ناجائز کمائی کے احکامات قسط اول



وہ مال جو ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیاہو مثلا سود ،چوری، رشوت، خیانت، غصب،دھوکہ ، ظلم اور حرام پیشے کے ذریعے سب حرام ہیں ۔ ایسی کمائی اسلام میں سخت منع ہے ،اور یہ گناہ کبیرہ ہے جو ان حرام کاری کے ذریعہ زندگی گذارتا ہے ان کے لئے دنیا و آخرت میں رسواکن عذاب ہے ۔

اس بات کا اندازہ ایک حدیث سے لگائیں :

عن ابن عُمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا تزالُ المسألةُ بأحدكم حتى يلقى الله تعالى وليس في وجههِ مزعةُ لحمٍ۔ (رواہ البخاری و مسلم)
ترجمہ: تم ميں سے ايک شخص مانگتا رہتا ہے يہاں تک کہ اللہ تعالی سے جا ملتا ہے (قیامت میں اس حال میں آئے گا ) کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہيں ہوگا۔

جب بھیک مانگنے کی اتنی بڑی سزا ہے تو حرام خوری کرنےاور حرام کاری میں زندگی بسر کرنے کی کیا سزا ہوگی ؟ اللہ تعالی ہمیں کسب حرام اور اکل حرام سے بچائے ۔ آمين

(1) حرام خور کی سب سے بدترین سزا یہ ہے کہ وہ جنت سے محروم ہوجاتا ہے ۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ ، النَّارُ أَوْلَى بِهِ( السلسلہ الصحیحۃ: 2609)

ترجمہ: "وہ گوشت جنت میں نہ جاسکے گا جس کی نشونما حرام مال سے ہوئی ہو (اورایسا حرام گوشت) دوزخ کا زیادہ مستحق ہے ۔

٭سحت: اس میں ہروہ مال شامل ہے جو حرام طریقے سے کمایا گیا ہو۔

فائدہ : اگر اللہ تعالی نے دنیا میں ہی اپنی رحمت سے معاف کردیا، یا اس سے متعلق سچی توبہ قبول کرلی تو پھر معاملہ الگ ہے ورنہ اگر مسلمان ہوکر حرام خوری کی تو اس کی سزا پہلے جہنم میں ملے پھر وہ جنت میں جائے گا۔

(2) اگر کسی نے زمیں غصب کرلی ہو تو اسے قیامت کے دن زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ ظَلَمَ مِنْ الْأَرْضِ شَيْئًا طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ. (رواه البخاري: 2452)
ترجمہ :جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔یعنی ساتوں طبقوں میں اسے دھنسا دیا جائے گا۔

(3) حرام کمائی کھانا،قبولیتِ دعا کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيها الناس ، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا ، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين ، فقال : ( يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم ) وقال : ( يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم ) ثم ذكر الرجل يطيل السفر ، أشعث أغبر ، يمد يديه إلى السماء ، يا رب ، يا رب ، ومطعمه حرام ، ومشربه حرام ، وملبسه حرام ، وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك ". ( رواه مسلم )
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! بیشک اللہ تعالی پاک ہے، اور پاکیزہ اشیاء ہی قبول کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے متقی لوگوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا ، فرمایا: ترجمہ: اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک تم جو بھی کرتے ہو میں اسکو بخوبی جانتا ہوں۔ (المؤمنون/51)اور مؤمنین کو فرمایا:ترجمہ:اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاکیزہ اشیاء عنائت کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ (البقرہ/172) پھر اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا: جس کے لمبے سفر کی وجہ سے پراگندہ ، اور گرد و غبار سے اَٹے ہوئے بال ہیں، اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھا کر کہتا ہے: یا رب! یا رب! اسکا کھانا بھی حرام کا، پینا بھی حرام کا، اسے غذا بھی حرام کی دی گئی، ان تمام اسباب کی وجہ سے اسکی دعا کیسے قبول ہو؟

تبصرے