میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ
*میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ*
بدھ 09 اکتوبر 2024
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*میٹھے اور نمکین پانیوں کے درمیان آڑ*
قرآن مجید میں اللہ سبحان وتعالی ارشاد فرماتے ہیں
مَرَجَ الْبَحْرَ یْنِ یَلْتَقِیٰنِ ہ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خُ لَّا یَبْغِیٰنِ ہ[3]
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکائوٹ یا آڑ (partition ) کے ہے۔
تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتا ہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لیے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دومختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکائوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔[4] آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔ جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ مظہر درج ذیل آیت قرآنی میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
وَ جَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَا جِزً ا ط[5]
ترجمہ: اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کردیے۔ یہ مظہر متعدد مقامات پر وقوع پزیر ہوتا ہے جن میں جبل الطارق (جبرالٹر) کے علاقے میں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے ملنے کا مقام نمایاں طور پر قابل ذکر ہے۔ اسی طرح کیپ پوائنٹ اور کیپ پینسولا جنوبی افریقہ میں بھی (پانی کے بیچ) ایک سفید پٹی واضح طور دیکھی جاسکتی ہے جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کا ایک دوسرے سے ملاپ ہوتا ہے۔
لیکن جب قرآن پاک تازہ اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ (آڑ) کا تذکرہ کرتا ہے تو اس آڑ کے ساتھ ایک ممنوعہ علاقے کے بارے میں بھی بتاتا ہے:
وَ ھُوَ الَّذِ یْ مَرَ جَ الْبَحْرَ یْنِ ھٰذَا عَذْ بُ فُرَا تُ وَّ ھٰذَا مِلْحُ اُ جَا جُ وَ جَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خًا وَّ حِجْرً ا مَّحْجُوْ رًا ہ[6]
ترجمہ: اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا کر رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔
جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی (سمندری) مقامات پر جہاں (دریا کا)تازہ (میٹھا) اور (سمندرکا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندروں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت کہ کھاڑیوں (سمندر کا شاخ) میں تازہ پانی کو کھاری پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ پایکنو کلائن زون (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی ہے (یعنی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے) جو (کھاری اور تازہ پانی کی) مختلف پرتوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔
اس رکاوٹ (یعنی علاقہ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تنا سب (شوریت) تازہ پانی اور کھاری پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔
اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل بحیرہ روم میں گرتا ہے۔
قرآن پاک میں بیان کیے گئے ان سائنسی مظاہر کی تصدیق ڈاکٹر ولیم ہے' (Dr. William Hay) نے بھی کی ہے، جو کولوراڈو یونیورسٹی امریکا کے مشہور ماہر بحریات اور علوم ارضی کے پروفیسر ہیں۔
*الدعاء*
یا رب کریم ہمیں قرآن مجید کے رموز کو سمجھنے اور ان سے فوائد حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell:00924008604333
تبصرے