اسلام میں بیوہ کا مقام
*اسلام میں بیوہ کا مقام*
جمعرات 05 ستمبر 2024
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
قبل از اسلام بیوہ عورت محرومی کا شکار تھی اسے کوئی عزت حاصل نہ تھی وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد بقیہ زندگی نہایت تکلیف ومصیبت میں بسر کرتی۔ یہودیوں کے یہاں بیوہ عورت اپنے شوہر کے بھائی کی ملکیت ہوجاتی تھی،
عیسائی مذہب نے بھی بیوہ عورت کیلئے کوئی مثبت ہدایت نہیں دیں۔ ہندومذہب میں تو شوہر کی وفات کے بعد بیوہ کو جینے کا حق ہی نہیں تھا اور وہ شوہر کی چتا میں زندہ جل کرستی کی رسم پورا کرنا اپنا مذہبی فرض سمجھتی تھی۔ وہ اگر زندہ بھی رہتی تو پوری زندگی اپنے شوہر کے سوگ میں گزارتی۔اسے زیب وزینت یادنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا کوئی حق نہ تھا۔ عربوں میں بھی بیوہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ شوہر کے وارثوں کی ملکیت میں آجاتی اور وہ جیسا سلوک چاہتے اس کے ساتھ کرتے۔
نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ مبعوث ہوئے تو بیوہ کے برے دن اچھے دنوں میں بدل گئے۔ آپ ﷺنے نہ صرف بیوہ عورت کو معاشرے میں باعزت مقام دلایا۔ اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی بلکہ اپنے عمل سے بیوہ کو وہ شان وعظمت عطا کی جس کا تصور بھی عربوں میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آپ ﷺ نے پچیس سال کی عمر میں بیوہ سے نکاح کرکے جاہلانہ رسموں کے خلاف عملی قدم اٹھایا۔ آپ ﷺ پچیس سال تک اِس طرح ان کے ساتھ شریک حیات رہے کہ اِس دوران آپ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی آپ ﷺ نے جن دس عورتوں (حضرت عائشہ، حضرت سودہ، حضرت حفصہ، حضرت زینب، حضرت ام سلمہ ، حضرت زینب، حضرت جویریہ ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت صفیہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما)سے نکاح کیا، سوائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساری بیوہ ہی تھیں۔
اسی طرح متعدد صحابہ کرام ؓ نے بھی اپنے زمانے کی مختلف بیوہ عورتوں کی فریاد رسی کی اور ان کے شریک حیات بن کر خود ان کو سہارا دیا۔ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے شوہر حضرت جعفر طیار ؓ جب غزو موتہ میں شہید ہو گئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓنے ان سے شادی کی۔ اسی طرح حضرت عاتکہ ؓ کے شوہر حضرت عبد اللہ بن ابی بکر ؓجب شہید ہوئے تو حضرت عمر فاروق ؓنے ان سے شادی کی۔حضورِ اقدس ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓنے اپنی زیر کفالت تمام بیوہ عورتوں کے نان نفقہ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور سوسائٹی و معاشرے میں دوبارہ ان کو عزت و آبرو کے ساتھ داخلے کا موقع دیا ۔
کسی عورت کیلئے اس سے زیادہ آزمائش اور مصیبت کوئی نہیں ہوسکتی کہ اس کا شوہر اس سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوجائے۔ شوہر کی وفات سے بیوی کوصرف جذباتی صدمہ ہی نہیں پہنچتا بلکہ اس کے سامنے مسائل کا ایک ہجوم منڈلانے لگتاہے۔اس مظلوم اور مصیبت زدہ عورت کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کیجئے۔ ایک یتیم بچہ جس طرح اپنے باپ کی وفات سے بے سہارا ہوجاتا ہے، اسی طرح بیوہ اپنے شوہر کی وفات سے بے سہارا ہوجاتی ہے۔ دونوں کی مصیبتوں اورپریشانیوں میں یکسانیت ہے۔ چنانچہ اسلام نے یتیم کی کفالت کرنے پر جس طرح جنت کی خوشخبری سنائی اور آنحضور ﷺ نے یتیم کی کفالت کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ میں اور وہ ان دونوں انگلیوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔ اسی طرح بیوہ عورت کے مسائل حل کرنے والے کے سلسلے میں بھی ارشاد فرمایا کہ وہ اور میں جنت میں دوانگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے۔
نبی کریم ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:بیوہ اورغریب کی خاطر دوڑ دھوپ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو راہِ خدا میں جہاد کرتا ہے اور اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو نماز پڑھتا ہے(صحیح بخاری و مسلم)
*الدعاء*
ہمیں چاہیے کہ ہم بیوہ کے حقوق کی پاسداری کریں ۔بیوہ اور یتیم بچوں کی داد رسی کو اپنا فریضہ سمجھیں ۔اللہ پاک امت مسلمہ کو قرآن و سنت کے احکامات پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
تبصرے