں وہ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ ایک مؤمن کے لئے اتنی جگہ بھی ملنا مشکل ہوگا کہ وہ وہاں سے بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر صرف اتنی جگہ بھی مل گئی تو وہ اسکے نزدیک دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا) اس حدیث کی روشنی میں مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کا ثواب ڈھائی سو بنتا ہے۔
(۵)مسجد اقصی کو اللہ رب العالمین نے مبارک,متبرک اور قابل تقدیس قرار دیا ہے درج ذیل امور پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ تامل فرمائیں بہت سارے حقائق سامنے آئیں گے اور بہیترے گنجلک امور واشگاف ہوں گے
(ألف)اللہ تعالی نے فرمایا: (سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)(سورہ ٔ الإسراء:۱)
(ترجمہ ٔ آیت: پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد ِ اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا دیکھنے والا ہے
اللہ تعالی نے اس کے ارگرد برکتیں ڈالیں ہیں اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہاں باشندگان ان کے معاش و معیشت رہن سہن ان کی کھیتی باڑی اور ان کے روزی میں برکتیں دی ہیں
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ وہاں انبیاء بزرگان ِ دین اور صلحاء کا مسکن رہا ہے
3۔ حضرت معاذ نبی اکرم ﷺسے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:( يا شام أنت صفوتي من بلادي وأنا سائق إليك صفوتي من عبادي)
ترجمہ:اے شام ! تو میری چنندہ شہروں میں سے ہے اور میں تمہاری طرف اپنے چنندہ اور نیک بندوں کو لے کر آؤں گا اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جمّ غفیر نے وہاں اقامت اختیار فرمائی: جن میں حضرات:أبو عبيدة بن جرَّاح، صفيَّة بنت حُيَي زوجۃ النبیﷺ - معاذ بن جبَل، بلال بن رباح (مؤذِّن الرسول جنہوں نے مسجد نبوی میں اس وقت تک اذان دینے سے انکار کردیا تھا جب تک بیت المقدس فتح نہ ہوجائے- ,عياض بن غُنم، عبدالله بن عمر خالد بن الوليد، أبو ذر غفاري، أبو الدَّرداء عوَيمر، عُبادة بن صامت، وسلمان فارسي، وأبو مسعود الأنصاري، وتميم داري، و عمرو بن عاص، وعبدالله بن سلام، وسعيد بن زيد، وشدَّاد بن أوس، وأبو هريرة، وعبدالله بن عمرو بن العاص، ومعاوية بن أبي سفيان، وعوف بن مالِك، وأبو جمعة الأنصاري)رضی اللہ عن الجمیع
نیز حضرات :(عبادة بن الصامت، أبو ريحانة الأزدي، فيروز ديلمي، شداد بن أوس، مسعود أنصاري، سلام بن قيس الحضري رضي الله عنهم جميعًا) نے وہاں مدفون ہونے کی وصیت فرمائی تھی, اور حضرات :( عمر بن خطاب، أبو عبيدة بن جراح، عمرو بن عاص، خالد بن الوليد، معاوية بن أبي سفيان، عبد الرحمن بن عوف، بلال بن أبي رباح، وأم المؤمنين صفية رضي الله عنهم جميعًا) جیسے اجلہ صحابہ وہاں تشریف لے گئے,تاکہ نبی ٔ کریم ﷺ کی طرف سے بیان کردہ فضائل کو حاصل کر سکیں,اور تابعین اور فقہائے اسلام میں سے : (مالك بن دينار، أويْس القرني، وكعْب أحْبار، امام أوزاعي، وسفْيان ثوری، وإبراهيم بن أدهم، ومقاتل بن سفيان،لیث بن سعد، وكيع بن جرَّاح، امام شافعي، وأبو جعفر جرشي، وبشر الحافي، وثوبان بن يمرد) جیسے تابعین ِ جلیل القدر کے نام نامی شامی ہیں
نیز ذو النون مصري، وسُليم بن عامر،سري سقطي، وبَكْر بن سهل دمياطي، وأبو العوَّام (مؤذِّن بيت المقدس)، وسلامة المقدس الضرير، وأبو الفرج عبدالواحد الحنبلي، وامام غزالي، امام أبو بكر الطرطوشي، امام أبو بكر العربي، وأبو بكر جرجاني قابل ذکر ہیں.
الدعاء
یا اللہ تعالی بیت المقدس کو مسلمانوں قبضہ میں دے دے تاکہ نہتے فلسطینی اسرائیلی چنگل سے آزاد ہو سکیں۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell: 0092300860 4333
تبصرے