کتاب الصلاہ پیش لفظ


*بسم الله الرحمن الرحيم*
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ !
!اما بعد
نماز اسلام کا بہت اہم رکن اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ نماز کا وقت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو ان الفاظ کے ساتھ اذان دینے کا حکم فرماتے "أَقِمِ الصَّلَاةَ يَا بِلَالُ أَرِحْنَا بِهَا " اے بلال! ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔ ( ابوداؤد) نماز کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت میں جانے کی ضمانت قرار دیا۔ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے اور نبی اکرم صلعم کے لئے وضو کا پانی اور دوسری چیزیں لایا کرتے ۔ ایک مرتبہ آپ صلعم نے (خوش ہو کر ) فرمایا ربیعہ ! مانگو ( کیا مانگتے ہو ) حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں ۔ آپ صلعم نے فرمایا تو پھر کثرت سجود سے میری مدد کرو۔“ (صحیح مسلم ) یعنی تمہارے نامہ اعمال میں کثرت نماز ، میرے لئے سفارش کرنا آسان بنادے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کامیاب لوگوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ ” وہ لوگ نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ (المومنون آیت نمبر 9) نیز یہ کہ انہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد، اقامت نماز اور ادائے زکاۃ سے غافل نہیں کرتی ۔ (سورۃ نور، آیت نمبر 37) اللہ تعالی نے نماز کو اقامت دین کی تمام تر جد و جہد کا حاصل قرار دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکاۃ ادا  کریں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ (سورہ حج، آیت نمبر (41) تکلیف
 دکھ اور رنج کے وقت مؤمن کا یہی سب سے بڑا سہارا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے " اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو " (سورہ بقرہ آیت نمبر (153) حضرت ابراہیم علیہ اسلام اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے اہل و عیال کو بیت الحرام کے پاس بے آب و گیاہ جگہ پر لے آئے تو بارگاہ رب العزت میں یہ دعا کی کہ میرے رب ! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔ (سورہ ابراہیم آیت نمبر 40)

حضرت اسماعیل علیہ کے جن اوصاف کا ذکر قرآن مجید نے فرمایا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیتے تھے ( سورہ مریم آیت نمبر 55) رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کو بھی اس بات کا حکم دیا گیا کہ اے محمد! اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔ (سورہ طہ، آیت نمبر 132) قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنے والے خوش نصیب لوگوں کی اللہ کریم نے جو نشانیاں بتائی ہیں ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ نماز قائم کرنے والے لوگ ہیں ۔ (سورہ بقرہ، آیت نمبر 3) نماز میں غفلت کاہلی اور سستی سے کام لینے کو اللہ تعالی نے منافقین کی نشانی بتایا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے جب منافق نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو کاہلی سے محض لوگوں کو دکھانے کے لئے اٹھتے ہیں ۔ (سورہ نساء آیت نمبر 142)

سورہ ماعون میں اللہ تعالیٰ نے ان نمازیوں کے لئے ہلاکت اور تباہی بتائی ہے جو نماز کے معاملے میں غفلت اوربےپروائی سے کام لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اقوام کی تباہی اور ہلاکت کا اصل سبب ترک نماز ہی بتایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اللہ کےفرمانبردار بندوں کے بعد ایسے نالائق لوگ ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور دنیا کے) مزے اڑانے میں لگ گئے ایسے لوگ عنقریب گمراہی کے انجام سے دو چار ہوں گے ۔ (سورہ مریم ، آیت نمبر 59) قیامت کے روز جہنمیوں کا ایک گروہ جہنم میں جانے کا ایک سبب یہ بیان کرے گا۔
(لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ )
یعنی ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ۔ (سورہ مدثر ، آیت نمبر 43)

حالت امن ہو یا حالت خوف، گرمی ہو یا سردی ، تندرستی ہو یا بیماری حتی کہ جہاد و قتال کے موقع پر عین میدان جنگ میں بھی یہ فرض ساقط نہیں ہوتا۔ رسول اکرم صلعم پانچ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد ، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ استغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے۔ خسوف یا کسوف ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے ،زلزلہ یا آندھی آتی تو مسجد تشریف لے جاتے ۔ طوفان بادوباراں ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے ، فاقے کی نوبت آتی تو مسجد تشریف لے جاتے ، کوئی پریشانی اور تکلیف ہوتی تو مسجد تشریف لے جاتے ، سفر سفرے سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاتے پھر گھر پلٹتے۔

حیات طیبہ کے آخری دنوں میں حالت علالت میں بھی رسول اکرم سیل ٹیم کو جس چیز کی سب سے زیادہ فکر تھی ، وہ نماز تھی ۔ وفات مبارک سے چند یوم قبل تیز بخار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر غنودگی کی حالت طاری تھی عشاء کے وقت آنکھ کھلی تو سب سے پہلے یہ سوال کیا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کیا گیا نہیں ، آپ صلعم ہی کا انتظار ہے۔ تیسری مرتبہ آپ نے پھر اٹھنا چاہا تو بیہوش ہو گئے جب آنکھ کھلی تو زبان مبارک سے پھر وہی الفاظ نکلے ”کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کیا گیا نہیں ، آپ صلعم ہی کا انتظار ہے۔ تیسری مرتبہ اٹھنے کی کوشش میں پھر غشی طاری ہوگئی۔ افاقہ ہونے پر ارشاد فرمایا " ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں ۔

وفات مبارک سے چند لمحے پہلے آپ صلعم نے امت کو جو آخری وصیت فرمائی ، وہ یہ تھی۔

*الصَّلَاةُ ، أَلصَّلَاةُ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ*

یعنی مسلمانو! نماز اور اپنے غلاموں کا ہمیشہ خیال رکھنا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے نماز کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

نماز بذات خود جتنی اہم ہے طریقہ نماز بھی اس قدر اہم ہے۔ نماز کے بارے میں حکم صرف یہی نہیں کہ اسے ادا کرو۔ بلکہ حکم یہ بھی ہے کہ اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے ادا کرتے دیکھتے ہو ۔ (صحیح بخاری ) ایک حدیث میں ارشاد مبارک ہے کہ قیامت کے روز حقوق اللہ میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا جس کی نماز درست طریقہ سے پڑھی گئی ہو گی وہ کامیاب و کامران ہوگا اور جس کی نماز بگاڑ ہوگی وہ ناکام و نامراد ہوگا ۔ 
 بحوالہ ترمذ))

غور فرمائیے! قیامت کے روز نماز کے بارے میں جس چیز کا حساب ہوگا وہ یہ نہیں کہ نماز پڑھی یا نہیں پڑھی بلکہ حساب اس بات کا ہوگا کہ نماز سنت کے مطابق پڑھی گئی یا نہیں؟ اس حدیث سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ادائیگی نماز کے ساتھ ادائیگی نماز کا طریقہ کس قدر اہم اور ضروری ہے اس کی اہمیت کے پیش نظر طریقہ نماز سے متعلق احادیث صحیحہ سے جو اہم مسائل ثابت ہوتے ہیں وہ ہم نے اس کتاب میں جمع کر دیئے ہیں ۔ مسائل جمع کرتے اور ترتیب دیتے وقت ہم نے کسی خاص فقہی مسلک کو سامنے نہیں رکھا سے نہ ہی کسی فقہی مسلک کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے یہ مجموعہ مرتب کیا ہے ۔ ہمارے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ  تعالی عنہم کا وہ مسلک ہے جس میں ایک صحابی حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا، جو رکوع اور سجود پورا نہیں کر رہا تھا ۔ جب وہ آدمی نماز سے فارغ ہوا، تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے بلا کر کہا تم نے نماز نہیں پڑھی اور اگر اسی طرح کی نماز پڑھتے پڑھتے مر گئے ، تو طریقہ اسلام کے خلاف مرو گے۔“ ایک دوسرے صحابی حضرت عبداللہ بن عباس نے ایک شخص کو نماز عید سے پہلے نفل پڑھتے دیکھا تو اسے منع کیا۔ وہ شخص کہنے لگا " اللہ تعالیٰ مجھے نماز پڑھنے پر عذاب نہیں کرے گا۔“ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے سنت رسول کی مخالفت کرنے پر ضرور عذاب دے گا ۔ ایک اور صحابی حضرت عمارہ بن روبیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ جمعہ کے دوران حاکم وقت کو منبر پر ہاتھ بلند کرتے دیکھا تو کہا اللہ خراب کرے ان ہاتھوں کو میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس سے زیادہ نہ کرتے تھے ۔ اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم ) اتباع سنت کے معاملہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہی سوچ اور فکر ہمارا مسلک ہے ۔ سنت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم سے محبت کا یہی جذبہ ہمارا مذہب ہے اور اسی جذبہ کے پیش نظر ہم نے یہ احادیث جمع کی ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے مذکورہ بالا طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن مسائل کو ہم فروعی یا اختلافی اور غیر اہم سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے نزدیک ان کی کتنی اہمیت تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے آگاہ ہے ( مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ منی) یعنی جس شخص نے میری سنت اختیار کرنے سے گریز کیا وہ مجھ سے نہیں ۔ وہ کسی بھی سنت کو معمولی اور غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے جس نے دانستہ میری طرف ایسی بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنی جگہ جہنم میں بنالے۔“ (جامع ترمذی)

ہم اپنے اندر یہ ہمت اور حوصلہ نہیں پاتے کہ وہ احادیث جو کسی پہلو سے ضعیف ثابت ہو جائیں انہیں محض کسی مسلک کی حمایت یا مخالفت کی خاطر لکھنے کا بوجھ اپنے سر اٹھا ئیں ۔ ساری کاوش اور محنت کے باوجود ہم اپنے قارئین سے یہ صمیم قلب درخواست کرتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث صحیح یا حسن درجے کی نہ ہو تو برائے کرم ضرور مطلع فرمائیں۔

مجھے اپنی علم اور عملی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا احساس اور اعتراف ہے مجھ جیسا گناہ گار اور سیہ کار اس لائق کہاں کہ حدیث رسول کی کوئی خدمت کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں حدیث کے ایک ادنی طالب علم کی صف میں بھی شامل ہونے کا اہل نہیں ۔ یہ بارگراں اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ پانے کا محرک صرف ایک ہی جذبہ ہے سنت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم سے محبت کا جذ بہ اتباع سنت کی فکر ۔ ورنہ من آنم کہ من دانم ۔

کتاب میں حسن و خوبی کے تمام پہلو محض اللہ تعالی کے فضل وکرم کی وجہ سے ہیں غلطیاں اور خامیاں میری کوتاہی اور خطا کا نتیجہ، اللہ کریم اس کے بہترین پہلوؤں کو اپنے فضل وکرم سے شرف قبولیت عطا فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین

مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہ کتاب کسی علمی ذخیرے میں اضافہ کا باعث نہیں بنے گی البتہ ہمارے ہاں کثیر تعداد میں   پڑھے لکھے افراد جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری محبت اور عقیدت رکھتے ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے فیض یاب ہونا چاہتے ہیں لیکن نہ تو وہ ضخیم عربی کتب کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، نہ ہی طویل اور ثقیل اردو تراجم کی کتب سے استفادہ کرنے کا وقت پاتے ہیں۔ ان کے لئے یہ کتاب ان شاء اللہ ضرور مفید ثابت ہوگی۔

آخر میں واجب الاحترام علماء کرام کا شکریہ ادا کرنا از بس ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود بخوشی اس کتاب کی نظر ثانی فرمائی۔ علماء کرام کے علاوہ بعض دوسرے دوستوں نے بھی کتاب کی تیاری میں میری مدد اور راہنمائی فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کو دنیا و آخرت میں اپنے انعامات سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العلیم 

اے ہمارے پروردگار ! ہماری محنت قبول فرمائے بیشک تو خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے
 
احقر الناس
 انجینیئر نذیر ملک سرگودھا 
سابقہ مہندس المرافق آرامکو ریاض آئل ریفائنری
المملكة العربية السعوديہ
1446 ٢٧ رجب المرجب








نماز کی فرضیت

مسئله نمبر 1
نماز اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔ اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ ) نماز قائم کرنا زکاۃ ادا کرنا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

ہجرت سے قبل دو، دو رکعت اور ہجرت کے بعد چار، چار رکعت نماز فرض ہوئی

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں جب ( معراج کی رات ) اللہ تعالی نے نماز فرض کی تو حضر و سفر دونوں کے لئے دو، دو رکعات نماز فرض کی ( بعد میں ) سفر کی نماز ( دو رکعت ) برقرار رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

 
مسئلہ نمبر 02 

نیت کے مسائل 
 
 اعمال کے اجر و ثواب کا دارومدار نیت پر ہے  

 حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے "اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ۔لہذا جس نے دنیا حاصل کرنے کی نیت سے ہجرت کی اسے دنیا ہی ملے گی یا جس نے کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی اسے عورت ہی ملے گی پس مہاجر کی ہجرت کا صلہ وہی ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی ۔"(اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

0 مسئلہ نمبر 2
*فتنہ دجال سے بڑا فتنہ دکھاوے کی نماز ہے*

 حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا "کیا میں تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کروں؟"  ہم نے عرض کیا "ضرور یا رسول اللہ!
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا" شرک خفی دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو اور نماز کو اس لیے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔ ( اسے ابن ماجہ نے روایت کیا)

03 مسئلہ نمبر

*دکھاوے کی نماز شرک ہے*

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔" جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ جس نے دکھاوے کا صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔" (اسے احمد نے روایت کیا ہے۔)

*گھر سے وضو کرکے مسجد آنے کا اجر

 04مسئلہ نمبر
گھر سے وضو کر کے فرض نماز ادا کرنے کے ارادہ سے مسجد میں آنے والے کو حج کے برابا ثواب ملتا ہے

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا.. 
جو شخص گھر سے وضو کر کے فرض نماز ادا کرنے کےلئے مسجد میں آۓ اس کے لئے حج کا احرام باندھنے والے آدمی کے برابر ثواب ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز ادا کرنا جن کے درمیان کوئی لغو اور بیہودہ بات نہ کی گئی ہو ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے۔(رواہ ابوداؤد)

*نماز کے مسائل*

برادران اسلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا
صلوا کما رایتمونی نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحیح بخاری حدیث 6008۔
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ہم احادیث نبوی سے رہنمائی لیتے ہوئے بحوالہ نماز ادا کرنے کے لئے آج سے ہم نماز کے جمیع مسائل تحریر کرنے کی ابتدا کر رہے ہیں تاکہ ہم احادیث مبارکہ کے حوالے سے مسنون نماز ادا کرنا سیکھ سکیں۔

یا رہے کہ دین اسلام میں عبادات کی قبولیت کا معیار سنت نبوی الشریف ہے
اور انشاءاللہ آنے والے رمضان کریم کے مہینے سے قبل ہم مسنون نماز پڑھنے کا طریقہ بیان کریں گے تاکہ امسال ہم ماہ صیام سے قبل عین سنت نبوی کے مطابق احادیث شریف کی روشی میں اپنی نمازیں ادا کر سکیں۔

برادران اسلام زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں اب فرصت ہے اور نماز مسنون ادا کرنے کا طریقہ اور علم حدیث کی روشنی میں اپنی نمازوں کو مسنون طریقہ سے سیکھ کر نماز کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی طرح پڑھیں

 *نماز کی فضیلت* 

مسئلہ نمبر 01
*روزانہ باقاعدگی سے پانچ نمازیں ادا کرنے سے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر  تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر بہتی ہو اور اس نہر میں ہر روز پانچ مرتبہ نہائے, تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا ؟صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا" نہیں کسی قسم کا میل کچیل باقی نہیں رہے گا"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "یہی پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ تعالی ان نمازوں کے ذریعے گناہ مٹا دیتا ہے ۔(صحیح بخاری و مسلم) ۔

مسئلہ نمبر 02

*نماز گناہوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے*
 حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" ہر نماز کے وقت اللہ تعالی کا مقرر کردہ فرشتہ پکارتا ہے ۔لوگو! اٹھو اس آگ کو بجھانے کے لیے اٹھو۔ جسے تم نے اپنے گناہوں سے جلایا ہے"۔(اسے طبرانی نے روایت کیا ہے)

مسئلہ نمبر03
*پانچوں نمازیں باقاعدگی سے ادا کرنے والا قیامت کے دن صدقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا*

 حضرت عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے اگر میں گواہی دوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں۔ آپ اللہ کے رسول ہیں اور پانچوں نمازیں ادا کروں۔ زکوٰۃ دوں۔ رمضان کے روزے رکھوں۔ رمضان میں بھی قیام کروں۔ تو میرا شمار کن لوگوں میں ہوگا  ؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "صدیقین اور شہداء میں"۔ (اسے ابن حبان نے روایات کیا۔)

 مسئلہ نمبر 04
*رات کی تاریکی میں مسجد میں آنےوالے نمازیوں کے لیے قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری ہے*

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" اندھیرے میں مسجدوں کی طرف چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن کامل روشنی کی خوشخبری سنا دو۔"( اسے ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا۔)

 مسئلہ نمبر 05
*مسجد میں آنے والے نمازی اللہ کے ملاقاتی ہیں،جن کی اللہ تعالی عزت فرماتا ہے*

حضرت سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔"جس نے اپنے گھر میں اچھی طرح وضو کیا۔ پھر مسجد میں آیا وہ اللہ کا ملاقاتی ہے اور میزبانی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملاقاتی کی عزت کرے۔"
( اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔)

: *نماز کی اہمیت* 

 مسئلہ نمبر 06
*بے نماز کا انجام قارون، فرعون، حامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا*

 حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا "جس شخص نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے نماز قیامت کے روز نور، برہان اور نجات کا باعث ہوگی۔ اور جس نے نماز کی حفاظت نہ کی اس کے لیے نہ نور ہوگا نہ برہان،نہ نجات۔نیز قیامت کے روز اس کا انجام قارون فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔"(اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 07
 *اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز ہے*

 حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔"مسلمان آدمی اور شرک یا کفر کے درمیان حد فاصل ترک نماز ہے۔"(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

مسئلہ نمبر 08 
10 دس برس کی عمر میں اگر بچہ نماز کا عادی نہ ٹ بنے تو اسے مار کر نماز پڑھوانی چاہیے*
حضرت عمرو اپنے باپ شعیب سے اور شعیب اپنے دادا( عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔"جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو جب 10 برس کے ہو جائیں اور نماز باقاعدگی سے نہ پڑھیں تو نماز پڑھانے کے لیے انہیں مارو۔ نیز 10 برس کی عمر کے بچوں کو علیحدہ علیحدہ بستروں پر سلاؤ۔" (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 09
*صرف نماز عصر کا فوت ہو جانا ایسا ہے جیسے کسی کا مال اور اہل عیال لٹ جائے*

 حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔"جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے اس کی حالت اس شخص کی طرح ہے جس کا اہل و عیال اور مال و اسباب ہلاک ہو گیا ہو۔"( اسے بخاری اور مسلم نے روایات کیا۔)

 مسئلہ نمبر 10 
*نماز سے غفلت کی سزا* حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ خواب کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" جو شخص قرآن یاد کر کے بھلا دیتا ہے اور نماز فرض پڑھے بغیر سو جاتا ہے اس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا۔"( اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ 11
 *نماز فجر اور عشاء کے لیے مسجد میں نہ آنا نفاق کی علامت ہے*

 مسئلہ نمبر 12 
*با جماعت نماز نہ پڑھنے والے لوگوں کے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلانے کا ارادہ فرمایا*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔"منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں ہوتی۔ اگر انہیں یہ پتہ چل جائے کہ دونوں نمازوں کا ثواب کتنا زیادہ ہے تو ان دونوں نمازوں میں ضرور آتےخواہ گھٹنوں کے بل ہی آنا پڑتا۔ میں نے ارادہ کیا کہ موذن کو حکم دوں کہ وہ اقامت کہے پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرائے اور خود آگ کا ایک شعلہ لے کر ان لوگوں( کے گھروں)کو جلا دوں جو اس (اذان اور اقامت) کے بعد نماز کے لیے نہیں نکلتے۔
" (اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 13
*خلاف سنت ادا کی گئی نماز قیامت کے روز ناکامی اور نامرادی کا باعث بنے گی*

 مسئلہ نمبر 14
*قیامت کے روز حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔"قیامت کے⁰⁰ روز بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہے اگر نماز( سنت کے مطابق) درست ہوئی تو وہ بندہ کامیاب و کامران ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی یعنی سنت کے مطابق نہ پائی گئی تو ناکام اور نامراد ہوگا۔ اگر بندہ کے فرائض میں کچھ کمی ہوئی تو رب تعالی فرمائیں گے میرے بندے کے نامہ اعمال میں دیکھو کوئی نفل عبادت ہے؟ اگر ہوئی تو نوافل کے ساتھ فرائض کی کمی پوری کی جائے گی پھر اس کے تمام اعمال کا حساب اسی طرح ہوگا۔"
(اسے ترمذی نے روایت کی

*وضو اور تیمم کے مسائل*

مسئلہ نمبر 15 
 *وضو سے قبل بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے*

 حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "جس نے وضو سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا۔" (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے)
یاد رہے کہ جس کا وضوء  نہیں اسکی نماز نہیں(طبرانی)

 مسئلہ نمبر 16
 *وضو سے قبل نیت کے مروجہ الفاظ سنت سے ثابت نہیں*

 مسئلہ نمبر 17
*وضو کا مسنون طریقہ یہ ہے*
 حضرت حمران رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت  ہے کہ آپ نے تین مرتبہ اپنے ہاتھ دھوئے، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنا منہ تین دفعہ دھویا اس کے بعد اپنا دایاں بازو کہنی تک تین مرتبہ دھویا اسی طرح بایاں بازو کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر سر کا مسح کیا۔ مسح کے بعد اپنا دایاں پاؤں ٹخنے تک تین مرتبہ دھویا اسی طرح بایاں پاؤں ٹکھنے تک تین مرتبہ دھویا اور پھر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔( اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 18 
*وضو کے اعضا ایک بار یا دو بار یا تین بار دھونے جائز ہیں اس سے زائد دونوں گناہ ہے*

 حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے ایک ایک مرتبہ اعضاء دھوئے ۔(اسے احمد، بخاری، مسلم ابو داؤد نسائی ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)۔

 حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور دو دو مرتبہ اعضاء دھوئے - (احمد اور بخاری نے روایت کیا ہے )

حضرت عمرو اپنے باپ شعیب سے اور شعیب اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ" ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضوء کا طریقہ دریافت کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین تین بار وضو کے اعضاء دھو کر دکھائے اور فرمایا وضو کا یہ طریقہ ہے جس نے اس سے زیادہ مرتبہ دھوئے اس نے برا کیا ذیادتی اور ظلم کیا۔( اسے احمد نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 19
 *روزہ نہ ہو تو وضو کرتے وقت ناک میں اچھی طرح سے پانی چڑھانا چاہیے*

 مسئلہ نمبر 20
 *ہاتھ پاؤں کی انگلیوں اور داڑھی کا خلال کرنا مسنون ہے*

حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "وضو اچھی طرح کر، ہاتھ پاؤں کی انگلیوں میں خلال کر اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک میں پانی اچھی طرح چڑھا ۔(اسے ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

 حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے ہوئے داڑھی کا خلال کرتے تھے(اسے ترمذی نے روایت کیا)

 مسئلہ نمبر 21 
*صرف چوتھائی سر کا مسح کرنا سنت سے ثابت نہیں*

 مسئلہ نمبر 22
 *گردن کا مسح کرنا سنت سے ثابت نہیں*

 مسئلہ نمبر 23 
*سر کا مساج صرف ایک بار ہے جس کا مسنون طریقہ درج ذیل ہے*

 حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالی عنہ وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اس طرح کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لا ئے یعنی پہلے سر کے اگلے حصے سے شروع کیا اور دونوں ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر جہاں سے شروع کیا تھا وہیں تک واپس لے ائے۔(اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 24
 *سر کے مسح کے ساتھ کانوں کا مسح بھی ضروری ہے*

 مسئلہ نمبر 25
 *کانوں کے مسح کا مسنون طریقہ یہ ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ وضو کا طریقہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں سے کانوں کے اندر اور اپنے دونوں انگوٹھوں سے دونوں کانوں کے باہر کے حصے کا مسح کیا۔(اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔)

الدعاء 
یا اللہ تعالی مجھے دین کا علم عطا فرما اور اس پر من و عن عمل کرنے والا بنا۔
آمین یارب العالمین۔
:
 *وضوء اور تیمم کے مسائل*
مسلئہ نمبر 26
*وضو کے اعضاء میں سے کوئی جگہ خشک نہیں رہنی چاہیے*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ادمی کو دیکھا جس کے پاؤں میں وضو کرنے کے بعد ناخن جتنی جگہ خشک تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا واپس جا کر اچھی طرح وضو کرو۔ (اسے ابو داؤد نے روایت کیا)

 مسئلہ نمبر 27
 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر وضو کے ساتھ مسواک کی ترغیب دلائی ہے*

*مسواک کی لمبائی مقررہ کرنا سنت سے ثابت نہیں*

 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے امت کی تکلیف کا احساس نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا  (رواہ مالک، احمد اور نسائی)

مسئلہ نمبر 28
*وضو کر کے پہنے ہوئے جوتوں، موزوں اور جرابوں پر مسح کیا جا سکتا ہے*

 مسئلہ نمبر 29
*مدت مسح مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن رات ہے*

مسئلہ نمبر 30
*جنبی ہونا مدت مسح ختم کر دیتا ہے*

 حضرت مغیرہ بن شامہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے وضو کرتے وقت جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا (اسے احمد ترمزی، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے

 حضرت صفوان بن اصال رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم جب سفر میں ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن رات موزے پہنے رکھنے کا حکم دیتے خواہ پیشاب پاخانہ کی حاجت ہو یا نیند ائے البتہ جنابت کی وجہ سے موزے اتارنے کا حکم دیتے تھے (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن رات مسافر کے لیے اور ایک دن رات مقیم کے لیے موزوں پر مسح کی مدت مقرر فرمائی۔
(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 31
*ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں*

 حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نمازیں ایک وضو سے پڑھیں (اسے مسلم نے روایت کیا ہے

*الدعاء*
یا اللہ ہمیں پکا نمازی بنا دے اور نماز کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین

: *وضوء کا مسنون طریقہ* 
جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں وارد ہے، اس كى تفصيل درج ذيل ہے:

1 - انسان طہارت كرنے اور ناپاكى دور كرنے كى نيت كرے، اور يہ نيت زبان سے ادا نہيں ہو گى، كيونكہ نيت كى جگہ دل ہے، اور يہ دل سے ہوتى اور اسى طرح باقى سب عبادات ميں بھى نيت دل سے ہوگى.

2 - پھر بسم اللہ پڑھے.

3 - تين بار دونوں ہاتھ دھوئے.

4 - پھر تين بار كلى كرے ( كلى يہ ہے كہ مونہہ ميں پانى ڈال كر گھمائے) اور تين بار ناك ميں پانى ڈال كر بائيں ہاتھ سے ناك جھاڑے.

5 - اپنا چہرہ تين بار دھوئے، لمبائى ميں چہرہ كى حد سر كے بالوں سے ليكر تھوڑى كے نيچے تك، اور چوڑائى ميں دائيں كان سے بائيں كان تك ہے، مرد كى داڑھى اگر گھنى ہو تو وہ داڑھى كو اوپر سے دھوئے اور اندر كا خلال كرے، اور اگر كم ہو تو سارى داڑھى دھوئے.

6 - پھر اپنے دونوں ہاتھ كہنيوں تك تين بار دھوئے، ہاتھوں كى حد انگليوں كے ناخنوں سے ليكر بازو كے شروع تك ہے، اگر دھونے سے قبل ہاتھ ميں آٹا يا مٹى يا رنگ وغيرہ لگا ہو تو اسے اتارنا ضرورى ہے، تا كہ پانى جلد تك پہنچ جائے.

7 - اس كے بعد نئے پانى كے ساتھ سر اور كانوں كا ايك بار مسح كرے ہاتھوں كے بچے ہوئے پانى سے نہيں، 

*سر كے مسح كا طريقہ يہ ہے*

 اپنے دونوں ہاتھ پيشانى كے شروع ميں ركھے اور انہيں گدى تك پھيرے اور پھر وہاں سے واپس پيشانى تك لائے جہاں سے شروع كيا تھا، پھر دونوں انگشت شہادت كانوں كے سوراخوں ميں ڈال كر اندر كى طرف اور اپنے انگوٹھوں سے كانوں كے باہر كى طرف مسح كرے.

عورت اپنے سر كا مسح اس طرح كرے كہ وہ پشانى سے ليكر گردن تك لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرے، اس كے ليے كمر پر لٹكے ہوئے بالوں پر مسح كرنا ضرورى نہيں.

8 - پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تك تين بار دھوئے، ٹخنے پنڈلى كے آخر ميں باہر نكلى ہوئى ہڈى كو كہتے ہيں.

*مندرجہ بالا طريقہ كى دليل درج ذيل حديث ہے*

عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے غلام حمران بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے وضوء كا پانى منگوايا اور اپنے ہاتھ تين بار دھوئے پھر كلى كى اور ناك ميں پانى ڈالا، اور پھر اپنا چہرہ تين بار دھويا، پھر اپنا داياں ہاتھ كہنى تك تين بار دھويا، اور پھر باياں ہاتھ بھى اسى طرح، پھر سر كا مسح كيا اور پھر اپنا داياں پاؤں ٹخنے تك تين بار دھويا، پھر باياں بھى اسى طرح دھويا اور فرمانے لگے:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اسى طرح وضوء كرتے ہوئے ديكھا جس طرح ميں نے يہ وضوء كيا ہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے ميرے اس وضوء كى طرح وضوء كيا پھر اٹھ كر دو ركعت ادا كيں جن ميں وہ اپنے آپ سے باتيں نہ كرے تو اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "
صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 331).
 
*وضوء كى شروط:*

*اسلام:*
كافر كا وضوء صحيح نہيں ہوگا.

*عقل:*

اس طرح پاگل اور مجنون كا وضوء صحيح نہيں.

*تمييز:*
چھوٹے بچے اور جو تميز نہ كر سكے اس كا وضوء صحيح نہيں.

*نيت:*
بغير نيت وضوء صحيح نہيں، مثلا كوئى شخص ٹھنڈك حاصل كرنے كے ليے وضوء كرے تو اس كا وضوء صحيح نہيں.

وضوء كرنے كے ليے پانى طاہر ہونا بھى شرط ہے، كيونكہ اگر پانى نجس ہو تو اس سے وضوء صحيح نہيں.

اسى طرح اگر جلد يا ناخن پر كوئى چيز لگى ہو جس سے پانى نيچے نہ پہنچے تو اسے اتارنا بھى شرط ہے، مثلا عورتوں كى نيل پالش وغيرہ.

جمہور علماء كرام كے ہاں بسم اللہ پڑھنا مشروع ہے، ليكن اس ميں اختلاف ہے كہ آيا يہ واجب ہے يا سنت، وضوء كے شروع ميں يا درميان ميں ياد آجانے كى صورت ميں بسم اللہ پڑھنا ضرورى ہے.

مرد اور عورت كے وضوء كے طريقہ ميں كوئى اختلاف نہيں.

وضوء سے فارغ ہونے كے بعد درج ذيل دعاء پڑھنى مستحب ہے

 *أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله*

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں .

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:

" جو كوئى بھى مكمل وضوء كرے اور پھر وہ يہ كلمات كہے:

*أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله*

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں.

تو اس كے ليے جنت كے آٹھوں دروازے كھول ديے جاتے ہيں، جن ميں سے چاہے جنت ميں داخل ہو جائے "
صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 345 ).

اور ترمذى شريف كى روايت ميں درج ذيل الفاظ زيادہ ہيں:
*اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين*

اے اللہ مجھے توبہ كرنے والوں ميں سے بنا، اور مجھے پاكيزگى اختيار كرنے والوں ميں شامل كر"
سنن ترمذى كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 50 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 48 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ديكھيں: اللخص الفقھى للفوزان ( 1 / 36 ).

اور آپ كا يہ كہنا:

ميرى دعاء ہے كہ اللہ تعالى ہمارے نبى پر اپنى رحمت نازل فرمائے، اس كے متعلق گزارش ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے متعلق وہى كچھ مشروع ہے جس كا اللہ تعالى نے ہميں حكم ديا كہ ہم ان پر درود بھیجیں، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ يقينا" اللہ تعالى اور اس كے فرشتے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود  بھیجتے ہيں، اےايمان والو تم بھى اس پر درود و سلام بھیجا كرو ﴾الاحزاب ( 56 ).

دعاء 
یا اللہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرماء 

آمین یا رب العالمین
: *تیمم کرنے کا مسنون طریقہ اور مسائل* 

 مسئلہ نمبر 32
*پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو کی بجائے پاک مٹی سے تیمم کر لینا چاہیے*

 مسئلہ نمبر 33
*وضو یا غسل دونوں کے لیے ایک ہی تیمم کافی ہے*

 مسئلہ نمبر 34
*احتلام کے بعد غسل یا تیمم کرنا فرض ہے*

*تیمم کرنے کا مسنون طریقہ*

 مسئلہ نمبر 35
 *دونوں ہاتھ ایک مرتبہ مٹی والی جگہ پر مار کر پہلے منہ اور پھر دونوں ہاتھ ایک دوسرے ہاتھ کی پشت پر پھیر لینے سے تیمم مکمل ہو جاتا ہے*

حضرت عمار بن یاسر رضی 
اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے نبی اکر
 صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام سے بھیجا مجھےاحتلام ہو گیا اور پانی نہ ملا میں تیمم کرنے کے لیے زمین پر جانوروں کی طرح لوٹا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس کا واقعہ کا ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کر لینا کافی تھا پھر اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ ایک مرتبہ زمین پر مارے اور بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پر مارا اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیلیوں کی پشت اور منہ پر مسح کیا (اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

 مسئلہ نمبر 36
*وضو کے بعد مندرجہ زیل دعاء پڑھنی مسنون ہے
 حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص مکمل وضو کر کے یہ دعاء پڑھ لے کہ
 *میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اس کا کوئی شریک نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اس کے لیے جنت کے اٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں کہ جس سے چاہے داخل ہو (اسے احمد، مسلم ابو داؤد، ترمزی نے روایت کیا ہے 
 اور ترمذی نے مندرجہ ذیل کلمات کا اضافہ کیا ہے اے اللہ مجھے توبہ قبول کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے بنا


*وضوء سے فارغ ہونے كے بعد درج ذيل دعاء پڑھنى مستحب ہے*

" أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله "

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں .

اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا درج ذيل فرمان ہے:

" جو كوئى بھى مكمل وضوء كرے اور پھر وہ يہ كلمات كہے:

" أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمداً عبده ورسوله "

ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں.

تو اس كے ليے جنت كے آٹھوں دروازے كھول ديے جاتے ہيں، جن ميں سے چاہے جنت ميں داخل ہو جائے "

صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 345).
اور ترمذى شريف كى روايت ميں درج ذيل الفاظ زيادہ ہيں:

" اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين "

اے اللہ مجھے توبہ كرنے والوں ميں سے بنا، اور مجھے پاكيزگى اختيار كرنے والوں ميں شامل كر"

سنن ترمذى كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 50 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 48 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے

*الدعاء*

یا اللہ تعالی  ہمیں مسنون طریقے سے نماز پڑھنے اور دیگر عبادات کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اور ہماری جمیع عبادات کو قبول و منظور فرما۔

آمین یا رب العالمین


*ستر کے مسائل* 

 مسئلہ نمبر 37
 *صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھنی جائز ہے بشرط یہ کہ کندھے ڈھکے ہوئے ہوں* 

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔"تم میں سے کوئی آدمی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے۔ جب تک کندھے نہ ڈھانپ لے۔( اسے بخاری مسلم نے روایت کیا ہے )

مسئلہ نمبر 38
 *نماز میں منہ ڈھانپنا منع ہے*

 مسئلہ نمبر 39
 *نماز کے دوران اس طرح چادر کندھوں سے نیچے لٹکانا کہ اس کے دونوں کنارے کھلے ہوں منع ہےاسے سدل کہتے ہیں* 
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل سے اور منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے( اسے ابو داؤد اور ترمزی نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 40
 *پائجامہ شلوار یا تہ بند از راہ تکبرٹخنوں سے نیچے رکھنا منع ہے۔* 

 وعن ابن عمر رضی اللہ عنھماقال رسول اللہ ﷺ لا ینظر اللہ الی من جر ثوبہ خیلاء (متفق علیہ)

ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھیں گےجس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا ( متفق علیہ)

 مسئلہ نمبر 41
 *سر پر چادر یا موٹا دوپٹہ لیے بغیر عورت کی نماز نہیں ہوتی* 
 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالغ عورت کی نماز چادر یا موٹے دوپٹے کے بغیر نہیں ہوتی۔( اسے ابو داؤد ترمزی نے روایت کیا ہے)۔

الدعاء 
یا اللہ ہمیں تکبر سر بچا اور سنت پر عمل کرنے والا بنا۔
آمین یا رب العالمین

*وضوء اور نواقص وضوء 

مسئلہ نمبر 37
 وضو کے دوران مختلف دعائیں یا کلمہ شہادت پڑھنا سنت سے ثابت نہیں۔

 مسئلہ نمبر 38
*وضو کرنے کے بعد بے مقصد 
باتیں یا فضول کام نہیں کرنے چاہیے*

حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وضوء کر کے مسجد کی طرف جائے تو راستے میں انگلیوں میں انگلیاں نہ ڈالے کیونکہ وضو کرنے کے بعد وہ حالت نماز میں ہوتا ہے (اسے احمد، ابو داؤد نسائی اور دارمی نے روایت کیا ہے

*مسائل نواقص الوضوء*

مسئلہ نمبر 39
*ٹیک لگائے بغیر نیند یا اونگھ آجائے تو وضوء یا تیمم نہیں ٹوٹتا*

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نماز 
عشاء کا انتظار کرتے یہاں تک کہ ان کی سر نیند کی وجہ سے جھک جاتے پھر وہ دوبارہ وضو کیئے بغیر نماز پڑھ لیتے (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 40
*مذی خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے

 مسئلہ نمبر 41
 *ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے*

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک آواز نہ آئے یا ہو نہ سونگھو  اس وقت تک دوبارہ وضو کرنا واجب نہیں (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 42
 *کپڑے کی اڑ کے بغیر شرمگاہ کو ہاتھ لگایا جائےتو وضوء ٹوٹ جاتا ہے ورنہ نہیں*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنا ہاتھ کپڑے کی اڑ کے بغیر اپنی شرمگاہ کو لگایا اس پر وضو واجب ہو گیا (اسے احمد نے روایت کیا ہے)

مسئلہ نمبر 43
*محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ادمی اپنے پیٹ میں شکایت محسوس کرے اور اسے شک ہو جائے کہ ہوا خارج ہو گئی ہے یا نہیں تو جب تک بدبو محسوس نہ کرے یا آواز نہ سنے۔ مسجد سے وضو کے لیے باہر نہ نکلنے ( اسے مسلم نے روایت کیا ہے

مسئلہ نمبر 44
 اگ پر پکی ہوئی چیزیں کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا البتہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا ہم بکری کا گوشت کھا کر وضو کریں  تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہو تو کر لو نہ چاہو تو نہ کرو۔ پھر اس نے سوال کیا کیا اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرو (اسے احمد اور مسلم نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 45
*مقتدی کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے ناک پر ہاتھ رکھ کر صف سے نکل جانا چاہیے اور نیا وضو کر کے نماز پڑھنی چاہیے*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک تم میں سے نماز پڑھتے ہوئے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ اپنی ناک پر ہاتھ رکھے اور وضو کر کے آئے (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے)

 وضاحت: جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے انہی چیزوں سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے نیز پانیوں ملنے یا پانی استعمال کرنے کی قدرت حاصل ہونے کے بعد تیمم کی رخصت ختم ہو جاتی ہے۔

*الدعاء* 
یا اللہ ہمیں دین کا علم عطا فرماء اور اس علم کے مطابق عمل کی توفیق بھی عطا فرما تاکہ آپ کی بارگاہ میں ہماری عبادات قبول و منظور ہوں۔
آمین یا رب العالمین

: اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھیں گےجس نے اپنا *کپڑا تکبر کے ساتھ* اپنے ٹخنوں سے نیچے لٹکایا( متفق علیہ)
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
وبرکاتہ۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ دوران نماز کچھ نمازیوں کے آزار ٹخنوں سے نیچے ڈھلکے ہوتے
ہیں اور کچھ لوگ نیکی کمانے کی نیت سے ان کے ڈھکے ہوئے کپڑے سے ٹخنے ننگے کرنے کی شدومد سے تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے والے لوگ نہ تو حدیث کا متن جانتے ہیں اور نہ ہی حدیث نبوی الشریف کا مقصد سمجھ رہے ہوتے ہیں بس اچھے بھلے نمازی کو ٹوک کر اپنا ثواب پکا کر رہے ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس بے جا تنقید کی وجہ سے اچھا بھلے نمازی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالی  کے مہمان کی بے ادبی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں اور یہ تنقید کرنے والے نہ تو نمازی کی عمر کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی رتبے کا ایسے لوگوں کو ثواب تو کجا نمازی پر بے جا تنقید کا گناہ ملے گا۔

آیئے حدیث نبوی کے الفاظ کا جائزہ لیتے ہیں  

وعن ابن عمر رضی اللہ عنھماقال رسول اللہ ﷺ لا ینظر اللہ الی من جر ثوبہ خیلاء (متفق علیہ) 

ترجمہ:
ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اللہ تعالی اس شخص کی طرف نہیں دیکھیں گےجس نے اپنا کپڑا *تکبر کے ساتھ* لٹکایا
 متفق علیہ) 

خیلاء کے معنی تکبر کے ہیں۔ دیکھے گا کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے گا کیونکہ اللہ کی نظر سے کوئی چیز غائب نہیں ہو سکتی۔۔۔وجہ یہ ہے کہ متواضع و مسکین مہربانی کی نظر کا حق دار ہوتا ہے اور متکبر و مغرور قہر کی نظر کا مستحق ٹھہرتا ہے

فرمانِ الہی ہے
ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا
یقینا اللہ تعالی تکبر کرنے والے شیخی خور کو پسند نہیں کرتا

ابوذرغفاری سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا
ثلاثة لا یکلھم اللہ یوم القيامة ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم ۔۔۔المسبل والمنان والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب (مسلم)

تین آدمی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے عذاب الیم ہے( کپڑا ) لٹکانے والا‘ احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سامان بیچنے والا۔

زیر نظر حدیث میں من جر ثوبہ کے الفاظ ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپﷺ نے صرف چادر لٹکانے سے منع نہیں کیا بلکہ قمیص شلوار یا کوئی بھی کپڑا تکبر اور غرور سے جو لٹکایا جائے اس سے منع فرمایا ہے
کپڑا لٹکانے پر یہ وعید عمومی ہے ۔۔۔۔مرد عورتیں دونوں اس میں داخل ہیں اور سنت کا حق تو یہ ہے کہ اپنے کپڑے نماز اور نماز سے باہر ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکائے جائیں۔

ام سلمہ نے اس حدیث سے یہی بات سمجھی چنانچہ ترمذی اور نسائی میں ابن عمر کی اس روایت کے ساتھ ہی یہ الفاظ ہیں

مَن جرَّ ثوبَه مِن الخُيَلاءِ لم يَنْظُرِ اللهُ إليه ، قالت أمُّ سَلَمَةَ : يا رسولَ اللهِ ، فكيف تَصْنَعُ النساءُ بذيولهن ؟ قال : تُرْخينَه شِبْرًا . قالت: إذا تَنْكَشِفُ أقدامُهنَّ. قال : تُرْخِينَه ذِراعًا لا تزِدْنَ عليه.
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5351

ام سلمہ نے کہا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں ۔۔۔آپﷺ نے فرمایا ایک بالشت لٹکا لیا کریں ۔۔انھوں نے عرض کیا کہ اس صورت میں ان کے پاؤں کھل جائیں گے آپﷺ نے فرمایا تو ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں

اس سے معلوم ہوا کہ جو مرد و خواتین کئی گز لمبا کپڑا اپنے پیچھے گھسیٹے ہوئے چلتے ہیں خصوصا شادی کے موقع پر خواتین وہ بھی اس وعید میں شامل ہیں۔۔۔یورپی اقوام میں اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمان عورتوں میں بھی یہ رسم بد چل پڑی ہے کہ شادی کی تقریبات میں کئی گز لمبے غرارے پہنتی ہیں کبھی ٹیل سٹائل کی صورت میں اور کبھی فش سٹائل کی طرز پر اور کبھی کبھار دوپٹہ فرش پر جھاڑو دے رہا ہوتا ہے۔۔۔اور بعض اوقات اسے کئی عورتوں نے اٹھا رکھا ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتی جاتی ہیں۔۔۔۔نمود و نمائش اور کبر و نخوت کی ماری ہوئی یہ عورتیں ہیں جو اللہ کی نگاہ رحمت سے محروم ہیں
عورت مردوں کی طرح اپنے ٹخنے ننگے نہ رکھے بلکہ پاؤں کو چھپائے مگر ایک ہاتھ (بالشت) سے زیادہ کپڑا نہ لٹکائے ۔۔۔بہتر یہ ہے کہ ایک بالشت ہی لٹکائے۔
جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا سے معلوم ہوا کہ تکبر کے بغیر کسی کا کپڑا نیچے چلا جائے تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔۔۔چنانچہ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپﷺ کا یہ فرمان سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔یا رسول اللہ ٰ! میری چادر کا ایک کنارہ لٹک جاتا ہے سوائے اس کے کہ میں اس کا خیال رکھوں تو آپﷺ نے فرمایا
انک لست ممن یصنعہ خیلاء

*تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو یہ کام تکبر سے کرتے ہیں*

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے
کان ابو بکر احنی لا یستمسک ازارہ یسترخی عن حقویہ
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا قد جھکا ہوا تھا ۔۔۔اپنی چادر تھام نہیں سکتے تھے۔۔وہ ان کے کولہوں سے ڈھلک جاتی۔

اب صاف ظاہر ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر چادر نیچے نہیں لٹکاتے تھے۔۔۔کبھی کبھی بے توجہی ہو جاتی تو نیچے ڈھلک جاتی ۔۔۔اس طرح اگر کسی کی چادر ڈھلک جائے تو نہ یہ تکبر ہے اور نہ اس پر مواخذہ ہے۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پتلون پہننے والے لوگ دوران نماز اپنی پتلون کے پائنچے الٹے موڑ لیتے ہیں اور یہ لباس کے ساتھ بد تہذیبی ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لباس کو ایسے پہنو جیسے اس کے پہننے کا حق ہے۔

اب حاصل بحث یہ نکلا کہ اگر سنت پر عمل کرنا ہے تو پھر نماز اور نماز سے باہر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح اپنا آزار پنڈلی تک رکھیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نےمومن کی چادر کا مقام پنڈلی کا عضلہ مقرر فرمایا ہے۔۔۔۔زیادہ سے زیادہ ٹخنے کے اوپر تک رکھنے کی اجازت دی اور اس سے نیچے لٹکانا منع فرمایا
بطور دلیل چند احادیث پیشِ خدمت ہیں

وارفع ازارک الی نصف الساق فان ابیت فالی الکعبین وایاک واسبال الازار فانھا من المخیلۃ وان اللہ لا یحب المخیلۃ (ابو داؤد)
اور اپنے چادر نصف پنڈلی تک اونچی رکھو اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں تک اور چادر لٹکانے سے بچو کہ یہ تکبر سے ہے اور اللہ تعالی تکبر کو یقینا پسند نہیں فرماتا۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرماء اور سنت نبوی کے عین مطابق اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماء۔

آمین یا رب العالمین

آنحضرت صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی نماز تہجد کا طریقہ*

*نماز تہجد*
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے(رواہ مسلم)

*نماز تہجد کی رکعتیں*

حضرت عبداللہ بن ابوقیس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کی نماز کتنی پڑھتے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا
" کبھی چار نفل اور تین وتر (کل سات رکعت) کبھی چھ نفل اور تین وتر(کل نو رکعت)کبھی آٹھ نفل اور تین وتر(کل گیارہ رکعت) کبھی دس نفل اور تین وتر(کل تیرہ رکعت) ادا فرماتے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رات کی نماز سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی (رواہ ابوداؤد)

*آنحضرت صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی نماز تہجد کا طریقہ*

نبی کریم ﷺ تہجد کی نماز سفر و حضر کسی حال میں نہیں چھوڑتے تھے ۔ جب کبھی آپ پر نیند کا غلبہ ہو جاتا یا کوئی تکلیف ہو جاتی تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔

چونکہ رات میں آپ اکثر گیارہ رکعت نماز تہجد پڑھتے تھے اور اگر کسی بھی وجہ سے آپ نماز تہجد نہ پڑھ سکتے تو ایک رکعت کے اضافے کے ساتھ بارہ رکعت نماز دن میں نماز ظہر سے پہلے ادا فرما لیا کرتے تھے کیونکہ دن میں وتر نماز نہیں ہوتی۔

ہم نے شیخ السلام ابن تیمیہ ؒ کو اس دلیل کے متعلق فرماتے سنا کہ وتر اپنے محل سے قضاء ہوجانے کے بعد قضاء نہیں ہوتی جس طرح تحیۃ المسجد ، نماز کسوف اور نماز استسقاء وغیرہ ، کیوں کہ اس سے مقصود یہ ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہے۔آپ ﷺ نماز تہجد میں گیارہ یا تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔گیارہ رکعتوں پر اتفاق ہے اور آخری دو رکعتوں پر اختلاف ہے کہ وہ فجر کی سنتیں تھیں یا کوئی اور نماز تھی، اس طرح جب فرائض اور ان سنن موکدہ کو جمع کیا جائے، جب آپ مواظبت کرتے تھے تو مجموعی طور پر چالیس رکعتیں ہوتی ہیں، اس کے علاوہ کوئی نماز پڑھی تو پابندی سے نہیں پڑھی۔

لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تا حیات اس طرح معمول رکھے اس لئے کہ جو شخص دن اور رات میں چالیس مرتبہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ کس قدر جلد سن لی جاےئے گی۔

نبی کریم ﷺ جب رات کے وقت جاگتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔
(لا الہ الا انت سبحانک الھم استغفرک لذنبی، وأسالک رحمتک الھم زدنی علما ولا تزغ قلبی بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب)

ترجمہ: تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، اے ﷲ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں ، اے ﷲ میرے علم میں اضافہ فرما اور ہدایت کی بعد میرے دل کو ٹیڑھا نہ کر، مجھ کو اپنی رحمت سے نواز، تو بہت نوازنے والا ہے۔

جب آپ ﷺ سو کر اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے:

(الحمد ﷲ الذی احیانابعد ما اماتنا والیہ النشور)
تمام تعریفیں اس ﷲ کے لیے ہیں ، جس نے ہم کو موت (نیند) کے بعد زندگی عطاء کی اور اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔

پھر اس کے بعد آپ ﷺ مسواک فرماتے ۔ بسا اوقات سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات
(ان فی خلق المسٰوٰتِ والارض) سے آخر سورۃ تک تلاوت فرماتے تھے ، پھر وضو کرتے اور مختصر دو رکعتیں پڑھتے،

حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت سے اسے پڑھنے کا حکم معلوم ہوتا ہے۔جب رات آدھی گذر جاتی اس سے قبل یا اس کے بعد آپ اٹھنتے اور اکثر اوقات اس وقت اٹھتے جب آواز دینے والے یعنی مرغ کی آواز سنتے اور اور وہ اکثر نصف ثانی (رات کے آخری نصف) میں آواز لگاتا تو آپ اپنا ورد کئی حصوں میں کر دیتے اور کبھی مسلسل جاری رکھتے اور یہی زیادہ تر ہوتا، کئی حصوں میں ادا کرنے کی صورت حضرت ابن عباسؓ نے یہ بتائی کہ دو رکعتیں نماز ادا کر کے آپ ﷺ سو جاتے تھے، اس طرح تین مرتبہ میں چھ رکعتیں ادا فرماتے تھے اور ہر مرتبہ اٹھ کر مسواک اور وضو کرتے، پھر تین رکعت وتر ادا کرتے۔"

آپ ﷺ وتر کئی طرح پڑھتے تھے ایک کیفیت کا ذکر ابھی ہوا،

دوسری صورت یہ ہے کہ آپ آٹھ رکعتیں اس طرح پڑھتے تھے کہ ہر دو رکعت بعد سلام پھیرتے تھے ، پھر مسلسل پانچ رکعتیں بطور وتر پڑھتے ، صرف آخر میں تشہد کے لئے بیٹھتے تھے۔

تیسری صورت: نو رکعت اس طرح پڑھتے تھے کہ آٹھ رکعت مسلسل پڑھتے اور صرف آٹھویں رکعت کے آخر میں بیٹھتے اور ﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے، دعاء مانگتے اور پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جاتے ، پھر نویں رکعت میں تشہد پڑھتے اور سلام پھیر دیتے، سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے۔

پانچویں صورت: دو دو رکعتیں پڑھ کر آخر میں تین رکعت وتر پڑھ لیتے ، جس میں قعد یا تشہد کا فاصلہ نہ ہوتا ۔ اس کو امام احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان کے درمیان وقفہ نہیں کرتے تھے، تاہم یہ روایت محل نظر ہے۔ کیونکہ صحیح ابن حبان میں ابو ہریرہؓ سے مرفوع روایت ہے کہ " تین رکعت وتر نہ پڑھو، پانچ یا سات پڑھو، وتر کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ بناؤ ۔" امام دار قطنی کہتے ہیں کہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔حرب کہتے ہیں کہ امام احمد سے وتر کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا " دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے۔" اگر سلام نہ پھیر سکا تو میرا خیال ہے کہ کوئی نقصان دہ بات نہیں ہے لیکن سلام پھیرنا نبی اکرم ﷺ سے زیادہ مستند طریقے سے ثابت ہے۔ ابو طالب کی روایت میں ایک قول مذکور ہے کہ زیادہ قویٰ روایت ایک رکعت والی ہے اور میں اسی کا قائل ہوں۔

چھٹی صورت:جیسا کہ امام نسائی ؒ نے حضرت حذیفہؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رمضان میں رسول ﷲ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں قیام کے بعد بقدر یہ دعاء پڑھی(سبحان ربی العظیم) اسی حدیث میں ہے کہ آپ نے ابھی چار رکعتیں پڑھی تھیں کہ حضرت بلال صبح کی نماز کے لئے آپ کو بلانے آ گئے۔ آپ نے رات کی ابتدائی، درمیانی اور آخری حصہ میں وتر پڑھے، ایک رات قیام میں صبح تک صرف ایک آیت ہی پڑھتے رہے، اور وہ یہ تھی:
(ان تعذبھم فانہم عبادک وان تغفر لھم فانک انت العزیز الحکیم) (المائدہ: 118)
ترجمہ: اگر تو ان کو عذاب دیگا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر ان کو بخش دیگا تو غالب حکمت والا ہے۔

رات میں آپکی نماز تین طرح کی ہوتی تھی ، ایک یہ کہ آپ زیادہ تر کھڑے ہو کر نماز پڑھے تھے، دوسرے بیٹھ کر نماز پڑھتے اور رکوع بھی بیٹھ کر کرتے، تیسرے یہ کہ آپ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور جب تھوڑی سے قرأت باقی رہ جاتی تو کھڑے ہو جاتے اور پھر رکوع فرماتے۔ نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ وتر کے بعد کبھی دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے اور کبھی بیٹھ کر ہی قرأت کرتے اور رکوع کے وقت کھڑے ہو جاتے پھر رکوع کرتے۔ اس حدیث میں بہت لوگوں کا اشکال ہوا اور انہوں نے آنحضور ﷺ سے اس ارشاد کو کہ "رات کی آخری نماز وتر بناؤ" کا معارض سمجھ لیا۔امام احمد فرماتے ہیں کہ میں ان دو رکعتوں کو نہ پڑھتا ھوں اور نہ کسی کو پڑھنے سے منع کرتا ہوں۔ امام مالک نے تو ان دونوں رکعتوں کا انکار کیا ہے۔ لیکن صحیح صورت یہ ہے کہ نماز وتر مستقل عبادت ہے اور وتر کے بعد دو رکعتیں مغرب کی سنتوں کی طرح ہیں۔اس طرح مذکورہ دونوں رکعتیں وتر کی تکمیل کا درجہ رکھتی ہیں مگر کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتیں۔

وتر میں نبی اکرم ﷺ سے قنوت ثابت نہیں۔ صرف ابن ماجہ کی ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ امام احمد کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں حضور ﷺ سے کچھ ثابت نہیں لیکن حضرت عمر ؓ پورے سال دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے۔اصحاب سنن نے قنوت پڑھنے کا سلسلہ میں حضرت حسن بن علیؓ کی حدیث کو روایت کیا ہے۔امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور کہا کہ ہم اس کو ابوالحوراء السعدی کے طریقے سے جانتے ہیں۔

نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھنا حضرت عمرؓ، حضرت ابی ابن کعب اور حضرت ابن مسعودؓ سے ثابت ہے۔ امام ابو داؤد اور امام نسائی نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ رسول ﷲ ﷺ وتر میں سورۃ اعلیٰ، سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔اور سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ (سبحان الملک القدوس) کہا کرتے تھے۔

نبی اکرم ﷺ سورت ترتیل سے پڑھتے تھے، خواہ وہ بڑی سے بڑی کیوں نہ ہو۔ قرآن کریم پڑھنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ غور و فکر و تدبر سے کام لیا جائے۔ اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تلاوت اس کے مفہوم و معانی کے سمجھنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ بعض سلف کا قول ہے کہ قرآن کریم عمل کے لئے نازل کیا گیا ہے اس لئے اس کی تلاوت کو عمل سمجھو۔ حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو جمرہ نے بتایا کہ میں نے ابن عباسؓ سے عرض کیا کہ میں جلدی پڑھنے کا عادی ہوں اور بسا اوقات ایک رات میں ایک یا دو قرآن ختم کرتا ہوں ۔ ابن عباسؓ نے فرمایا " مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ ایک سورۃ پڑھوں بجائے اس کے کہ جو تم کرتے ہو۔ اگر تم کو تیز ہی پڑھنا ہے تو اس طرح پڑھو کہ کان سن سکیں اور دل یاد کر سکے۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے حضرت ابن مسعود کے سامنے تلاوت فرمائی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، ترتیل سے پڑھو کیونکہ یہ قرآن مجید کی زینت ہے۔

نیز حضرت عبد ﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآن کو شعر کی طرح نہ گا کر پڑھو اور نہ فضول کلام کی طرح پڑھو بلکہ اس کو پڑھتے وقت اس کے عجائب پر ٹھہرو اور اس کے ذریعے دلوں کو حرکت دو اور دھیان محض سورۃ کو ختم کر دینے پر نہ لگا ہوا ہو۔مزید فرماتے ہیں "جب تک سنو کہ ﷲ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے" (یا ایھا الذین امنو) (ائے ایمان والو!) تو تم سراپا گوش ہو جاؤ یا تو تمہیں نیکی کا حکم دیا جائے گا یا برائی سے منع کیا جائے گا۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ ایک عورت میرے پاس آئی میں اس وقت " سورۃ ہود" پڑھا رہا تھا۔ وہ کہنے لگی ، اے عبد الرحمن تو اس طرح سورۃ پڑھ رہا ہے ، بخدا میں اسے چھ مہینوں سے پڑھ رہی ہوں لیکن ابھی تک اسے ختم نہیں کر سکی ہوں۔رسول ﷲ ﷺ تہجد کی نماز میں کبھی آہستہ سے تلاوت فرماتے تو کبھی بہ آواز بلند ، دونوں طرح قرأت فرماتے تھے اور قیام کبھی مختصر کرتے اور کبھی طو یل، نفل نمازیں حالت سفر میں دن ھو یا رات سواری پر پڑھ لیتے تھے خواہ اس کا رخ جس طرف ہو، رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرتے تھے اور سجدہ رکوع سے زیادہ جھک کر کرتے تھے۔

یا اللہ تعالی ہمیں نماز تہجد قائم کرنے کی توفیق عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین

*مساجد اور نماز پڑھنے کی جگہ کے مسائل* 

مسئلہ نمبر 48
مسجد بنان ے والے کے لیے اللہ تعالی جنت میں گھر بناتا ہے۔
 حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔"جس نے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا۔" اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ 49
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد بنانے انہیں صاف اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مساجد بنانے انہیں پاک صاف اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا ہے ۔اسے بخاری، احمد، مسلم اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 50
 مساجد کی تعمیر میں رنگ و روغن اور نقش و نگار ناپسندیدہ ہیں۔

 حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "مجھے منقش مساجد تعمیر کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔" اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 51
 بیل بوٹے یا نقش و نگار نگار والے مسئلے پر نماز نہیں پڑھنی چاہیے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نقش و نگار والی چادر میں نماز پڑھی دوران نماز نقش و نگار پر توجہ مرکوز ہو گئی تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد خادم سے فرمایا ۔"یہ چادر ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور اس سے سادہ چادر لے آؤ ۔کیونکہ اس نے مجھے نماز سے غافل کر دیا ۔"اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 52
مسجد کی صفائی اور دیکھ بھال کرنا سنت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی دیوار پر تھو ک یا رینڈ دیکھا، تو کھرچ کر صاف کر دیا ۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔

مسئلہ نمبر 53
 *اللہ تعالی کے نزدیک بہترین جگہ مسجد اور بدترین جگہ بازار ہے*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ جگہیں مساجد اور بدترین جگہ بازار ہیں۔" اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔

مسئلہ نمبر 54
 *مسجد میں آنے سے قبل کچا لہسن اور پیاز نہیں کھانا چاہیے*
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے الگ رہے" یا فرمایا" وہ ہماری مسجد میں نہ آئے اور اپنے گھر میں ہی بیٹھے۔"
 اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 55 
 مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرنا مستحب ہے۔

 مسئلہ نمبر 56 
مساجد میں کاروباری اور دوسری دنیاوی معاملات کی گفتگو کرنا ناجائز ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھو تو کہو "اللہ تعالی تجھے تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو اپنی گم شدہ چیز کا مسجد میں اعلان کرتے دیکھو تو کہو اللہ تعالی تجھے کبھی واپس نہ دے"۔ اسے ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 57
*سنت اور نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اپنے گھروں کو قبرستان مت بناو اور میری قبر کو عیدگاہ [ میلہ گاہ ] مت بناو ، اور میرے اوپر درود پڑھو ، اس لئے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود مجھے پہنچایا جاتا ہے ‘‘۔
{ سُنن ابو داود ، مسند احمد ، الطبرانی الاوسط)

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر من و عن عمل کرنے والا بنا دے۔
Qq
آمین یا رب العالمین
 
مسئلہ نمبر 58
 *ساری زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے مسجد اور مٹی کو پاک کرنے والا بنایا۔*

 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میرے لیے زمین کو مسجد اور مٹی کو پاک کرنے والی بنایا گیا ہے۔ لہذا میری امت کے لیے لوگوں کو جہاں کہیں بھی نماز کا وقت آئے ادا کر لیں ۔"اسے بخاری مسلم نے روایت کیا ہے ۔
**وضاحت شرعی عذر مثلا سفر یا بیماری وغیرہ کی بنا پر جہاں کہیں نماز کا وقت آ جائے وہیں ادا کر لینی چاہیے لیکن شرعی عذر نہ ہو تو مسجد میں آ کر باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے۔

 مسئلہ نمبر 59
 مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کا ثواب مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مساجد کے مقابلوں میں ہزار درجہ زیادہ ہے
 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" میری مسجد مسجد نبوی میں نماز کا ثواب مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے ۔"اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے ۔

مسئلہ نمبر 60
 مسجد حرام مسجد اقصی اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب باقی تمام مساجدوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

 مسئلہ نمبر 61
 زیارت کرنے یا نماز کا ثواب حاصل کرنے کی نیت سے مسجد حرام مسجد اقصی اور  مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا جائز نہیں۔

 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" تین مساجد مسجد حرام، مسجد اقصی، اور مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ کے لیے ثواب کی نیت سے سفر اختیار نہ کرو ۔اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 62
 *مسجد قباء میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے*

حضرت اسید بن ظہیر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔"مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے۔" اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 63
*حمام (غسل خانہ) اور قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے ۔*

حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" قبرستان اور حمام کے سوا ساری زمین مسجد ہے۔" اسے احمد ابو داؤد، ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 64
*اونٹوں کے باڑا میں نماز پڑھنا منع ہے*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لو مگر اونٹوں کے باڑہ میں نماز نہ پڑھو۔" اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 65
*قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے*

 مسئلہ نمبر 66
*قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا منع ہے*

مسئلہ نمبر 67 
*قبر پر مسجد تعمیر کرنا منع ہے*

مسئلہ نمبر 68
*مسجد میں قبر بنانا منع ہے*

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا۔" یہودیوں اور عیسائیوں پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔" اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا۔

 حضرت ابو مرثد غنوی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔قبروں پر (مجاور بن )کر بیٹھو نہ ہی قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو ۔"اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 69 
مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی مسنون دعائیں یہ ہیں ۔

 حضرت ابوحمید یا ابو اسید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جب کوئی نمازی مسجد میں داخل ہو تو یہ دعاء مانگے
*اللَّهُمَّ افْتَحْ لي أَبْوابَ رَحْمَتِكَ* 
 الہی میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے نکلے تو یہ دعاء مانگے

اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ   *الہی میں تجھ سے تیرے فضل کا طالب ہوں*
اسے مسلم نے روایت کیا ہے

*الدعاء*
یا رب کریم ہمیں دین کا علم عنایت فرما اور اس پر من و عن عمل کرنے والا بنا۔
آمین یا رب العالمین۔

*اوقات نماز کے مسائل*
 
مسئلہ نمبر 70
 *فرض نماز مقررہ اوقات پر پڑھنی ضروری ہے*

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز اپنے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے پاس سے گزرے تو پوچھا ۔"کیا تم جانتے ہو تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟" صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے تین مرتبہ عرض کیا۔" اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ۔"آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔" اللہ تعالی کہتا ہے میری عزت و جلال کی قسم جو شخص وقت پر نماز ادا کرے گا میں اسے جنت میں داخل کروں گا اور جس نے بے وقت نماز ادا کی یعنی تاخیر سے نماز پڑھی اسے چاہوں گا تو اپنی رحمت سے معاف کر دوں گا چاہوں گا تو عذاب دوں گا ۔"
اسے طبرانی نے روایت کیا 

 مسئلہ نمبر 71
*نماز ظہر کا اول وقت جب سورج ڈھل جائے اور اخر وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے*

 مسئلہ نمبر 72
*نماز عصر کا وقت جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو اور آخر وقت جب ہر چیز کا سایہ اس سے دو گناہ ہو جائے*(غروب شمس سےقبل)

 مسئلہ نمبر 73
*نماز مغرب کا اول اور آخر وقت روزہ افطار کرنے کا وقت ہے*
(جب مشرق کی طرف سیاہی چھا جائے)

*نوٹ:*
آپ کا فرمان ہے کہ جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا یعنی غروب شمس  سے پہلے جس نے ایک رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا(حدیث شریف)

 مسئلہ نمبر 74
*نماز عشاء کا اول وقت جب مغرب کی طرف آسمان سے سرخی ختم ہو جائے اور آخر وقت آدھی رات تک*

 مسئلہ نمبر 75 
*نماز فجر کا اول وقت سحری ختم ہونے تک (پو پھٹنے تک) اور آخر وقت طلوع شمس سے قبل جب روشنی پھیل جائے*

 حضرت ابو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "جبرائیل علیہ السلام نے مجھے دو مرتبہ بیت اللہ شریف کے پاس نماز پڑھائی پہلی مرتبہ نماز ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتی کے تسمہ( تقریبا دو انچ) کے برابر تھا۔ نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا اور نماز مغرب روزہ افطار کرنے کے وقت پڑھائی ۔نماز عشاء اس وقت پڑھائی جب آسمان سے سرخی ختم ہو گئی۔ اور نماز فجر اس وقت پڑھائی جب روزہ دار کھانا پینا ترک کرتا ہے دوسرے روز جبرائیل علیہ السلام نے پھر نماز پڑھائی اور نماز ظہر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس سے دوگنا ہو گیا اور نماز مغرب افطار کے وقت اور نماز عشاء تہائی رات گزرنے پر پڑھائی نماز فجر روشنی میں پڑھائی پھر جبرائیل علیہ السلام میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا "اے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ وقت پہلے انبیاء علیہ السلام کی نمازوں کا ہے اور آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کا وقت ان وقتوں کے درمیان ہے ۔اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ 

*وضاحت*
بعض دوسری صحیح احادیث کے مطابق نماز عصر کا آخری وقت سورج غروب ہونے تک نماز مغرب کا آخری وقت مغربی افق کی سرخی غائب ہونے تک یعنی افطار سے تقریبا 40 منٹ بعد تک۔ نماز عشاء کا آخری وقت آدھی رات تک اور نماز فجر کا آخری وقت سورج طلوع ہونے تک ہے۔

نماز عشاء کا آخری وقت۔
نماز عشاء کا وقت غروب شفق سے لے کر صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے لیکن تہائی رات تک مستحب، نصف شب تک مباح اور اس کے بعد مکروہ تحریمی ہو جاتا ہے

*الدعاَء*
یا اللہ تعالی مجھے اول وقت پر نماز  پڑھنے کی توفیق عطا فرماء 
آمین یا رب العالمین
 
مسئلہ نمبر 76
 *رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نمازیں اول وقت پر ادا فرمایا کرتے تھے*

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں کے اوقات دریافت کیے تو انہوں نے کہا "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سورج ڈھلتے ہی پڑھ لیتے تھے عصر کی نماز جب سورج صاف اور روشن ہوتا یعنی اس میں زردی کی آمیزش نہ ہوتی مغرب کی نماز جب سورج ڈوب جاتا اور عشاء کی نماز کبھی جلدی کبھی دیر سے پڑھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے کہ لوگ جلدی جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے جب دیکھتے کہ ابھی کم ہیں تو دیر سے پڑھتے اور نماز فجر اندھیرے میں ہی پڑھ لیتے۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 77
 *تمام نمازیں اول وقت میں پڑھنی افضل ہیں۔ لیکن عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے*

حضرت ام فروہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بہترین عمل نماز کو اول وقت میں ادا کرنا ہے۔" اسے ابو داؤد اور ابو حاکم نے روایت کیا ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ رات کا پیشتر حصہ گزر گیا اور مسجد میں لوگ سونے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے نماز پڑھائی اور فرمایا اگر مجھے امت کی تکلیف کا احساس نہ ہوتا تو نماز عشاء کا یہی وقت مقرر کرتا ۔اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 78 
*طلوع آفتاب زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے*

 حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تینوں وقتوں میں نماز پڑھنے اور میت دفن کرنے سے منع فرمایا ہے پہلا جب سورج طلوع ہو رہا ہو یہاں تک کہ بلند ہو جائے دوسرا عین دوپہر کے وقت حتی کہ سورج ڈھل جائے اور تیسرا جب سورج غروب ہو رہا ہو حتی کہ پوری طرح غروب ہو جائے۔
 اسے احمد مسلم ،ابو داؤد، نسائی ،ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 79
*بیت اللہ شریف میں دن یا رات کے کسی بھی وقت طواف کرنا اور نماز پڑھنا جائز ہے*

 حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد مناف کو حکم دیا کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے منع نہ کرو۔ خواہ دن یا رات کا کوئی سا وقت ہو ۔
اسے ترمذی نسائی اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے

 مسئلہ نمبر 80 
*جمعہ کے دن زوال سے قبل زوال کے وقت اور زوال کے بعد سبھی اوقات میں نماز پڑھنی جائز ہے*
 
حضرت عبداللہ بن سیدان سلمی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے خطبہ میں حاضر ہوا ان کا خطبہ اور نماز نصف النہار سے پہلے ہوتی تھی پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے خطبے میں حاضر ہو اور ان کا خطبہ اور نماز نصف النہار کے وقت ہوتی تھی پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ان کا خطبہ اور نماز زوال کے وقت ہوتی تھی میں نے کسی بھی صحابی کو ان حضرات کے فعل پر اعتراض یا احتجاج کرتے نہیں دیکھا۔
 اسے دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرتے پھر واپس آکر کنویں سے پانی نکالنے والے اونٹوں کو آرام کے لیے چھوڑتے راوی نے پوچھا" وہ کون سا وقت ہوتاہے؟" حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا" سورج ڈھلنے کا ۔اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا رب کریم ہمیں آپ کے اور آپکے نبی کے احکامات پر سنت نبوی کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرماء 

آمین یا رب العالمین


*آذان اور اقامت کے مسائل

مسئلہ نمبر 81
*اذان سے پہلے درود و سلام پڑنا سنت سے ثابت نہیں*

مسئلہ نمبر 82
*دوہری آذان کے ساتھ دوہری اقامت کہنا مسنون ہے*

مسئلہ نمبر 83
اکہری آذان کے ساتھ دوہری اقامت کہنا غیر مسنون ہے

حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے مجھے آذان سیکھائی۔
فرمایا ابو محذورہ کہہ

اللہ اکبر چار مرتبہ
اشھد ان لا الہ الا اللہ دو مرتبہ
اشھد ان محمد"ا رسول اللہ دو مرتبہ
پھر دوبارہ کہہ اشھد ان لا الہ الا اللہ دو مرتبہ
 اشھد ان محمد"ا رسول اللہ  دو مرتبہ
حئی علی الصلاۃ دو مرتبہ
 حئی علی الفلاح دو مرتبہ
اللہ اکبر دو مرتبہ
لا الہ الا اللہ ایک مرتبہ
اسے ابو داود نے روایت کیا

وضاحت:
مندرجہ بالا کلمات دوہری اذان کے ہیں جو 19 بنتے ہیں
اکہری اذان میں
اشھد ان لا الہ الا اللہ
اشھد ان محمد"ا رسول اللہ کا اعادہ نہیں
لہذا اکہری اذان کے 15 کلمات ہیں
(صحيح سنن ابی داود، للالبانی جز اول حدیث رقم (475)

حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے انہیں آذان سیکھائی جس میں 19 کلمات تھے اور اقامت سکھائی جس میں 17 کلمات تھے (احمد،ترمذی،ابو داود، نسائی، دارمی اور ابن ماجہ)

وضاحت:
دوہری اذان کے ساتھ دوہری اقامت سکھائی 
جس کے 17 کلمات یہ ہیں

اللہ اکبر چار مرتبہ
اشھد ان لا الہ الا اللہ دو مرتبہ
اشھد ان محمد"ا رسول اللہ دو مرتبہ
حئی علی الصلاۃ دو مرتبہ
 حئی علی الفلاح دو مرتبہ
قدقامت الصلاۃ دو مرتبہ
اللہ اکبر دو مرتبہ
 لا الہ الا اللہ ایک مرتبہ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ اقدس میں اذان کے کلمے دوہرے ہوتے تھے جب کہ اقامت کے کلمات قدوقامت الصلاۃ کے کلمات کے علاوہ اکہرے ہوتے تھے(ابوداود  نسائی، دارمی)
یی
وضاحت:
اکہری اقامت کے کلمات گیارہ ہیں جو یہ ہیں
اللہ اکبر دو مرتبہ
 اشھد ان لا الہ الا اللہ ایک مرتبہ
اشھد ان محمد"ا رسول اللہ ایک مرتبہ
حئی علی الصلاۃ ایک مرتبہ
حئی الفلاح ایک مرتبہ
قدقامت الصلاہ دو مرتبہ 
اللہ اکبر  دو مرتبہ
لا الا الہ الا اللہ ایک مرتبہ

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہمیں وقت پر نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرماء 

یا اللہ سب مسلمانوں کو نمازی بنا۔
آمین یا رب العالمین


*اذان اور اقامت کے مسائل*  

مسئلہ نمبر 84
*اذان کا جواب دینا مسنون ہے*

مسئلہ نمبر 85
*اذان کے جواب کا مسنون طریقہ درج ذیل ہے*

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا 
جب تم اذان سنو تو جو کلمات موذن کہے  وہی تم بھی کہو (متفق علیہ)

مسئلہ نمبر 86
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اذان کا جواب دینے کی فضیلت کے بارے میں روایت ہے کہ ہر کلمہ کا جواب وہی کلمہ ہے سوائے حئی الصلاۃ اور حئی الفلاح کے جواب میں
 
*لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہنا چاہئے*(رواہ مسلم)

مسئلہ نمبر 87
*اذان کا جواب دینے والے کے لئے جنت کی خوشخبری ہے*

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر کی خدمت میں حاضر تھے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے اذان دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے پورے یقین کے ساتھ اذان کا جواب دیا وہ جنت میں داخل ہوگا (رواہ نسائی)

مسئلہ نمبر 88
فجر کی اذان میں *الصلاۃ خیر من النوم* کے الفاظ کہنا مسنون ہیں

 *حضرت انس فرماتے ہیں کہ فجر کی اذان میں موذن کا حئی الفلاح کے بعد الصلاۃ خیر من النوم کہنا سنت ہے* (اسے ابن خزیمہ نے روایت کیا)

مسئلہ نمبر 89
*اذان کے بعد مندرجہ ذیل دعائیں مانگنا مسنون ہے*

 حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں اس کے پڑھ لینے سے رسول اللہ ﷺ کی شفاعت واجب ہوجاتی ہے

للّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ، اٰتِ مُحَمَّدَ نِ الْوَسِيلَةَ وَ الْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودَ نِ الَّذِيْ وَعَدْتَّهٗ، اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَـ
ترجمہ:
اے اللہ! اس پوری پکار کے رب اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمد ﷺ کو وسیلہ عطا فرما (جو جنت کا ایک درجہ ہے)، اور ان کو فضیلت عطا فرما، اور ان کو مقام محمود پر پہنچا جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ بے شک تو وعدہ خلافی نہیں فرماتا ہے۔
(صحيح البخاري، مشکاۃ شریف)

*مسئلہ نمبر 90*
*جس نے یہ دعاء مانگی اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں*

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے اذان سن کر یہ کلمات کہے میں گواہی دیتا ہوں اللہ تعالی کے سوا کوئی الہ نہیں وہ اکیلا ہے لا شریک ہے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اللہ تعالی کے رب ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رسول ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر میں راضی ہوں اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اسے مسلم نے روایت کیا

*الدعاء*
یا اللہ مجھے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرماء 
)
 

مسئلہ نمبر 91
*اذان کے بعد نماز ادا کیے بغیر بلا عذر مسجد سے نکلنا منع ہے*
 
حضرت ابو شعثاءرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ایک آدمی اذان کے بعد نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر نکلا تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اس شخص نے ابو قاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی "نافرمانی کی ۔(اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 92
*اذان ٹھہر ٹھہر کر اور اقامت جلدی جلدی کہنا مسنون ہے*

 مسئلہ نمبر 93
 اذان اور اقامت کے درمیان تقریبا اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ کھانا کھانے والا کھانے سے فارغ ہو جائے ۔( تقریبا 10 منٹ)۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا۔" اذان ٹھہر ٹھہر کر اقامت جلدی جلدی کہا کرو۔ اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقفہ رکھو کہ کھانے پینے والا کھانے پینے سے فارغ ہو جائے قضائے حاجت والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور جب تک مجھے حجرے سے نکل کر مسجد اتے ہوئے دیکھ نہ لو اس وقت تک صف میں کھڑے نہ ہو ۔"(اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 94 
*اذان اور اقامت کے درمیان دعاء رد نہیں کی جاتی*

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذان اور اقامت کے درمیان دعاء رد نہیں کی جاتی ۔
(اسے ابو داؤد اور ترمزی نے روایت کیا ہے)۔

 مسئلہ نمبر 95
*اقامت کا جواب دیتے ہوئے "قد قامت الصلاۃ" کے جواب میں" اقامھا اللہ و ادامھا"
کہنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔*

 مسئلہ نمبر 96
*فجر کی اذان میں" الصلاۃ خیر من النوم" کے جواب میں" صدقت و بررت "کہنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے*

 مسئلہ نمبر 97
 *سحری اور تہجد کے لیے اذان دینا سنت ہے*

مسئلہ نمبر 98
*نابینا آدمی اذان دے سکتا ہے*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ رات کو جگانے کے لیے اذان دیتے تھے ۔لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کی اذان تک کھاتے پیتے رہا کرو۔
 کیونکہ وہ طلوع فجر سے پہلے اذان نہیں دیتے۔
( اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے)۔

 مسئلہ 99
*سفر میں دو آدمی بھی ہوں تو انہیں اذان کہہ کر باجماعت نماز ادا کرنی چاہیے*

 حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں دو آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کرنا چاہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نصیحت فرمائی۔ جب دونوں سفر کے لیے نکلو تو اذان اور اقامت کہو پھر تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔( اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 100
*اگر اذان کی فضیلت معلوم ہو جائے تو لوگ آپس میں قرعہ ڈال کر اذان کہنے لگیں*

 مسئلہ نمبر 101
*اذان کے دوران انگلیاں چوم کر آنکھوں پر لگانا سنت سے ثابت نہیں*

مسئلہ نمبر 102
*کسی مصیبت یا آفت کے موقع پر اذانیں دینا سنت سے ثابت نہیں*

الدعاء 
یا اللہ ہماری نمازیں قبول فرما۔
ہماری دعائیں قبول فرما۔ 
ہمیں احادیث نبوی پر عمل کی توفیق عطا فرما۔


*صف کے مسائل*

 مسئلہ نمبر 103
*تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے امام کو صف سیدھی کرنے اور ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی ہدایت کرنی چاہیے۔*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کہنے سے قبل ہماری طرف چہرہ مبارک کر کے کھڑے ہو جاتے اور فرماتے "جڑ کر اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ"۔ (اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 104
*سف سیدھی کیے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے*

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" اپنی صفوں کو سیدھا کیا کرو کیونکہ صفوں کی درستگی نماز کی تکمیل کا حصہ ہے۔"( اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے ۔)

مسئلہ نمبر 105
 *دین کا علم رکھنے والے اور سمجھدار لوگ امام کے پیچھے پہلی صف میں کھڑے ہو نے چاہئیں۔*

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تم میں سے سمجھدار اور عقل مند لوگ میرے قریب کھڑے ہوں۔ پھر وہ لوگ جو ان سے علم اور سمجھ میں کم ہوں پھر وہ جو ان سے کم ہوں اور پھر وہ جو ان سے کم ہوں۔
( اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ 106
*پہلی صف کی فضیلت۔*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اگر لوگوں کا اذان اور پہلی صف کا ثواب معلوم ہو جائے تو اس کے لیے ضرور قرعہ ڈالیں۔ 

مسئلہ نمبر 107
*اگر اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت معلوم ہو جائے تو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں

 *اگر عشاء اور فجر کی فضیلت جان لیں تو اس میں ضرور آئیں خواہ گھٹنوں کے بل ہی آنا پڑے۔*
 (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ 108
*پہلی صف مکمل کرنے کے بعد دوسری صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے اگلی صف پوری کرو پھر اس کے بعد دوسری صف اگر کوئی کمی ہو تو آخری صف میں ہونی چاہیے۔ (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 109
*اگر پہلی صف میں جگہ ہو تو پچھلی صف میں اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔*

حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ نماز دوبارہ پڑھو۔(اسے احمد ترمزی اور ابو داؤد نے روایت کیا )

*وضاحت اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو تو پچھلی صف میں اکیلے کھڑے ہونا درست ہے*

 مسئلہ نمبر 110 

*پچھلی صف میں تنہا کھڑے ہونے کی وجہ سے اگلی صف سے آدمی پیچھے کھینچنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں*

 مسئلہ نمبر 111
*ستونوں کے درمیان صف بنانا ناپسندیدہ ہے۔*

 حضرت معاویہ بن قرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے باپ  سے روایت کرتے ہیں کہ" ہمیں عہد رسالت میں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے روکا جاتا اور وہاں سے ہٹا دیا جاتا۔( اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 112
 *عورت تنہا صف میں کھڑی ہو سکتی ہے۔*

 حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک یتیم بچے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنے گھر میں نماز پڑھی میری والدہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا ہم سب کے پیچھے تھیں۔(اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

 *نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صف سیدھی کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔*

 مسئلہ نمبر 113
*صف میں کندھے کے ساتھ کندھا اور قدم کے ساتھ قدم ملانا چاہیے۔*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اپنی صف سیدھی کرو، میں تمہیں اپنی پشت سے دیکھتا ہوں۔" چنانچہ ہم میں سے ہر آدمی اپنا کندھا ساتھ والے نمازی کے کندھے سے اور قدم اس کے قدم سے ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ ( اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

*وضاحت*
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی پشت سے دیکھنا معجزہ تھا۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اور صحابہ اکرام کے طریقے پر اہتمام کے ساتھ نماز با جماعت ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین


*امامت کے مسائل*

 مسئلہ نمبر 114
*سب سے زیادہ قرآن جاننے والا پھر سب سے زیادہ سنت کا علم رکھنے والا پھر ہجرت میں پہل کرنے والا اور پھر سب سے زیادہ عمر والے امامت کا زیادہ حقدار ہے۔*

 مسئلہ  نمبر 115
*مقررہ امام کی اجازت کے بغیر کسی مہمان کو امامت نہیں کرانی چاہیے*

 حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا ہو ۔اگر قرات میں لوگ برابر ہوں تو سنت کا زیادہ جاننے والا امامت کرائے اگر اس میں بھی برابر ہوں تو پھر جس نے پہلے ہجرت کی ہو اگر لوگ اس میں بھی برابر ہوں تو پھر عمر میں سب سے بڑا امامت کرائے۔

مسئلہ نمبر 116
*امامت کے لیے مقررہ آدمی کی جگہ کوئی دوسرا ادمی بلا اجازت امامت نہ کرائے*

 رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا نہ ہی کوئی آدمی کسی کے گھر میں بلا اجازت اس کی مسند پر بیٹھے۔( اسے احمد اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 117 
*نابینا آدمی بلا کراہت امامت کرا سکتا ہے*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرمایا وہ لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔( اسے احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 118 
*امام کی پوری پوری اقتدا کرنا واجب ہے*

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔"امام اسی لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی مکمل پیروی کی جائے۔ لہذا جب وہ رکوع میں ناجاے۔تم بھی رکوع میں نہ جاؤ اور جب تک وہ نہ اٹھے تم بھی نہ اٹھو ۔(اسے بخاری نے روایت کیا ہے ۔)

مسئلہ نمبر 119
*مسافر مقیم کی امامت کرا سکتا ہے۔*

 عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں گھر واپس آنے تک نماز قصر ادا فرمائی ۔فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم 18 دن مکہ میں رہے اور مغرب کے سوا لوگوں کو دو رکعتیں پڑھاتے رہے خود سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے فرما دیتے "اے مکہ والو! اٹھ کر با قی نماز پوری کر لو ہم مسافر ہیں۔( اسے احمد نے روایت کیا ہے ۔)

مسئلہ نمبر 120 
*اگر سات یا آٹھ سال کا بچہ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ قرآن جانتا ہو تو امامت کا زیادہ حقدار ہے*

حضرت عمر بن سلمہ جرمی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ہماری بستی سے سوار گزرا کرتے تھے اور ہم ان سے قرآن سیکھا کرتے تھے ایک دفعہ میرا باپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" تم میں سے جسے قرآن زیادہ آتا ہو اسے امامت کروانی چاہئے۔چنانچہ میرا باپ واپس آیا تو کہنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" امامت وہ کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو چنانچہ سب لوگوں نے دیکھا مجھے سب سے زیادہ قرآن یاد تھا ۔اس لیے میں ان کی امامت کرواتا تھا ۔اس وقت میں اٹھ سال کا تھااسے رسائی نے روایت کیا ہے)۔

 مسئلہ نمبر 121 
*عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔*

 مسئلہ نمبر 122
*عورت کو امامت کراتے وقت پہلی صف کے اندر وسط میں کھڑا ہونا چاہیے*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ وہ فرض نمازوں میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور صف کے اندر ہی کھڑی ہوتی تھیں۔(اسے دار قطنی نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 123
*امام کو ہلکی نماز پڑھانی چاہیے*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی امام لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ نمازیوں میں کمزور بیمار اور بوڑھے سبھی ہوتے ہیں البتہ جب تم میں سے کوئی تنہا پڑھےتو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔( اسے احمد بخاری مسلم ،ابو داؤد ،نسائی ،ترمزی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

*الدعاء*

یا اللہ تعالی  ہمیں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی طرح اہتمام کے ساتھ نماز پڑھنے والا بنا۔
آمین یا رب العالمین


*امامت کے مسائل

مسئلہ نمبر 124 
*امام اور مقتدیوں کے درمیان اگر دیوار یا کوئی ایسی چیز حائل ہو کہ مقتدی امام کی نقل و حرکت نہ دیکھ سکیں تب  بھی نماز درست ہے۔*

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعتکاف والے حجرہ میں نماز پڑھائی اور لوگوں نے حجرہ سے باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی۔ا سے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 125
 *ایک آدمی فرض نماز ادا کرنے کے بعد اسی وقت کی نماز کے لیے دوسرے لوگوں کے امامت کرا سکتا ہے۔*

 مسئلہ نمبر 126
 *متذکرہ بالا صورت میں امام کی پہلی نماز فرض ہوگی دوسری نفل ہوگی۔*

 مسئلہ نمبر 127
 *امام اور مقتدی کی نیت جدا جدا ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آتا*

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ عشاء کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا فرماتے پھر اپنی قوم میں جا کر انہیں وہی نماز پڑھاتے تھے۔( اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا)

 حضرت محجن بن الادرع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس مسجد میں حاضر ہوا نماز کا وقت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور میں بیٹھا رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تم نے نماز نہیں پڑھی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے گھر میں نماز پڑھ لی تھی۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب ایسا موقع پاؤ تو جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ لو اور دوسری نماز کو نفل بنا لو۔( اسے احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 128
*عورت تنہا صف میں کھڑی ہو سکتی ہے*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں اور ایک یتیم لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی میری والدہ ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا اکیلی ہمارے پیچھے تھیں ۔(اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 129
*جس شخص نے امامت کی نیت نہ کی ہو اس کی اقتدا جائز ہے۔*

 مسئلہ نمبر 130
 *دو آدمیوں کی جماعت میں مقتدی کو امام کے دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے*

مسلہ نمبر 131
*تیسرا آدمی آئے تو دونوں مقتدیوں کا امام کے پیچھے چلے جانا چاہیے۔ یا امام کو آگے  چلا جانا چاہیئے*

 مسئلہ نمبر 132
 *دوران نماز ضرورت سے ایک دو قدم دائیں یا بائیں یا اگے پیچھے ہونا درست ہے۔*

 حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور پیچھے سے پھیر کر اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا پھر حضرت جابر بن صخر رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور رسول اللہ کی صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے ہٹا دیا ہم اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔(اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔)

مسئلہ نمبر 133
*جس امام کو لوگ ناپسند کریں اور وہ بھی امامت کرائے تو اس کی امامت مکروہ ہے*

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے بالشت بھر بھی اونچی نہیں جاتی ۔

1۔پہلا وہ جو امامت کرائے جبکہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔

2۔ وہ عورت جس کا خاوند ناراض ہو لیکن وہ رات بھر سوئی رہے۔

3۔ وہ غلام جو مالک سے بھاگا ہوا ہو۔(رواہ ابن ماجہ۔)

الدعاء 
یا اللہ تعالی  ہمیں سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم پر من و عن عمل کرنے والا بنا۔

آمین یا رب العالمین

*نماز باجماعت کےمسائل*
 
 مسئلہ نمبر 134
*نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ایک نابینا آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میرے پاس کوئی آدمی نہیں۔ جو مجھے مسجد میں لائے یہ کہہ کر اس نے نماز گھر پڑھنے کی رخصت چاہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے رخصت دے دی ۔لیکن جب وہ واپس ہوا تو اسے پھر بلایا اور پوچھا "کیا تو اذان سنتا ہے؟"
 اس نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ پھر مسجد میں آکر نماز پڑھا کر۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ نمبر 135
*نماز فجر اور نماز عشاء کی جماعت میں شامل نہ ہونا نفاق کی علامت ہے۔*

 مسئلہ نمبر 136
 *باجماعت نماز ادا نہ کرنے والے لوگوں کے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلانے کا ارادہ فرمایا*

 مسئلہ نمبر 137
*باجماعت نماز ادا کرنے کا ثواب تنہا نماز ادا کرنے کے مقابلے میں 27 درجے زیادہ ہے*

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اکیلی نماز کے مقابلے میں باجماعت نماز 27 درجے افضل ہے۔
( اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 138
*عورتیں مسجد میں نماز پڑھنا چاہیں تو انہیں روکنا نہیں چاہیے۔ البتہ گھر میں نماز پڑھنا ان کے لیے افضل ہے*
 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو البتہ ان کے لیے گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔(رواہ ابو داؤد)

مسئلہ 139
*جس گھر میں نماز کرانے والی خاتون موجود ہو اس گھر کی خواتین کو باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے*

حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے گھر والوں کی امامت کا حکم دیا تھا اسے ابو داؤد نے روایت کیا ۔

*وضاحت:*
 *گھر والوں سے مراد گھر کی خواتین ہیں۔ مردوں پر مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے*

 مسئلہ نمبر 140
*پہلی جماعت کے بعد اسی وقت کی دوسری جماعت اسی مسجد میں کرانا جائز ہے*

مسئلہ نمبر141
*دو آدمیوں کو بھی نماز باجماعت ادا کرنی چاہیے*
 
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو نماز پڑھا چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے دریافت فرمایا" کون ہے اس شخص پر صدقہ کرے گا اور اس کے ساتھ نماز پڑھے گا؟۔ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے آنے والے کے ساتھ مل کر نماز پڑھی۔(اسے احمر، ابو داؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے)

مسئلہ نمبر 142
*غیر معمولی سردی اور بارش جماعت کے وجوب کو ساکت کر دیتے ہیں*

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سردی اور بارش کی رات موذن کو حکم دیتے اور موذن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اذان میں اضافہ کرتا۔ "لوگو اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔"( اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے)

وضاحت:
*آذان میں الصلاۃ فی الرحال کہنا*
سخت سردی اور بارش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موذن کو حکم دیتے کہ
اذان میں حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی جگہ صلوا فی رحالکم کہنا
(رواہ بخاری و مسلم)

ترجمہ؛
نماز اپنی اپنی جگہ پڑھ لو
نماز اپنی اپنی جگہ پڑھ لو

 مسئلہ نمبر 143
 *بھوک اور رفع حاجت جماعت کے وجوب کو ساکت کر دیتے ہیں*

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کھانے کی موجودگی اور رفع حاجت کے وقت نماز باجماعت واجب نہیں۔(رواہ مسلم)

الدعاء 
یا اللہ تعالی  ہمیں با جماعت نماز پڑنے کی توفیق عطا فرماء

آمین یا رب العالمین

بعد میں شامل ہونے والے نمازی "مسبوق" کے
 مسائل*

 مسئلہ 148
 *جماعت ہو رہی ہو تو بعد میں آنے والا نمازی امام کو جس حالت میں پائے تکبیر تحریمہ کہہ کر اسی حالت میں شریک ہو جائے۔*

 مسئلہ نمبر 149
 *جماعت کے ساتھ ایک رکعت پا لینے سے ساری نماز باجماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔" جب تم نماز کے لیے آؤ تو ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں شامل ہو جاؤ اور اس رکعت کو شمار نہ کرو ۔جس نے ایک رکعت جماعت کے ساتھ پالی اسے پوری جماعت کا ثواب مل گیا۔"( اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 150
*جماعت کھڑی ہو تو بعد میں آنے والے نمازی کو اس میں بھاگ کر شامل نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ برے اطمینان اور وقار سے شریک ہونا چاہیے۔*

 مسئلہ نمبر 151 
 *بعد میں شامل ہونے والے نمازی کو امام کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کو نماز کا پہلا اور سلام کے بعد اکیلی پڑھے جانے والے نماز کو نماز کا پچھلا حصہ شمار کرنا چاہیے*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔" جب نماز کھڑی ہو جائے تو بھاگتے ہوئے نہ آؤ بلکہ آرام رفتار سے چل کر آؤ ۔تم پر اطمینان سے آنا واجب ہے۔ نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ پاؤ وہ ادا کرو اور جو رہ جائے اسے بعد میں مکمل کرو۔(اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 152 
*فرض نماز کھڑی ہو جائے تو بعد میں آنے والے نمازی کو علیحدہ نفل یا سنت یا فرض نماز شروع نہیں کرنی چاہیے خواہ پہلی رکعت ملنے کا یقین ہی کیوں نہ ہو*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔"جب فرض نماز کی اقامت ہو جائے تو سوائے فرض نماز کے کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی ۔"(اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 153
 *مقتدی نے امام کے ساتھ جو نماز پائی وہی اس کی نماز کا ابتدائی حصہ ہے۔*

*مسبوق کے لئے شیخ بن باز کا فتوی* 

 *سوال*
 ایک شخص نماز مغرب ادا کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوا اور اس نے امام کے ساتھ دو رکعت پا لی جبکہ آخری رکعت اس نے الگ پڑھی تو کیا اس رکعت میں وہ قرآت جہری کرے گا سورہ فاتحہ پڑھے گا یہ سمجھتے ہوئے کہ آخری رکعت کو تو اس نے امام کے ساتھ ادا کر لی ہے اور یہ اس کی پہلی رکعت ہے۔ کیا اس نے امام کے ساتھ جو رکعت شروع کی وہ امام کی نماز کے مطابق اس کی بھی دوسری رکعت سمجھی جائے گی؟

 *الجواب*
 *امام کےسلام پھیرنے کے بعد اس نے جس رکعت کو پڑھا ہے وہ اس کی آخری رکعت ہوگی لہذا اس میں جہری قرات صحیح نہ ہوگی۔ کیونکہ علماء کے صحیح قول کے مطابق مسبوق جہاں آ کر شامل ہوتا ہے وہی اس کی نماز کا ابتدا حصہ ہوتا ہے اور جسے وہ بعد میں پورا کرتا ہے وہ اس کی نماز کا آخری حصہ ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جب تم نماز کے لیے آؤ تو اطمینان اور سکون سے چلتے ہوئے آؤ اور جو حصہ پا لو اسے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے مکمل کر دو۔

فتوی شیخ ابن باز بحوالہ فتاوی اسلامیہ کتاب الصلاۃ صفحہ 355 ، صحیح بخاری و صحیح مسلم

*الدعاء*
یا اللہ تعالی سب مسلمانوں کو نمازی بنا دے.

*مقتدی کے مسائل*

 مسئلہ نمبر 154
*مقتدی پر امام کی پوری پوری اقتدا کرنا واجب ہے*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی جب نماز پوری ہو گئی تو چہرہ مبارک ہمارے طرف کیا اور فرمایا" لوگو! میں تمہارا امام ہوں۔ رکوع سجود قیام اور سلام پھیرنے میں مجھ سے جلدی نہ کرو۔"( اسے مسلم نے روایات کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 155
 *امام سجدہ کی حالت میں چلا جائے تب مقتدی کو قومہ کی حالت سے سجدہ میں جانا چاہیے۔ اسی طرح باقی نماز میں امام کی اقتدا کرنا ضروری ہے۔*

 حضرت براہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ۔"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو اس وقت تک کوئی آدمی اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ میں نہ دیکھ لیتا۔
(اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔)

مسئلہ نمبر 156
 *جماعت ہو رہی ہو تو مقتدی امام کو جس حالت میں پائے اسی حالت میں شریک ہو جائے۔*

 مسئلہ نمبر 157
*امام کی پیروی اور اقتدا نہ کرنے پر وعید*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم میں سے جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے کیا اسے خوف نہیں آتا کہ کہیں اللہ تعالی اس کا سر گدھے کا نہ بنا دے۔"
( اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

الدعاَء 
یا اللہ تعالی مسلمانوں کو پہلے سی عزت و 
ناموس عطا فرماء
 
*نماز پڑھنے کا مسنون طریقہ*
 

 مسئلہ نمبر 158
 نیت دل کے ارادے کا نام ہے زبان سے الفاظ ادا کرنا حدیث سے ثابت نہیں ۔

مسئلہ نمبر 159
*صفیں درست کرنے اور اقامت کہنے کے بعد امام کو اللہ اکبر تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز کی ابتدا کرنی چاہیے۔*

 مسئلہ نمبر 160 
*تکبیر تحریمہ کے ساتھ دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھانے مسنون ہیں اسے رفع الیدین کہتے ہیں*

مسئلہ نمبر 161
 تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھوں سے کان چھونا یا پکڑنا سنت سے ثابت نہیں۔

 حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں درست فرماتے پھر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر تے۔( اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے حتی کہ کندھوں تک پہنچ جاتے۔
( رواہ بخاری اور مسلم)

وضاحت ہاتھ اٹھاتے وقت ہتھیلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے۔

 مسئلہ نمبر 162
*قیام میں ہاتھ کھلے رکھنا سنت سے ثابت نہیں ۔*

 مسئلہ نمبر 163
 ہاتھ باندھنے میں دائیں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر آنا چاہیے۔

 مسئلہ نمبر 164
*ہاتھ سینے کے اوپر باندھنے مسنون ہیں۔*

 حضرت طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دائیں ہاتھ بائیں کے اوپر رکھ کر مضبوطی سے سینے پر باندھتے ۔( رواہ ابو داؤد)

*وضاحت تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے کو قیام کہتے ہیں۔*

 مسئلہ نمبر 165
*تکبیر تحریمہ کے بعد ثناءتعؤذ اور بسم اللہ پڑھنی چاہیئے*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کے بعد قرآت شروع کرنے سے پہلے تھوڑی دیر خاموش رہتے۔ 
میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ قربان۔ اس خاموشی میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں یہ دعا پڑھتا ہوں۔
 اَللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ اَلْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ , اَللَّهُمَّ نقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى اَلثَّوْبُ اَلْأَبْيَضُ مِنْ اَلدَّنَسِ , اَللَّهُمَّ اِغْسِلْ مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ
 
" یا اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری فرما دے یا اللہ مجھے میرے گناہوں سے سفید کپڑے کی طرح پاک کو صاف کردے یا اللہ میرے گناہ ⁷ءژبرف پانی اور اولوں سے دھو دے۔
( اسے احمد ،بخاری مسلم ، ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔)

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو یہ کلمات پڑھتے ۔

*سُبْـحانَكَ اللّهُـمَّ وَبِحَمْـدِكَ وَتَبارَكَ اسْمُـكَ وَتَعـالى جَـدُّكَ وَلا إِلهَ غَيْرُك*

"اے اللہ! تو اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے تیرا نام بابرکت ہے تیری شان بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔( اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ )

 مسئلہ نمبر 166
*بسم اللہ الرحمن الرحیم کےبعد سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے*

مسئلہ نمبر 167
 *سورہ فاتحہ ہر نماز (سری ہو یا جہری فرائض ہوں یا نفل) کی ہر رکعت میں پڑھنی چاہیے*

 مسئلہ نمبر 168
 *امام ،مقتدی اور منفرد سب کو سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ :تعالی عنہ سے عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ناقص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ⁹بات تین بار فرمائی اور پھر فرمایا نماز نامکمل رہتی ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا "ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں" حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اس وقت دل میں پڑھ لیا کرو۔(اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تم میں سے ایک امامت کرائے جب امام سورہ فاتحہ کے بعد قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو۔( اسے احمد نے روایت کیا ہے ۔)

مسئلہ نمبر 169
⁶(حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس بات کا اعلان کروں کہ سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی اس سے زیادہ جتنا کوئی  چاہے قرآن پڑھے۔( اسے احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

*الدعاَء*
یا اللہ تعالی  ہمیں سنت کے مطابق دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے 

آمین یا رب العالمین
 

مسئلہ نمبر 170
 *امام سورہ فاتحہ پڑھ لے تو امام سمیت تمام مقتدیوں کو بیک وقت آمین کہنی چاہیے۔*

 مسئلہ نمبر 171
 *بلند آواز سے آمین کہنا گزشتہ گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے۔*

 مسئلہ نمبر 172
 *سری قرآت میں آہستہ اور جہری قرآت میں بلند آواز سے آمین کہنا مسنون ہے۔*

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو جس کی آمین کی اواز فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی اس کے گزشتہ صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔(رواہ بخاری اور مسلم۔)

 حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب *ولا الضالین* کہتے تو اونچی آواز سے آمین کہتے۔( اسے ابو داؤد نے روایت کی ہے۔)

 مسئلہ نمبر 173
 *امام کا سورہ فاتحہ کے بعد پہلی دو رکعتوں میں قرآن کی کوئی دوسری سورت یا سورت کا کچھ حصہ تلاوت کرنا چاہیے۔*

مسئلہ نمبر 174 
*تمام نمازوں میں امام کو دوسری رکعت کی نسبت پہلی رکعت لمبی پڑھانی چاہیے۔*

 حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ دو سورتیں اور پڑھا کرتے تھے پہلی رکعت کو لمبا کرتے اور دوسری کو چھوٹا کرتے اور کبھی کبھی کوئی آیت بلند اواز سے پڑھتے جو سنائی دیتی اور عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں بھی پہلے سورہ فاتحہ پڑھتے اور اس کے علاوہ دو سورتیں یعنی ہر رکعت میں ایک ملا کر پڑھتے اور پہلی رکعت دوسری کی نسبت لمبی کرتے صبح کی نماز میں بھی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری مختصر۔(رواہ بخاری)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھتے جبکہ باقی دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے۔( اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔)

 مسئلہ نمبر 175
 *منفرد کو سنت اور نوافل کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت ساتھ ملانی چاہیے۔*

 مسئلہ نمبر 176
*جہری نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں قرات کی ترتیب واجب نہیں۔*

 مسئلہ نمبر 177 
*ایک ہی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد دو سورتیں ملا کر پڑھنا جائز ہے۔*

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری مسجد قباء میں انصار کی امامت کراتا تھا وہ تمام جہری نمازوں کی ہر رکعت میں پہلے سورہ اخلاص پڑھتا پھر کوئی دوسری سورت پڑھتا ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انصار نے اپ کو یہ صورتحال بتائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امام سے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں کے کہنے پر عمل کیوں نہیں کرتے اور سورہ اخلاص کو ہر رکعت میں قرآت سے پہلے کیوں پڑھتے ہو انصاری امام نے جواب دیا میں سورہ اخلاص سے محبت رکھتا ہوں اپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورہ اخلاص کی محبت تجھے جنت میں لے جائے گی۔( اسے بخاری نے روایت کیا ہے) ۔

حضرت احنف رحمہ اللہ نے نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری رکعت میں سورہ یوسف یا سورۃ یونس پڑھی اور بتایا کہ میں نے صبح کی نماز حضرت عمر کے ساتھ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ انہی دو صورتوں کے ساتھ پڑی تھی(اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

*الدعاء* 
یا اللہ تعالی  سب نمازیوں کی نمازیں قبول فرما کر اور انھیں جنت الفردوس عطا فرماء 

مسئلہ نمبر 178
*امام یا مفرد پہلی اور دوسری دونوں رکعتوں میں ایک ہی صورت تلاوت کر سکتا ہے*

 حضرت معاذ بن عبداللہ جہنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں جہینہ خاندان کے ایک آدمی نے مجھے بتایا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر کی دو رکعتوں میں سورہ زلزال تلاوت فرماتے سنا ہے. راوی کہتا ہے معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا سہوا کیا یا عمدا۔( اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 179
 *اگر کسی آدمی کو قران مجید بالکل یاد نہ ہو تو اسے قرات کی جگہ لا الہ الا اللہ سبحان اللہ والحمدللہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیے۔*

حضرت ابو اوفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا" میں نماز میں قران مجید میں سےکچھ بھی پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجیے جو قران مجید کی جگہ کافی ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرات کی جگہ سبحان اللہ والحمدللہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ لیا کرو"۔
( اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 180
*قرآت کرتے ہوئے مختلف صورتوں میں سوالیہ آیات کے جواب دینا مسنون ہے۔*

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں سبح اسم ربک الاعلی( اپنے بلند مرتبہ رب کی پاکی بیان کرو )پڑھتے تو جواب میں سبحان ربی الاعلی (میرا بلند مرتبہ رب پاک ہے ۔)فرماتے۔
( اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

حضرت موسی بن ابو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے گھر میں نماز پڑھ رہا تھا جب اس نے اس ایت کی قرآت کی
 الَیْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ یُّحْیِﰯ الْمَوْتٰى(40)
 (کیا اللہ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے؟)
 تو جواب میں خود ہی کہا
 سبحانک بلی

 ترجمہ: اے اللہ تو ہر عیب سے پاک ہے مردوں کو زندہ کیوں نہیں کر سکتا۔
 لوگوں نے اس سے اس جواب کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 181
 *قرات کے دوران سجدہ تلاوت کی ایت آئے تو تلاوت کرنے اور سننے والوں کو سجدہ کرنا چاہیے۔*

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے ہوئے سجدہ کی آیت پر آتے تو سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرتے۔( اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ  نمبر 182
سجدہ تلاوت کی مسنون دعاء یہ ہے
 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام الیل کے دوران جب سجدہ تلاوت کرتے تو فرماتے سجد وجهي للذي خلقَه، وشقَّ سمعه وبصره بحوله وقوَّته۔
 "میرے چہرے نے اس ہستی کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قدرت سے اس میں کان اور آنکھیں بنائیں۔
(ابو داؤد، ترمزی ونسائی) 

*وضاحت تلاوت کرنے والا سجدہ نہ کرے تو سننے والے کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔*

 مسئلہ نمبر 183 
*سجدہ تلاوت واجب نہیں۔*

 حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم تلاوت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ تلاوت نہیں کیا ۔(اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 184 
*رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھانا مسنون ہے اسے رفع یدین کہتے ہیں۔*

الدعاء 
یا اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  جیسی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرماء 

آمین یا رب العالمین 


مسئله نمبر 185
*رکوع اور سجدے کی متعدد مسنون تسبیحات میں سے دو یہ ہیں۔*

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رکوع میں 
*سُبْحَانَ رَبِّيَ العظیم*
 (میرا عظیم رب پاک ہے)
 تین مرتبہ کہتے ہوئے سنا اور سجدے میں
 *سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَغلى*
 ( میرا بلند رب پاک ہے ) تین مرتبہ کہتے ہوئے سنا۔(ابن ماجہ

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی  عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں یہی کہا کرتے *سَبُوحٌ قَدْ وَ رَبُّ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوح* ( رواہ مسلم)

مسئلہ نمبر 186
رکوع میں دونوں ہاتھ مضبوطی سے گھنٹوں پر رکھنے چاہئیں۔

مسئلہ نمبر 187
*رکوع میں دونوں بازو پھیلانے چاہئیں*

حضرت ابوحمید رضی اللہ تعالی عنہ صحابی کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں سے گھنٹے مضبوط پکڑ لیتے ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے اور اپنے بازو پھیلا دیتے(۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 188
*حالت رکوع میں کمر سیدھی اور سر کمر کے برابر ہونا چاہئے، اونچا ہو نہ نیچا*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب رکوع فرماتے تو اپنا سر کمر سے نہ اونچا کرتے
نہ نیچا کرتے بلکہ سر اور کمر برابر رکھتے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا

*رکوع و سجود اطمینان سے نہ کرنے والا نماز کا چور ہے۔*

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بدترین چور نماز کا چور ہے لوگوں نے پوچھا یا رسول الله صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی چوری کیسے؟ فرمایا " نماز کا چور وہ ہے جو رکوع وجود پورا نہیں کرتا ۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 189
*رکوع اور سجدے میں قرآن کی تلاوت کرنا منع ہے*

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگو!
 یاد رکھو مجھے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ (رواہ مسلم)

مسئلہ نمبر 190 
*رکوع کے بعد اطمینان سے سیدھا کھڑا ہونا ضروری ہے*

حضرت ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس  رضی اللہ  تعالی عنہ ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز بیان کرتے تو پڑھ کر وضاحت فرماتے رکوع سے جب سر اٹھا کر قومہ کے لئے کھڑے ہوتے تو اتنی دیر کھڑے ہوتے کہ ہمیں گمان ہونے لگتا شاید حضرت "انس رضی اللہ تعالی عنہ سجدے میں جانا بھول گئے ہیں( رواہ بخاری)
 
حضرت ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ ہر جوڑ اپنی جگہ پر آجاتا ۔"( اسے بخاری نے روایت کیا ہے

مسئلہ نمبر 191
 رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونے کو" قومہ" کہتے  ہیں حالت
قومہ میں ہاتھ باندھنے یا کھلے رکھنے کے بار میں کسی حدیث سے وضاحت نہیں ملتی لہذا دونوں طرح درست ہے۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح نماز پڑھنے 
کی توفیق عطا فرماء 

* 192مسئلہ نمبر* 
*لعنت کیا ہے، ملعون پر اس کے اثرات اور لعنت والے گناہ* 

اکثر لوگ بغیر سوچے سمجھے ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں جو کہ بذات خود ایک بہت بھاری عمل ہے۔

یاد رہے کہ جس شخص پر لعنت بھیجی گئی اور وہ قابل لعنت نہ ہوا تو وہ لعنت بھیجنے والے پر لوٹا دی جاتی ہے۔

لعنت ایک بھاری فعل ہے جس کے اثرات ملعون پر فوری واقع ہو جاتے ہیں۔

کتاب و سنت کے مطالعہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہے کہ ملعون کی دعاء قبول نہیں ہوتی۔

اس کے نیک اعمال اللہ تعالی  کے ہاں قبول نہیں ہوتے۔
 
ملعون کے کردہ گناہ کی سزا فوری اسے ملتی ہے۔

ملعون سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں اور اس کے رزق میں برکت ختم ہو جاتی۔ 

خسارہ اور بے نوائی اس سے چپکا دی جاتی ہیں

ملعون کے رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہے اور اس کے رزق میں تنگی کر دی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ یہ تو عام ملعون کی سزا ہے اور کسی پر اللہ اور اسکے رسول اور فرشتوں اور سب لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو تو لعنت کے اثرات کا اندازہ اللہ تعالی  ہی جانیں۔

استغفراللہ  

*لعنت والے گناہ!*
قرآن وسنت میں بعض ایسے اعمال کا ذکر ہے جن کے کرنے والے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے۔البتہ یہ واضح رہے کہ قرآن وحدیث میں جس لعنت کا ذکر ہے وہ مسلمان اور کافر کے حق میں یکساں نہیں، بلکہ دونوں میں فرق ہے۔

 مسلمان کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اُس رحمت سے محروم ہوگا جو رحمت اللہ تعالیٰ کے نیک اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ خاص ہے، اور عدالت وشرافت کا مرتبہ اس سے ختم ہوجائے گا، اور مؤمنین کی زبان 
سے اس کے حق میں اچھی بات نہیں نکلے گی۔


*لعنت والے چند گناہ*

ذیل میں ایسے چند گناہ لکھے جاتے ہیں، تاکہ ان سے بچنے کا خاص طور پر اہتمام کیاجائے۔

1- *سود کھانا اور کھلانا*
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کھانے والے، سود دینے 
والے اور سودی تحریر یا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ: وہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘

2- *-شراب پینا، پلانا اور خریدوفروخت کرنا*

’حضرت ابوعلقمہؒ اور حضرت عبد الرحمن بن عبد اللہ الغافقی  ؒسے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اور شراب بنانے والے اور بنوانے والے پر اور جو شراب کو کسی کے پاس لے جائے اس پر اور جس کے پاس لے جائے ان سب پر لعنت بھیجی ہے۔

تشریح:۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی دکانوں میں شراب بیچتے ہیں،یا اپنے ہوٹلوں میں شراب پلاتے ہیں، وہ اپنے بارے میں غور کرلیں کہ روزانہ کتنی لعنتوں کے مستحق ہوتے ہیں۔

 شراب کا بنانے والا تو مستحق لعنت ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ شراب کا بیچنے والا، پینے والا، پلانے والا، اُٹھا کرلے جانے والا سب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔

3- *مرد وعورت کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا۔*

’’حضرت عبد اللہ بن عباسرضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ: رسول اللہ نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں۔‘

4- *تصویر کشی کرنا*

’’حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم گودنے اور گدوانے والیوں پر، اور سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے، اور کتے کی قیمت اور زنا کی کمائی سے منع فرمایاہے اور تصویر بنانے والے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘

5- *غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا*

6- *بدعت ایجاد کرنے والے کی پشت پناہی کرنا*

7- *والدین کو بُرا بھلا کہنا*

8- *زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانا*

’’حضرت ابو الطفیلؒ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی بن ابی طالب  سے عرض کیا کہ: رسول اللہ نے جو آپ کو راز کی باتیں بتائی ہیں وہ تو ہمیں بتایئے! تو آپ ؓ نے فرمایا کہ: نبی کریم نے لوگوں سے چھپا کر مجھے کوئی راز کی بات نہیں ارشاد فرمائی، لیکن میں نے آپ  کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اور اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے اس شخص پر جو کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے کو سہارا دے (یعنی پشت پناہی کرے) اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے والدین کو برا بھلا کہے اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جوزمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹائے۔‘‘

تشریح:۔۔۔۔۔۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام پر جانور ذبح کیا جائے، جیسے: کسی بت کے نام پر، یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے نام پر، یا کعبۃ اللہ کے نام پر وغیرہ۔ یہ حرام ہے اور اس طرح جو جانور ذبح کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتا، چاہے ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی۔

بدعت کرنے والے کو سہارا دینا، یعنی اس کی حمایت اور پشت پناہی کرنا بھی ایسے ہی گناہ اور لعنت کا سبب ہے، جیسے کہ خود بدعت کا ارتکاب کرنا گناہ ہے۔

والدین کو برا بھلا کہنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ صراحۃً واضح طور پر براہِ راست والدین کو برا بھلا کہے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کے والدین کو برا بھلا کہے جس کے جواب میں بدلہ لیتے ہوئے وہ اس کے والدین کو لعن طعن کرے۔
زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ملکیتی حدود میں تبدیلی کرکے دوسرے کی زمین کو اپنی ملکیت میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے، گویا یہ دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے کی صورت ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو دوسرے کی زمین کا ایک بالشت بھی ناحق لے گا قیامت کے دن اس کو سات زمینوں سے نکال کر اس کی گردن میں طوق بناکر ڈالا جائے گا۔

9- *لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنا۔*
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قومِ لوط والا عمل کرے۔‘

10- *صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا*

’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو تم کہو کہ تمہارے شر اور برائی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: میرے صحابہؓ  کو برا بھلا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہے۔

11- *رشوت لینا، دینا اور رشوت کے لین دین کا واسطہ بننا*
’’حضرت ثوبان سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رشوت دینے اور لینے والے پر، اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘

12- *مومن کو تکلیف پہنچانا یا دھوکہ دینا*

’’حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: اس آدمی پر لعنت ہے جو کسی مؤمن کو تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے۔‘‘

13-  *عورتوں کا قبرستان جانا*

14- *قبروں کو سجدہ گاہ بنانا اور وہاں چراغ رکھنا*

’’حضرت عبد اللہ بن عباسr فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔

تشریح:۔۔۔۔۔۔ عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہل علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے، کیونکہ عورتیں ایک تو شرعی مسائل سے کم واقف ہوتی ہیں، دوسرے ان میں صبر، حوصلہ اور برداشت کم ہوتا ہے، ان کے حق میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ وہ قبرستان جاکر جزع وفزع کریںگی یا کوئی بدعت کریں گی، اسی لیے انہیں قبرستان جانے سے منع کردیاگیا۔

15 *-پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا*

’’یادرکھو! جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑ چکی ہے، اور ان کو اس دن زبردست عذاب ہوگا۔ 

16- *قطع رحمی کرنا*
’’پھر اگر تم نے (جہاد سے) منہ موڑا تو تم سے کیا توقع رکھی جائے؟ یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ اور خونی رشتے کاٹ ڈالو، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے دور کردیاہے، چنانچہ انہیں بہرابنادیا ہے اور ان کی آنکھیں اندھی کردی ہیں۔ ‘‘

۱۷:- *چوری کرنا*

’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت فرمائی ہے جو ایک انڈہ چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیاجاتا ہے اور رسی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے(بخاری

18- *نابینا کو راستہ سے بھٹکانا*

19- *جانور کے ساتھ بدفعلی کرنا*
’’عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:  

’’حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: وہ شخص ملعون ہے جو اپنے باپ کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو اپنی ماں کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے، وہ شخص ملعون ہے جو زمین کی حدود بدل دے، وہ شخص ملعون ہے جو اندھے کو راستے سے بھٹکادے، وہ شخص ملعون ہے جو جانور کے ساتھ جماع کرے، وہ شخص ملعون ہے جو قومِ لوط والا عمل کرے، قوم لوط والی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا(احمد، مسلم و حاکم

20- *بیوی سے پیچھے کے مقام میں ہمبستری کرنا*

’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اس شخص پر لعنت ہے جو بیوی سے پائخانہ کے مقام میں ہمبستری کرے۔‘‘

22- *بلاعذر شوہر کو صحبت سے انکار کرنا*
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو ہم بستری کی طرف بلائے اور بیوی (بلا کسی عذر کے) انکار کرے، جس کی وجہ سے شوہر غصہ ہوکر سو جائے تو ایسی عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے ہیں۔(بخاری

22- *حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا*

’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے اپنے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا یا جس غلام اور باندی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کی، اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔(بخاری و ابو داود)

23- *لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود امام بننا*

24- *بیوی کا خاوند کو ناراض کرکے سونا*

25- *اذان کی آواز سن کر جواب نہ دینا*

’’حضرت حسنؒ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم  نے تین آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے۔

۱: ایک وہ شخص جس کو لوگ (کسی معتبر وجہ سے) ناپسند کرتے ہوں اور وہ ان کی امامت کرائے

۲:-وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔

۳:-تیسرے وہ آدمی جو ’’حي علی الفلاح‘‘ کی آواز سنے اور جواب نہ دے۔(ترمذی)

تشریح:۔۔۔۔۔۔ امام سے متعلق مذکورہ حدیث کا حکم اس وقت ہے جب لوگ کسی دینی وجہ سے مثلاً: اس کی بدعت، جہل یا فسق کی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں، لیکن اگر ان کی ناپسندیدگی کسی دنیوی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے ہو تو یہ حکم نہیں۔

اذان کا جواب دو طرح کا ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف چل دیاجائے، اسے اجابت بالقدم کہتے ہیں اور یہ واجب ہے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے مؤذن کی طرح الفاظ کہے جائیں، اسے اجابت باللسان کہتے ہیں اور راجح قول کے مطابق یہ مستحب ہے۔ مذکورہ حدیث کا تعلق اجابت بالقدم سے ہے، یعنی جو آدمی اذان سننے کے بعد کسی معتبر عذر کے بغیر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے حاضر نہ ہو، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے۔

26- *بدنظری کرنا*

’’حضرت عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (غیر محرم کی طرف) دیکھنے والے اور جس کی طرف دیکھا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے (یعنی وہ عورت جو بے پردہ ہو اور بدنظری کا سبب بنے)۔

27- *نوحہ کرنا اور سننا*

28- *گریبان چاک کرنا اور واویلا کرتے ہوئے موت مانگنا*

’’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔(ابو داود)

حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چہرہ نوچنے والی، اپنا گریبان چاک کرنے والی، اور واویلا اور موت مانگنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔

29- *راستہ یا سایہ دار جگہ میں پیشاب وپائے خانہ پھیلانا*
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے مسلمانوں کے راستوں میں سے کسی راستے پر پاخانہ پھیلایا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔(کنز العمال)

’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایسی دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا باعث ہیں(مسلم)

 ۱:- لوگوں کے راستہ میں پیشاب کرنا،

۲:- لوگوں کے سایہ کی جگہ میں پیشاب کرنا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو لعنت والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

*الدعاَء*
یا اللہ تعالی مجھے ان سب گناھوں سے محفوظ فرما جو تیری لعنت کا سبب ہیں۔
آمین یا رب العالمین


*نماز پڑھنے کا مسنون طریقہ* 

مسئلہ نمبر 193
 *قومہ کی مسنون دعا یہ ہے

* حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز  پڑھ رہے تھے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا 
*سمع الله لمن حمده*
جس نے اللہ کی تعریف کی اللہ تعالی نے سنی-

مقتدیوں میں سے ایک ادمی نے کہا 
* *ربنا ولك الحمد،  حمدًا كثيرًا طيبًا مُباركًا فيه*

ہمارے رب تعریف تیرے ہی لیے بے  جو شرک سے پاک اور برکت والی ہے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا یہ کلمات کہنے والا کون تھا اس شخص نے عرض کیا میں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے 30 سے زیادہ فرشتوں کو ان کلمات کا ثواب لکھنے میں سبقت حاصل کرتے دیکھا (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)


 مسئلہ نمبر 194
*سجدہ سات اعضاء پر کرنا چاہیے*

مسئلہ نمبر 195 
*سجدہ میں ناک زمین پر لگانا ضروری ہے*

مسئلہ نمبر 196
*نماز میں کپڑوں اور بالوں کا سمیٹنا یا سنوارنا منع ہے۔*

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ پیشانی پر یہ کہتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیاں نیز اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔( اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 197 
*سجدہ پورے اطمینان سے کرنا چاہیے*

 مسئلہ نمبر 198 
*سجدے میں بازو زمین پر بچھانے نہیں چاہیے۔*

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی سجدے میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔(اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 199
*سجدہ میں کہنیا پیٹ سے علیحدہ اور کھول کر رکھنی چاہئیں*
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تھا گزر جاتا۔
( اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 200
*سجدہ میں دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر رہنے چاہیں*

مسئلہ نمبر201
 *سجدہ میں دونوں ہاتھ پہلو سے الگ رہنے چاہیں*

حضرت ابو حمید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں اپنی ناک اور پیشانی زمین کے ساتھ لگاتے اور اپنے ہاتھ اپنے پہلوؤں سے الگ رکھتے اور اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر رکھتے۔( اسے ابو داؤد ترمذی نے روایت کیا ہے۔)

*الدعاء*
یا اللہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرماء 
* یا اللہ ہمارے قیام و صیام قبول فرماء.
* ہمارے رکوع قبول فرماء.
 *  ہمارے سجدے قبول فرماء.
* یا اللہ ہماری نمازیں قبول فرماء. آمین 

مسئلہ نمبر 202
 *انگشت شہادت اٹھانا شیطان کو تلوار مارنے سے زیادہ سخت ہے*

حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انگلی شہادت اٹھانا شیطان کو تلوار یا نیزہ مارنے سے زیادہ سخت ہے(رواہ احمد)

 مسئلہ نمبر 203
تشہد کی مسنون دعا یہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جب تم نماز میں بیٹھو تو کہو 
*التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ،*

 ترجمہ: تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادات اللہ تعالی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی جانب سے سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو۔
 جب کسی نے یہ الفاظ کہے تو اللہ کے ہر نیک بندے کو اسمان میں ہو یا زمین میں سلام پہنچ جاتا ہے-

 اور پھر کہو 
*أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ*

ترجمہ:
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں۔

 پھر آدمی اپنے لیے اللہ سے جو سوال کرنا چاہے کرے۔( مسلم)

مسئلہ نمبر 204
*پہلا تشہد یا قعدہ واجب ہے*

 مسئلہ نمبر 205
 *نمازی پہلا تشہد بھول جائے تو اسے سجدہ سہو کرنا چاہیے*

حضرت عبد اللہ بن مالک بن بجینہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی، دو رکعتوں کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قیام کے بعد تشہد کے لئے بیٹھنا تھا مگر بھول کر کھڑے ہو گئے ۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا آخری تشہد کیا تو دو سجدے سجدہ سہو کے ادا کئے(رواہ بخاری)

مسئلہ نمبر 206
*پہلے تشہد میں دایاں پاؤں کھڑا رکھنا اور بائیں پاؤں پر بیٹھنا مسنون ہے*

مسئلہ نمبر 207 
*دوسرے یا آخری تشہد میں دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے نکال کر کولہے پر بیٹھنے کو تورک کہتے ہیں ۔ تورک کرنا افضل ہے*

حضرت ابوحمید سعدی رضی اللہ تعالی عنہ صحابہ کرام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، کہنے لگے مجھے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری رکعت کے بعد پہلے تشہد میں دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور بائیں پر بیٹھتے ، آخری رکعت یعنی دوسرے تشہد میں بایاں پاؤں دائیں پاؤں کی پنڈلی کے نیچے سے نکال لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا کر کے کولہے پر بیٹھتے۔( رواہ بخاری)

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں نماز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقہ کے مطابق پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین 

مسئله نمبر 208
 *دوسرے تشہد میں التحیات کے بعد درود شریف اور اس کے بعد مسنونہ دعاؤں میں سے کوئی ایک پڑھنی چاہیے*

 حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ادمی کو نماز میں درود کے بغیر دعا مانگتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔اس نے جلدی کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس سے یا کسی دوسرے شخص و مخاطب کرتے ہوئے فرمایا "جب کوئی نماز پڑھے تو اللہ کی حمد و ثنا سے آغاز کرے پھر اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ 209
 *رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں مندرجہ ذیل درود پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔*

 حضرت عبدالرحمن بن ابو لیلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اہل بیت پر کس طرح درود بھیجیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

*اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ*
*اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ*

ترجمہ:
کہو یا اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ال محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح رحمت بھیج جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ال ابراہیم علیہ السلام پر رحمت بھیجی تعریف اور بزرگی تیرے ہی لیے ہیں یا اللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ال محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح برکت نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ال ابراہیم علیہ السلام پر برکت نازل فرمائی تعریف اور بزرگی تیرے ہی لیے ہے ۔(اسے بخاری میں روایت کیا ہے۔)
 
مسئلہ نمبر 210
*درود شریف کے بعد ماثورہ دعاؤں میں سے کوئی ایک یا جتنی کوئی چاہے پڑھ سکتا ہے۔*

مسئلہ نمبر 211
*ماثورہ دعاؤں میں سے تین دعائیں درج ذیل ہیں

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ
رواہ مسلم
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نماز میں تشہد اور درود کے بعد ) یہ دعامانگتے ۔

 ،أَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ  عَذَابِ الْقَبْرِ وَ أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدجال وَ أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ  المحیا وَالْمَمَاتِ أَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَاثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔ » 

 الہی میں تیری جناب سے عذاب قبر ، مسیح دجال کے فتنے ، موت وحیات کی آزمائش ، گناہوں اور قرض سے پناہ مانگتا ہوں ۔( اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول ﷺ سے عرض کیا مجھے کوئی دعاء سکھلائیے جو میں اپنی نماز میں پڑھوں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہو
 *أَللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا لَّا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )*
 اے اللہ ! میں نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرا سوا گناہ معاف کرنے والا کوئی نہیں اپنی رحمت سے میرے سارے گناہ معاف فرمادے مجھ پر رحم فرما بے شک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔“ (اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 212
*اتحیات درود شریف اور دعاؤں سے فارغ ہونے کے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر نماز ختم کرنا مسنون ہے۔*

 حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا طہارت نماز کی کنجی ہے نماز کا آغاز تکبیر اور اختتام سلام کہنا ہے۔( اسے ابو داؤد احمد، ترمزی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ 213
 *سلام پھیرنے کے بعد امام کو دائیں یا بائیں طرف سے پھر کر لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا چاہیے۔*
 حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ لیتے تو اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف پھیر لیتے( اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 214
 *نماز سے سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنا سنت سے ثابت نہیں۔*

 مسئلہ نمبر 215
 *سلام پھیرنے کے بعد دائیں یا بائیں طرف مصافحہ کرنا سنت سے ثابت نہیں۔*

*الدعاء*
یا اللہ نماز میں جو ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں تو ہمیں معاف فرما دے۔
آمین یا رب العالمین


*خواتین کی نماز* 

مسئلہ نمبر 216
*عورت کا مسجد کی بجائے اپنے گھر کے گوشائے تنہائی میں نماز ادا کرنا افضل ہے*

 حضرت ابو حمید سعدی رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ حضرت امیر سعدی رضی اللہ تعالی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا" یا رسول اللہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد نبوی میں نماز پڑھوں" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "مجھے معلوم ہے کہ تو میرے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہے لیکن تیرا ایک گوشے میں نماز پڑھنا اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے- تیرا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تیرا محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے۔" 
راوی کہتے ہیں کہ حضرت ام حمید رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے گھر میں مسجد بنانے کا حکم دیا۔ چنانچہ ان کے لیے گھر کے اخری حصے میں مسجد بنائی گئی جسے تاریک رکھا گیا۔ یعنی اس میں روشندان وغیرہ نہ بنایا گیا اور وہ ہمیشہ اس میں نماز پڑھتی رہیں۔ حتی کہ اپ  رضی اللہ  تعالی عنہا اللہ تعالی سے جا ملیں ۔
(اسے احمد ابن حبان اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے)

 مسئلہ 217
 *شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے خواتین نماز کے لیے مسجد میں جانا چاہیں تو انہیں منع نہیں کرنا چاہیے۔*

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع نہ کرو ۔لیکن نماز پڑھنے کے لیے ان کے گھر مساجد سے بہتر ہیں۔
( ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

 مسئلہ نمبر 218 
*عورتوں کو دن کے اوقات میں مسجد میں آنے سےگریز کرنا چاہیے۔*

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں آنے کی اجازت دو۔"( رواہ ترمذی۔)

 مسئلہ نمبر 219
*عورتوں کو خوشبو لگا کر مسجد میں جانا منع ہے۔*
 مسئلہ نمبر 220 
*کسی عورت نے خوشبو لگائی ہو تو اس سے مسجد میں جانے سے پہلے دھو لینا چاہیے۔*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک عورت کو خوشبو لگا کر مسجد میں جاتے دیکھا تو پوچھا۔" اے اللہ کی بندی کہاں جا رہی ہو؟" عورت نے جواب دیا۔ "مسجد میں ۔"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ۔"کیا اس مقصد کے لیے تو نے عطر لگایا ہے؟"عورت نے جواب دیا ۔"جی ہاں !"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ جو عورت خوشبو لگائے اور مسجد میں جائے اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی الا یہ کہ وہ خوشبو کو دھو ڈالے۔( اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے
 

مسلہ نمبر  220 ب 
*سر پر چادر یا موٹا دوپٹہ لیے بغیر عورت کی نماز نہیں ہوتی*

مسئلہ نمبر 221
*عورتوں میں مردوں کی صف سے الگ صف بنانی چاہیے۔*

 مسئلہ 222
*عورت تنہا صف میں کھڑی ہو سکتی ہے۔*

 مسئلہ نمبر 223
*عورتوں کی سب سے اچھی صف پچھلی ہے اور سب سے بری صف پہلی (مردوں سے متصل) ہے۔*

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عورتوں کی بہترین صف سب سے اخری اور بدترین صف سے پہلی یعنی مردوں سے متصل ہے اور مردوں کی بہترین صف پہلی اور بدترین آخری یعنی عورتوں سے متصل ہے۔( اسے ابو داؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا)

 مسئلہ نمبر 224
*امام کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنے کے لیے مردوں کو سبحان اللہ اور عورتوں کو تالی(ہتھیلی کی پشت پر) بجانی چاہیے*

مسئلہ نمبر 225
 *عورت کا اذان دینا سنت سے ثابت نہیں۔*

مسئلہ نمبر 226
*عورتوں اور مردوں کی نماز  میں کچھ فرق نہیں۔*

*الدعاء*
یا اللہ تعالی سب مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو مسجد میں باجماعت نمازی بنا دے تاکہ اللہ کا دین غالب آجائے۔

یا اللہ ہمارے حکمرانوں کو وطن عزیز میں اسلام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرماء ۔

آمین یا رب العالمین


 *رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
 کی نماز تہجد کا طریقہ

مسئلہ نمبر 227
*آنحضرت صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی نماز تہجد*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے(رواہ مسلم)

مسئلہ نمبر 228

*اہتمام تہجد*
جسنے نماز تہجد پڑھنی ہو وہ عشاء کی نماز میں وتر نہ پڑھے  یعنی چھوڑ دے اور صبح تہجد کے وقت یعنی آذان فجر سے کم از کم آدھا گھنٹہ پہلے اٹھے اور وضو بنا کر نماز تہجد ادا کرے اور عشاء کے چھوڑے ہوئے وتر تہجد کی نماز کے آخر میں پڑھے کیونکہ نبی کریم نے فرمایا کہ وتروں کو رات کی آخری نماز بناو۔
 
مسئلہ نمبر 229

*نماز تہجد کی رکعتیں*
حضرت عبداللہ بن ابوقیس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کی نماز کتنی پڑھتے؟

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا

" کبھی چار نفل اور تین وتر (کل سات رکعت) کبھی چھ نفل اور تین وتر(کل نو رکعت)کبھی آٹھ نفل اور تین وتر(کل گیارہ رکعت) کبھی دس نفل اور تین وتر(کل تیرہ رکعت) ادا فرماتے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رات کی نماز سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی (رواہ ابوداؤد)

مسئلہ نمبر 230
*آنحضرت صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی نماز تہجد کا طریقہ۔*

نبی کریم ﷺ تہجد کی نماز سفر و حضر کسی حال میں نہیں چھوڑتے تھے ۔ جب کبھی آپ پر نیند کا غلبہ ہو جاتا یا کوئی تکلیف ہو جاتی تو دن میں بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔

مسئلہ نمبر 231
*چونکہ رات میں آپ اکثر گیارہ رکعت نماز تہجد پڑھتے تھے اور اگر کسی بھی وجہ سے آپ نماز تہجد نہ پڑھ سکتے تو ایک رکعت کے اضافے کے ساتھ بارہ رکعت نماز دن میں نماز ظہر سے پہلے ادا فرما لیا کرتے تھے کیونکہ دن میں وتر نماز نہیں ہوتی۔*

مسئلہ نمبر 232
*ہم نے شیخ السلام ابن تیمیہ ؒ کو اس دلیل کے متعلق فرماتے سنا کہ وتر اپنے محل سے قضاء ہوجانے کے بعد قضاء نہیں ہوتی جس طرح تحیۃ المسجد ، نماز کسوف اور نماز استسقاء وغیرہ ، کیوں کہ اس سے مقصود یہ ہے کہ رات کی آخری نماز وتر ہے۔آپ ﷺ نماز تہجد میں گیارہ یا تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔گیارہ رکعتوں پر اتفاق ہے اور آخری دو رکعتوں پر اختلاف ہے کہ وہ فجر کی سنتیں تھیں یا کوئی اور نماز تھی، اس طرح جب فرائض اور ان سنن موکدہ کو جمع کیا جائے، جب آپ مواظبت کرتے تھے تو مجموعی طور پر چالیس رکعتیں ہوتی ہیں، اس کے علاوہ کوئی نماز پڑھی تو پابندی سے نہیں پڑھی۔

سوال نمبر 233
*ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تا حیات اس طرح معمول رکھے اس لئے کہ جو شخص دن اور رات میں چالیس مرتبہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ کس قدر جلد سن لی جاےئے گی۔*

مسئلہ نمبر 234
*نبی کریم ﷺ جب رات کے وقت جاگتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔*

*(لا الہ الا انت سبحانک الھم استغفرک لذنبی، وأسالک رحمتک الھم زدنی علما ولا تزغ قلبی بعد اذ ھدیتنی وھب لی من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب)*

ترجمہ: تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، اے ﷲ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں ، اے ﷲ میرے علم میں اضافہ فرما اور ہدایت کی بعد میرے دل کو ٹیڑھا نہ کر، مجھ کو اپنی رحمت سے نواز، تو بہت نوازنے والا ہے۔

مسئلہ نمبر 235
*جب آپ ﷺ سو کر اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے:*

(الحمد ﷲ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور)

تمام تعریفیں اس ﷲ کے لیے ہیں ، جس نے ہم کو موت (نیند) کے بعد زندگی عطاء کی اور اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔

مسئلہ نمبر 236
*پھر اس کے بعد آپ ﷺ مسواک فرماتے ۔ بسا اوقات سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرماتے*

(ان فی خلق المسٰوٰتِ والارض) سے آخر سورۃ تک تلاوت فرماتے تھے ، پھر وضو کرتے اور مختصر دو رکعتیں پڑھتے،
*تحتہ الوضو*

مسئلہ نمبر 237
*حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت سے اسے پڑھنے کا حکم معلوم ہوتا ہے۔جب رات آدھی گذر جاتی اس سے قبل یا اس کے بعد آپ اٹھنتے اور اکثر اوقات اس وقت اٹھتے جب آواز دینے والے یعنی مرغ کی آواز سنتے اور اور وہ اکثر نصف ثانی (رات کے آخری نصف) میں آواز لگاتا تو آپ اپنا ورد کئی حصوں میں کر دیتے اور کبھی مسلسل جاری رکھتے اور یہی زیادہ تر ہوتا، کئی حصوں میں ادا کرنے کی صورت حضرت ابن عباسؓ نے یہ بتائی کہ دو رکعتیں نماز ادا کر کے آپ ﷺ سو جاتے تھے، اس طرح تین مرتبہ میں چھ رکعتیں ادا فرماتے تھے اور ہر مرتبہ اٹھ کر مسواک اور وضو کرتے، پھر تین رکعت وتر ادا کرتے*

مسئلہ نمبر 238
*نماز وتر*
*آپ ﷺ وتر کئی طرح پڑھتے تھے ایک کیفیت کا ذکر ابھی ہوا،*

مسئلہ نمبر 239
*دوسری صورت یہ ہے کہ آپ آٹھ رکعتیں اس طرح پڑھتے تھے کہ ہر دو رکعت بعد سلام پھیرتے تھے ، پھر مسلسل پانچ رکعتیں بطور وتر پڑھتے*
صرف آخر میں تشہد کے لئے بیٹھتے تھے۔

مسئلہ نمبر 240
*تیسری صورت: نو رکعت اس طرح پڑھتے تھے کہ آٹھ رکعت مسلسل پڑھتے اور صرف آٹھویں رکعت کے آخر میں بیٹھتے اور ﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے، دعاء مانگتے اور پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جاتے ، پھر نویں رکعت میں تشہد پڑھتے اور سلام پھیر دیتے، سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے۔*

مسئلہ نمبر 241
*پانچویں صورت: دو دو رکعتیں پڑھ کر آخر میں تین رکعت وتر پڑھ لیتے ، جس میں قعد یا تشہد کا فاصلہ نہ ہوتا ۔ اس کو امام احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور ان کے درمیان وقفہ نہیں کرتے تھے، تاہم یہ روایت محل نظر ہے۔ کیونکہ صحیح ابن حبان میں ابو ہریرہؓ سے مرفوع روایت ہے کہ " تین رکعت وتر نہ پڑھو، پانچ یا سات پڑھو، 

مسئلہ نمبر 242
*وتر کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ بناؤ ۔*

امام دار قطنی کہتے ہیں کہ اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔حرب کہتے ہیں کہ امام احمد سے وتر کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا " دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے۔" اگر سلام نہ پھیر سکا تو میرا خیال ہے کہ کوئی نقصان دہ بات نہیں ہے لیکن سلام پھیرنا نبی اکرم ﷺ سے زیادہ مستند طریقے سے ثابت ہے۔ 

مسئلہ نمبر 243
*ایک رکعت وتر*
ابو طالب کی روایت میں ایک قول مذکور ہے کہ زیادہ قویٰ روایت ایک رکعت والی ہے اور میں اسی کا قائل ہوں۔

مسئلہ نمبر 244
چھٹی صورت:جیسا کہ امام نسائی ؒ نے حضرت حذیفہؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رمضان میں رسول ﷲ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں قیام کے بعد بقدر یہ دعاء پڑھی(سبحان ربی العظیم) اسی حدیث میں ہے کہ آپ نے ابھی چار رکعتیں پڑھی تھیں کہ حضرت بلال صبح کی نماز کے لئے آپ کو بلانے آ گئے۔

مسئلہ نمبر 245
*آپ نے رات کی ابتدائی، درمیانی اور آخری حصہ میں وتر پڑھے، ایک رات قیام میں صبح تک صرف ایک آیت ہی پڑھتے رہے، اور وہ یہ تھی:*

(ان تعذبھم فانہم عبادک وان تغفر لھم فانک انت العزیز الحکیم) (المائدہ: 118)

ترجمہ: اگر تو ان کو عذاب دیگا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر ان کو بخش دیگا تو غالب حکمت والا ہے۔

مسئلہ نمبر 246

*وتروں کو رات کی آخری نماز بناو*
رات میں آپکی نماز تین طرح کی ہوتی تھی،

 ایک یہ کہ آپ زیادہ تر کھڑے ہو کر نماز پڑھے تھے، دوسرے بیٹھ کر نماز پڑھتے اور رکوع بھی بیٹھ کر کرتے، تیسرے یہ کہ آپ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور جب تھوڑی سے قرأت باقی رہ جاتی تو کھڑے ہو جاتے اور پھر رکوع فرماتے۔ نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ وتر کے بعد کبھی دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے اور کبھی بیٹھ کر ہی قرأت کرتے اور رکوع کے وقت کھڑے ہو جاتے پھر رکوع کرتے۔ اس حدیث میں بہت لوگوں کا اشکال ہوا اور انہوں نے آنحضور ﷺ سے اس ارشاد کو کہ "رات کی آخری نماز وتر بناؤ" کا معارض سمجھ لیا۔امام احمد فرماتے ہیں کہ میں ان دو رکعتوں کو نہ پڑھتا ھوں اور نہ کسی کو پڑھنے سے منع کرتا ہوں۔ امام مالک نے تو ان دونوں رکعتوں کا انکار کیا ہے۔ لیکن صحیح صورت یہ ہے کہ نماز وتر مستقل عبادت ہے اور وتر کے بعد دو رکعتیں مغرب کی سنتوں کی طرح ہیں۔اس طرح مذکورہ دونوں رکعتیں وتر کی تکمیل کا درجہ رکھتی ہیں مگر کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتیں۔

مسئلہ نمبر 247
*وتر میں نبی اکرم ﷺ سے قنوت ثابت نہیں۔*

 صرف ابن ماجہ کی ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ امام احمد کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں حضور ﷺ سے کچھ ثابت نہیں لیکن حضرت عمر ؓ پورے سال دعائے قنوت پڑھا کرتے تھے۔اصحاب سنن نے قنوت پڑھنے کا سلسلہ میں حضرت حسن بن علیؓ کی حدیث کو روایت کیا ہے۔امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور کہا کہ ہم اس کو ابوالحوراء السعدی کے طریقے سے جانتے ہیں۔

مسئلہ نمبر 248
نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھنا حضرت عمرؓ، حضرت ابی ابن کعب اور حضرت ابن مسعودؓ سے ثابت ہے۔ امام ابو داؤد اور امام نسائی نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ

مسئلہ نمبر 249
*رسول ﷲ ﷺ وتر میں سورۃ اعلیٰ، سورۃ الکافرون اور سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔

مسئلہ نمبر 250
وتروں میں سلام پھیرنے کے بعد تین مرتبہ *(سبحان الملک القدوس)* کہا کرتے تھے۔

نبی اکرم ﷺ سورت ترتیل سے پڑھتے تھے، خواہ وہ بڑی سے بڑی کیوں نہ ہو۔ قرآن کریم پڑھنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ غور و فکر و تدبر سے کام لیا جائے۔ اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تلاوت اس کے مفہوم و معانی کے سمجھنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ بعض سلف کا قول ہے کہ قرآن کریم عمل کے لئے نازل کیا گیا ہے اس لئے اس کی تلاوت کو عمل سمجھو۔ حضرت شعبہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو جمرہ نے بتایا کہ میں نے ابن عباسؓ سے عرض کیا کہ میں جلدی پڑھنے کا عادی ہوں اور بسا اوقات ایک رات میں ایک یا دو قرآن ختم کرتا ہوں ۔ ابن عباسؓ نے فرمایا " مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ ایک سورۃ پڑھوں بجائے اس کے کہ جو تم کرتے ہو۔ اگر تم کو تیز ہی پڑھنا ہے تو اس طرح پڑھو کہ کان سن سکیں اور دل یاد کر سکے۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت علقمہ نے حضرت ابن مسعود کے سامنے تلاوت فرمائی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں، ترتیل سے پڑھو کیونکہ یہ قرآن مجید کی زینت ہے۔

نیز حضرت عبد ﷲ بن مسعود فرماتے ہیں کہ قرآن کو شعر کی طرح نہ گا کر پڑھو اور نہ فضول کلام کی طرح پڑھو بلکہ اس کو پڑھتے وقت اس کے عجائب پر ٹھہرو اور اس کے ذریعے دلوں کو حرکت دو اور دھیان محض سورۃ کو ختم کر دینے پر نہ لگا ہوا ہو۔مزید فرماتے ہیں "جب تک سنو کہ ﷲ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے" (یا ایھا الذین امنو) (ائے ایمان والو!) تو تم سراپا گوش ہو جاؤ یا تو تمہیں نیکی کا حکم دیا جائے گا یا برائی سے منع کیا جائے گا۔ حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ ایک عورت میرے پاس آئی میں اس وقت " سورۃ ہود" پڑھا رہا تھا۔ وہ کہنے لگی ، اے عبد الرحمن تو اس طرح سورۃ پڑھ رہا ہے ، بخدا میں اسے چھ مہینوں سے پڑھ رہی ہوں لیکن ابھی تک اسے ختم نہیں کر سکی ہوں۔رسول ﷲ ﷺ تہجد کی نماز میں کبھی آہستہ سے تلاوت فرماتے تو کبھی بہ آواز بلند ، دونوں طرح قرأت فرماتے تھے اور قیام کبھی مختصر کرتے اور کبھی طو یل، نفل نمازیں حالت سفر میں دن ھو یا رات سواری پر پڑھ لیتے تھے خواہ اس کا رخ جس طرف ہو، رکوع اور سجدہ اشارہ سے کرتے تھے اور سجدہ رکوع سے زیادہ جھک کر کرتے تھے۔

مسئلہ نمبر 251
*وتروں کے بعد دو نوافل آپ بیٹھ کر پڑھتے تھے*

اس کے علاوہ دن میں کوئی بھی نفل نماز آپ بیٹھ کر نہیں پڑھتے تھے

*الدعاء*
اے میرے رب کریم! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے۔

اے ﷲ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت طلب کرتا ہوں۔
اے ﷲ میرے علم میں اضافہ فرما اور ہدایت کے بعد میرے دل کو ٹیڑھا نہ کر، مجھے اپنی رحمت سے نواز، تو بہت نوازنے والا ہے۔

*یا اللہ تعالی ہمیں نماز تہجد قائم کرنے کی توفیق عطا فرما*

آمین یا رب العالمین

 
*زندگی بدلنے کے لئے یہ تحریر کافی ہے*
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
یاد رہے کہ جب ہم پیدا ہوئے تھے تو فقط ماں کی آغوش ہمارا اثاثہ تھا اور ہمارا اعمال نامہ کورا تھا جوں جوں ہم پڑے ہوتے ہیں ہم اکیلے سے کئی ہو جاتے ہیں اور توں توں ہمارے اعمال نامہ کے صفحے تحریر طور پر بڑھنے لگتے ہیں اگر ہم اسی عمر میں مرجائیں تو فقط ہماری ماں روئے گی مرد بڑا مضبوط ہوتا ہے اسی لئے باپ کو دکھ تو ضرور ہو گا مگر وہ روئے گا نہیں۔

جب ہم جوآن ہو جاتے ہیں تو گھر والے ہماری شادی کر دیتے ہیں اور اگر ہمارا جیون ساتھی اچھا مل گیا تو زندگی ایک مثبت موڑ اختیار کر لیتی ہے بصورت دیگر خجل خواری ہمارے ہاں گھر کر لیتی ہے اس صورت میں بھی کنبہ تو بڑھتا مگر وبال جان۔
 
جب ہماری موت ائے گی تو یقین جانیں کہ ہمارا مال ہمارے کچھ بھی کام نہ ائے گا اپ کے دنیا سے جانے پر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اس دنیا کے سب کام کاج جاری رہیں گے اپ کی ذمہ داریاں کوئی اور لے لے گا اپ کا مال اسباب وارثوں کی طرف چلا جائے گا اور اپ کو اپنے رب کے ہاں زندگی بھر کا حساب دینا ہوگا موت کے وقت سب سے پہلی چیز جو اپ سے چھن جائے گی وہ تمہارا نام ہوگا لوگ کہیں گے کہ میت کہاں ہے جب وہ جنازہ پڑھنا چاہیں گے تو کہیں گے کہ جنازہ لائیں جب دفن کرنا شروع کریں گے تو کہیں گے کہ میت کو قبر میں اتاریں، اپ کا نام ہرگز نہ لیا جائے گا۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ اکرام سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا: ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور ساز و سامان نہ ہو۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا۔ تاہم اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت دھری ہو گی، کسی کا مال (ناحق) کھایا ہو گا اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔چنانچہ اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس پر واجب الاداء حقوق ابھی باقی رہے تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا(رواہ مسلم)۔

 مال حسب و نسب منصب اور اولاد کے دھوکے میں نہ آئیں یہ دنیا کس قدر زیادہ حقیر ہے اور جس کی طرف ہم جا رہے ہیں وہ کس قدر عظیم ہے اپ پر غم کرنے والوں کے تین اقسام ہوں گے جو لوگ آپ کو سرسری طور پر جانتے ہیں وہ کہیں گے ہائے مسکین۔ اللہ اس پر رحم کرے۔ آپ کے دوست چند گھڑیاں یا چند دن غم کریں گے پھر وہ اپنی باتوں اور ہنسی مذاق کی طرف لوٹ جائیں گے آپ کے گھر کے افراد کو غم گہرا ہوگا آپ کی بیوی بیوہ ہو جائے گی اسے بڑا دکھ ہوگا اور اسے عدت گزارنے میں بہت پریشانی ہوگی پھر آہستہ صبر کرنا پڑے گا آپ کے بچے یتیم ہو جائیں گے اور رل جائیں گے۔ دیگر لوگ کچھ ہفتے کچھ مہینے یا ایک سال تک خوشی غمی میں آپکو یاد کر لیا کریں گے اور اس کے بعد وہ بھی اپ کو یادداشتوں کی ٹوکری میں ڈال دیں گے لوگوں کے درمیان آپ  کی کہانی کا اختتام ہو جائے گا اور اپ کی حقیقی کہانی شروع ہو جائے گی وہ اخرت ہے مرنے کے بعد اپ سے زائل ہو جائے گا اپ کا حسن آپ کا مال اپ کی صحت اپ کی اولاد اپنے مکانوں اور محلات سے دور ہو جائیں گے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے جدا ہو جائے گی اپ کے ساتھ صرف اپ کا عمل باقی رہ جائے گا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپ نے اپنی قبر اور اخرت کے لیے بھی ابھی سے کوئی تیاری کی ہے یہ وہ حقیقت ہے جو غور و فکر کے محتاج ہے اس لیے اپ اس کی طرف توجہ کریں۔ جس کسی کا دینا ہے ان کا حساب اپنی زندگی میں چکتا کر جائیں وگرنہ مسلم شریف کی حدیث کے مطابق آپ وہاں مفلس گردانے جائیں گے

آپ کے پاس ابھی کچھ زندگی باقی ہے اپنے سیات، اپنے شب و روز کے اعمال پر غور کریں لیں کیا آپ نے اپنی زندگی اللہ تعالی  کے حکم کے مطابق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی سیرت کے مطابق بسر کی ہے اور ایمان والوں کی سی عمر آپ گزار رہے ہیں عمل  صالح ایمانداری فرض شناسی اور فرائض نوافل پوشیدہ صدقہ نیک اعمال تہجد کی نماز روزہ اور اچھے اخلاق کی طرف توجہ کریں لیں شاید کہ اس سے نجات ہو جائے مرنے والے کو اگر اس دنیا میں واپس لوٹایا جائے تو وہ صدقہ کرنے کو ترجیح دے گا جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے یا میرے رب تو نے کچھ مدت تک مہلت کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کرتا وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں نماز ادا کرتا یا میں روزہ رکھتا یا میں حج اور عمرہ کرتا۔ 

علماء کہتے ہیں کہ میت صرف صدقے کا ذکر اس لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی موت کے بعد اس کے عظیم اثرات دیکھتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کریں اور بہترین چیز جس کا اپ ابھی صدقہ کر سکتے ہیں وہ یہ سچی باتیں ہیں۔ ابھی وقت ہے زاد راہ اکٹھا کر لو ابھی اپ کے پاس وقت میں سے 10 سیکنڈ ہیں اپ خیر خواہی اور اخلاص کی نیت سے اس تحریر کو دوسروں تک پہنچائیں کیونکہ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے اگر اپ اس تحریر کے ذریعے سے لوگوں کو یاد دہانی کروانے کی کوشش کریں گے تو قیامت کے دن اسے اپنے ترازو میں پائیں گے اور نصیحت کیجئے کیونکہ یقینا نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

 

*خواتین کی نماز* 

مسئلہ نمبر 252
*عورت، عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے۔*

 مسئلہ نمبر 253
*عورت کو امامت کراتے وقت پہلی صف کے اندر وسط میں کھڑا ہونا چاہیے۔*

 مسئلہ نمبر 254 
*میاں بیوی بھی  ایک صف میں نماز ادا نہیں کر سکتے۔*

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ہمارے پیچھے (باجماعت نفل )نماز ادا کی جبکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا جاتا تھا ۔(رواہ نسائی)

مسئلہ نمبر 255
*مذکورہ احکام کے علاوہ مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں کوئی فرق نہیں۔*

 حضرت مالک بن حویث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سب مرد اور عورتیں اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔( اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی مرد ہو یا عورت سجدے میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔
(رواہ بخاری اور مسلم)

 حضرت ام دردہ رضی اللہ تعالی عنہا نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں وہ فقیہہ خاتون تھیں ۔(رواہ بخاری)

 حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ )کے استاد فرماتے ہیں۔"عورت اسی طرح نماز پڑھے جس طرح مرد پڑھتے ہیں(رواہ ابن ابی شبہ)

 مسئلہ نمبر 256 
 مستحاضہ کو ایام حیض گزرنے پر غسل کر کے ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا چاہیے۔

 مسئلہ نمبر 257
*حائضہ کے لیے حیض کے دنوں کی قضا نہیں۔*

مسئلہ نمبر 258
حائضہ غسل کے بعد پچھلے وقت کی نماز پڑھےاور پھر اس وقت کی نماز پڑھنا ہو گی۔

وضاحت:
اگر عصر کے وقت غسل کیا ہو تو پہلے ظہر کی نماز بھی پڑھنی ہو گی۔

 مسئلہ نمبر 259
 *عورتوں پر نماز جمعہ واجب نہیں*

مسئلہ نمبر 260
*شرعی احکام کی پابندی کرتے ہوئے خواتین نماز عید کے لیے مسجد یا میدان میں جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں*

 مسئلہ نمبر 261
*تہجد گزار خواتین کی  فضیلت*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آدمی رات کو اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھائے اور دونوں دو دو رکعت نماز ادا کریں تو اللہ تعالی ان کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور عورتوں میں نام لکھ دیتے ہیں۔(رواہ ابن ماجہ و ابو داؤد)

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہماری خواتین کو پابند صوم و صلاۃ اور تہجد گزار بنا دے۔

آمین یا رب العالمین


*نماز تہجد کے مسائل* 

 مسئلہ نمبر 262
*فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے*
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد سب سے افضل روز ے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے( اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 263
*تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے ایک نیند لینا ضروری ہے*
کیونکہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے

 مسئلہ نمبر 264
*نماز تہجد یا قیام اللیل، کی مسنون رکعت کم سے کم سات اور زیادہ سے زیادہ تیرہ ہیں۔*

 حضرت عبداللہ بن ابو قیس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کتنی پڑھتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا: کبھی چار نفل اور تین وتر( کل سات رکعات )کبھی چھ نفل اور تین وتر (کل نو رکعات )کبھی آٹھ نفل اور تین وتر (کل 11 رکعات) کبھی 10 نفل اور تین وتر (کل 13 رکعات) ادا فرماتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز سات سے کم اور 13 سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔(رواہ ابو داؤد نے)

مسئلہ نمبر 265
اگر کوئی شخص تہجد کی مسنون رکعتوں کے علاوہ مزید نوافل ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے

مسئلہ نمبر 266
نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااغلب معمول آٹھ رکعت نفل اور تین وتر کل 11 رکعت پڑھنے کا تھا ۔

مسئلہ نمبر 267
*نماز تہجد دو، دو یا چار، چار رکعات دونوں طرح پڑھنا مسنون ہے مگر دو، دو رکعت کر کے پڑھنا افضل ہے*

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان 11 رکعتیں نماز عطا فرماتے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے پھر ساری نماز کو ایک رکعت پڑھ کر وتر بناتے۔(اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

 حضرت ابو سلمہ بن عبداللہ الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رمضان میں رات کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں رات کی نماز 11 رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے، چار رکعتیں پڑھتے ان کے طول و حسن کا کیا کہنا،پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا ، پھر تین رکعت وتر ادا فرماتے۔( اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئللہ نمبر 268
*سفر کے دوران وتر ایک رکعت پڑھا جاتا ہے۔*

مسئلہ نمبر 269
*ایک ہی آیت کو بار بار نفل نماز میں پڑھنا جائز ہے۔*

 حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور صبح تک ایک ہی آیت بار بار تلاوت فرماتے رہے۔

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ إِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ 

ترجمہ:
 اللہ اگر انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے غلام ہیں تو کر سکتا ہے اگر بخش دے تو غالب ہے حکمت والا ہے تجھے کوئی پوچھنے والا نہیں۔( اسے نسائی نے روایت کیا ہے) 

 مسئلہ نمبر 270
*نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مندرجہ ذیل دعا استفتاح پڑھا کرتے تھے*

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو شروع میں یہ دعا پڑھتے 

*اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِیکائيَلَ. وَإِسْرَافِيْلَ فَاطِرَ السَّمُوتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا فِيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانِو فیہ يَخْتَلِفُوْنَ إِهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مستقیم* (مسلم) 

*ترجمہ:*
یا اللہ تعالی جبرائیل علیہ السلام میکائیل علیہ السلام اور اسرافیل علیہ السلام کے رب زمین و اسمان پیدا کرنے والے  حاضر اور غائب کے جاننے والے۔
 لوگ جن دینی معاملات میں اختلاف کر رہے ہیں قیامت کے روز تو ہی ان کا فیصلہ کرے گا یا اللہ تعالی جن امور کا اختلاف کیا گیا ہے ان میں میری رہنمائی فرما یقینا جسے تو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے (روہ مسلم)

*الدعاء*
 لوگ جن دینی معاملات میں اختلاف کر رہے ہیں قیامت کے روز تو ہی ان کا فیصلہ کرے گا یا اللہ تعالی جن امور کا دین میں اختلاف کیا گیا ہے ان میں میری رہنمائی فرما یقینا جسے تو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے

آمین یا رب العالمین


*تہجد نہ پڑھنے کے 12 بڑے نقصانات*

مسئلہ نمبر 271
*تہجد نہ پڑھنے کے 12 بڑے نقصانات*

عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

*جو دس آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا اور جو سو آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے وہ فرمانبرداروں میں لکھا جاتا ہے،اور جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے تو وہ خزانہ جمع کرنے والوں میں لکھا جاتا* علامہ البانی نے ابو داود میں اسے صحیح کہا ہے((1264))

مسئلہ نمبر 272
*پہلا نقصان:*

*وہ عباد الرحمان کا لقب کھو دیتا ہے*

( وعباد الرحمن الذين يمشون على الأرض هوناً .....وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا)

رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آسانی سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں سلام۔....
اور جو اپنے رب کے سامنے سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔

مسئلہ نمبر 273
*دوسرا نقصان*

*متقی کا لقب کھو دیتا ہے :*

( إن المتقين في جنات وعيون... كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ * وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ)

بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے،..... وہ رات کو بہت کم سوتے تھے، اور طلوع فجر کے وقت میں استغفار کرتے تھے۔

مسئلہ نمبر 274
*تیسرا نقصان*:

*فرمان بردار اور اہل عقل کا لقب پانے میں کمی :*

(أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ. يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)

(یا وہ جو رات کے اوقات میں سجدہ اور قیام میں عبادت کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟ کہو کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہیں جو نہیں جانتے؟ صرف سمجھنے والے ہی یاد رکھیں گے۔)

مسئلہ نمبر 275
*چوتھا نقصان*:

*ممتاز لوگوں کا مقام جو قیام کرنے والوں کے لئے ہے اس کا نقصان :*

(لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ)

(وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں، اہل کتاب میں سے ایک جماعت ایسی ہے جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتی ہے اور سجدہ کرتی ہے)

مسئلہ نمبر 276
*پانچواں نقصان*:

*دعا کی قبولیت کے موقع کا چلے جانا جیسے ہمارے رب نے زکریاؑ کو عطا کیا تھا :*

(فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ)

(پھر فرشتوں نے اس کو پکارا جب کہ وہ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے، بے شک اللہ تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے، جو اللہ کے ایک کلمے کی تصدیق کرنے والا ہے اور [جو] ایک آقا، پاکباز اور ایک نبی ہوگا۔ صالح")

مسئلہ نمبر 277
*ساتواں نقصان*:

*اس کی نیکیاں اس کی برایئوں کو نہیں لے کر جاتی جیسے اس کی شرائط میں سے ایک ہے کہ رات کے حصے میں نماز قائم کی جائے:*

(وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ)

(اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کے قریب، بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ یاد رکھنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔)

مسئلہ نمبر 278
*آٹھواں نقصان*:

*یہ نقصان کہ اس کا رب اسے مقام محمود پر فائز نہیں کرے گا*

(وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا)

(اور رات کے کچھ حصے میں اس کے ساتھ اپنے لیے اضافی دعا کیجیے، شاید آپ کا رب آپ کو محمود کے مقام پر اٹھائے گا۔)

مسئلہ نمبر 279
*نواں نقصان*:

*اس رضا کا نقصان جس کا وعدہ میرے رب عزوجل نے کیا ہے :*

(... وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ)

(...اور رات کے اوقات میں اور دن کے اختتام پر، تاکہ آپ مطمئن ہو جائیں۔


مسئلہ نمبر 280
*دسواں نقصان*:

*اللہ کی اس عنایت کا نقصان جو وہ اسے دیتا ہے جس کو وہ دیکھتا ہے کہ وہ کھڑا ہے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے:*

(وتوكل على العزيز الرحيم الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ)

(اور خدائے رحمن پر بھروسہ رکھو جو آپ کو دیکھتا ہے جب آپ کھڑے ہوتے ہیں اور سجدہ کرنے والوں میں آپ کی حرکت کرتے ہیں)

مسئلہ نمبر 281
*گیارہواں نقصان*

*اللہ کے حکم پر صبر نہ کرنا اور نہ ہی وہ ان میں سے ہوتا جن کے بارے میں کہا گیا ہے (فإنك بأعيننا) :*

(وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ)

(اور اپنے رب کے فیصلے پر صبر کرو، بے شک تم ہماری نگاہوں کے نیچے ہو، اور جب تم اٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو، اور رات کے کچھ حصے میں اور زوال کے وقت اس کی تسبیح کرو۔ ستارے.)

مسئلہ نمبر 282
*بارہواں نقصان:*

*اس کو کھو دینا جو اللہ نے قیام کرنے والوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے چھپا کر رکھا ہے*

 (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ*)
 (کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ ان کے لیے ان کی آنکھوں کی تسکین کے لیے کیا کچھ چھپا ہوا ہے جو وہ کیا کرتے تھے

(إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ ۚ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ ...)

 (بے شک تمہارا رب جانتا ہے کہ تم رات کے تقریباً دو تہائی یا اس کے آدھے حصے یا اس کے ایک تہائی حصے میں کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں کا ایک گروہ بھی۔ اور اللہ رات اور دن کا حساب رکھتا ہے۔

*حرف آخر*
تو کیا اے ان سب زبردست خساروں کو دیکھنے والے کیا ہم قیام اللیل کو ضائع کر دیں گے؟

*قیام اللیل کرو اگرچہ دو رکعات ہی*

الدعاء 
*اللهم اعنی على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك ياحي يا قيوم*

*اے اللہ، ہمیں تیرا ذکر کرنے، تیرا شکر کرنے اور تیری صحیح عبادت کرنے میں مدد فرما، اے ہمیشہ زندہ رہنے والے، اے خود کو برقرار رکھنے والے۔

*اللهم اجعلنا من مقيمين صلاة الليل يارب يامجيب*

*اے اللہ، ہمیں رات کی نماز پڑھنے والوں میں شامل کر، اے رب، اے جواب دینے والے


*سجدہ سہو کے مسائل* 

سجدہ سہو کرنے میں علماء اور فقہا کا شدید اختلاف ہے
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ التحیات کے بعد ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرکے پھر سے دوبارہ التحیات، درود شریف اور دعاء کے بعد پھر دونوں طرف سلام پھیرنے کا کہتے ہیں۔

جبکہ دیگر آئمہ نماز مکمل کرنے کے بعد دو سجدے کرکے دونوں طرف سلام پھیرنے کو کہتے ہیں۔

*حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا طریقہ۔*
 
 اگر نماز میں کمی ہو تو دوسرا تشہد مکمل پڑھنے کے بعد دو سجدے کرکے دونوں طرف سلام پھیرتے تھے اور اگر نماز میں زیادتی ہونے کی بنا پر مکمل تشہد  کے بعد دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرتے تھے اور کچھ پڑھے بغیر دونوں طرف دوبارہ سلام پھیرتے تھے

واللہ اعلم بالصواب۔۔۔۔

مسئلہ نمبر283
*رکعات کی تعداد میں شک پڑنے پر کم رکعات کا یقین حاصل کرنے کے بعد نماز پوری کرنی چاہئے اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو ادا کرنا چاہئے*

مسئلہ نمبر 284 
*سلام کے بعد سہو کے بارے میں کلام نماز کو باطل نہیں کرتی ۔*

مسئلہ نمبر 285
*دوران نماز با جماعت امام کی بھول پر سجدہ سہو ہے، مقتدی کی بھول پر نہیں۔*

مسئلہ 286
*سجدہ سہو سلام پھیرنے سے پہلے یا بعد دونوں طرح جائز ہے۔*

مسئلہ نمبر 287 
*سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کرنے کے لئے دوبارہ تشہد پڑھنا سنت سے ثابت نہیں۔*

 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ جب کوئی اپنی نماز کی رکعتیں میں شک پڑ جائے اور یاد نہ رہے کہ تین پڑھی ہیں یا چار ، تو اسے پہلے اپنا شک دور کرنا چاہئے پھر یقین کرنے کے بعد اپنی نماز پوری کرنی چاہئے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے ادا کر لینے چاہئیں، اگر نمازی نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو یہ دو سجدے مل کر چھ رکعتیں ہو جائیں گی ، اگر چار پڑھی ہیں تو یہ دوسجدے شیطان کی ذلت کا باعث بنیں گے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ 
 
 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہم نے ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھ لیں ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا نماز میں زیادتی ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا نہیں زیادتی کیسی؟ لوگوں نے عرض کیا آپ  صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کئے ۔“ اسے،بخاری ، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی نے روایت کیا ہے، 

مسئلہ نمبر 288
پہلا تشہد بھول کر نمازی قیام کے لئے سیدھا کھڑا ہو جائے تو تشہد کے لئے واپس نہیں آنا چاہئے۔ بلکہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کر لینا چاہئے۔

مسئلہ نمبر 289
*اگر پوری طرح کھڑے ہونے سے پہلے تشہد میں بیٹھنا یاد آ جائے، تو بیٹھ جانا چاہئے اور سجدہ سہو لازم نہیں آتا*

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی دو رکعتوں کے بعد ( تشہد پڑھے بغیر) کھڑا ہونے لگے اور ابھی پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے لیکن اگر پوری طرح کھڑا ہو گیا ہو تو پھر نہ بیٹھے، البتہ سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے ادا کرے۔ (رواہ احمد، ابو داؤد و ابن ماجہ)

مسئلہ نمبر 290
*نماز میں کوئی سوچ آنے پر سجدہ سہو نہیں ہے لیکن اگر رکعتیں بھول یا شک ہو جائے  تو سجدہ سہو ہے۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی اگر نماز میں ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو معاف فرما دینا کیونکہ تو معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرتا ہے۔

آمین یا رب العالمین

*نماز وتر کے مسائل*
 
مسئلہ نمبر 291
*نماز وتر کی فضیلت اور نماز وتر کا وقت*

حضرت خارجہ بن حذافہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرض نمازوں کے علاوہ ایک اور نماز تمہیں دی ہے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے وہ نماز وتر ہے جسے اللہ تعالی نے تمہارے لئے نماز عشاء اور طلوع فجر کے درمیان رکھا ہے۔“ اسے احمد ، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 292 
*وتر نماز عشاء کا حصہ نہیں بلکہ رات کی نماز ( قیام اللیل یا تہجد ) کا حصہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کی سہولت کے لئے عشاء کی نمازکے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔*

مسئلہ  نمبر 293
*وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھنا افضل ہے۔*

*حضرت جابر رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے پچھلی رات آنکھ نہ کھلنے کا ڈر ہو اُسے رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھ کر سونا چاہئے اور جسے اٹھ جانے کی امید ہو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے کیونکہ پچھلی رات کی قرآت میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ وقت افضل ہے۔ اسے احمد مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔*

مسئله نمبر 294
*و ترسنت مؤکدہ ہے واجب نہیں۔*

 حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں وتر فرض کی طرح ضروری نہیں لیکن سنت ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہے ۔ اسے نسائی نے روایت کیا۔

مسئلہ  نمبر 295
*سنتیں اور نوافل سواری پر پڑھنے جائز ہیں۔*

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں دوران سفر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری پر اشارے سے رات کی نماز ادا فرماتے جدھر بھی سواری کا رخ ہوتا وتر بھی سواری پر ادا فرما لیتے لیکن فرض نماز ادا نہیں فرماتے تھے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 296 
*وتروں کی تعداد ایک ، تین اور پانچ ہے، جو جتنے چاہے پڑھے۔*

حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وتر پڑھنا ہر مسلمان کے ذمہ ہے البتہ جو پسند کرے وہ پانچ پڑھے جو پسند کرے وہ تین پڑھے اور جو پسند کرے وہ ایک پڑھے۔“ اسے ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 297
*تین وتروں پر امت کا اجماع ہے*

 مسئلہ نمبر 298
*تین وتر ادا کرنے کے لئے دورکعت پڑھ کر سلام پھیرنا اور پھر ایک وتر پڑھنے کا طریقہ افضل ہے البتہ ایک تشہد کے ساتھ اکٹھے تین وتر پڑھنا بھی جائز ہے۔*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نماز عشاء کے بعد فجر سے قبل گیارہ رکعت ادا فرمایا کرتے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت ادا کر کے وتر بناتے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سات یا پانچ وتر ادا فرماتے تو ان میں سلام سے فاصلہ نہ کرتے یعنی ایک ہی سلام سے پڑھتے ۔“ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 299
*نماز مغرب کی طرح دو تشہد اور ایک سلام سے تین وتر ادا کرنا درست نہیں۔*

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تین وتر نماز مغرب کی طرح نہ پڑھو، بلکہ پانچ یا سات پڑھو اور نماز مغرب کی طرح دو تشہد اور ایک سلام سے تین وتر پڑھ کر مغرب کی نماز سے مشابہت نہ کرو۔ (رواہ دار قطنی۔)

مسئلہ نمبر 300
*وتروں میں دعائے قنوت رکوع سے قبل اور بعد دونوں طرح جائز ہے۔*

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر میں دعا قنوت رکوع سے پہلےپڑھتے ۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

حضرت محمد  بن سیرین کہتے ہیں میں نے انس بن مالک  سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا ( کہ کب مانگی جائے ) تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع کے بعد دعائے قنوت مانگا کرتےتھے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ 301
*حسب ضرورت قنوت تمام نمازوں یا بعض نمازوں کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد مانگی جا سکتی ہے۔*

مسئلہ نمبر 302

*قنوت پڑھنی واجب نہیں۔*

مسئلہ نمبر 303
*قنوت کے بعد دوسری دعائیں بھی مانگی جا سکتی ہیں۔*

مسئلہ نمبر 304
*حسب ضرورت قنوت غیر معینہ مدت تک مانگی جاسکتی ہے۔ اسے قنوت نازلہ کہتے ہیں*

مسئلہ نمبر 305
*جب امام بلند آواز سے قنوت پڑھے مقتدیوں کو بلند آواز سے آمین کہنی چاہیے*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ متواتر ظہر عصر مغرب عشاء اور فجر کی اخری رکعت میں حالت قومہ میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد بنی سلیم کے قبائل رعل اور ذکوان اور عصیہ کے لئے بد دعا فرماتے رہے اور مقتدی آمین کہتے تھے۔(اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔)

 حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوت پڑھی پھر ترک فرما دی (اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے)

*الدعاء*

یا اللہ تعالی  ہمیں ناگہانی آفات سے محفوظ فرما اور فحاشات اور منکرات سے بچا۔

 اے ہمارے رب ہماری نمازیں اور دعائیں قبول فرما۔ آمین یا رب العالمین
 

*نماز جمعہ کے مسائل*

 مسئلہ نمبر 306
 ہر نماز سے گذشتہ نماز تک، نماز جمعہ، ہفتہ بھر کے وقفے میں سرزد ہونے والے تمام صغیرہ گنا ہوں کی مغفرت کی باعث بنتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " ہر نماز گذشتہ نماز تک کے جمعہ یعنی ہفتہ بھر کے اور رمضان سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 307 
بلا عذر جمعہ چھوڑنے والوں کے گھروں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلا ڈالنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ نہ پڑھنے والوں کے بارہ میں فرمایا میں چاہتا ہوں کہ کسی کونماز پڑھانے کا حکم دوں پھر جمعہ نہ پڑھنے والوں کو ان کے گھروں سمیت جلا ڈالوں ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 308
شرعی عذر کے بغیر تین جمعے چھوڑنے والے کے دل پر اللہ تعالی گمراہی کی مہر لگا دیتے ہیں۔

حضرت ابو جعد ضمری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے تین جمعے غفلت کی وجہ سے چھوڑ دیئے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ اسے ابو داؤد، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا۔

مسئلہ نمبر 309 
 *غلام، عورت، بچے، بیمار اور مسافر کے علاوہ جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔*

حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مسافر پر جمعہ نہیں ہے۔(اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔)

حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا غلام، عورت، بچے اور بیمار کے علاوہ جماعت کے ساتھ جمعہ پڑھنا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 310 
جمعہ کے روز غسل کرنا ، مسواک کرنا اور خوشبو لگانا مسنون ہے۔

حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر بالغ، مسلمان کو جمعہ کے دن غسل کرنا چاہئے مسواک کرنا چاہئے اور جس قدر خوشبو میسر ہو لگانی چاہئے۔(رواہ نسائی)

مسئلہ نمبر 311 
جمعہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بکثرت درود بھیجنے کا حکم ہے۔

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا ”جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، جو آدمی جمعہ کے روز مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔( رواہ حاکم و بیہقی)

مسئلہ نمبر 312 
*جمعہ میں دو خطبے ہیں، دونوں خطبے کھڑے ہو کر دینا مسنون ہے۔*

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو خطبے دیتے تھے اور دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے خطبے میں قرآن پڑھ کر لوگوں کو نصیحت فرماتے ۔(رواہ مسلم)  

مسئلہ نمبر 313  
*امام کو منبر پر چڑھ کر سب سے پہلے نمازیوں کو سلام کہنا چاہئے*

حضرت جابر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب منبر پر چڑھتے تو سلام کہتے ۔ ( رواہ ابن ماجہ)

مسئلہ نمبر 314 
*خطبہ جمعہ، عام خطبہ کی نسبت مختصر ، اور نماز جمعہ عام نماز کی نسبت لمبی پڑھانی چاہئے۔*

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ  تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (جمعہ)
کا خطبہ مختصر اور نماز لمبی پڑھانا امام کی عقلمندی کی دلیل ہے، لہٰذا خطبہ مختصر دو اور نماز لمبی پڑھو۔ اسے احمد اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 315
*جمعہ کے دن زوال سے قبل، زوال کے وقت اور زوال کے بعد سبھی اوقات میں نماز جمعہ پڑھنی جائز ہے۔*

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ سورج ڈھلے پڑھاتے تھے۔“ اسے احمد ، بخاری، ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 316
 *جمعہ کا خطبہ شروع ہو چکا ہو، تو آنے والے نمازی کو دوران خطبہ مختصر سی دو رکعت تحیۃ المسجد نماز پڑھ کر بیٹھنا چاہئے۔*

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اتنے میں سلیک غطفانی آئے اور بیٹھ گئے ۔ آپ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اے سلیک! اٹھ کر مختصر دو رکعت ادا کر لو پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " جب تم جمعہ کے روز آؤ آور امام خطبہ دے رہا ہو تو دور رکعت مختصر سی نماز ادا کرو۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں مارنا تو مسلمان ہی مارنا کیونکہ ہم کافر ہو کر مرنا نہیں چاہتے۔

آمین یا رب العالمین۔ 

مسئلہ نمبر 317  
*نماز جمعہ سے پہلے نوافل کی تعداد مقرر نہیں البتہ دو
رکعت تحیۃ المسجد ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے خواہ خطبہ ہورہا ہو*

مسئلہ نمبر 318 
*نماز جمعہ سے قبل سنت مئوکدہ ادا کر نا حدیث سے ثابت نہیں*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا ، پھر مسجد میں آیا اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ، ادا کی پھر خطبہ ختم ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی اس کے جمعہ سے جمعہ تک گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اور مزید تین دن کا فضل عطا کیا جاتا ہے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 319
دوران خطبہ کسی کو اونگھ
 آجائے تو اسے اپنی جگہ بدل لینی چاہئے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے جمعہ کے وقت اونگھ آئے وہ اپنی جگہ بدل لے ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 320
*دوران خطبہ بات کرنا یا بے توجہی کرنا سخت بے ہودہ بات ہے۔*
ٹگ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جس نے جمعہ کے دن دوران خطبہ اپنے ساتھی سے کہا " خاموش رہو اس نے ،بھی لغو بات کی ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئله نمبر 321
 خطبہ جمعہ کے دوران گوٹھ مار کر بیٹھنا منع ہے۔

حضرت معاذ بن انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ کے دوران گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسے احمد ، ابوداؤ د اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : آدمی اپنے گھٹنے کھڑے کر کے رانوں کو پیٹ سے لگا کر دونوں ہاتھوں کو باندھ لے تو اسے گوٹھ مارنا کہتے ہیں۔

مسئلہ نمبر 322
*نماز جمعہ کے بعد اگر مسجد میں سنتیں ادا کرنی ہوں ، تو چار اگر گھر جا کر ادا کرنی ہوں تو دو ادا کرنی چاہئیں۔*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”جمعہ پڑھو تو اس کے بعد چار رکعت نماز ادا کرو۔ اسے احمد ، مسلم، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نماز جمعہ پڑھتے تو اپنے گھر واپس آ کر دو رکعت ادا کرتے اور فرماتے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔“ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 323
*نماز جمعہ دیہات میں بھی ادا کرنا چاہئے۔*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے دیہات جوانی کی مسجد عبد القیس میں پڑھا گیا ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ 324
*اگر جمعہ کے روز عید آجائے تو دونوں پڑھنے بہتر ہیں لیکن عید پڑھنے کے بعد اگر جمعہ کی بجائے صرف نماز ظہر ہی ادا کی جائے تب بھی درست ہے*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے آج کے دن میں دو عیدیں ( ایک عید اور دوسرا جمعہ ) اکٹھی ہوگئی ہیں جو چاہے اس کے لئے جمعہ کے بدلے عید ہی کافی ہے لیکن ہم جمعہ بھی پڑھیں گے۔“ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 325
*نماز جمعہ کے بعد احتیاطی نماز ظہر ادا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔*

مسئلہ نمبر 326
*نماز جمعہ کے بعد کھڑے ہو کر بلند آواز سے اجتماعی درود و سلام پڑھنا اور نماز جمعہ کے بعد اجتماعی دعاء کرنا سنت سے ثابت نہیں 
ہیں۔*

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں نماز جمعہ باقاعدہ پڑھنے کی توفیق عطا فرماء۔

آمین یا رب العالمین

 
‏پورے دن کی بارہ رکعت سنتوں کی فضیلت
 
سنت نمازوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے 
ام المؤمنین حضرت امِّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
جس شخص نے دن اور رات میں (فرائض کے علاوہ) بارہ رکعات ادا کیں تو اس کے لیے جنت میں مکان بنایا جائے گا۔ (ان سنتوں کی تفصیل یہ ہے) چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت نمازِ فجر سے پہلے۔‘‘
ترمذی، السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء فيمن صلی فی يوم وليلة ثنتی عشرة رکعة من السنة، 1 : 440، رقم : 415

  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعتوں پر مداومت اختیار کرے تو وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا، فجر سے پہلے دو رکعتیں, چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو بعد میں اور مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں ۔ سنن النسائی: ۱۷۹۵، ابن ماجہ: ۲۱۴، الترمذی :۴۱۴ 

 امی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، بیان کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : فجر کی دو رکعتیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہیں۔ مسلم:۷۶۵

 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ نبی ﷺ جس قدر (خصوصی) اہتمام فجر کی دو سنتوں کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفلی نماز کا نہیں کرتے تھے۔ بخاری:۱۱۶۹ ، مسلم : ۷۲۴

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : نبی ﷺ چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں (سنتیں ) فجر سے پہلے کبھی نہ چھوڑتے تھے۔ بخاری:۱۱۸۲

  سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، نبی ﷺ کی بیوی کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: جس شخص نے ظہر سے پہلے اور اس کے بعد چار رکعات (سنتوں) پر مواظبت اختیار کی تو اللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا۔ ابو داؤد : ۱۲۶۹، نسائی: ۱۸۱۷، ترمذی: ۴۲۷ .

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ، بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے ہر کوئی اس حال میں صبح کرتا ہے کہ ہر جوڑ پر صدقہ ضروری ہوتا ہے۔ پس ہر تسبیح (سُبْحَانَ اللہِ کہنا) صدقہ ہے،ہر تمحید(اَلْحَمْدُلِلہِ کہنا) صدقہ ہے، ہر تہلیل(لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنا) صدقہ ہے اور ہر تکبیر (اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور جو چاشت کی دو رکعتیں ادا کرتا ہے اسے ان سب کے مقابلہ میں  
 کافی ہیں رواہ مسلم  
پنجوقہ نمازوں میں فرض کے علاوہ سنت

 نمازیں بھی ادا کی جاتی ہیں، جن کی فضیلت اور ثواب کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’فرض کے علاوہ جو شخص بارہ رکعتیں دن رات میں پڑھا کرتا ہے، اس کے لئے ایک گھر جنت میں بنادیا جاتا ہے‘‘۔ (مسلم)
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صبح کی دو سنتیں دُنیا اور جو کچھ دُنیا میں ہے، ان سے بہتر ہیں‘‘۔ (مسلم و ترمذی)

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظہر کے فرض سے پہلے جو شخص چار رکعتیں پڑھا کرتا ہے تو اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کردی جاتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد و ترمذی)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ظہر سے قبل کی (چار) رکعتوں کا ثواب ایسا ہی ہے، جیسے تہجد کی نماز کا ثواب‘‘۔ (طبرانی)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عصر سے پہلے چار رکعت پڑھنے والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کی دُعا دی ہے‘‘۔ (ابوداؤد و ترمذی)

مغرب اور عشاء کی دو دو سنتوں کا ثواب بھی بہت ہے، اللہ تعالیٰ ان سنتوں کے پڑھنے والوں کا گھر جنت میں بنائے گا۔ علاوہ ازیں مغرب کے بعد چھ رکعت نماز اوابین (نفل) کا ذکر بھی حدیث شریف میں ہے۔

سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے میرے حبیب ﷺ نے تین چیزوں کے بارے میں وصیت کی ہے جب تک جیتا رہا ان کو کبھی نہ چھوڑوں گا۔ ہر مہینے میں تین روزے، چاشت کی نماز اور سونے سے پہلے وتر کی ادائیگی۔ مسلم:۷۲۲

اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ
اے اللہ! میری مدد کر، اپنے ذکر پر اپنے شکر پر اور اپنی بہترین عبادت پر۔
اسنادہ صحیح، سنن ابی داؤد:1522،سنن نسائی:1302

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی سنتوں پر عمل کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین

سنتوں اور نوافل کی فضیلت

مسئلہ نمبر 327
*نماز ظہر سے قبل چار رکعت اور بعد میں دو رکعت، نماز مغرب کے بعد دو رکعت، نماز عشاء کے بعد دو رکعت اور نماز فجر سے پہلے 2 رکعت سنت ( مئوکدہ ) پڑھنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر بناتے ہیں۔*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا ” جو شخص با قاعدگی سے بارہ رکعت سنتیں ادا کرے اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔ نماز ظہر سے پہلے چار رکعت ، دو ظہر کے بعد، دو رکعت نماز مغرب کے بعد ، دو رکعت نماز عشاء کے بعد اور دو رکعت نماز فجر سے پہلے ۔“ اسے ترمذی اور ابن ماجہ نےروایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 328
*نماز فجر سے پہلے دو سنتیں دنیا جہان کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہیں۔*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی  اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا فجر کی دو رکعت ( سنت مؤکدہ) دنیا اور اس میں جو کچھ ہے (دنیا و مافیہا) سے بہتر ہیں ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 329 
*ظہر سے قبل چار سنت ادا کرنے والے کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔*
مسئلہ  نمبر 330
*ظہر سے پہلے چار اور بعد میں دو رکعت سنت ادا کرنے والے پر اللہ تعالی جہنم کی آگ حرام کر دیتے ہیں۔*

 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص چار رکعتیں پہلے اور دو رکعت بعد میں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس پر آگ کو حرام کر دیتا ہے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ (صحیح)

مسئلہ 331
*نماز عصر سے قبل چار رکعت ( سنت غیر مؤکدہ) پڑھنے والے پر اللہ تعالی رحم فرماتے ہیں۔*

حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا جس آدمی نے عصر سے قبل چار رکعتیں پڑھیں اللہ تعالی اس پر رحم فرمائے ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

مسئله نمبر 332
*نماز چاشت کی چار رکعت ادا کرنے والے کے دن بھر کے سارے کام اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔*

مسئله 333 
*نماز تراویح گذشتہ تمام صغیرہ گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے۔*

مسئلہ 334
 *رات کے کسی بھی حصہ میں سو کر اٹھنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے والے میاں بیوی کو اللہ تعالیٰ کثرت سے یاد کرنے والوں میں شمار فرماتے ہیں۔*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ” جب آدمی رات کو اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھائے اور دونوں دو، دو رکعت نماز ادا کریں تو اللہ تعالیٰ ان کا نام کثرت سے ذکر کرنے والے مردوں اور عورتوں میں لکھ دیتے ہیں ۔ اسے ابن ماجہ اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ 335
*ایک سجدہ ادا کرنے سے اللہ تعالی انسان کے نامہ اعمال میں ایک نیکی کااضافہ فرماتے ہیں ایک گناہ مٹاتے ہیں اور ایک درجہ بلند کرتے ہیں۔*
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے اللہ تعالی اس کی ایک نیکی لکھتے ہیں ایک گناہ مٹاتے ہیں اور ایک درجہ بلند کرتے ہیں لہذا کثرت سے سجدے کیا کرو۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
   
مسئلہ نمبر 336 
*قیامت کے روز فرض نماز میں کمی یا کوتاہی کی کسر سنتوں اور نوافل سے پوری کی جائے گی۔*

*الدعاء*
دعاء عبادت کا مغز ہے لہذا دعاء خشوع و  خضوع سے مانگنی چاہیئے  


*سنتوں اور نوافل کے مسائل* 

مسئلہ نمبر 337
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جونفل نماز باقاعدگی سے ادا فرماتے تھے وہی امت کے 
لئے سنت مئوکدہ ہے 
 
338 مسئلہ نمبر  
*نماز ظہر سے قبل چار بعد میں دو نماز مغرب کے بعد دو نماز عشاء کے بعد دو، اور نماز فجر سے قبل دو، کل بارہ رکعتیں پڑھنا مسنون ہیں۔*

مسئلہ نمبر 339
*سنتیں اور نوافل گھر میں ادا کر نے افضل ہیں*

مسئلہ نمبر 340
*نفل نماز بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دونوں طرح پڑھنا جائز ہے*
حضرت عبداللہ بن شقیق رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نفل نماز کے بارے میں سوال کیا، تو حضرت عائشہ نے فرمایا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے قبل چار رکعتیں میرے گھر میں ادا فرماتے ، پھر مسجد جا کر لوگوں کو (فرض ) نماز پڑھاتے ، پھر واپس گھر تشریف لاتے اور دو رکعت ظہر کے بعد ادا فرماتے، پھر لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے اور میرے ہاں گھر تشریف لا کر دور کعتیں پڑھتے تھے، پھر لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور میرے ہاں گھر تشریف لا کر دو رکعتیں پڑھتے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات کی نماز ( قیام اللیل ) نو رکعت پڑھتے جن میں وتر بھی شامل ہے ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
 رات کا کافی حصہ کھڑے ہو کر اور کافی حصہ بیٹھ کر نماز پڑھتے ، جب کھڑے ہو کر قرآت فرماتے ، تو رکوع اور سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر قرآت فرماتے ، تو رکوع و سجود بھی بیٹھ کر ادا فرماتے ، جب فجر طلوع ہوتی تو دو رکعت ادا فرماتے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر341
*نماز ظہر سے قبل دو سنتیں ادا کرنا بھی سنت سے ثابت ہے۔*

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ظہر سے قبل دورکعتیں، ظہر کے بعد دو رکعتیں ، مغرب کے بعد دو رکعتیں ، عشاء کے بعد دو رکعتیں اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، مغرب، عشاء اور جمعہ کی دو رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ گھر پر ادا کیں ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ 

مسئلہ نمبر342
*سنتیں اور نوافل دو، دو کر کے ادا کر نے افضل ہیں*

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا " رات اور دن کی نماز (نفل) دو، دو دو رکعتیں ہیں۔
اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 343
*ایک سلام سے چار رکعت سنت یا نوافل ادا کر نے بھی درست ہیں*

حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ظہر سے قبل چار رکعت(سنت) جن کے درمیان میں سلام نہ ہو(ایک سلام کے ساتھ) ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ (صحیح)

مسئلہ نمبر 344
*فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر دائیں کروٹ لیٹنا مسنون ہے۔*

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی آدمی فجر کی دو سنتیں پڑھے، تو دائیں کروٹ لیٹ جائے ۔ اسے ترمذی اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 345
 نماز جمعہ کے بعد چار یا دو
رکعتیں پڑھنی مسنون ہیں۔

وضاحت:  
نماز جمعہ کے بعد اگر مسجد میں سنتیں ادا کرنی ہوں تو چار اور اگر گھر جا کر ادا کرنی ہوں تو دو ادا کرنی چاہیئے

مسئلہ نمبر 346
*نماز ظہرکی پہلی چار سنتیں فرضوں سے پہلے نہ پڑھی جاسکیں تو فرضوں کے بعد پڑھی جاسکتی ہیں۔*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں رہ جاتیں تو ظہر کے بعد پڑھ لیتے تھے ۔“ ایسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرماء۔

آمین یا رب العالمین

مسئلہ نمبر 347
عصر سے قبل چار رکعت سنت غیر مئوکدہ ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ کی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا " جس آدمی نے عصر سے قبل چار رکعتیں پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے (رواہ: احمد، ترمذی اور ابوداؤد)۔

مسئلہ نمبر 348
نماز عشاء کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہیں۔

مسئلہ نمبر 349
نماز مغرب سے قبل دو رکعت نماز سنت غیر مؤکدہ ہیں

حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا " مغرب سے پہلے دور کعتیں ادا کرو“ تیسری مرتبہ فرمایا جس کا جی چاہے پڑھے، حضور اکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہ الفاظ اس خدشہ کے پیش نظر ادا فرمائے کہیں لوگ اسے سنت مئوکدہ نہ بنائیں لیں ۔ (اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 350
نماز جمعہ سے قبل نوافل کی تعداد مقرر نہیں، جو جتنے چاہے پڑھے البتہ، جمعہ سے قبل دو رکعت سنت تحية المسجد ادا کرنے چاہئیں، خواہ خطبہ ہورہا ہو

مسئلہ نمبر 351
*نماز جمعہ سے قبل سنت مؤکدہ ادا کرنا حدیث سے ثابت نہیں*

مسئلہ نمبر 352 
 نماز وتر کے بعد بیٹھ کر دو نفل پڑھنے سنت   
سے ثابت ہیں
ابو عمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
 اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وتروں کے بعد دو رکعت (نفل) بیٹھ کر پڑھا کرتے تھےاور ان میں سورہ زلزال اور قل یا یھا الکافرون تلاوت فرماتے۔
اسے احمد نے روایت کیا

مسئلہ نمبر 353
*سنتیں اور نوافل سواری پر بیٹھ کر ادا کئے جا سکتے ہیں۔*

مسئلہ نمبر 354
*نماز شروع کرنے سے پہلے سواری کا رخ قبلہ کی طرف کر لینا چاہئے، بعد میں خواہ کسی طرف ہو جائے۔*

مسئلہ نمبر 355
اگر سواری کا رخ قبلہ کی طرف کرنا ممکن نہ ہو تو پھر جس طرف رخ ہو نماز ادا کر لینی جائز ہے

مسئلہ نمبر 356
سنتوں اور نوافل میں قرآن کریم سے دیکھ کر تلاوت کرنا جائز ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  کا غلام ذکوان قرآن کریم سے دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا۔ 
اسے بخاری نے روایت کیا ہے
 
357 مسئلہ نمبر
*کسی عذر کی بنا پر نفل نماز کچھ بیٹھ کر کچھ کھڑے ہو کر ادا کی جا سکتی ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بوڑھے ہو گئے، تو قرآت بیٹھ کر فرماتے اور جب تیس چالیس آیتیں باقی رہ جائیں تو کھڑے ہو جاتے اور باقی 
قرآت پوری کر کے رکوع فرماتے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 358 
بلا عذر بیٹھ کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔

حضرت عمران بن حصین  رضی اللہ تعالی عنہ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ” کھڑے ہو کر نماز پڑھنا افضل ہے جبکہ بیٹھ کر پڑھنے سے آدھا اور لیٹ کر پڑھنے سے ایک چوتھائی ثواب ملتا ہے ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

مسئله نمبر 359
نوافل میں طویل قیام پسندیدہ ہے۔

حضرت جابر  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ افضل نماز کون سی ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس میں طویل قیام کیا جائے ۔“ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوتے ، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاؤں یا پنڈلیاں سوج جاتیں آپ سے اس بارہ میں کہا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے۔ کیا میں اللہ تعالی کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 360 
نفل عبادت ، جو ہمیشہ کی جائے پسندیدہ ہے خواہ کم ہی ہو۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا گیا کون سا عمل اللہ تعالی کو بہت پسند ہے؟ فرمایا جو ہمیشہ کیا جائے ، خواہ تھوڑا ہی ہو ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔

مسئلہ 361
*سنت اور نفل نماز گھر میں ادا کرنی افضل ہے۔*

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو اس لئے کہ سوائے فرض نمازوں کے باقی نماز ( یعنی سنتیں اور نوافل ) گھر میں ادا کرنی افضل ہے ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 362
*نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نفل نماز ادا نہیں کرنی چاہئے۔*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتی کہ سورج غروب ہو جائے اور نماز فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا حتی کہ سورج طلوع ہو جائے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 363
دوران سفر سنتیں اور نوافل معاف ہیں۔

حضرت حفص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر منی میں قصر نماز ادا کرتے اور اپنے بستر پر آجاتے۔ حضرت حفص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا چچاجان! اگر آپ نماز قصر کے بعد دو رکعت سنت ادا فرما لیتے تو کتنا اچھا ہوتا؟
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اگر مجھے سنتیں ادا کرنی ہوتیں  تو میں فرض پورے کرتا۔
رواہ مسلم۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح نماز پڑھنے والا نمازی بنا دے۔

آمین یا رب العالمین  

مسئلہ نمبر 364
سفر میں نماز قصر ضرور ادا کرنی چاہئے 

حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیا کہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اگر تمہیں کافروں کی طرف سے فتنہ کا خوف ہو تو نماز قصر ادا کرنے میں کوئی ہرج نہیں لیکن اب تو زمانہ امن ہے لہذا قصر کا جواز ختم ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ  کہنےلگے جس بات پر تمہیں تعجب ہوا ہے مجھے بھی تعجب ہوا تھا لہذا میں نے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم سے پوچھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا قصر کی رعایت اللہ کی طرف سے تم لوگوں پر صدقہ ہے لہذا اللہ تعالی کا صدقہ قبول کرو۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئله نمبر 365
لطویل سفر در پیش ہو تو شہر سے نکلنے کے بعد قصر شروع کی جا سکتی ہے 

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ میں نماز ظہر چار رکعت اور نماز عصر ذوالحلیفہ میں دو رکعت ادا کی ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : 
"ذو الحلیفہ مدینہ منورہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔

مسئلہ نمبر 366
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قصر کے لئے قطعی مسافت مقر ر نہیں فرمائی صحابہ کرام سے 36،9، 38  ،40 ،42  ،45 اور ،48 میل کی مختلف روایات منقول ہیں۔

مسئلہ نمبر 367
 *مذکورہ روایات میں سے 9 میل کی مسافت زیادہ صیح معلوم ہوتی ہے۔*
واللہ اعلم بالصواب

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تین میل یا تین فرسخ (9) میل سفر کرتے تو نماز قصر ادا فرماتے۔ میل یا فرسخ کا شک یحیی کے شاگرد شعبہ کو ہے۔ (اسے احمد، مسلم اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔)

حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں امن کے زمانہ میں نماز قصر پڑھائی ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

حضرت عبد الله بن عمر اور عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم  نےچار برد 
(اڑ تالیس میل) پر قصر کرتے اور روزہ بھی ترک فرما دیتے ۔ اسے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔

مسلہ نمبر 368
قصر کے لئے قطعی مدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مقرر نہیں فرمائی۔
 صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے 15 اور 19 یوم کی روایات منقول ہیں ان میں سے 19 یوم کی مدت صحیح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ عالم بالصواب!

مسئلہ نمبر 369 
*فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے 19 یوم مکہ میں قیام کیا تھا (بحوالہ الرحیق المختوم)*

مسئله نمبر370
*انیس (19) دن سے زیادہ عرصہ قیام کا مصمم ارادہ ہو تو پوری نماز ادا کرنی چاہئے*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے سفر کے دوران ( ایک ہی جگہ) 19 دن قیام فرمایا، تو نماز قصر ادا فرمائیں، لہذا ہم جب انیس یوم ٹھہرتے، تو قصر نماز ادا کرتے۔

لیکن جب 19 دن سے زیادہ قیام کرنا ہوتا تو پوری نماز ادا کرتے ہیں ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر371
*سفر کی حالت میں ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرنی جائز ہیں۔*

مسئلہ نمبر 372
*ظہر کے وقت سفر شروع کرنا ہو، تو ظہر اور عصر کی نمازیں ظہر کے وقت اکٹھی کی جاسکتی ہیں، اگر ظہر سے قبل سفر شروع کر کے اور عصر کے وقت دونوں نمازیں اکٹھی پڑھنی جائز ہیں، اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔*

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  یہ نماز ظہر اور عصر (اس وقت) جمع فرما لیتے اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کا ارادہ ہوتا تو نماز ظہر مؤخر کر کے نماز عصر کے وقت دونوں نمازیں ادا فر ما لیتے اسی طرح نماز مغرب اور فرماتے یعنی اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج غروب ہو جاتا تو مغرب اور عشاء (اس وقت) جمع فرما لیتے ، اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر فرماتے تو نماز مغرب مؤخر کر کے عشاء کے وقت دونوں جمع فرما لیتے ۔ اسے ابوداؤ اور ترمذی نے روایت کیا۔

مسئلہ نمبر 373
*دو نمازیں باجماعت جمع کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے۔*

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ تشریف لائے تو ایک اذان اور دو اقامت سے نماز مغرب اور نماز عشاء جمع کیں اور دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سنتیں نہیں پڑھیں ۔ اسے احمد مسلم اور نسائی نے روایت کیا۔

مسئلہ نمبر 374
*نماز قصر میں فجر ، ظہر ، عصر ، اور عشاء کی دو دو فرض اور مغرب کے تین فرض شامل ہیں۔*

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں محمد الرسول اللہ کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرماء 

آمین یا رب العالمین
 

مسئلہ نمبر 375
مسافر مقیم کی امامت کرا سکتا ہے۔

مسئلہ نمبر 376
*مسافر امام کو نماز قصر ادا کرنی چاہئے لیکن مقیم مقتدی کو بعد میں اپنی نماز پوری کر لینی چاہیئے۔*

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر سفر میں گھر واپس آنے تک ہمیشہ نماز قصر  ادا فرمائیں فتح مکہ کے موقع پر حضرت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 18 دن مکہ میں ٹھہرے رہے اور نماز مغرب کے سوا لوگوں کو دو دو رکعتیں پڑھاتے رہے اور خود (سلام پھیرنے کے بعد) لوگوں سے فرما دیتے مکہ والوا اٹھ کر اپنی نماز پوری کر لو ہم مسافر ہیں۔ اسےاحمد نے روایت کیا ہے۔
*نوٹ*
صاحب الرحیق المختوم نے فتح مکہ کا قیام 19 دن لکھا ہے

مسئلہ نمبر 377
سفر میں وتر بھی ادا کرنے چاہئیں۔

مسئلہ نمبر 378
سفینہ، بحری جہاز ، ہوائی جہاز، ریل گاڑی وغیرہ میں فرض نماز ادا کی جا سکتی ہیں۔

مسئلہ نمبر379
کوئی خطرہ نہ ہو تو سواری پر کھڑے ہو کر فرض نماز ادا کرنی چاہئے ورنہ بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سفینہ میں نماز پڑھنے کے بارے سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر ڈوبنے کا خطرہ نہ ہوتو کھڑے ہوکر نماز ادا کرو۔ اسے ہزار اور
دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

 مسئلہ نمبر 380
*سنتیں اور نوافل سواری پر بیٹھ کر ادا کئے جاسکتے ہیں۔*

مسئلہ نمبر 381
*نماز شروع کرنے سے پہلے سواری کا رخ قبلہ کی طرف کر لینا چاہئے ۔بعد میں خواہ کسی طرف ہو جائے۔*

مسئلہ نمبر 382
*دوران سفر اگر سواری کا رخ قبلہ کی طرف کرنا ممکن نہ ہو تو جس رخ پر ہو، اسی رخ پر نماز ادا کر لینی چاہئے۔*

حضرت انس بن مالک رضی اللہ  تعالی عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ سواری پر نفل پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو اسے قبلہ رخ کر کے نیت باندھ لیتے پھر سواری جدھر جاتی اسے جانے دیتے اور نماز پڑھ لیتے ۔ اسے احمد اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 383
*سفر میں دو آدمی بھی ہوں، تو انہیں اذان کہہ کرباجماعت نماز ادا کرنی چاہئے۔*

حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی جو سفر پر جانے کا ارادہ رکھتے تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ  والہ وسلم عوام کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں فرمایا " جب تم دونوں سفر کے لئے نکلو تو نماز کے وقت اذان کہنا پھر اقامت کہنا اور پھر تم دونوں میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر384
*سفر میں سنتیں نفل کا درجہ رکھتی ہیں*

حضرت حفص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ منی میں نماز قصر ادا کرتے اور اپنے بستر پر آجاتے حضرت حفص رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا " چچا جان! اگر آپ نماز قصر کے بعد دو رکعت ( سنت ) ادافرما لیتے تو کتنا اچھا ہوتا ؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اگر مجھے سنتیں ادا کرنا ہوتیں تو میں فرض پورے کرتا۔ (رواہ مسلم)

 مسئلہ نمبر 385
*مسافر مقتدی کو مقیم امام کے پیچھے پوری نماز ادا کرنی چاہئے۔*

حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ میں دس رات ٹھہرے اور قصر نماز ادا کرتے رہے۔ مگر جب امام کے پیچھے پڑھتے تو پوری نماز پڑھتے۔ (اسے مالک نے روایت کیا ہے)

*الدعا:*
یا اللہ تعالی ہمیں پکا نمازی بنا دے اور دین کا علم عطا فرماء 

آمین یا رب العالمین۔


 نمازیں جمع بین کے مسائل 

 مسئلہ نمبر 386 
بارش کی وجہ سے دو نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں

حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ حکام کے ساتھ بارش میں اکٹھے ہو جاتے تو مغرب اور عشاء کی نماز ( بارش کی وجہ سے) جمع کر لیتے تھے۔ اسے مالک نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ 387 
*ایام جاہلیت کی فوت شدہ نمازیں ،حاضر نمازوں کے ساتھ جمع کرنا (قضاء عمری ) ادا کرنا سنت سے ثابت نہیں*

مسئلہ نمبر 388
*دوران سفر دو نمازیں جمع کی جاسکتی ہیں۔*

مسئلہ نمبر 389
 دو نمازیں جمع کرنے کے لئے اذان ایک مرتبہ لیکن اقامت الگ الگ کہنا ضروری ہے۔

مسئلہ نمبر 390
دوران سفر جمع نمازیں قصر کر کے ادا کرنی چاہئیں

مسئلہ نمبر 391
دوران حضر میں جمع نمازیں پوری پڑھنی چاہئیں

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ  ﷺ کے ساتھ (ظہر اور عصر کی) آٹھ رکعتیں اور (مغرب اور عشاء) کی سات رکھتیں جمع کیں۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہمیں دین کا صحیح علم عطا  فرماء اور اس پر عمل کی توفیق :
عطا فرماء 

 نماز استسقاء بارش کیلئے نماز کے مسائل 

 مسئلہ نمبر 392
نماز استسقاء، بارش طلب کرنے کے لئے نہایت عاجزی اور مسکینی کی حالت میں نکلنا چاہئے۔

مسئلہ نمبر 393 
*نماز استسقاء ہستی سے باہر کھلے میدان میں باجماعت ادا کرنی چاہئے۔*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز استسقاء کے لئے مسکینی ، عاجزی کے ساتھ مدینہ سے زاری کی حالت میں نکلے اور اسی حالت میں نماز کی جگہ پہنچے۔ (اسے ترندی ، ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ) 

مسئله  نمبر 394
نماز استسقاء کے لئے نہ اذان ہے نہ اقامت

مسئلہ نمبر 395 
نماز استسقاء کی دورکعتیں ہیں۔

مسئلہ نمبر 396
نماز استسقاء میں قرات بلند آواز سے کرنی چاہئے۔

حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز استسقاء کے لئے نکلے تو اپنی پشت لوگوں کی طرف کی اور منہ قبلہ کی طرف کیا ، دعاء کی پھر اپنی چادر اپنی پلٹی اور ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قرآت کی۔
(اسے بخاری نے روایت کیا ہے)

مسئلہ نمبر 397 
بارش کے لئے دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانے چاہئیں۔

مسئلہ نمبر 398
نماز استسقاء کے بعد دعاء کرتے وقت ہاتھ اتنے بلند کرنے چاہئیں کہ ہاتھوں کی پشت آسمانوں کی طرف ہو جائے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلئ اللہ علیہ واسلم نے نماز استسقاء میں ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف کر کے دعاء فرمائی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 399
بارش طلب کرنے کی دو مسنون دعا ئیں یہ ہیں۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ إِذَا اسْتَسْقَى قَالَ 
اللَّهُمْ اسْقِ عِبَادَكَ وَ بَهَائِمَكَ وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ وَ أَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيا ( رَوَاهُ أَبُوْ داوَدَ)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بارش کے لئے یہ دعاء فرماتے الہی ! اپنے بندوں اور چوپایوں کو پانی پلا ، اپنی رحمت عام فرما دے اور مردہ زمین کو ہرا بھرا کر دے ۔
(اسے ابو داؤد نے روایت کیا) 

عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ ، قَالَ : *اللَّهُمَّ أَغِثْنَا أَللَّهُمَّ أَغِثْنَا أَللَّهُمَّ أَغِثْنَا* رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خطبہ جمعہ کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ہاتھ بلند فرمائے اور بارش کے لئے یوں دعا فرمائی 
"یا اللہ ! ہم پر رحمت فرما، اے اللہ ! ہم پر رحمت فرما، اے اللہ، ہم پر رحمت فرما۔(بخاری

مسئلہ نمبر 400
*بارش ہوتے وقت یہ دعا مانگنی چاہئے۔*

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا رَأَى الْمَطَرُ ، قَالَ *اللَّهُمَّ صَيْبًا نَافِعًا*
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ .

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلئ اللہ علیہ والہ وسلم جب بارش برستے دیکھتے تو فرماتے یا اللہ تعالی فائدہ پہنچانے والی بارش برسا۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 401 
*کثرت باراں کے نقصان سے محفوظ رہنے کی دعاء ۔*

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، رَفَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَدَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : 
*اللَّهُمَّ حَوَا لَيْنَا وَ لَا عَلَيْنَا أَللَّهُمَّ عَلَى الْأَكَامِ وَالشَّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَ مَنَابِتِ الشَّجَرِ*
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کثرت باراں کے نقصان سے محفوظ رہنے کے لئے ہاتھ اٹھائے اور پھر دعاء فرمائی

 *یا اللہ ! ہماری بجائے ارد گرد کے علاقوں پر بارش برسا، میرے اللہ ہوں ، ٹیلوں ، ندی، 
یا نالوں اور درخت اگنے کی جگہوں پر بارش برسا*
(رواہ متفق علیہ)

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہم پر اپنی عنایآت فرما اور اپنی رحمت کی بارش برسا۔

آمین یا رب العالمین



صَلَاةُ الْخَوْفِ
نماز خوف کے مسائل
 
مسئلہ نمبر 402 
نماز خوف کے لئے سفر شرط نہیں۔

مسئلہ نمبر 403
*نماز خوف کے بارے میں حضور اکرم صلئ اللہ علیہ والہ وسلم سے کئی طریقے ثابت ہیں، جنگ کی صورتحال کے پیش نظر جس طرح کا موقع ہو اسی کے مطابق نماز ادا کی جائے ۔*

مسئلہ نمبر 404
*اگر خوف سفر میں ہو تو چار رکعت والی نماز ( ظہر ، عصر اور عشاء) قصر کر کےدو رکعت ادا کی جائے گی آدھا لشکر امام کے پیچھے ایک رکعت ادا کر کے باقی ایک میدان جنگ میں جا کر ادا کرے گا اس دوران باقی آدھا لشکر امام کے پیچھے ایک رکعت ادا کر کے باقی ایک رکعت میدان جنگ میں واپس جا کر ادا کرے گا۔*

مسئلہ نمبر 405
*اگر خوف حضر میں ہو تو چار رکعت والی نماز پوری ادا کی جائے گی آدھا لشکر امام کے پیچھے دو رکعت ادا کر کے باقی دو رکعت میدان جنگ میں جا کر ادا کرے گا۔ اس دوران باقی لشکر امام کے پیچھے دو رکعت ادا کر کے باقی دو رکعت واپس میدان جنگ میں جا کر ادا کرے گا۔*

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لشکر کے ایک حصہ کو جنگ کے وقت ایک رکعت نماز پڑھائی جب کہ لشکر کا دوسرا حصہ دشمن کے ساتھ جنگ میں مصروف رہا۔ پھر نماز پڑھنے والا حصہ دشمن کے سامنے آ گیا اور دوسرے حصہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک رکعت نماز پڑھائی اور سلام پھیر دیا، پھر پہلے اور دوسرے دونوں حصوں نے اپنی (باقی) ایک ایک رکعت ( میدان جنگ میں الگ الگ) پوری کر لی ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں غزوہ رفاع کے موقع پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھے۔ نماز کی نیت باندھی گئی حضور اکرم صلئ اللہ علیہ والہ وسلم نے لشکر کے ایک حصہ کو دو رکعت نماز پڑھائی اور وہ چلا گیا ، پھر لشکر کے دوسرے حصہ کو دو رکعت نماز پڑھائی اس طرح حضور اکرم صلئ اللہ علیہ والہ وسلم کی چار اور لوگوں کی دو، دور کعتیں ہو گئیں ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 406
 زیادہ خوف کی صورت میں جس حالت میں ممکن ہو نماز ادا کی جائے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلئ اللہ علیہ والہ وسلم نے صلاۃ الخوف کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا اگر خطرہ زیادہ ہو تو پیدل یا سوار ، جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کرو ۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔

مسئلہ نمبر 407
جنگ کی صورت حال کی پیش نظر نماز قضا کی جاسکتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم غزوہ احزاب سے واپس تشریف لائے تو اعلان فرمایا " ہر آدمی نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھے ۔ کچھ لوگوں نے نماز قضا ہونے کے ڈر سے راستہ میں ہی پڑھ لی مگر کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم تو وہیں نماز پڑھیں گے جہاں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حکم دیا ہے خواہ نماز قضا ہی ہو جائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دونوں میں سے کسی کو بھی کچھ نہ کہا۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے والہانہ محبت عطا فرماء اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کو زندہ رکھنے والا بنا۔

یا اللہ ہمارے حکمرانوں کو وطن عزیز میں اسلام نافذ العمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔] : 


شق الصدر اور واقعہ معراج مصطفے صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم (رواہ بخاری) 

یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ آج کی رات رجب المرجب کی 27ویں رات ہے اور جنوری کی بھی 27ویں رات ہے اور 14 اگست 1947 کو رمضان المبارک کی بھی 27ویں رات تھی۔

معراج النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مختصر احوال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو ( رنج سے ) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انہوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے ( اپنے شیخ سے ) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں ( عمل میں ) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔ (رواہ بخاری)

*الدعاء*
یا اللہ تعالی امت محمدی کو دنیا میں سرخرو کر دے اور آخرت میں بخش دے۔ 

یا اللہ تعالی  ہم مسلمان ہیں اور تو ہمیں اسلام پر پختہ کاربند فرما دے۔

 يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِيَ كُلَّهُ وَلاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ  

ترجمہ: اے ہمیشہ سے زندہ ذات! اے ہر چیز کو قائم رکھنے والی ذات! میں تجھ سے تیری ہی رحمت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں، میرے سارے معاملات سنوار دے، اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے اپنے سپرد مت فرما۔
آمین یا رب العالمین

الصلاہ التوبہ توبہ کی نماز 

مسئلہ نمبر 408
*کسی خاص گناہ کے سرزد ہونے پر یا عام گناہوں سے توبہ کرنے کی نیت سے وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی طلب کی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔*

*حضرت علی  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں جب بھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنتا ، اس پر عمل کرتا تو اس سے اللہ تعالیٰ جتنا چاہتا مجھے فائدہ پہنچاتا اور جب میں کسی صحابی رسول سے کوئی حدیث سنتا تو اس سے قسم لیتا جب وہ قسم کھاتا (کہ واقعی یہ اللہ کے رسول نے فرمایا ہے) تو میں اس پر ایمان لے آتا اور (عمل کرتا)*
یہ حدیث مجھ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کی اور انہوں نے بالکل سچ کہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں " میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کوئی آدمی جب گناہ کرتا ہے پھر وضو کر کے نماز پڑھتا ہے اور اللہ سے توبہ استغفار کرتا ہے تو اللہ اسے ضرور معاف فرما دیتا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔

وَالَّـذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوٓا اَنْفُسَهُـمْ ذَكَرُوا اللّـٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُـوْبِهِـمْۖ وَمَنْ يَّغْفِرُ معافی طلب کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے الذُّنُـوْبَ اِلَّا اللَّهُۖ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَهُـمْ يَعْلَمُوْنَ (135)

 وہ لوگ جن سے کوئی فحش کام ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو انہیں فورا اللہ تعالی یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے گناہوں کی ⁹معافی طلب کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے، اور وہ لوگ جان بوجھ کر اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے(آلعمران۔ 135
رواہ ترمذی)

*الدعاء*
درود شریف پڑھنے کہ بعد درج ذیل الفاظ زبان سے ادا کرے اورپھر جو دل چاہے دعا مانگے

*يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ أَصْلِحْ لِي شَأْنِيَ كُلَّهُ وَلاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ۔  

ترجمہ: اے ہمیشہ سے زندہ ذات! اے ہر چیز کو قائم رکھنے والی ذات! میں تجھ سے تیری ہی رحمت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں، میرے سارے معاملات سنوار دے، اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے اپنے سپرد مت فرما۔

یا رب کریم میں تجھ سے اپنے تمامتر گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔ وہ گناہ جو مجھ سے بھولے سے سرزد ہوئے، لاعلمی میں سرزد ہوئے، جان بوجھ کر میں نے اپنی جان پر ظلم کیا چاہے وہ گناہ مجھے یاد ہیں یا میں بھول چکا ہو، سب ظاہری یا باطنی گناہوں کی میں صدق دل سے معافی مانگتا ہوں اور مصمم وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ان گناہوں کو پھر نہ کروں گا اور ان گناہوں کے معال و عذاب کو مد نظر رکھتے ہوئے دوبارہ یہ گناہ پھر نہ کروں گا بلکہ ان سبھی گناہوں کے لوازمات سے بھی دور رہوں گا۔
یااللہ تعالی میں توبۃ النصوح کرتا ہوں یا میرے رب میری توبہ قبول فرماتے ہوئے میرے سارے صغیرہ و کبیرہ گناہ معاف فرما دے اور میرا کھاتہ ایسے صاف کر دے، دھو دے، مٹا دے جیسے یہ گناہ میں نے کبھی کئے ہی نہیں۔

یا اللہ میرے ارادوں میں پختہ تر کر دے کہ میں گناہوں کی طرف پھٹکوں بھی نہیں اور اے اللہ شیطان ملعون کے نرغے سے مجھے بچا لے کیونکہ شیطان کی چال بڑی گھناؤنی  ہوتی ہے۔ *لا حول ولا قوۃ الاباللہ*

’’اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّی

یا اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا  مجھے معاف کر دے۔

يارب العالمين میں بہت گناہ گار ہوں، سیاہ کار ہوں، خطا کار ہوں مگر تیرا بندہ ہوں، فقط تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ تجھ سے ہی مدد اور دعاء مانگتا ہوں۔

تیرے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت میں سے ہوں۔

اے میرے رب میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں اور تجھ سے اپنے سابقہ تمام کبیرہ و صغیرہ گناھوں کی معافی مانگتا ہوں اور آئندہ کے لئے وعدہ کرتا ہوں کہ گناہوں کے کام کے قریب بھی نہ پھٹکوں گا۔

یا اللہ تعالی میری توبہ قبول فرما اور اس توبہ کے ثمرات میری باقی زندگی میں نمایاں کردے تاکہ میں محسوس کر سکوں کہ تو نے مجھے معاف کر دیا ہے یعنی میری توبہ آپ کے ہاں قبول ہوگئی ہے تاکہ  پھر سے میں لپک لپک کر مذید نیکیاں کروں تاکہ تیرا قرب حاصل کر سکوں.

یا اللہ تو معاف کرنے والا ہے
معافی کو پسند کرتا ہے
لہذا مجھے معاف کر دے۔

آمین یا رب العالمین

استغفراللہ ربی من کل زنب واتوب الیہ


استخارہ کے مسائل
 
مسئلہ نمبر نمبر 409 
*دو یا دو سے زائد مباح کاموں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو دعائے استخارہ کے ذریعے اللہ تعالی سے بہتر کام کے لئے یکسوئی حاصل ہونے کی درخواست کرنا مسنون ہے*

مسئلہ نمبر 410
*دو رکعت نماز پڑھ کر یہ مسنون دعا مانگنی چاہئے*

مسئلہ نمبر 211
*اگر ایک مرتبہ فیصلہ کرنے میں یکسوئی حاصل نہ ہو تو یہ عمل بار بار دہرانا چاہئے حتی کہ یکسوئی حاصل ہو جائے*

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام کاموں کے لئے اسی طرح دعائےاستخارہ سکھاتے جس طرح قرآن پاک کی کوئی سورۃ سکھاتے تھے آپ ﷺ فرماتے "جب کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے، تو دو رکعت نفل ادا کرے پھر یہ دعا مانگے ۔

*اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَ أَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّكَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ اِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ، فَاقْدِرْهُ لِيْ ، وَ یَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِكْ لِيْ فِیْهِ وَ اِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدِرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهٖ*

یا اللہ میں تیرے علم کی بدولت بھلائی چاہتا ہوں تیری قدرت کی برکت سے اپنا کام کرنے کی طاقت مانگتا ہوں تجھ سے تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں یقینا تو قدرت رکھتا ہے میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے میں نہیں جانتا اور تو ہی غیب کا جاننے والا ہے ، یا اللہ تیرے علم کے مطابق اگر یہ کام میرے حق میں دینی اور دنیاوی معاملات کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا میرے جلدی یاد پر والے معاملہ یعنی دنیا یا آخرت میں میرے لئے بہتری ہے تو اسے میرا مقدر بنادے ۔ اس کا حصول میرے لئے آسان فرمادے اور میرے لئے با برکت بنادے۔ اگر تیرے علم کے مطابق یہ کام میرے لئے دینی اور دنیاوی معاملات کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے نقصان دہ ہے یا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے
 فرمایا " میرے جلدی یا دیر والے معاملہ (یعنی دنیا اور آخرت) میں میرے لئے نقصان دہ ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور میری سوچ اس طرف سے پھیر دے جہاں کہیں سے ممکن ہو بھلائی میرا مقدر بنادے اور مجھے اس پر مطمئن کر دے۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ (هَذَا الْأَمْرَ) کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

الدعاء
یا اللہ تعالی میرے سارے کام میرے لئے آسان کر دے اور انجام کے لحاظ سے میرے لئے مفید بنا دے۔

آمین یا رب العالمین

سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز
نماز کسوف اور خسوف کے مسائل 

*لمحہ فکریہ:*
*نماز کسوف و خسوف پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی سنت ہے لیکن ہمارے علماء نے یہ سنتیں کیوں ترک کر رکھی ہیں؟*
جبکہ نبی کریم کی حدیث ہے کہ جس نے میری ایک سنت کو زندہ کیا اسے سو شہیدوں کا ثواب

مسئلہ نمبر 412
*نماز کسوف( چاند گرہن ) یا خسوف ( سورج گرہن ) کے لئے اذان ہے نہ اقامت*

مسئلہ  نمبر 413
*نماز خسوف یا کسوف کے لئے لوگوں کو جمع کرنا مقصود ہو تو (الصَّلاةُ الْجَامِعَةُ) کہنا چاہئے)*

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلئ اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک منادی مقرر فرمایا ، جس نے یوں آواز دی نماز تیار ہے
(الصلاة الجامعہ)چنانچہ لوگ جمع ہو گئے حضور اکرم صلئ اللہ علیہ والہ وسلم آگے بڑھے تکبیر کہی اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کئے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر414  
*جس وقت سورج یا چاند گرہن لگے اس وقت دو رکعت نماز با جماعت ادا کرنی چاہئے*

مسئلہ نمبر 415 
*سورج یا چاند گرہن کی نماز میں دو رکعتیں ہیں ہر رکعت میں گرہن کے کم یا زیادہ وقت کے مطابق ایک یا دو یا تین رکوع کئے جاسکتے ہیں*

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سخت گرمی کے دن سورج گرہن ہوا، تو آپ صلئ اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی اور اتنا لمبا قیام کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گرنے لگے، پھر لمبا رکوع کیا ، پھر سر اٹھا کر لمبا قیام کیا ( یہ قیام بھی سورہ فاتحہ سے شروع ہوگا) پھر لمبا رکوع کیا پھر سر اٹھا کر لمبا قیام کیا دو سجدے کئے، پھر کھڑے ہو کر دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھی ، پس دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے ہو گئے ۔(اسے 
مسلم نے روایت کیا ہے۔)

مسئلہ نمبر 416 
*نماز کسوف یا خسوف میں قرآت بلند آواز سے کرنی چاہئے*

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلئ اللہ علیہ والہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھائی اور اس میں بلند آواز سے قرآت کی۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 417
*نماز گرہن کے بعد خطبہ دینا مسنون ہے۔*

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول الله صلئ اللہ علیہ والہ وسلم نماز گرہن سے فارغ ہوئے، تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ آپ صلئ اللہ علیہ والہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی ، جو اس کے لائق ہے پھر (أَمَّا بَعْدُ ) کے الفاظ ادا فرمائے ۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  ہمیں نماز کسوف اور نماز خسوف پڑنے کی توفیق عطا فرماء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہر نماز ادا کرنے والا بنا دے۔

آمین یا رب العالمین



صَلَاةُ الضُّحى
نماز چاشت کے مسائل 

مسئلہ  نمبر 418 
نماز فجر ادا کرنے کے بعد اسی جگہ نماز چاشت کا انتظار کرنے اور اس کی دورکعت ادا کرنے کا ثواب ایک حج اور ایک عمرے کے برابر ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس آدمی نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، پھر سورج طلوع ہونے تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا اور دو رکعت نماز ادا کی اسے ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔ راوی نے کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا " پورے ایک حج اور ایک عمرہ کا پورے ایک حج اور ایک عمرہ کا، پورے ایک حج اور ایک عمرہ کا ۔ (اسے ترمذی نے روایت کیا)

 مسئلہ نمبر 419
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو نماز چاشت پڑھتے دیکھا تو کہا کیا لوگوں کو علم نہیں کہ اس
وقت کے علاوہ دوسرا وقت (اس) نماز کے لئے افضل ہے ( اور یہ وہ وقت ہے جس کے بارے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ نماز اوابین کا وقت تب ہی ہوتا ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں اسے مسلم نے روایت کیا ہے ۔

*وضاحت*
اگر سورج طلوع ہونے کے پندرہ بیس منٹ بعد یہ نوافل ادا کئے جائیں تو نماز اشراق کہلاتے گی۔ اگر طلوع آفتاب سے تقریبا" گھنٹہ بعد یہ نفل ادا کئے جائیں تو اسے نماز چاشت کہتے ہیں اور اگر طلوع آفتاب کے دو ڈھائی گھنٹے بعد ادا کئے جائیں تو نماز اوابین کہلاتے گی، جسے جب وقت میسر آئے پڑھ لے۔

مسئلہ نمبر 420
نماز چاشت کے لئے چار رکعت ادا کر نی افضل ہیں۔

مسئلہ نمبر 421 
نماز چاشت کی چار رکعت ادا کرنے والے کے دن بھر کے سارےکام اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ لے لیتے ہیں

حضرت ابو درداء اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اللہ ارشاد فرماتا ہے "آدم کے بیٹے! دن کے شروع میں میرے لئے چار رکعت نماز ادا کر میں تیرےسارے کاموں کے لئے کافی ہو جاؤں گا ۔( اسے ترندی نے روایت کیا ہے۔)

وضاحت : نماز چاشت کے لئے کم سے کم دور کعت ، زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ہیں لیکن چار رکعت پڑھنی افضل ہیں

*الدعاء*
یا اللہ تعالی  مجھے فرض نمازوں کی طرح باقاعدگی سے نفل نمازیں بھی اہتمام کے ساتھ پڑنے کی توفیق عطا فرماء۔ 
 

تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد کے مسائل

مسئلہ نمبر 422 
*وضو کرنے کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنا مستحب ہے۔*

مسئلہ نمبر 423 
*تحية الوضو جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول الله ﷺ نے ایک روز نماز فجر کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا ” اے بلال! اسلام لانے کے بعد تمہارا وہ کونسا نفلی عمل ہے جس پر تمہیں بخشش کی بہت زیادہ امید ہو کیونکہ آج رات میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے چلنے کی آواز سنی ہے؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا ” میں نے اس سے زیادہ امید افزاء عمل تو کوئی نہیں کیا کہ دن رات میں جب بھی وضو کرتا ہوں، تو جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور ہو۔

مسئلہ نمبر 424
*نماز جمعہ سے پہلے نوافل کی تعداد مقرر نہیں البتہ دور کعت تحیۃ المسجد ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے خواہ خطبہ ہورہا ہو* 

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد پڑھنے کا عادی  بنا دے۔

آمین یا رب العالمین۔


نماز کے متفرق مسائل 

مسئلہ نمبر 425
بیمار آدمی جس حالت میں بھی نماز پڑھ سکے، پڑھنی چاہئے۔

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ  تعالی عنہ  فرماتے ہیں۔ میں بواسیر کا مریض تھا میں ⁷نے نبی اکرم ﷺ سے نماز پڑھنے کا مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " کھڑے ہو کر پڑھ سکو تو کھڑے ہو کر پڑھو، بیٹھ کر پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھو، لیٹ کر پڑھ سکو تو لیٹ کر پڑھو۔ اسے احمد ، بخاری ، ابوداؤد، نسائی ، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 426
*نیند کا غلبہ ہوتو ، پہلے نیند پوری کرنی چاہئے پھر نماز پڑھنی چاہئے۔* 

وضاحت:
کیونکہ نماز غنودگی یا بے دھیانی میں پڑھی جائے تو نہ جانے کیا کہہ بیٹھو۔ اگر آیت کی بھول کر غلط قرآت ہو گئی تو نہ جانے آیت کے کیا معنی بن جائیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ  تعالی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم   ﷺ نے فرمایا ” جب کسی کو نماز میں اونگھ آنے لگے تو اسے پہلے نیند پوری کر لینی چاہئے ۔ اس لئے جب تم حالت نماز میں اونگھتے ہو، تو مغفرت مانگنے کی بجائے ممکن ہے اپنے آپ کو گالیاں دینے لگو ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 427 
*عشاء سے قبل سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا نا پسندیدہ ہے۔*

حضرت ابوبرزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد گفتگو کرنا نا پسند فرماتے تھے ۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے.

مسئلہ نمبر 428
ایک ہی وقت کی فرض نماز فرض کی نیت سے دو مرتبہ ادا کرنی جائز نہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو  فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک وقت کی فرض نماز، دودفعہ نہ پڑھو۔ اسے احمد، ابوداؤ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 429
فرض ادا کرنے کے بعد سنتیں ادا کرنے کے لئے جگہ بدلنی تا کہ فرض نماز اور سنت میں فرق ہو سکے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ” کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ (فرض نماز ادا کرنے کے بعد) اپنی جگہ سے آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہو جائے؟ یعنی دائیں یا بائیں ہو جانا چاہئے ۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 430 
*نیند کے غلبہ کی وجہ سے رات کی نماز یا کوئی دوسرا معمول کا وظیفہ رہ گیا ہو، تو فجر اور ظہر کے درمیان ادا کیا جا سکتا ہے۔*

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص رات کا وظیفہ یا کوئی دوسرا معمول چھوڑ کر سو گیا اور پھر اسے نماز فجر اور ظہر کے درمیان ادا کر لیا، تو اسے رات ہی کے وقت ادا کرنے کا ثواب مل جاتا ہے ۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 431
نماز تہجد کی قضا
نماز تہجد اگر فجر کی آذان سے پہلے نہ پڑھی جاسکی ہو تو سورج نکلنے کے بعد ظہر سے قبل پڑھ لینی چاہیئے۔

مسئلہ نمبر 432
انگلیوں پر تسبیحات گننا مسنون ہے۔

 حضرت یسیرہ رضی اللہ تعالی عنہا جو  مہاجر خاتون ہیں اور رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا کہ *سبحان اللہ* *لا الہ الا اللہ* اور *سبحان الملک القدوس* کہنا اپنے اوپر لازم کر لو اور (تسبیحات) انگلیوں پر گنا کرو (قیامت کے دن) وہ سوال کی جائیں گی اور بلوائی جائیں گی۔ یہ تسبیحات پڑھنے سے غافل نہ ہونا ورنہ رحمت سے محروم ہو جاؤ گی۔ اسے ترمذی اور ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر433
نماز اگر اکیلے پڑھنی ہو تو تکبر کہہ کر پڑھنی چاہیئے

مسئلہ نمبر 434
اگر جنگل میں اکیلے نماز پڑھنی ہو تو آذان اور اقامت کہہ کر نماز پڑھیں۔

حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب کوئی شخص جنگل میں ہو اور نماز کا وقت ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وضو کرے، اگر پانی موجود نہ ہوتو تیمم کرے، اگر اقامت کہہ کر نماز پڑھے تو اس کے دونوں فرشتوں (کراما کاتبین) بھی اس کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان واقامت کے بعد نماز پڑھے تو اس کے پیچھے اس قدر کثیر تعداد میں اللہ کے لشکر نماز پڑھتے ہیں کہ ان کے دونوں کناروں کو دیکھا نہیں جا سکتا ۔ اسے عبدالرزاق نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 435
 جمعہ کا خطبہ شروع ہو چکا ہو، تو آنے والے نمازی کو دوران خطبہ مختصر سی دو رکعت سنت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھنا چاہئے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اتنے میں سلیک غطفانی آئے اور بیٹھ گئے ۔ آپ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اے سلیک! اٹھ کر مختصر دو رکعت ادا کر لو پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " جب تم جمعہ کے روز آؤ آور امام خطبہ دے رہا ہو تو دور رکعت مختصر سی نماز ادا کرو۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے

*الدعاء*
یا اللہ تعالی مجھے سنت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم  کی سنتوں کو قائم کرنے والا بنا دے۔

آمین یا رب العالمین


 سجدہ شکر
 
مسئلہ نمبر 436
*کسی نعمت حاصل ہونے پر یا خوشی کے موقع پر سجدہ شکر ادا کرنا مسنون ہے۔*

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی ایسی خبر آتی جس سے آپ خوش ہوتے تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدے میں گر پڑتے۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 437
درود شریف کا اجر و ثواب معلوم ہونے پر رسول اکرم ﷺ نے طویل سجدہ شکر ادا کیا۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز گھر سے نکلے اور کھجوروں کے باغ میں داخل ہوئے ، بہت طویل سجدہ کیا حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اللہ نے آپ ﷺ  کی روح قبض نہ کر لی ہو، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے بات بتائی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "جبریل علیہ السلام نے مجھ سے کہا اے محمد ﷺ کیا میں آپ کو ایک بشارت نہ دوں؟ اللہ کریم فرماتا ہے ، جو شخص آپ ﷺ پر درود بھیجے گا میں بھی اس پر رحمت نازل کروں گا اور جو آپ ﷺ پر سلام بھیجے گا میں بھی اس پر سلام بھیجوں گا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا میرے رب میں تجھ سے ان نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو نہ تو بدلیں اور نہ ہی زائل ہوں۔

آمین یا رب العالمین


نماز میں جائز امور
 
مسئلہ نمبر 438 
نماز میں خدا کے خوف سے رونا درست ہے۔

 حضرت عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا، نماز میں ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کے سینے سے بانڈی کے جوش کی طرح کی آواز آ رہی تھی ۔ اسے احمد ، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ (صحیح)

مسئلہ 439
نماز میں بیماری یا بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے عصا پر ٹیک لگانا یا کرسی وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے۔

حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک جب زیادہ ہوگئی اور موٹاپا بڑھ گیا تو آپ ﷺ نماز کی جگہ پر عصا ر کھتے اور دوران نماز اس سے ٹیک لگا لیتے ۔ اسے ابو داؤود نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ 440 
بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے نفل نماز کا کچھ حصہ کھڑے ہو کر اور کچھ حصہ بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے۔

مسئلہ نمبر 441 
تکلیف دہ اور مضر چیز کو نماز کی حالت میں مارنا جائز ہے

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز میں سانپ اور بچھو کو مار دو ۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ 442 
کسی عذر کے باعث سجدے کی جگہ سے مٹی یا کنکر وغیرہ ہٹانے ہوں تو ایک مرتبہ دوران نماز ایسا کیا جا سکت ہے۔

حضرت معیقیب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سجدہ کی جگہ سے مٹی برابر کرنے والے کے بارہ میں ارشاد فرمایا اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو ایک بار کرلے ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ  نمبر 443
امام کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنے کے لئے مردوں کو سبحان اللہ اور عورتوں کو تالی بجانے کی اجازت ہے۔

وضاحت:
عورت کی تالی کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ھاتھ کی انگلیاں الٹے ہاتھ کی پشت پر مارنی ہے

مسئلہ نمبر 444 
نمازی بوقت ضرورت ، غیر نمازی کو متوجہ کرنا چاہے مثلاً بچے کو آگ کے قریب جانے سے روکنے کے لئے کسی کو متوجہ کرنا ہو تو مرد کو سبحان اللہ اور عورت کو تالی بجا کر متوجہ کرنے کی اجازت ہے۔

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا " ( نماز میں کوئی ضرورت پیش آنے
پر مردوں کے لئے سُبْحَانَ اللہ کہنا اور عورتوں کے لئے تالی بجانا ہے۔ اسے بخاری اور مسلم نےروایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 445 
نماز میں بچے کو اٹھانے سے نماز باطل نہیں ہوتی ۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس حالت میں نماز پڑھاتے دیکھا ہے کہ ابو العاص کی بیٹی امامہ ہیں (حضور اکرم ﷺ کی نواسی ) آپ ﷺ کے کندھوں پر تھی اور آپ ﷺ رکوع فرماتے تو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اتار دیتے اور جب سجدے سے فارغ ہوتے تو پھر اسے اٹھا لیتے ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 446 
دوران نماز کوئی سوچ آنے پر نماز باطل نہیں ہوتی

حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی ۔ نماز کے بعد حضور اکرم ﷺ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور ازواج مطہرات کے پاس چلے گئے پھر واپس تشریف لائے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے چہروں پر تعجب کے آثار دیکھئے تو آپ ﷺ  نے فرمایا ” مجھے نماز کے دوران یاد آیا کہ ہمارے گھر میں سونا ہے اور مجھے ایک دن یا ایک رات کے لئے بھی اپنے گھر میں سونا رکھنا پسند نہیں، لہذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا میرے رب مجھے دین کا وسیع علم عطا فرماء اور اس علم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماء ۔

آمین یا رب العالمین


نماز میں جائز امور 

مسئلہ نمبر 447 
شیطان کے وسوسہ ڈالنے پر دوران نماز میں تعوذ پڑھنا جائز ہے۔

حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا
 یارسول اللہ ﷺ شیطان میرے اور میری نماز کے درمیان حائل ہوتا ہے نیز میری قرأت میں شک ڈالتا ہے، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا اس شیطان کا نام خنزب" ہے۔ جب اس کی اکساہٹ محسوس کرو، تو (دوران نماز ہی) أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ۔۔۔۔ پڑھو اور بائیں طرف (دل کے اوپر) تین مرتبہ تھوکو، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالی نے شیطان کو مجھ سے دور کر دیا۔ اسے احمد اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 448
کسی مصیبت کے موقعہ پر فرض نماز ، خاص طور پر نماز فجر کی آخری رکعت کے قومہ میں ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے مسلمانوں کے لئے دعا اور دشمنوں کے لئے بددعا کرنا جائز ہے۔

مسئلہ نمبر 449 
سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزرنے والے کو دوران نماز ہی ہاتھ سے روک دینا جائز ہے ۔

مسئلہ  نمبر 450
سخت گرمی کی وجہ سے سجدے کی جگہ کپڑا رکھ لینا جائز ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے اور سخت گرمی میں جب ہم میں سے کوئی بھی اپنی پیشانی زمین پر نہیں رکھ سکتا تھا تو اپنا کپڑا بچھا لیتا اور اس پر سجدہ کرتا ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 451 
جوتے نجاست سے پاک ہوں تو جوتوں سمیت نماز پڑھ لینا جائز ہے۔

حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا " کیا رسول اللہ ﷺ  جوتوں سمیت نماز پڑھ لیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا *ہاں*۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے  والا بنا اور شیطان کے وسوسوں سے 
بچا


نماز میں ممنوع امور

تکبیر تحریمہ کیا ہے
نماز  میں داخل ہونے کے لئے پہلی تکبیر *اللہ اکبر* کہنا تکبیر تحریمہ کہلاتی ہے اس کے بعد ہر وہ جائز کام جو نماز کی حالت سے پہلے کرنا جائز تھا دوران نماز سرانجام دینا حرام ہو جاتا ہے۔ مثلا" کھانا پینا، چلنا پھرنا، بات چیت کرنا اور دیگر عام حالات میں جائز امور انجام دینا۔
 اسی لئے کہی گئی اس تکبیر *الله اكبر* کو تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔

مسئله نمبر 452
نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا منع ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں پہلو پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 453
نماز میں انگلیاں چٹخانا یا انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا منع ہے۔

حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی وضو کر کے مسجد کی طرف جائے، تو راستے میں انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر نہ چلے کیونکہ وہ حالت نماز میں ہوتا ہے۔“ اسے احمد، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 454
نماز میں جمائی لینے سے حتی الوسع پرہیز کرنے کا حکم ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " جب کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے حتی المقدور روکے کیونکہ اس وقت شیطان منہ میں داخل ہوتا ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 455 
نماز میں نگا ہیں آسمان کی طرف اٹھانا منع ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ  نےفرمایا لوگوں کو حالت نماز میں دعا ما نگتے ہوئے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھانے سے باز آ جانا چاہئے 
ورنہ ان کی نگا ہیں اچک لی جائیں گی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 456
نماز میں منہ ڈھانپنا منع ہے

مسئلہ نمبر 457 
نماز میں کپڑا دونوں کندھوں پر اس طرح لٹکانا کہ اس کے دونوں سرے سیدھے زمین کی طرف ہوں "سدل " کہلاتا ہے جو کہ منع ہے۔

مسئلہ نمبر 458
دوران نماز میں کپڑے سمیٹنا یا بال درست کرنا نیز بلا عذر کوئی بھی حرکت کرنا منع ہے۔

مسئلہ نمبر 459
سجدہ کی جگہ سے بار بار کنکریاں ہٹانا منع ہے۔

مسئلہ نمبر 460 
نماز میں ادھر ادھر دیکھنا منع ہے۔

حضرت ابوذر  رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی نماز میں برابر متوجہ رہتا ہے جب تک بندہ ادھر ادھر نہ دیکھے جب بندہ توجہ ہٹالیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی توجہ ہٹا لیتا ہے۔ اسے احمد ، ابوداؤد، نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے

الدعاء
یا اللہ تعالی  سب مسلمانوں کو سنت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی طرح نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرماء 

یا اللہ تعالی  سب بے نمازیوں کو 5 وقت کا نمازی بنا دے۔
آمین یا رب العالمین 

مسئلہ نمبر 461
دوران نماز اگر قبلہ سے رخ ہٹ جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے

مسئلہ نمبر 462
نماز کی حالت میں سلام پھیرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے


مسئلہ نمبر 463
بغیر کپڑے کی آڑ کے شرم گاہ 
کو ہاتھ لگانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے۔

مسئلہ نمبر 464
تکیہ پر سجدہ کرنا گدے پر نماز پڑھنا منع ہے۔

مسئلہ نمبر 465
اشارے کی نماز اور بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے سجدے کے لئے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکاناچاہئے

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ تکیہ پر نماز پڑھنے والے مریض سے آپ ﷺ نے فرمایا اسے ہٹا دے اگر زمین پر سجدہ کر سکتا ہے تو کر اور اگر بیماری کی وجہ سے زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا تو نماز اشارے سے پڑھ اور سجدے کے لئے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا ۔ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 466
نماز میں کپڑے سے منہ ڈھانپنا منع ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابن ماجه حدیث 966)

الدعاء
یا اللہ تعالی نماز خشوع و خضوع سے پڑھنے کی توفیق عطا فرماء۔

یا اللہ تعالی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا کرنے کی توفیق عطا فرماء۔

 یا اللہ تعالی ہماری نمازوں میں ہم سے اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو ہمیں درگزر فرمانا اور ہماری نمازیں قبول فرمانا۔
آمین یا رب العالمین 

*طہارت کے مسائل*

پیر 10 فروری 2025
انجنیئر نذیر ملک سرگودھا سرگودھا 

*نمازی کو نماز سے پہلے مکمل طہارت حاصل کرنا شرط ہے وگرنہ نماز نہ ہوگی*

مسئلہ نمبر 467
*جماع کے بعد غسل کرنا فرض ہے*
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا" جب کوئی آدمی اپنی عورت سے جماع کرے تو اس پر غسل فرض ہو جاتا ہے " اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 468
*احتلام کے بعد غسل کرنا فرض ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا جا سکتا ہے۔*

حضرت عمار بن یاسر اللہ سے روایت ہے کہ مجھے نبی اکرم   صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک کام سے بھیجا۔ مجھے احتلام ہو گیا اور پانی نہ ملا۔ میں ( تیمم کرنے کے لئے) زمین پر جانوروں کی طرح لوٹا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس واپس آیا اور اس واقعہ کا ذکر کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا " تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کر لینا کافی تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ ایک مرتبہ زمین پر مارے اور بائیں ہاتھ کو دائیں پر مارا۔ اس کے بعد حضور ارم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہتھیلیوں کی پشت اور منہ پر مسح کر لیا۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

مسئلہ نمبر 469
*غسل جنابت کا مسنون طریقہ یہ ہے۔*

حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم غسل جنابت فرماتے ، تو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر شرمگاہ دھوتے، پھر نماز کی طرح کا وضوء کرتے اس کے بعد ہاتھوں کی انگلیوں سے سر کے بالوں کی جڑوں کو پانی سے تر کرتے۔ تین لپ پانی سر میں ڈالتے اور پھر سارے بدن پر پانی بہاتے (آخر میں ایک دفعہ) پھر دونوں پاؤں دھوتے۔" اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 470
*مذی خارج ہونے سے غسل فرض نہیں ہوتا*

حضرت علی ر ضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں مذی کا مریض تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مسئلہ دریافت کرنے سے شرماتا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی میرے نکاح میں تھی چنانچہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کریں۔ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا " اپنی شرمگاہ دھوئے اور وضو کرلے "اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 471
*بیماری کی وجہ سے مکمل پاکیزگی ممکن نہ ہو تو اسی حالت میں نماز ادا کرنی چاہئے ، البتہ ہر نماز کے لئے نیا وضو کرنا ضروری ہے۔*

حضرت فاطمہ بنت ابی جیش رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ وہ مریضہ تھیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں فرمایا " جب حیض کا خون ہو تو سیاہ رنگ کا ہوتا ہے جو پہچانا جاتا ہے لہذا جب یہ ہو تو نماز نہ پڑھو لیکن اگر اس سے کوئی دوسرا خون ہو تو وضو کر کے نماز پڑھ لو کیونکہ یہ (استحاضہ کا خون) ایک رگ سے لگتا ہے۔ اسے ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 472
*استحاضہ، سلل بول یا مذی کے قطرے آنے والے مریض کو اپنے بیرونی کپڑے پاک رکھنا چاہیئے*

مستقل بیماری میں پیشاب مذی کے قطرے خارج ہونا یا عورتوں کو استحاضہ کا خون آنے کی صورت میں پاجامہ یا شلوار و غیرہ کے نیچے انڈر ویر یالنگوٹ وغیرہ استعمال کرنا چا ہیئے۔ انڈرویر یالنگوٹ 
تو نا پاک ہو گا لیکن پاجامہ با شلوار وغیرہ مکمل پاک ہونا چاہیئں ۔

مسئلہ نمبر 473
*حائضہ اور جنبی مسجد سے گزر سکتے ہیں ٹھہر نہیں سکتے۔*

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے مسجد سے جائے نماز لانے کا حکم دیا میں نے عرض کیا میں تو حالت حیض میں ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "حیض تیرے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔" اسے مسلم نے روایت کیا۔

*الدعاَء*
یا رب العالمین
میرا ظاہر اور باطن پاک کر دے اور نماز سنت نبوی کے مطابق خشوع و خضوع سے پڑھنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین


طہارت کے مسائل 

مسئلہ نمبر 474
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حالت جنابت میں مسجد سے گزر جایا کرتے تھے۔ رواہ سعید بن منصور۔

مسئلہ نمبر 475
 *رفع حاجت کے لئے پردہ کا اہتمام کرنا چاہیئے۔*
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع حاجت کے لئے بیٹھنے لگتے تو زمین کے قریب پہنچ کر کپڑا اٹھاتے (تاکہ بے پردگی نہ ہو) اسے ترمذی، ابو داؤد اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

حضرت جابر ہیں رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم جب رفع حاجت کا ارادہ فرماتے (تو بستی سے) اتنے دور نکل جاتے کہ کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ نہ پاتا۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 476
*پیشاب سے احتیاط نہ کرنا عذاب قبر کا باعث ہے۔*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں " رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے لہذا اس سے بچو۔
رواہ بزار، طبرانی، حاکم اور دار قطنی۔

مسئلہ نمبر 477
*دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا منع ہے*
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی پیشاب کرتے وقت اپنی شرم گاہ کو دایاں ہاتھ نہ لگائے نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجا کرے اور نہ ہی (کوئی چیز پیتے وقت) برتن میں سانس لے۔ رواہ مسلم⁵⁵

مسئلہ نمبر 478
*بیت الخلاء میں داخل ہونے سے قبل یہ دعاء پڑھنی مسنون ہے۔*

*اللھم آنی اعوذبک من الخبث والخبائث۔*

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب بیٹھ الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعاء پڑھتے۔
الہی میں خبیث جنوں اور خبیث جننیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ رواہ بخاری و مسلم۔

مسئلہ نمبر 479 
*بیت الخلاء سے باہر آنے کے بعد "غفرانک" کہنا مسنون ہے*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتےتو فرماتے *غفرانک* یا اللہ میں تیری بخشش کا طالب ہوں۔ (رواہ احمد، ترمذی و ابن ماجہ)

*الدعاء*
یا باری تعالی مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کی مکمل پیروی کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین 


نماز تراویح کے مسائل 

مسئلہ نمبر 480
*نماز تراویح گذشته تمام صغیرہ گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے۔*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 481
*قیام رمضان یا نماز تراویح باقی مہینوں میں تہجد یا قیام اللیل کا دوسرا نام ہے۔*

مسئلہ نمبر 482 
*نماز تراویح (یا تہجد) کی مسنون رکعتیں آٹھ ہیں لیکن غیر مسنون  رکعتوں کی کوئی حد نہیں جو جتنی چاہے پڑھے۔*

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھا رسول اللہ ﷺ کی رمضان میں رات کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے جواب دیا " رسول اللہ ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں رات کی نماز گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے طول و حسن کا کیا کہنا پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعت وتر ادا فر ماتے ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 483
*نماز تراویح کا وقت نماز عشاء کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک ہے۔*

مسئلہ نمبر 484 
*نماز تراویح دو، دو رکعت پڑھنا افضل ہے۔*

مسئلہ  نمبر 485
*وتر کی ایک رکعت الگ پڑھنا مسنون ہے۔*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان گیارہ رکعتیں نماز ادا فرماتے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور پھر ساری نماز کو ایک رکعت سے وتر بناتے ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 486 
*رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام  رضی اللہ تعالٰی عنہم کو صرف تین دن نماز تراویح با جماعت پڑھائی جن میں آٹھ رکعتوں کے علاوہ تین وتر بھی شامل تھے۔*

مسئلہ نمبر 487 
*ان تین دنوں میں حضور اکرم ﷺ نے علیحدہ تہجد پڑھی نہ وتر پڑھے یہی نماز با جماعت آپ ﷺ کی تہجد یا قیام رمضان یا تراویح تھی۔*

مسئلہ نمبر 488
*خواتین نماز تراویح کے لئے مسجد جا سکتی ہیں۔*

 حضرت ابوذر  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں تراویح کی نماز نہیں پڑھائی ، یہاں تک کہ رمضان کے سات دن باقی رہ گئے (یعنی تئیسویں رات) تہائی رات گزر جانے پر نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں نماز تراویح پڑھائی پھر نبی اکرم ﷺ نے چوبیسویں شب کو نماز تراویح نہیں پڑھائی پچیسویں شب آدھی گزر جانے پر نماز تراویح پڑھائیں ، ہم نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا اچھا ہو اگر آپ ہمیں اس رات کا باقی حصہ بھی نفل نماز پڑھائیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے امام کے(مسجد سے) لوٹنے تک امام کے ساتھ قیام کر لیا (با جماعت نماز پڑھی) اس کے لئے ساری رات کے قیام کا ثواب لکھا جائے گا ۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے ہمیں نماز تراویح نہیں پڑھائی حتی کہ تین روز باقی رہ گئے۔ اور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں ستائیسویں شب نماز پڑھائی جس میں اپنے اہل و عیال کو بھی شامل کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح ختم ہونے کا ڈر ہوا۔ میں نے ابوذر سے پوچھا " فلاح کیا ہے؟ حضرت ابوذرہ نے جواب دیا *سحری* (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے)

مسئلہ نمبر 489 
*فرضوں کے علاوہ باقی نمازوں میں قرآن کریم سے دیکھ کر تلاوت کرنا جائز ہے*

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا  غلام ذکوان قرآن کریم سے دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر490 
*تین دن سے کم وقت میں قرآن کریم ختم کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔*

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے تین رات سے کم وقت میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن کو نہیں سمجھا ۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 491 
*ایک رات میں قرآن کریم ختم کرنا (شبینہ)خلاف سنت ہے۔*

حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی پورا قرآن صبح تک ختم کیا ہو۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 492 
ہر دو یا چار رکعت تراویح کے بعد تسبیحات پڑھنے کے لئے وقفے کا اہتمام کرنا سنت سے ثابت نہیں۔

مسئلہ نمبر 493
*نماز تراویح کے بعد بلند آواز سے درود شریف پڑھنا سنت سے ثابت نہیں*

*الدعاَء*
یا اللہ تعالی ہمیں ماہ صیام کی راتوں میں نماز تراویح اور دن میں روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمانا۔

آمین یا رب العالمین

*نماز جنازہ کے مسائل*

جمعہ 14 فروری 2025
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا 

*نماز جنازہ کی فضیلت*

مسئلہ نمبر 494
*نماز جنازہ پڑھنے کا اجر ایک پہاڑ کے برابر اور اس کے بعد تدفین میں شامل ہونے پر اجر دو پہاڑوں کے برابر ملتا ہے*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا جو شخص جنازے میں شامل ہو اور نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت دفن کرنے تک موجود رہے، اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ایک قیراطان کا کیا مطلب ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا دو قیراط دو بڑے پہاڑوں کے برابر ہے۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 495
*نماز جنازہ میں صرف قیام ہے جس میں چار تکبیریں ہیں، نہ رکوع ہے نہ سجده۔*

مسئلہ نمبر 496
*غائبانہ نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے۔*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو نجاشی کی موت کی خبر اسی روز پہنچا دی جس روز وہ فوت ہوا، آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ساتھ جنازہ گاہ تشریف لے گئے ان کی صف بنائی اور چار تکبیریں کہہ کر نماز جنازہ پڑھائی ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 497
*لوگوں کی تعداد کے مطابق کم یا زیادہ صفیں بنائی جائیں*

 مسئلہ نمبر 498 
*نماز جنازہ کے لیے صفوں کی تعداد کا تعین سنت سے ثابت نہیں*

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " آج حبش کے ایک نیک بخت آدمی کا انتقال ہو گیا ہے، لہذا آؤ اسکی (غائبانہ) نماز جنازہ پڑھیں ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں ہم نے صفحیں بنائیں اور نبی اکرم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی، نماز میں ہماری کئی صفیں تھیں ۔(رواہ بخاری)

مسئلہ نمبر 499
*پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ پڑھنی مسنون ہے۔*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ  نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھی۔ اسے ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں " میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی، تو انہوں نے اس میں سورہ فاتحہ پڑھی اور فرمایا ” جان رکھو یہ سنت ہے ۔ اسے بخاری نےروایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 500 
  پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف، تیسری تکبیر کے بعد دعاء اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنا مسنون ہے۔ 

مسئلہ نمبر 501 
*نماز جنازہ میں سری یا جہری قرآت کرنا دونوں طرح درست ہے۔*

مسئلہ نمبر 502 
*سورہ فاتحہ کے بعد قرآن مجید کی کوئی سورہ ساتھ ملانا بھی جائز ہے۔*

حضرت طلحہ بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی ، انہوں نے سورہ فاتحہ کے بعد ایک دوسری سورت اونچی آواز میں پڑھی ، جو ہم نے سنی جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کو ہاتھ سے پکڑا اور ( قرآت کے بارہ) میں نے ان سے پوچھا انہوں نے جواب دیا میں نے جہری قرآت اس لئے کی ہے تا کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ سنت ہے۔ اسے بخاری ، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی اکرم   ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نماز جنازہ میں امام کا پہلی تکبیر کے بعد خاموشی سے سورہ فاتحہ پڑھنا پھر ( دوسری تکبیر ) کے بعد نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنا پھر ( تیسری تکبیر ) کے بعد خلوص دل سے میت کے لئے دعا کرنا اور اونچی آواز سے قرآت نہ کرنا (چوتھی تکبیر) کے بعد آہستہ سلام پھیر نا سنت ہے۔ اسے شافعی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 503
 درود شریف کے بعد تیسری تکبیر میں مندرجہ ذیل دعاؤں میں سے کوئی ایک یا دونوں دعائیں مانگنی چاہئیں۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز جنازہ میں یہ دعاء پڑھا کرتے تھے۔

*اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيْنَا وَ مَيْتِنَا وَشَاهِدِنَا وَ غَائِبِنَا وَ صَغِيْرِنَا وَ كَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَ أَنْثانَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيهِ عَلَى الْإِسْلَامِ وَ مَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ أَللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ وَ لَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ
  
 *یا اللہ ! ہمارے زندوں اور مردوں کو ، حاضر اور غائب کو ، چھوٹوں اور بڑوں کو ، مردوں اور عورتوں کو بخش دے، یا اللہ ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھنا چاہتا ہے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے مارنا چاہے اسے ایمان پر موت دے۔ یا اللہ ! ہمیں مرنے والے پر صبر کرنے کے ثواب سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا نہ کر ۔ اسے احمد ، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی اور میں نے وہ دعاء یاد کر لی۔ آپ ﷺ نے یہ دعاء پڑھی۔

*أَللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِعَ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَ نَقِهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَ أَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَ أَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَ زَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ*

 یا اللہ تعالیٰ! اسے بخش دے اس پر رحم فرما اسے آرام دے اور معاف فرما، اس کی باعزت مہمانی کر، اس کی قبر کشادہ فرما دے، اسے پانی، برف اور اولوں سے دھو کر اس طرح گناہوں سے پاک اور صاف فرما جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اسے اس کے گھر سے بہتر گھر ، اس کے اہل و عیال سے بہتر اہل و عیال ، اس کے ساتھی سے بہتر ساتھی عطا فرما ، اسے جنت میں داخل فرما اور عذاب قبر اور آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ ، حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں یہ دعا سن کر میں نے یہ خواہش کی کہ کاش یہ میری میت ہوتی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 504
*بچے کے جنازہ میں مندرجہ ذیل دعا پڑھنی چاہیئے۔*

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ  بچے پر نماز جنازہ پڑھتے اور یہ دعا کرتے۔

 مسئله نمبر 505
*بچے کے جنازہ میں مندرجہ ذیل دعا پڑھنی مسنون ہے۔*

 اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا سَلَفًا وَ فَرَطًا وَذُخْرًا وَأَجْرًا (رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ)

حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ بچے پر نماز جنازہ پڑھتے تو اس میں سورہ فاتحہ پڑھتے اور یہ دعا کرتے ۔ "یا اللہ اس بچے کو ہمارے لئے پیش رو میر کارواں ذخیرہ اور باعث اجر بنا ۔(اسے بخاری نے روایت کیا)

مسئل نمبر 506
*نماز جنازہ پڑھنے کے لئے امام کو مرد کے سر اور عورت کے وسط میں کھڑا ہونا چاہئے*

حضرت ابو غالب رحمہ اللہ فرماتے ہیں میری موجودگی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرد کے جنازے پر نماز پڑھائی اور میت کے سر کے پاس کھڑے ہوئے اس کے بعد ایک عورت کا جنازہ لایا گیا اور اس کی میت کے وسط میں کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، حضرت علاء بن زیاد بھی وہاں موجود تھے انہوں نے مرد اور عورت کی میت پر امام کا مختلف جگہ کھڑا ہونا دیکھا، تو پوچھا " اے ابو حمزہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی مرد اور عورت کے جنازے پر اسی طرح کھڑے ہوتے تھے؟ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا ” ہاں ایسے ہی کھڑے ہوتے تھے۔
( واہ ابن ماجہ)

مسئلہ نمبر 507
*نماز جنازہ کی تمام تکبیروں میں ہاتھ اٹھانا چاہئے۔*

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نماز جنازہ کی تمام تعبیروں میں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ (رواہ بخاری)

مسلئہ نمبر 508
*نماز جنازہ میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھنے مسنون ہیں*

 حضرت طاؤس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر رکھ کر مضبوطی سے سینے پر باندھا۔ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 509
*نماز جنازہ میں صرف ایک سلام کہہ کر نماز ختم کرنا بھی جائز ہے۔*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  نے نماز جنازہ پڑھائی اس میں چار تکبیریں کہیں اور ایک سلام کہا۔ اسے دار قطنی ، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا۔

مسئلہ نمبر 510
*مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔*

مسئلہ نمبر 511
*عورت مسجد میں نماز جنازہ ادا کر سکتی ہے۔*

حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا " سعد کا جنازہ مسجد میں لاؤ تا کہ میں بھی پڑھ لوں ۔ لوگوں نے ( مسجد میں جنازہ پڑھنا) نا پسند کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا واللہ ! رسول اللہ صلی علیم نے بیضا کے دونوں بیٹوں یعنی سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ہے ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئله نمبر 512
*قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنا منع ہے۔*

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ( رواہ طبرانی)

مسئله نمبر 513
*میت قبر میں دفنانے کے بعد نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے بشرطیکہ قبر الگ ہو۔*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک تازہ قبر پر گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے صفیں باندھ کر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 514
*ایک سے زائد میتوں پر ایک ہی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے*

مسئله نمبر 515
*میت میں مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کی میت امام کے قریب اور عورت کی میت قبلہ کی طرف ہونی چاہئے۔*

امام مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان، عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہم مردوں اور عورتوں پر اکٹھی نماز جنازہ پڑھتے، تو مردوں کو امام کی طرف اور عورتوں کو قبلہ کی طرف رکھتے ۔ اسے مالک نے روایت کیا ہے۔

*الدعاء*
یا اللہ ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھنا چاہتا ہے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے مارنا چاہے اسے ایمان پر موت دے۔

یا اللہ ! ہمیں مرنے والے پر صبر کرنے کے ثواب سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا نہ کر۔

آمین یا رب العالمین

*نماز کے بعد اذکار مسنونہ*
  

مسئلہ نمبر 516 
*فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اونچی آواز میں ایک مرتبہ اللہ أكبر اور آہستہ آواز میں تین بار أَسْتَغْفِرُ اللہ کہنا اس کے بعد اللهم أَنتَ السَّلام پڑھنا مسنون ہے۔*

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی (فرض) نماز کے اختتام کا اندازہ آپ ﷺ کے اللہ اکبر کہنے کی آواز سے لگایا کرتا تھا۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 517
*حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار اسْتَغْفِر اللہ کہتے اور پھر فرماتے* 

*أَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ*

یا الله تو سلامتی ہے ، سلامتی تجھی سے حاصل ہو سکتی ہے، اے بزرگی اور بخشش کے مالک تیری ذات بڑی بابرکت ہے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ 518
چند دوسری مسنون دعائیں یہ ہیں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا " اے معاذ! مجھے تجھ سے محبت ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں بھی آپ ﷺ سے محبت کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اچھا تو پھر ہر (فرض ) نماز کے بعد یہ کلمات کہنا نہ بھولنا۔

*رَبِّ أَعِنِى عَلَى ذِكْرِكَ وَ شُكْرِكَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِكَ*

 اے میرے رب ! مجھے اپنا ذکر ، شکر اور اپنی بہترین عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اسے احمد ، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 519
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعاء پڑھتے تھے
 
*لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَ لَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَ لَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِ مِنْكَ الْجَدُّ*

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ بادشاہی اسی کی ہے۔ حمد اس کے لئے سزاوار ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یا اللہ! اگر تو کسی کو اپنے فضل سے نوازنا چاہے تو کوئی تجھے روک نہیں سکتا اور اگر کسی کو اپنی رحمت سے محروم کر دے تو کوئی اسے نواز نہیں سکتا۔ کسی دولت مند کی دولت اسے تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی ۔ اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 520
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے نماز کے *بعد 33 مرتبہ سبحان الله*
*33 مر تبہ الحَمْدُ لله* اور 
*33 مرتبہ اللہ اکبر* کہا 
اس نے ننانوے کی تعداد پوری کی پھر سویں مرتبہ *لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كل شيئ قدیر* کہا تو اس کے سارے گناہ (خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں) *معاف کر دیئے جائیں گے۔* اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 521
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے ہر نماز کے بعد معوذات پڑھنے کا حکم دیا۔ اسے احمد ، ابوداؤد، نسائی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت : معوذات سے مراد قرآن پاک کی آخری دو سورت میں قُل أعوذ برب الفلق اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ہیں۔

مسئلہ نمبر 522
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " نماز کے بعد پڑھی جانے والی کچھ ایسی دعائیں ہیں جنہیں پڑھنے والا یا ان کا ذکر کرنے والا کبھی بھی ثواب سے محروم نہیں رہتا ، ان میں سے ایک یہ ہے 33 مرتبہ سُبْحَانَ الله 33 مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلهِ اور 33 مرتبہ الله اكبر کہنا ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 523
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ جب فرض نماز سے فارغ ہوتے ، تو بلند آواز سے یہ کلمات ادا فرماتے۔

*لا إله إلا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ لَهُ النِعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَ لَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ*

 " اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ نہیں وہ وحدہ لاشریک ہے بادشاہی اسی کی ہے حمد اسی کو سزاوار ہے ۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی توفیق ہے نہ نیکی کی قوت ۔ اللہ تعالی کے سوا کوئی الہ نہیں ۔ اس کے سوا ہم کسی کی بندگی نہیں کرتے ۔ سب نعمتیں اس کی طرف سے ہیں ۔ بزرگی اس کے لئے ہے۔ بہترین تعریف کا مالک وہی ہے اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہم اپنا دین اس کے لئے خالص کرتے ہیں۔ کافروں کو خواہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو ۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

مسئلہ نمبر 524
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا " جس نے ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھی اسے موت کے سوا کوئی چیز جنت میں جانے سے نہیں روک سکتی۔ (اسے نسائی ، ابن حبان اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔)

آیت الکرسی کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں

اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا
 تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

ترجمہ: 
اللہ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھا منے والا ہے جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ۔ اس کی ملکیت میں
زمین و آسمان کی چیز یں ہیں ، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جوان
کے پیچھے ہے وہ اس کی مرضی کے بغیر کسی چیز کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے اللہ ان کی حفاظت سے نہ جھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے ۔ (سورہ بقرہ، آیت نمبر 255)

مسئلہ نمبر 525
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ جب( نماز سے) سلام پھیرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات ارشاد فرماتے 

*سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامُ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ*

” تیرا عزت والا رب ان تمام عیوب سے پاک ہے جو
 کافر بیان کرتے ہیں سلامتی ہو رسولوں پر اور حمد کے لائق صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔ (رواہ ابو یعلی)

الدعاء
یا اللہ تعالی تیرا شکر ہے کہ تو نے اتنی ہمت عطا فرمائی کہ کتاب الصلاة مکمل ہوئی۔ 

یہ اللہ سبحان وتعالی کا مجھ بندہ ناچیز پر بے
 پناہ احسان و کرم ہے کہ اس نے مجھے قال اللہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم کا ادراک بخشا۔

*سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامُ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ*

آمین یا رب العالمین

Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333

تبصرے