فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی شرعی حیثیت
*فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی شرعی حیثیت*
بدھ 21 مئی 2025
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
*سوال:*
کیا میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کرسکتاہوں ؟
الحمد للہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے : اصل تو یہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اور جو کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں۔
فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں :
*پہلی قسم :*
کہ مردے زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئي شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اور اس میں وہ زندہ اور فوت شدگان کی نیت کرلے ( تویہ جائز ہے ) ۔
اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوانہوں نے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے کی تھی اوران کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے ۔
*دوسری قسم :*
یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سے عاجز ہو توپھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ تو جو کوئي بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تواس کا گناہ ان پر ہے جو اسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے } ۔
*تیسری قسم :*
زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اوروالدہ کی جانب سے علیحدہ اور مستقل قربانی کرے ) تو یہ جائز ہے ، فقھاء نے اس کو بیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچے گا اور اسے اس سے فائدہ ونفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے ۔
لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سے بالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئي قربانی نہیں کی، نہ توانہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيز و اقرباء میں سے تھے ۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی، اورنہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سےپیاری تھیں ۔
اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔
اور ہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جوآج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اور اسے ( حفرہ قربانی ) کا نام دیتے اوریہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک ہونا جائز نہيں ، یا پھر وہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے، یاان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اوراپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں ۔
اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئي شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اور فوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کو نہ کریں۔
*ایک مفید مشورہ*
معلوم رہے کہ ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر سال اپنی امت کی طرف سے ایک قربانی کیا کرتے تھے یہ نبی کریم کا ہم پہ احسان اور پیار ہے۔
کیوں نہ ہم بھی اپنے نبی کریم سے محبت رکھتے ہوئے کم از کم زندگی میں ایک بار ضرور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے قربانی کریں تو یقینا" نبی کریم ہمارے اس عمل سے خوش ہونگے اور یہی محبت کا تقاضہ بھی ہے
*الدعاَء*
یا اللہ تعالی ہمیں نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ کے مطابق دین اسلام پر عمل کرتے کی توفیق عطا فرما۔
ہماری نمازیں، قربانیاں، زکواۃ اور سارے نیک اعمال قبول فرماء۔
آمین یا رب العالمین
Please visit us at www.nazirmalik.com
Cell:0092300860 4333
تبصرے