اسلام میں بیوہ کے حقوق

*اسلام میں بیوہ کے حقوق*

بدھ 04 ستمبر 2024
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا 

اسلام ایک مکمل معاشرتی دین ہے جس نے ہر رشتے کے حقوق و فرائض کا تعین کرکے برابر انصاف فراہم کیا ہے
 
خواتین کے حقوق میں ایک اہم حق بیوہ کا ہے اور
بیوہ کاپہلا حق یہ ہے کہ اس کے شوہر کے ترکہ میں سے اسے مقررہ حق دلایا جائے۔ اگر شوہر نے اولاد چھوڑی ہو تو بیوہ کوترکہ کا آٹھواں حصہ دلایا جائے اور اگر اولاد نہ چھوڑی ہوتو کل ترکہ کا چوتھائی حصہ دلایا جائے۔ ترکہ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تقسیم کیا جائے ورنہ تمام مال حرام ہو جاتا ہے۔ لڑکی،بیوی،ماں،بہن سب کے حصے پورے پورے دیے جائیں۔

اگر شوہرنے مرنے سے پہلے مہر ادا نہیں کیا ہے تو سب سے پہلے ترکہ میں سے بیوہ کو اس کا مہر دلایا جائے۔اسی طرح اگر شوہر اپنی بیوی کیلئے کوئی وصیت کرگیا ہے تو ترکہ کے ایک تہائی مال تک اس کی وصیت کو پورا کیا جائے۔

بیوہ کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی کفالت کا فورا نظم کیا جائے۔ اگر اسلامی حکومت ہے تو اس کے اخراجات اور کفالت کی ذمہ دار ہے۔اگر اسلامی حکومت موجود نہ ہو تو مسلم معاشرہ اس کے ساتھ حددرجہ ہمدردی کرے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔ جب تک وہ دوسرا نکاح نہیں کرلیتی۔

بیوہ کا تیسرا حق یہ ہے کہ عدت پوری ہوجانے کے بعد اسے سوگ اور ماتم سے نجات دلائی جائے۔ اس کے رنج وغم کو بھلانے کیلئے بہتر سے بہتر طور طریقے اختیار کئے جائیں۔ جائز حدود میں اسے زیب وزینت اور آرائش وسنگھار کرنے کا حق دیا جائے۔ 

بیوہ کاچوتھا حق یہ ہے کہ عدت پوری ہوجانے کے بعد اس کے نکاح ثانی کا انتظام کیا جائے۔ آج کل ہمارے معاشرہ میں بیوہ سے نکاح کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی ایک اہم سنت ہے جس کی طرف مسلمانوں کو فوری توجہ کرنی چاہیے۔ دوراول میں اسلامی معاشرہ میں بیوائوں سے شادی کرنے کوبڑے اجر کا کام سمجھا جاتا تھا اور اس سے مسلم معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہونے سے بچ جاتا تھا۔ کسی بیوہ سے نکاح کرکے اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کرنا عظیم نیکی ہے۔ 

خود کسی بیوہ سے نکاح کرکے اس نیکی وسعادت کو حاصل کریںیا اس کا نکاح کسی مناسب شخص سے کراکر حکم خداوندی کی تعمیل کیجئے۔ قرآن پاک میں حکم دیاگیا ہے’’اپنی بیوہ عورتوں اور رنڈوے مردوں کے نکاح کر دو‘‘ (النور:  23)

 بیوہ کاپانچواں حق یہ ہے کہ وہ اپنا نکاح کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ اس کے میکے یا سسرال کے لوگ اسے نکاح کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ ہاں اسے مشورہ ضرور دے سکتے ہیں۔ اگر بیوہ چھوٹے بچے رکھتی ہے اور وہ ان کی پرورش کی خاطر کوئی دوسرا نکاح نہیں کرتی اور وہ ان بچوں کی پرورش کیلئے محنت کرتی ہے تو یہ بڑے اجر وثواب کا کام ہے۔

قارئین کرام ! ہمیں چاہیے کہ ہم ان حقوق کی پاسداری کریں ۔بیوہ اور یتیم بچوں کی داد رسی کو اپنا فریضہ سمجھیں ۔اللہ پاک امت مسلمہ کو قرآن و سنت کے احکامات پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )

 Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333

تبصرے