احکامات قرآن قسط پنجم
*احکامات قرآن کریم*
ہفتہ 16 جولائی 2022
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے قرآنی احکامات کو ہم نے یکجا کرنے کی کوشش کی ہے اور عرب وعزم کےجید علماء کے فتاوی کی روشنی میں سوالات کے جوابات کو مرتب کیا ہے تاکہ قارئین کرام کو یہ ضروری اور اہم مسائل کے بارے میں معلومات روزانہ کی بنیاد پر فراہم کی جا سکے تاکہ قارئین کرام کے لئے ان احکامات پر سمجھ بوجھ کر عمل کرنے میں آسانی ہو۔*
*اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین*
*داعی الی الخیر*
*انجینیئر نذیر ملک سرگودھا*
*گذشتہ سے پیوستہ قسط پنجم*
سوال: قرآن مجید کی تلاوت سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنا کیسا ہے اور کیا ایسا کہنے پر کوئی دلیل ہے؟
جواب: قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے گرچہ یہ اکثر قاریوں کا عمل ہے لیکن اکثریت کا عمل اس کے حق اور سچ ہونے کی دلیل نہیں ہے ، فرمان الٰہی ہے {وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین} البتہ جو لوگ قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنے کے قائل نہیں ہیں ان کے ساتھ دلیل ہے جیسا کہ امام بخاری و امام مسلم رحمہم اللہ علیہھم اجمعین نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے کہا آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ یہ آپ ہی پر نازل ہوا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اس کو دوسروں سے سنوں پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے {فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علی ھئولاء شھیدا}[کیا حال ہو گا جس وقت ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا اور لائیں گے ہم تجھ کو ان سب کے اوپر گواہ بنا کر] ( سورہ نساء آیت:41) تو آپ نے فرمایا رک جاؤ(یہی اتنا کافی ہے )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا آپ کی آنکھیں اشک آلود ہیں ، میرے ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ نہیں فرمایا کہ صدق اللہ العظیم کہو اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اور نہ ہی صدر اول میں اس کا رواج تھا کہ وہ تلاوت قرآن سے فارغ ہوتے وقت صدق اللہ العظیم کہتے تھے اور نہ ہی صحابہ کے بعد سلف صالحین سے ایسا جانا گیا، اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ یہ کہا جائے کہ یہ بدعت ہے۔
سعودی عرب کے افتاء دائمی کمیٹی کا فتوی ہے کہ صدق اللہ العظیم بذات خود اچھا ہے لیکن قرات سے فارغ ہوتے وقت ہمیشہ صدق اللہ العظیم کہنا بدعت ہے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے جب کے وہ لوگ کثرت سے تلاوت کرنے والے تھے تو معلوم ہوا کہ صدق اللہ العظیم کہنے پر کتاب و سنت اور صحابہ کے عمل سے کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ یہ متاخرین کی بدعت ہے ، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ( من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد) جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ دین نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
( من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد) جس نے ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے (دیکھئے شیخ فواد بن عبد العزیز الشلہوب کی کتاب (کتاب الاداب۔ باب آداب تلاوۃ القرآن وما یتعلق بہ)
سوال 38: قرآن کی تلاوت کرتے اور سنتے وقت رونا کیسا ہے ؟
جواب: قرآن کی تلاوت کرتے اور سنتے ہوئے رونا ثابت ہے اور دونوں کے لئے حدیث آئی ہوئی ہے۔
پہلی حدیث جس کو عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔
{اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو یصلی ولجو فہ ازیز کا ز یز المرجل} [سنن رترمذی، مسند و احمد، سنن ابو داؤد، اور سنن نسائی، اس حدیث کی سند قوی ہے ]
عبداللہ بن شداد کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی جب کہ میں آخری صف میں تھا آپ {انما اشکوبثی وحزنی الی اللہ}پڑھ رہے تھے۔دوسری حدیث وہ ہے جس کو عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا ہے ، (صحیح بخاری باب اذا بکی الامام ف الصلاۃ)
مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ معلو8⁶م ہوا قرآن تلاوت کرتے اور سنتے وقت رونا جائز ہے البتہ بعض لوگ جو چیختے چلاتے اور آہ و بکا کرتے ہیں یہ سیدھے راستے سے انحراف و رد گردانی اور خشوع و خضوع کے خلاف ہے آج لوگ قنوت میں امام کی دعائیں سن کر روتے اور آنسو بہاتے ہیں لیکن اللہ کا کلام اور آیات سن کر نہیں روتے۔
*باقی قسط ششم میں جاری ہے*
*الدعاء*
یا اللہ تعالی ہم تیرے جمیع احکامات کو دل سے مانتے ہیں بس ہمیں تیرے احکامات پر مکمل عمل کرنے والا بنا دے۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell: 00923009604333
تبصرے