صدقات و خیرات
*صدقات و خیرات*
پیر 11 نومبر 2024
انجینیئر نذیر ملک
*صدقہ کی فضیلت*
مفہوم حدیث: رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
صدقہ دینے سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے، بڑھتا ہے بڑھتا ہے ( دارمی)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ دینے سے کوئی مال نہیں گھٹتا، اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے، اور جو بندہ الله تعالیٰ کے لئے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے
*صدقہ کیا ہے*
صدقہ ایک مستحب اور نفلی عبادت ہے جس کے تعلق تزکیہ نفس سے بھی ہے اور تزکیہ مال سےبھی۔ اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا مال تبھی صدقہ کہلا سکتا ہے اوراس پر اجر مل سکتا ہے جب کہ وہ مشروع آداب وشرائط کے ساتھ دیا جائے ۔ ایک مسلمان ایمان لانے کےبعد ہر کام صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اور اس کی خوشنودی ،اس کی تعظیم، اس کی عبادت اوراس کی رحمت حاصل کرنے کےلیے کرنے کا پابند ہے ۔ صدقہ چونکہ مالی عبادت اور ایک نیک عمل ہے لہٰذا یہ اللہ کے علاوہ اور کسی کےلیے کرنا حرام ہے ۔جوشخص حلال کمائی میں سے ایک کھجور کےبرابر صدقہ کرے تو اللہ اس کواپنے ہاتھ میں لیتا ہے پھر صدقہ دینے والے کےلیے اسے پالتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنابچھڑا پالتا یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کےبرابر ہوجاتا ہے۔ اور حرام کمائی سے دیا ہوا صدقہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا ۔
*صدقہ کیوں اور کسے دیں*
صدقہ کا معنی مفہوم اور صدقہ دینے کے آداب وفوائد اور صدقہ کے مستحقین کو بیان کرنے کےعلاوہ علماء اکرام نے صدقہ کے جملہ احکام ومسائل کو بڑے آسان فہم انداز میں دلائل کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی تمام دعوتی ، تدریسی وتصنیفی خدمات کوقبول فرمائے۔(آمین)
صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ، لہذا تم صدقہ کیا کرو ، جس جس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کو (اللہ کی رضا کے لئے) معاف کر دیا تو اللہ روز قیامت اس کی عزت و مقام (درجہ) میں اضافہ کرے گا ،
یاد رہے کہ جو شخص (ضرورت کے علاوہ) اپنے لئے ہاتھ پھیلانے کا دروازہ (مانگنا) کھول لیتا ہے تو اللہ اس پر فقر (تنگدستی ) کا دروازہ کھول دیتا ہے
صدقہ کرنا گناہوں کو اِس طرح ختم کر دیتا ہے
جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے
بے شک صدقہ ، صاحب صدقہ کو قبر کی گرمی سے بچائے گا
فقراء اور مساکین سردی میں گرم کپڑوں کے سخت محتاج ہوتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے ہوئے انھیں گرم کپڑے صدقہ کریں!
نبی ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ
”جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے
صحیح مسلم: 2699
1- صدقہ کا معنی ہے خیرات اور بنیت ثواب وتقرب الی اللہ کے لیے دی جانے والی چیز ، یعنی صدقہ کہتے ہیں زندگی میں بغیر عوض کے اللہ تعالی کی رضا کے لیے کسی کو اپنی کسی چیز کا مالک بنانا ۔
2:صدقاتِ واجبہ مستحقین ِ زکوۃ کو دینا ضروری ہے، غیر مستحق کو دینے سے صدقاتِ واجبہ ذمے سے ساقط نہ ہوں گے، البتہ صدقات نافلہ جنہیں عرف میں خیرات کرنا کہا جاتا ہے، یعنی جو انسان محض ثواب کے لیے خرچ کرتا ہے، وہ مستحق غیر مستحق سب کو دے سکتے ہیں۔
مستحق اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس اس کی ضرورت اصلیہ و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو، اور وہ سید/ ہاشمی نہ ہو۔
3:صدقاتِ واجبہ یعنی زکات، فدیہ، کفارات، نذر وغیرہ صرف مسلمان مستحقینِ زکات کو دیے جا سکتے ہیں، البتہ نفلی صدقات ( مذکورہ صدقات کے علاوہ) کافر کو بھی دے سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جو مال غرباء و مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے، اسے “صدقہ” کہتے ہیں،
*صدقہ کی اقسام*
صدقہ کی تین قسمیں ہیں: ۱:فرض، جیسے زکوٰة۔
۲:واجب، جیسے نذر، صدقہٴ فطر اور قربانی وغیرہ۔
۳:نفلی صدقات، جیسے عام خیر خیرات۔
صدقہ و خیرات تو ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، یعنی جو مال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کسی خیر کے کام میں خرچ کیا جائے وہ صدقہ و خیرات کہلاتا ہے۔
صدقے کا گوشت اگر فرض صدقہ سے تعلق رکھتا ہو تو اس کو صرف غریب غرباء کھاسکتے ہیں، غنی نہیں کھاسکتے،کیونکہ یہ لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہوتا ہے۔جس سے اغنیاء کو پرہیز کرنا چاہئے۔
صدقہ کے مصارف درج ذیل ہیں۔
مصارف زکوٰۃ
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿إِنَّمَا الصَّدَقـٰتُ لِلفُقَراءِ وَالمَسـٰكينِ وَالعـٰمِلينَ عَلَيها وَالمُؤَلَّفَةِ قُلوبُهُم وَفِى الرِّقابِ وَالغـٰرِمينَ وَفى سَبيلِ اللَّهِ وَابنِ السَّبيلِ ۖ فَريضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ ﴿٦٠﴾... سورةالتوبة
’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے۔
1. فقراء
2. مساکین
3. عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)
4. مؤلفۃ القلوب
5. غلام کی آزادی
6. مقروض
7. فی سبیل اللہ
8. مسافر
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ سے کیا مراد ہے؟
وجوب اور عدم وجوب کے لحاظ سے صدقہ کی دو قسمیں ہیں :
1۔ صدقہ واجبہ
2۔ صدقہ نافلہ
1۔ صدقہ واجبہ
صدقہ واجبہ سے مراد ایسے صدقات ہیں جن کا ادا کرنا ہر صاحب نصاب پر بطورِ فرض لازم ہے مثلاً زکوٰۃ، صدقہ فطر، عشر وغیرہ۔
1۔ قرآن حکیم میں زکوٰۃ کی اہمیت ان الفاظ سے بیان کی گئی ہے۔
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَO
’’اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے، سو میں عنقریب اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہی لوگ ہی ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیںo‘‘
اعراف، 7 : 156
2۔ زکوۃ کی طرح صدقہ فطر بھی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب ہے جس کی اہمیت احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَرَضَ زَکَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ : حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، أَوْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ، صَغِيْرٍ أَوْ کَبِيْرٍ، صَاعًا مِنْ تَمَرٍ، اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيْرٍ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو ہر مسلمان غلام اور آزاد، مرد و عورت، بچے اور بوڑھے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو واجب ٹھہرایا۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة،
زکوة الفطر علی المسلمين من التمر والشعيرِ، 2 : 678، رقم : 984
زکوۃ کی ادائیگی کے لئے سال بھر نصاب کا باقی رہنا شرط ہے جبکہ صدقہ فطر میں نصاب پر سال کا گذرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عیدالفطر کے دن نصاب زکوۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو تو اس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔
3۔ اسی طرح زمین سے جو بھی پیداوار ہو گیہوں، جو، چنا، باجرا، دھان وغیرہ ہر قسم کے اناج، گنا، روئی ہر قسم کی ترکاریاں، پھول، پھل میوے سب پر عشر واجب ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس زمین کو آسمان یا چشموں نے سیراب کیا یا زمین عشری ہو یعنی نہر کے پانی سے اسے سیراب کیا جاتا ہو اس پر عشر (یعنی پیداوار کا دسواں حصہ) اور جس زمین کو سیراب کرنے کے لئے جانور پر پانی لاد کر لاتے ہیں۔ اس میں نصف عشر (یعنی پیداوار کا بیسواں حصہ) ہے۔
2۔ صدقہ نافلہ
جو شخص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور فقیروں پر خرچ کرے وہ نفلی صدقہ میں شمار ہو گا۔ پس جو جتنا زیادہ خرچ کرے گا آخرت میں اس کے درجات بھی اتنے ہی بلند ہوں گے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
’’جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے
البقرة، 2 : 261
’’حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’’جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب اتقو النار و لو لبشق تمرة والقليل من الصدقة، 2 : 514، رقم : 1351
قرآن حکیم اور احادیث میں صدقات واجبہ کے علاوہ بھی بار بار صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
یا رہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کو صدقہ دینے سے صدقے کا مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ انکی تو دُل شکنی کرنی چاہیے
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں دل کھول کر عربا کو کی مالی اعانت کرنے کی توفیق عطا فرما۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
تبصرے