میت کے قرض کی ادائیگی
*میت کے قرض کی ادائیگی*
ہفتہ 28 جون 2025
تلخیص:
انجینیئر نذیر ملک سرگودھا
قرض کا معاملہ بہت ہی سنگین ہے ،اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے جس کے ذمہ قرض باقی رہ گیا قیامت میں اس کی نیکی بقدر بدلہ قرض خواہ کو دیدی جائے گی۔
بخاری شریف میں ہےجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ مسلمانوں سے فرماتے :
*( صلُّوا على صاحبكم)*
تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔(البخاري حدیث2298)
نبی ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:
*نفسُ المؤمنِ معلَّقةٌ بِدَينِه بِدَينِه حتَّى يُقضَى عنهُ* (الترمذي:1078)
ترجمہ: مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے ۔
اس لئے وفات کے بعد ممکن ہو تو دفن سے پہلے ہی ورنہ تدفین کے فورا" بعد میت کے ترکہ میں سے اس کے قرض کی ادائیگی کرے ۔ اگر میت نے ترکہ نہیں چھوڑا ہے تو کوئی دوسرا بھی میت کا قرض ادا کرسکتا ہے۔ اس سے میت کا قرض ادا ہوجائے گا ۔ اس کی دلیل مستدرک حاکم(2346) میں جابر بن عبداللہ سے مروی روایت ہے ایک شخص کے ذمہ دو دینار تھا اس کا انتقال ہوگیا، اس نے ترکہ بھی نہیں چھوڑا، یہ بات آپ کو معلوم ہوئی تو آپ نے کہا اپنے بھائی کا جنازہ پڑھ لو پھر ابوقتادہ نے اس کی ذمہ داری لی تو آپ نے جنازہ پڑھا یا، آپ نے فرمایا: *(هما عليكَ، وفي مالِكَ، والميِّتُ منهُما برئ)*
وہ دونوں تمہارے ذمہ اور تمہارے مال میں ہیں اور میت ان سے بری ہے؟۔ اگلے دن آپ نے اس صحابی سے پوچھا دو دینار کا کیا ہوا کہا کہ ادا کردیا تو آپ نے فرمایا:
*الآنَ حينَ برَّدتَ علَيهِ جلدَهُ*
ترجمہ: اب اسے سکون ملا۔
*حرف آخر*
قرض کا معاملہ بڑا سنگین ہے لہزہ جس کسی کا قرض آپ کے ذمہ ہو خوش دلی سے اسی دنیا میں ہی اپنا قرض چکا کے جائیں وگرنہ اگلے جہان میں اس کے بدلے نیکیاں دینی پڑیں گی اور جب تک لواحقین آپکا قرض ادا نہ کریں گے آپکی روح معلق رہے گی۔
*فتوی*
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
فتوی نمبر 144506100955
*قرض ادا کرنے کی کوشش کے دوران موت آجائے تو آخرت میں کیا ہوگا؟*
*سوال*
مجھ پر بہت سے لوگوں کا قرض ہے، میں یہ قرض ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر اس دوران میں مر گیا تو کیا مجھے آخرت میں سزا ملے گی یا نہیں؟ حالاں کہ میں قرض ادا کرنے کی دن رات کوشش کر رہا ہوں۔
جواب
*واضح ہو کہ قرض کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد ادا کیے بغیر موت ہوجائے اور صاحبِ حق بھی اپنا حق معاف نہ کرے تو اس کا حساب قیامت کے دن ہوگا۔ چنانچہ احادیث میں ہے کہ شہید (جس کے بہت سے فضائل ہیں) کے لیے بھی قرض معاف نہیں ہے (اس لیے کہ قرض کا تعلق حقوق العباد سے ہے):*
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بتائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں اس حال میں کہ میں صبر کرنے والا اور ثواب کا خواہش مند ہوں اور اس طرح جہاد کروں کہ میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤں بلکہ ان کے سامنے سینہ سپر رہوں (یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے مارا جاؤں) تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر جب وہ شخص اپنے سوال کا جواب پا کر واپس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آواز دی اور فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ یقینًا معاف کر دے گا مگر قرض کو معاف نہیں کرے گا، مجھ سے جبرائیل نے یہی کہا ہے ۔ـ‘‘
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں ہی تمام قرضے ادا کرے اور ایک وصیت تحریر کرے کہ زندگی میں قرضے ادا نہ کر سکا تو موت کے بعد ترکہ موجود ہونے کی صورت میں اس کا قرض ادا کیا جائے۔ تاہم مقدور بھر کوشش کے باوجود اگر کچھ قرض رہ جائے تو اللہ کی شان سے بعید نہیں کہ اپنے غیبی خزانوں سے صاحبِ حق کو راضی کردیں!
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
فتوی نمبر : 144506100955
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
قرض ادا نہ کرنے پر وعید!
سوال
کیا یہ بات کسی حدیث میں ہے کہ مقروض جب تک قرضہ ادا نہ کرے تو جنت میں داخل نہیں ہوتا! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازہ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے؟
جواب
قرض اتارنے کی قدرت ہونے کے باوجود قرض نہ اتارنا اور اس میں ٹال مٹول کرناظلم ہے، یہی وجہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ اس پر قرض تو نہیں ہے؟ اگر میت مقروض نہ ہوتی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھاتے اور اگرمیت مقروض ہوتی اور اپنے پیچھے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ چھوڑا ہوتا اور کوئی اس کے قرض کی ضمانت بھی نہ لیتا تو صحابہ سے کہہ دیتے کہ اپنے بھائی کا جنازہ ادا کرلو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے افراد کی نمازِ جنازہ ادا نہ فرماتے؛ تاکہ امت کو قرض میں ٹال مٹول کی برائی اور اس کی شدت کا احساس ہو۔ بعد میں جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فتوحات عطا فرمائیں تو پھر ائیگی کا انتظام فرماتے اور نمازِ جنازہ ادا فرماتے، جیساکہ مندرجہ ذیل روایت مروی ہے:
ترجمہ: حضرتِ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں تو اُس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر دوسرا جنازہ لایا گیا تو فرمایا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو، حضرت ابو قتادہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس کا قرض مجھ پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔
اسی طرح ایسے شخص کے بارے میں جنت میں داخل نہ ہونے کی وعید بھی وارد ہے، جیسے کہ درجِ ذیل روایت میں مروی ہے:
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔ (سنن الترمذی، ابواب الجنائز)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405100350
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
وما علینا الابلاغ المبین
Please visit us at www.nazirmalik.com Cell 0092300860 4333
میت کے قرض کی ادائیگی
تبصرے