حرام خوری کی سزا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے
والے پر لعنت فرمائی ہے ۔
(8) حرام مال عدم برکت اور زوال نعمت کا سبب ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا (رواه البخاری)
ترجمہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بائع اور مشتری کو اختیار ہے( بیع کو توڑنے کا یا اس کوباقی رکھنے کا) جب تک کہ وہ جدانہ ہوجائیں، پس اگر ان دونوں نے (بیع و شراء کرتے ہوئے) سچ بولا اور ( صاف صحیح) بیان کیا( تو ) ان دونوں کو بیع و شراء میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولا اور چھپایا (یعنی سود ے یا قیمت کے عیوب کو بیان نہ کیا) تو ان کی اس بیع وشراء میں برکت ختم کردی جائے گی۔
(9) قیامت میں رسول اللہ اس کے دشمن ہوں گے اور اس سے نمٹیں گے جو مزدور کا حق مارتے ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ كُنْتُ خَصْمَهُ خَصَمْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُوفِهِ أَجْرَهُ(رواہ البخاری)
ترجمہ: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تین اشخاص ایسے ہیں (جن کا روز قیامت میں دشمن ہوجاؤنگا) اور میں ان سے اچھی طرح نمٹوں گا، ان میں ایک وہ مرد جس نے میرا نام لے کر وعدہ کیا پھر اس نے وعدہ پورا نہ کیا، دوسرا وہ شخص ہے جس نے آزاد مرد یا عورت کو بیچا اور اس کی قیمت کو کھاگیا، تیسرا وہ شخص جس نے اجرت پر مزدور لیا اس سے کام تو پورا کرایا مگر مزدوری پوری نہیں دی۔
میں نے اختصار سے حرام خوری سے متعلق چند سزاؤں کا تذکرہ کیا وگرنہ اس سے متعلق بے شمار سزائیں ہیں ، اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے جس کا موقع یہاں نہیں۔
بالاختصار یہ بھی جان لیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حلال کمائی کی ترغیب دی اور حرام کمائی سے منع کیا لہذا حلال طریقے سے ہی روزی کمائی جائے ۔ سلف صالحین حرام کمائی بلکہ مشتبہ امور سے بھی بچتے تھے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے مگر آج کا زمانہ نبی ﷺ کے فرمان کا مصداق ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے جب لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کریں گے
(8) حرام مال عدم برکت اور زوال نعمت کا سبب ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا (رواه البخاری)
ترجمہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بائع اور مشتری کو اختیار ہے( بیع کو توڑنے کا یا اس کوباقی رکھنے کا) جب تک کہ وہ جدانہ ہوجائیں، پس اگر ان دونوں نے (بیع و شراء کرتے ہوئے) سچ بولا اور ( صاف صحیح) بیان کیا( تو ) ان دونوں کو بیع و شراء میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے جھوٹ بولا اور چھپایا (یعنی سود ے یا قیمت کے عیوب کو بیان نہ کیا) تو ان کی اس بیع وشراء میں برکت ختم کردی جائے گی۔
(9) قیامت میں رسول اللہ اس کے دشمن ہوں گے اور اس سے نمٹیں گے جو مزدور کا حق مارتے ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ كُنْتُ خَصْمَهُ خَصَمْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُوفِهِ أَجْرَهُ(رواہ البخاری)
ترجمہ: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تین اشخاص ایسے ہیں (جن کا روز قیامت میں دشمن ہوجاؤنگا) اور میں ان سے اچھی طرح نمٹوں گا، ان میں ایک وہ مرد جس نے میرا نام لے کر وعدہ کیا پھر اس نے وعدہ پورا نہ کیا، دوسرا وہ شخص ہے جس نے آزاد مرد یا عورت کو بیچا اور اس کی قیمت کو کھاگیا، تیسرا وہ شخص جس نے اجرت پر مزدور لیا اس سے کام تو پورا کرایا مگر مزدوری پوری نہیں دی۔
میں نے اختصار سے حرام خوری سے متعلق چند سزاؤں کا تذکرہ کیا وگرنہ اس سے متعلق بے شمار سزائیں ہیں ، اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے جس کا موقع یہاں نہیں۔
بالاختصار یہ بھی جان لیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حلال کمائی کی ترغیب دی اور حرام کمائی سے منع کیا لہذا حلال طریقے سے ہی روزی کمائی جائے ۔ سلف صالحین حرام کمائی بلکہ مشتبہ امور سے بھی بچتے تھے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے مگر آج کا زمانہ نبی ﷺ کے فرمان کا مصداق ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے جب لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کریں گے
تبصرے